دفتر 5 حکایت 102: گدھے کا لومڑی کو جواب دینا کہ کمانے کی کوشش کرنا اور قسمت پر راضی رہنے کا حکم ہے۔ (اور) یہ ترکِ کسب نہیں جو تو نے سمجھ لیا ہے۔ اور گدھے کا (یہ بھی) بتانا کہ وہ کمانے کا حکم (بھی) ضعفِ توکل سے ہے

دفتر پنجم: حکایت: 102

جواب دادنِ خر رُوباہ را کہ امر ست باکتساب و رضا بہ قسمت ترکِ کسب نیست کہ تو فہم کردہ و گفتن خر کہ آں اَمر کسب از ضعفِ توکل ست

گدھے کا لومڑی کو جواب دینا کہ کمانے کی کوشش کرنا اور قسمت پر راضی رہنے کا حکم ہے۔ (اور) یہ ترکِ کسب نہیں جو تو نے سمجھ لیا ہے۔ اور گدھے کا (یہ بھی) بتانا کہ وہ کمانے کا حکم (بھی) ضعفِ توکل سے ہے۔

-1-

گفت از ضعفِ توکل باشد آں ورنہ بدہد ناں کسے کو داد جاں

ترجمہ: (گدھے نے) کہا وہ (کسبِ معاش کا حکم بھی) توکل کی کمزوری سے ہے۔ ورنہ جو (واہب مطلق) جان دیتا ہے۔ وہ روٹی بھی دے گا۔

-2-

ہرکہ جوید بادشاہی و ظفر کم نیابد لقمہ نان اے پسر

ترجمہ: (اے عزیز!) جو شخص بادشاہی اور (ممالک پر) فتح چاہتا ہے۔ (وہ ان مہمات کے بدون) کوئی تھوڑا لقمہ تو نہیں پاتا۔

مطلب: معمولی معیشت ہو یا شاہانہ زندگی، پیٹ بھرنے کے لیے تو وہی دو روٹیاں کافی ہوتی ہیں۔ فقر و گدائی سے ان میں کمی نہیں آتی اور کشور کشائی سے ان میں زیادتی نہیں ہوتی۔ صاحب منہج نے اس شعر کا مطلب یوں لکھا ہے کہ جوشخص کمالاتِ باطن کی بادشاہی اور نفس و شیطان پر فتح پانے کی کوشش میں مصروف ہے اور کسب رزق کی فرصت نہیں پاتا۔ وہ کونسا بھوکا مرتا ہے۔

-3-

دام و دد جملہ شدہ اکّالِ رزق نے پَے کسبند و نے حمّالِ رزق

ترجمہ: سب چیرنے اور پھاڑ کھانے والے جانور رزق کھاتے ہیں۔ نہ وہ کمانے کے درپے ہیں اور نہ رزق (کے ذخیرے) اٹھائے پھرتے ہیں۔

مطلب: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَا (ھود:6) اور جتنے جاندار زمین پر چلتے پھرتے ہیں ان (سب) کی روزی اللہ ہی کے ذمہ ہے۔ اور فرمایا: وَكَأَيِّن مِّن دَابَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّـهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (العنکبوت:60) ”اور کتنے جانور ہیں جو اپنی روزی (اپنے اوپر لادے) لادے نہیں پھرتے۔ اللہ ہی اُن کو روزی پہنچاتا ہے۔ اور تم لوگوں کو (بھی) اور وہ (سب کی) سنتا (اور سب کچھ) جانتا ہے۔“

-4-

جُملہ را رزّاق روزی می دہد قسمتِ ہر یک بہ پیشش می نہد

ترجمہ: رزاق سب کو روزی دیتا ہے۔ ہر ایک کا مقسوم اس کے آگے رکھ دیتا ہے۔

-5-

رزق آید پیشِ ہر کہ صبر جُست رنج و کوششہا ز بےصبریِ تست

ترجمہ: جو شخص صبر کا طالب ہے۔ رزق اس کے سامنے (خود بخود) آتا ہے۔ تکلیف اور کوشش تیری بے صبری سے ہیں۔

انتباہ: اگر کوئی شخص ان اشعار کو ترکِ ذرائع اور ابطالِ اسباب کی سند میں پیش کرنا چاہے تو اتنا خیال رکھے کہ یہاں مولانا ؒ گدھے کے قول کی نقل فرما رہے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ خود مولاناؒ ان خیالات کے قائل ہوں۔ بلکہ مثنوی میں آپ جا بجا اختیارِ اسباب کی تائید فرماتے آئے ہیں۔ اور گدھے کی ان تقریروں کے متعلق آگے چل کر خود فرمائیں گے کہ وہ بے تحقیق بات کر رہا ہے۔

گرچہ با روباہ خر اسرار گفت سرسری گفت و مقلد وار گفت