حصہ دوم
دفتر چہارم: حکایت: 97
مجاوبات موسیٰ علیہ السّلام کہ صاحبِ عقل بود، و فرعون کہ صاحبِ وہم بُود
گفتگو حضرت موسٰی علیہ السّلام کی جو عقل والے تھے، اور فرعون کی جو وہم والا تھا
1
وہم مر فرعونِ عالم سوز را
عقل مر موسٰئ جاں افروز را
ترجمہ: وہم خاص فرعون کا حصہ ہے، جو جہاں کو (اپنے ظلم سے) پھونک ڈالنے والا تھا۔ (اور) عقل خاص موسٰی علیہ السّلام کا حصہ ہے جو (اپنی تعلیماتِ حسنہ سے) روح کو منوّر کرنے والے تھے۔
2
رفت موسیٰؑ بر طریقِ نیستی
گفت فرعونش بگو تو کیستی
ترجمہ: حضرت موسٰی علیہ السّلام (مرتبۂ) فنا (پر فائز ہونے) کی حیثیت میں (فرعون کی ہدایت کرنے) گئے تو فرعون نے کہا، بتاؤ تم کون ہو؟ (یہاں اسکا جواب وہی تھا، جو ایک فنا فی اللہ کی طرف سے ہو سکتا ہے۔ یعنی:)
3
گفت من عقلم رسولِ ذوالجلال
حجۃ اللہ ام اماں از ہر ضلال
ترجمہ: کہا میں عقلِ محض ہوں (اور خداوند) ذوالجلال کا پیغمبر (ہوں۔) اللہ کی حجت ہوں (اور) ہر گمراہی سے امن (دلانے والا ہوں۔)
4
گفت نے خامُش رہا کن گفتگو
نسبت و نامِ قدیمت را بگو
ترجمہ: فرعون اس مقام کے رموز کیا سمجھتا (گھبرا کر) بولا! چپ رہو (فضول) گفتگو چھوڑو اپنی پرانی (خاندانی) نسبت اور نام بتاؤ۔
5
گفت موسٰیؑ نسبتم از خاکدانش
نامِ اصلم کمترینِ بندگانش
ترجمہ: حضرت موسٰی علیہ السّلام نے (پھر اسی ذوق میں) فرمایا! میری نسبت اس (خالقِ اکبر) کے (بنائے ہوئے) عالمِ خاک سے ہے۔ میرا اصلی نام اس کا کمترین بندہ ہے۔
6
بندہ زادہ آں خداوندِ مجید
زادہ از پشتِ جوارے و عبید
ترجمہ: اس خداوندِ مجید کا غلام زادہ ہوں۔ اس کے غلاموں اور کنیزوں کی پشت سے پیدا ہوا ہوں (جن کو میرے دادے، نانے، اور دادیاں، نانیاں کہتے ہیں۔ غرض موسٰی علیہ السّلام نے اپنے متعلق جو بھی پتہ بتایا، اس خداوند تعالٰی کا ذکر مقدم رکھا اور یہی فنا فی اللہ کی مقتضیات سے ہے، منہج کے متن میں یہ شعر یوں درج ہے۔ ؎
بندہ ام من بندہ زادہ کردگار
زادۂ پشت عبیدش در جوار
موسٰی علیہ السّلام پھر فرماتے ہیں:)
7
نسبتِ اصلم ز خاک و آب و گل
آب و گِل را داد یزداں جان و دِل
ترجمہ: میری خاندانی نسبت مٹی، پانی اور گارے سے ہے۔ میرے جسم کے آب و گِل کو حق تعالٰی نے جان و دل دے دیا ہے۔ (یعنی میرے وجودِ ظاہری کی اصل آب و گل ہے۔ اس میں زائد بات صرف اتنی ہے کہ ایک جوہرِ نورانی جس کو قلب و روح کہتے ہیں، اس کے ساتھ مقارن کر دیا ہے۔)
8
مرجعِ ایں جسمِ خاکی ہم بخاک
مرجعِ تو ہم بخاک اے سہمناک
ترجمہ: (میرے) اس خاکی جسم کا مرجع بھی خاک کی طرف ہے، اے متکبر! تیرا آخری ٹھکانا بھی خاک میں ہے: (﴿مِنۡہَا خَلَقۡنٰکُمۡ وَ فِیۡہَا نُعِیۡدُکُمۡ﴾ (طہ: 55))
9
اصلِ ما و اصلِ جملہ سرکشاں
ہست از خاکے و آں را صد نشاں
ترجمہ: ہماری اور تمام سرکش لوگوں کی اصل خاک سے ہے اور اس کے سینکڑوں ثبوت ہیں (جن میں سے ایک بیانِ ثبوت یہ ہے کہ:)
10
نے مدد از خاک مے گیرد تنت
از غذائے خاک پیچد گردنت
ترجمہ: کیا تیرا بدن (مختلف غذاؤں کی صورت میں) خاک سے مدد نہیں پاتا۔ (اور) خاک کی غذا سے تیری گردن (موٹی ہو کر) بل کھا رہی ہے۔ (قلمی نسخہ میں ”پیچد گردنت“ کے بجائے ”فربہ گردنت“ درج ہے۔)
11
چوں رود جاں مے شود او با ز خاک
اندر آں گورِ مخوفِ سہمناک
ترجمہ: جب جان نکل جائے گی تو پھر وہ (جسم) اس خوفناک و مہیب، قبر کے اندر دوبارہ مٹی ہو جائے گا۔
12
ہم تو و ہم ما و ہم اسپاہِ تو
خاک گردند و نماند جاہِ تو
ترجمہ: (پھر) تو بھی اور ہم بھی اور تیری فوج بھی خاک ہو جائے گی، اور تیرا اقبال نہیں رہے گا۔ (اس وحشت خیز وعظ سے فرعون گھبرایا، اور حضرت موسٰی علیہ السّلام کو تقریر سے روکنے کے لیے دوسری طرف متوجہ کرنے لگا، جس میں اس کے غرور و غفلت کی جھلک بھی موجود ہے۔)
13
گفت غیرِ ایں نسب نامیت ہست
مر ترا خود آں نسب اولٰی ترست
ترجمہ: (فرعون) بولا اس نسب کے سوا تیرا ایک نام اور بھی ہے، وہی نسب تیرے لیے زیادہ موزوں ہے۔
14
بندۂ فرعون و بندۂ بندگانش
کہ ازو پرورد ز اوّل جسم و جانش
ترجمہ: (یعنی) فرعون کا غلام اور اس کے غلاموں کا غلام، جس سے اس کے جسم و جان نے ابتداء سے پرورش پائی۔
15
بندۂ باغی و طاغی اے ظلوم
زیں وطن بگریختہ از فعلِ شوم
ترجمہ: اے ظالم! تو ایک باغی اور سرکش غلام ہے، جو (اپنے ایک) برے جرم (یعنی قبطی کے قتل کی سزا پانے کے خوف) سے اس وطن سے بھاگ گیا تھا۔
16
خونی و غداری و حق ناشناس
ہم بریں اوصافِ خود مے کن قیاس
ترجمہ: تو خونی ہے، غدار ہے اور حق ناشناس ہے، اسی پر اپنے (باقی) اوصاف کو قیاس کر لے۔
17
در غریبی خوار و درویش و خلق
کہ ندانستی سپاسِ ما و حق
ترجمہ: تو بے وطنی میں خوار اور محتاج اور شکستہ حال رہا، کیونکہ تو نے ہمارا اور حق کا شکر (کرنا واجب) نہ سمجھا۔
مطلب: فرعون کی اس طنز آمیز گفتگو کا ذکر قرآن مجید میں یوں آیا ہے: ﴿قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا وَ لَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ وَأَنتَ مِنَ الْكَافِرِينَ﴾ (الشعراء: 18-19) ”فرعون نے ( جواب میں موسیٰ (علیہ السّلام) سے) کہا: کیا ہم نے تمہیں اس وقت اپنے پاس رکھ کر نہیں پالا تھا جب تم بالکل بچے تھے؟ اور تم نے اپنی عمر کے بہت سے سال ہمارے یہاں رہ کر گزارے۔ اور جو حرکت تم نے کی تھی وہ بھی کر گزرے اور تم بڑے ناشکرے آدمی ہو۔“ حضرت موسٰی علیہ السّلام کے اسی فعل کو فرعون نے فعلِ شوم کہا ہے، جس سے ایک قبطی کا قتل مراد ہے۔ اور واقعہ یہ تھا کہ یہ قبطی فرعون کا خانساماں تھا، اس کو سرکاری باورچی خانہ کے لیے لکڑیوں کی ضرورت تھی، بنی اسرائیل کی قوم بے کار کے کاموں پر مامور تھی۔ اس لیے وہ ایک اسرائیلی کو لکڑیوں کا گٹھا اٹھا کر لے چلنے پر مجبور کر رہا تھا، اور اسرائیلی اس سے پیچھا چھڑا رہا تھا، بنی اسرائیل میں سے کسی شخص کا یہ دل گردہ نہ تھا کہ وہ حاکمِ قوم کے کسی آدمی کے سامنے کسی حکم سے سرتابی کرے، مگر جب سے موسٰی علیہ السّلام نے بنی اسرائیل کا دودھ پیا تھا اس وقت سے بنی اسرائیل اس حوصلے پر ذرا دلیر ہو چکے تھے کہ ہم نے شہزادہ کی پرورش کی ہے، یہ بات تو خاص خاص لوگوں کے سوا کسی کو بھی معلوم نہ تھی کہ خود شہزادہ بھی بنی اسرائیل ہی کا ایک فرد ہے، اس بنا پر یہ اسرائیلی حضرت موسٰی علیہ السّلام کو آتے دیکھ کر قبطی کے آگے حیل و حجت کر رہا تھا، قبطی بھی کون؟ شاہی خانساماں، اتنے میں اسرائیلی نے فریاد کی۔ جب موسٰی علیہ السّلام نے اپنی قوم کے آدمی کی فریاد سنی تو اسکی حمایت کے لیے ادھر متوجہ ہوئے اور قبطی سے کہا اس شخص کو چھوڑدو۔ قبطی نے کہا شہزادہ صاحب! آپ اس معاملہ میں دخل نہ دیں، یہ سرکاری کام ہے، آپ کے والد کے باورچی خانہ کے لیے لکڑیاں مطلوب ہیں، میں اس کو حکم دیتا ہوں کہ اٹھا کر لے چلے، حضرت موسٰی علیہ السّلام نے کڑک کر کہا چلو ہٹو، تم کون ہوتے ہو حکم دینے والے؟ خانساماں بھی قبطی تھا، اوپر یہ کہ بادشاہ کے منہ لگا ہوا ذات کا کریلا اور پھر نیم چڑھا، چھٹتے ہی بولا، تو پھر یہ گٹھا آپ کے سر پر رکھ دیتا ہوں، آپ اٹھا کر لے چلیں، حضرت موسٰی علیہ السّلام کا اتنا سننا تھا کہ ان کو غصہ آ گیا، موسٰی علیہ السّلام نے شاہی ایوان میں پرورش پائی تھی، تن بدن توانا، اور ہاتھ پاؤں نہایت مضبوط، اور اس پر مرسلانہ اولوالعزمی کا لہو رگوں میں جوش مار رہا تھا، مغرور و متکبر قبطی کی اس گستاخی پر اسے سزا دینے کے لیے آگے بڑھ کر ایک مکّا جو مارا، تو وہ پٹخنی کھا کر زمین پر گرا اور گرتے ہی دم توڑ دیا۔ قرآن مجید میں یہ واقعہ یوں مذکور ہے: ﴿وَ دَخَلَ الْمَدِیْنَةَ عَلٰى حِیْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا فَوَجَدَ فِیْهَا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلٰنِ هٰذَا مِنْ شِیْعَتِهٖ وَ هٰذَا مِنْ عَدُوِّهٖۚ - فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِهٖ عَلَى الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّهٖۙ - فَوَكَزَهٗ مُوْسٰى فَقَضٰى عَلَیْهِ قَالَ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِؕ - اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ﴾ (القصص: 15) ”اور (ایک دن) وہ شہر میں ایسے وقت داخل ہوئے جب اس کے باشندے غفلت میں تھے، تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں دو آدمی لڑ رہے ہیں، ایک تو ان کی اپنی برادری کا تھا، اور دوسرا ان کی دشمن قوم کا۔ اب جو شخص ان کی برادری کا تھا، اس نے انہیں ان کی دشمن قوم کے آدمی کے مقابلے میں مدد کے لیے پکارا، اس پر موسیٰ علیہ السّلام نے اس کو ایک مکا مارا جس نے اس کا کام تمام کردیا۔ (پھر) انہوں نے (پچھتا کر) کہا کہ: یہ تو کوئی شیطان کی کاروائی ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک کھلا دشمن ہے جو غلط راستے پر ڈال دیتا ہے۔“ فرعون نے جو طنزاً کہا تھا کہ اے موسٰی! تو اپنے آپ کو بندۂ خدا کیوں کہتا ہے؟ بہتر تو یہ ہے کہ اپنے آپ کو بندۂ فرعون اور بندۂ بندگانِ فرعون کہے۔ حضرت موسٰی علیہ السّلام اسکا جواب دیتے ہیں:
18
گفت حاشا کہ بود با آں ملیک
در خداوندی کسے دیگر شریک
ترجمہ: حضرت موسٰی علیہ السّلام نے کہا (توبہ توبہ) یہ بعید ہے، کہ اس مالکِ (بر حق) کے ساتھ خداوندی میں کوئی دوسرا شریک ہو۔
19
واحد اندر ملکِ او را یار نے
بندگانش را جز او سالار نَے
ترجمہ: وہ اپنی لازوال بادشاہی میں اکیلا (بادشاہ) ہے، اور اس کا کوئی وزیر (بھی) نہیں۔ اس کے بندوں کا اسکے سوا اور کوئی آقا نہیں۔
20
نیست خلقش را دگر کس مالکے
شرکتش دعوے کند جز ہالکے
ترجمہ: اس کی مخلوق کا اور کوئی مالک نہیں۔ کیا کوئی اس کا شریک ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ سوائے اس کے جو ہلاک ہونے والا ہو۔ (یہ فرعون کے اس قول کا جواب تھا کہ تم اپنے آپ کو بندۂ فرعون کہو۔ آگے اس کی اس بات کا جواب دیتے ہیں کہ میں نے تمہاری جان و جسم کو پرورش کیا:)
21
نقش او کردست و نقّاشِ من اوست
غیر اگر دعویٰ کند او ظلم جُوست
ترجمہ: صورت اس نے بنائی اور میرا صورت گر وہی ہے۔ (وہی میرا پروردگار بھی ہے) اس کے سوا اگر کوئی دوسرا یہ دعویٰ کرے وہ ستم گار ہے۔)
22
تو نتانی ابروئے من ساختن
چوں توانی جانِ من بشناختن
ترجمہ: تو میرے (جسم کے ایک ادنٰی سے ادنٰی جزو مثلا) ابرو (کے ایک بال) کو بھی پیدا نہیں کر سکتا۔ تو پھر میری جان کو کیونکر پہچان سکتا ہے؟ (کہ یہ تیری پیدا کردہ اور پروش دادہ ہے۔ آگے فرعون کے قول کہ: ”بندۂ باغی و طاغی اے ظلوم“ کا جواب ہے:)
23
بلکہ آں غَدّار و آں طاغی توئی
لافِ شرکت مے زنی باغی توئی
ترجمہ: بلکہ وہ غدار اور سرکش تو ہے۔ تو (خدا کا) شریک ہونے کی لاف زنی کرتا ہے (اس لیے) باغی تو ہے۔ (آگے فرعون کے اس قول کہ: ”زیں وطن بگریختہ از فعل شوم“ کا جواب ہے:)
24
گر بکشتم من عوانے را بسہو
نے برائے نفس کشتم نے بلہو
ترجمہ: اگر میں نے (تیرے) ایک ظالم (نوکر) کو غلطی سے مار ڈالا، تو (خواہشِ) نفس سے نہیں مارا نہ کھیل سے۔
25
من زدم مشتے و ناگہ اوفتاد
آنکہ جانش خود نہ بد جانے بداد
ترجمہ: میں نے ایک (یوں ہی سا) مکا مرا تھا اور اچانک وہ مرگیا۔ وہ شخص جس کے اندر خود (پہلے) ہی (حق شناس) جان نہ تھی (مکّا کھاتے ہی) جان دے بیٹھا۔
26
من سگے کشتم تو مرسل زادگان
صد ہزاراں طفل بے جرم و زیاں
ترجمہ: (چلو اگر قتل کر دیا تو کر دیا سہی، آخر) میں نے (تو) ایک کتّے کو ہلاک کیا ہے (جو لوگوں کو ناحق کاٹتا پھرتا تھا، اور قتلِ موذی کوئی جرم نہیں۔) تو (اپنا حال دیکھ کہ) پیغمبروں کی اولاد سے لاکھوں بے گناہ و بے قصور بچوں:
27
کشتۂ و خونِ شاں در گردنت
تا چہ آید بَر تو زیں خوں خوردنت
ترجمہ: کو قتل کر چکا ہے، اور ان کا خون تیری گردن پر ہے۔ (دیکھ تو سہی) کہ تیری اس خونخواری کا کیا وبال تجھ پر پڑتا ہے؟
28
کشتۂ ذرّیتِ یعقوب را
بر امیدِ قتلِ من مطلوب را
ترجمہ: تو نے حضرت یعقوب علیہ السّلام کی اولاد کو قتل کیا ہے۔ میرے قتل کی امید پر جو (تجھے) مطلوب تھا۔ (وہ الٹا دھرا رہ گیا۔)
29
کورے تو حق مرا خود برگزید
سرنگوں شد آنچہ نفست مے پزید
ترجمہ: تیری آنکھوں میں خاک جھونک کر حق تعالٰی نے مجھے منتخب کیا۔ تیرا نفس جو (خیالی پلاؤ) پکا رہا تھا۔ وہ الٹا دھرا رہ گیا۔ (اگر ”مے پرید“ برائے مہملہ ہو تو معنٰی یوں ہوں گے کہ ”تیرا نفس بلند پروازی کر رہا تھا سرنگوں ہو کر رہے گا۔“)
مطلب: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی آتش بیانی اور ترکی بترکی جواب سے فرعون کے چھکے چھوٹ گئے، اور وہ سرِ دربار اپنی یہ رسوائی برداشت نہ کر سکا۔ چنانچہ:
30
گفت اینہا را بہل بے ہیچ شک
ایں بود حقِّ من و نان و نمک
ترجمہ: (فرعون نے) کہا، (اے موسٰی علیہ السّلام) ان باتوں کو تو جانے دو (یہ بتاؤ کہ) کیا بلاشبہ، یہی مرا اور میرے نان و نمک کا حق تھا؟ (جو تم ادا کر رہے ہو۔)
31
کہ مرا پیشِ حشر خواری کُنی
روزِ روشن بَر دلم تاری کُنی
ترجمہ: کہ تم مجھے سرِ مجلس خوار کرو۔ (اور) میرے دل پر (خجالت و ذلت سے) روزِ روشن کو تاریک کرو۔
32
گفت خواریِ قیامت صَعب تر
گر نداری پاسِ من در خیر و شر
ترجمہ: (حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے) جواب دیا (اے فرعون! یہ کیا خواری ہے) قیامت کی خواری (اس سے) زیادہ سخت ہے، اگر تو نیک و بد امور میں میرا اتباع نہیں کرے گا (تو اس خواری میں مبتلا ہوگا۔)
33
زخمِ کیکے را نمی تانی کشید
زخمِ مارے را تو چوں خواہی چشید
ترجمہ: (جب) تو ایک پسّو کا زخم برداشت نہیں کر سکتا، تو سانپ کا زخم کیونکر چکھ سکتا ہے؟ (دنیا کی خواری تجھ سے نہیں جاتی، تو آخرت کی خواری کی تاب کیونکر لائے گا؟)
34
ظاہرًا کارِ تو ویراں مے کنم
لیک خارے را گلستاں مے کنم
ترجمہ: بظاہر میں تیرا کام خراب کر رہا ہوں، لیکن (فی الحقیقت) میں کانٹے کو باغ بنا رہا ہوں۔
مطلب: میں تیری دنیوی آن بان کا طلسم توڑ کر، اور تیرے ادعائے خدائی کو خاک میں ملا کر تجھے اس کا نیک اور صالح بندہ بنانا چاہتا ہوں۔ یہ بظاہر تیرے ایوانِ چاہ کی تخریب ہے، مگر فی الحقیقت اس پر تیری ابدی سعادت کا ایوان تعمیر ہو گا، اور تعمیر سے پہلے تخریب ضروری ہے۔ آگے اسکی چند نظائر ارشاد فرمائیں گے: