حصہ دوم
دفترِ چہارم: حکایت: 96
بیانِ آنکہ عہد کردنِ احمق در وقتِ گرفتاری و ندم ہیچ وفائے ندارد، کہ ﴿وَ لَوۡ رُدُّوۡا لَعَادُوۡا لِمَا نُہُوۡا عَنۡہُ وَ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ﴾ (الانعام: 28) چوں صبحِ کاذب وفا ندارد
اس بات کا بیان کہ احمق کا گرفتاری اور اور ندامت کے وقت عہد کرنا کوئی وفا نہیں رکھتا، کیونکہ (یہ وارد ہے کہ) ”اگر ان کو واقعی واپس بھیجا جائے تو یہ دوبارہ وہی کچھ کریں گے جس سے انہیں روکا گیا ہے، اور یقین جانو یہ پکے جھوٹے ہیں۔“ جیسے صبح کاذب وفا نہیں کرتی
1
عقل مے گفتش حماقت با توست
با حماقت عہد را آید شکست
ترجمہ: (وہ مچھلی تو دل ہی دل میں یہ عہد باندھتی تھی، اور) عقل اس کو کہتی تھی حماقت تیرے ساتھ (موجود) ہے۔ حماقت کے ساتھ عہد ٹوٹ کر رہتا ہے۔
2
عقل را باشد وفائے عہدہا
تو نداری عقل رو اے خربہا
ترجمہ: عہدوں کو نباہنا تو عقل کا حق ہے۔ جا، اے بیوقوف (مچھلی) تجھ میں عقل نہیں (تیرے عہد کا کیا اعتبار؟)
3
عقل را یاد آید از پیمانِ خود
پردہ نسیاں بدرّاند خرد
ترجمہ: عقل کو اپنا پیمان یاد آ جاتا ہے، عقل فراموشی کے پردے کو چاک کر دیتی ہے۔
4
چونکہ عقلت نیست نِسیاں میرِ تست
دشمن و باطل کنِ تدبیرِ تست
ترجمہ: جب تجھ میں عقل نہیں، تو فراموشی تیری حکمران ہے۔ (تیری) دشمن اور تیری تدبیر کو نیست و نابود کر دینے والی ہے۔
5
از کمیِ عقل پروانۂ خسیس
یاد نآرد ز آتش و سوز و حسیس
ترجمہ: پروانہ کمینہ عقل کی کمی سے آگ، اور (اس کی) سوزش اور آواز کو یاد نہیں کرتا۔
6
چونکہ پرش سوخت توبہ مے کند
آزو نسیانش بر آتش مے زند
ترجمہ: جب اس کے پر جل جاتے ہیں، تو (پھر آگ کے قرب سے) توبہ کرتا ہے۔ حرص اور فراموشی اس کو آگ میں ڈالتی ہے۔
7
ضبط و درک و حافظی و یاد داشت
عقل را باشد کہ عقل آں را فراشت
ترجمہ: (عہد کو) ضبط کرنا، سمجھنا، محفوظ رکھنا، یاد رکھنا عقل کا کام ہے، کیونکہ عقل (ہی) نے اس کو بلند کیا ہے۔
8
چونکہ گوہر نیست تابش چوں بود
چونکہ نبود ذکر ایابش چوں بود
ترجمہ: جب (عقل کا) جوہر نہیں تو اس کی چمک کیونکر ہو؟ جب (کسی بندے میں عہدِ الہٰی کو) یاد (کرنے کا مادہ) نہیں تو (اس کی طرف) اس کا رجوع کیونکر ہو؟ (یادِ عہد اور اس کا ایفاء عقل کی روشنی سے ہے۔)
9
ایں تمنا ہم ز بے عقلیِّ اوست
کہ نہ بیند کاں حماقت را چہ خوست
ترجمہ: (کافر کا) یہ تمنا کرنا بھی (کہ میں دنیا میں جاؤں تو بڑی نیکیاں کماؤں) اس کی بے عقلی سے ہے، کیونکہ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ حماقت کی خصلت کیا ہے؟ (حماقت کی خصلت یہ ہے کہ وعدہ کیا اور بھلا دیا، پس احمق کا وعدہ کرنا ایک دوسری حماقت ہے۔)
10
آں ندامت از نتیجۂ رنج بود
نے ز عقلِ روشن چوں گنج بُود
ترجمہ: (کافر کی) وہ ندامت تو (عذاب کے) دکھ کا نتیجہ تھی۔ نہ کہ عقلِ پُرنور کا (نتیجہ) جو (ایک بے بہا) خزانہ کی مانند ہے۔
11
چونکہ شد رنج آں ندامت شد عدم
مے نیرزد خاک آں توبہ ندم
ترجمہ: جب (کافر کو دنیا میں واپس بھیج دینے سے) عذاب ٹل گیا تو (سمجھو کہ) وہ ندامت (بھی) معدوم ہو گئی۔ اس ندامت کی توبہ خاک کے برابر بھی نہیں۔
12
آں ندم را ظلمتِ غم بست بار
پس کَلَامُ اللَّیْلِ یَمْحُوْہُ النَّھَار
ترجمہ: اس ندامت کو تو غم کی تاریکی لاد کر لائی تھی۔ پس (جب وہ تاریکی جاتی رہی، تو ندامت بھی غائب ہو گئی جس طرح مشہور ہے کہ) رات کی بات کو دن مٹا دیتا ہے۔
مطلب: خلیفہ ہارون الرشید کی ایک کنیز نے رات کے وقت خلیفہ سے کوئی وعدہ کیا تھا کہ اس کو دن کے وقت ایفاء کروں گی جب دن چڑھا اور خلیفہ نے اس کے ایفاء کا تقاضا کیا تو کنیز نے ہنس کر کہا۔ ”کَلَامُ اللَّیْلِ یَمْحُوْہُ النَّھَار“ یعنی رات کی باتوں کو دن محو کر دیتا ہے۔ خلیفہ نے اس فقرہ کو موزوں پا کر شعرائے دربار سے فرمائش کی کہ اس پر مصرعے لگائیں۔ چنانچہ ابو نواس وغیرہ کئی شاعروں نے اس کو نظموں میں پیوست کیا اور یہ مصرعہ وعدہ خلافی میں ضرب المثل ہو گیا۔
13
چوں برفت آں ظلمتِ غم گشت خوش
ہم برفت از دل نتیجہ و زادہ اش
ترجمہ: جب وہ غم کی تاریکی جاتی رہی (اور) وہ خوش ہو گیا۔ تو (اس کے) دل سے اس (غم) کا نتیجہ اور پیدا شدہ (ندامت بھی جاتی رہی۔)
14
مے کند او توبہ و پیر خرد
بانگِ لَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا مے زند
ترجمہ: وہ توبہ کرتا ہے، اور عقل تجربہ کار آواز دیتی ہے ”اگر یہ لوگ واپس بھیجے گئے تو پھر وہی کرتوت کریں گے۔“
15
عقل ضدِ شہوت ست اے پہلوان
آنکہ شہوت مے تند عقلش مخواں
ترجمہ: اے بہادر! عقل شہوت کے خلاف ہے، جو (عقل) شہوت پر مائل ہو اس کو عقل نہ کہو۔
16
وہم خوانش آنکہ شہوت را گداست
وہم قلب و نقد زرِّ عقلہاست
ترجمہ: (بلکہ) اس کو وہم کہو جو شہوت کا فقر ہے۔ وہم کھوٹا ہے، اور عقل کا سونا کھرا ہے۔
17
بے محک پیدا نگردد وہم و عقل
ہر دو را سوئے محک کن زود نقل
ترجمہ: وہم (کا کھوٹا سکہ) اور عقل (کا کھرا سونا) کسوٹی کے بغیر ظاہر نہیں ہوتا۔ دونوں کو جلدی کسوٹی کے پاس لے جاؤ۔
18
ایں محک قرآن و حالِ انبیاءؑ
چوں محک مر قلب را گوید بیا
ترجمہ: یہ کسوٹی قرآن مجید اور انبیاء علیہم السّلام کا اسوۂ حسنہ ہے۔ جو کسوٹی کی طرح (اعمال بد کے) کھوٹے سکے کو کہتا ہے۔ (ذرا ادھر) آ۔
19
تا بہ بینی خویش را ز آسیبِ من
کہ نُہ اہلِ فراز و شیبِ من
ترجمہ: تاکہ تو میری ضرب سے اپنے متعلق یہ اندازہ لگا لے۔ کہ تو میرے اتار چڑھاؤ (میں پورا اترنے) کے لائق نہیں۔ (تعلیماتِ قرآنیہ اور سیرۃِ نبویہ اعمال کو پرکھنے کا سب سے اچھا معیار ہیں۔ ہر عمل ان کے سامنے لانے سے اچھا یا برا معلوم ہو جاتا ہے۔)
20
عقل راگر ارّۂ سازد دو نیم
ہمچو زر باشد در آتش او سلیم
ترجمہ: عقل (کسی شدید سے شدید امتحان میں بھی ناقص ثابت نہیں ہوتی، چنانچہ اس) کو اگر آرہ دو ٹکڑے کر ڈالے (پھر بھی) وہ آگ میں (پڑنے والے) سونے کی طرح سلامت رہے۔ (بعض نسخوں میں ”سلیم“ کی بجائے ”بسیم“ درج ہے، یعنی متبسم۔)