دفتر 4 حکایت 95: اس نیم عاقل مچھلی کا تدبیر سوچنا اور اپنے آپ کو مردہ بنا لینا

حصہ دوم

دفترِ چہارم: حکایت: 95

چارہ اندیشیدنِ آں ماہیِ نیم عاقِل و خود را مردہ کردن

اس نیم عاقل مچھلی کا تدبیر سوچنا اور اپنے آپ کو مردہ بنا لینا

1

نیم عاقِل گفت در وقتِ بلا

چونکہ ماند از سایۂ عاقل جدا

ترجمہ: نیم عاقل (مچھلی شکاریوں کی) بلا (نازل ہونے) کے وقت جب وہ عاقل (مچھلی) کے سایہ سے جدا رہ گئی۔

2

کو سوئے دریا شد و از غم عتیق

فوت شد از من چناں نیکو رفیق

ترجمہ: جو دریا کی طرف چلی گئی تھی اور غم سے آزاد ہو گئی تھی، کہنے لگی (افسوس) مجھ سے ایسا رفیق فوت ہو گیا۔

3

لیک زاں نندیشم و بر خود زنم

خویشتن را ایں زماں مردہ کنم

ترجمہ: مگر میں اس کا خیال نہیں کروں گی، اور (مناسب ہے کہ) اپنے وجود پر تکلیف سہوں۔ اپنے آپ کو اب مردہ بنا لوں۔

4

پس برآرم شکمِ خود بر زبر

پشت زیر و مے روم بر آب بر

ترجمہ: چنانچہ میں اپنا پیٹ اوپر کر لوں، پیٹھ نیچے، اور پانی کے اوپر تیرتی رہوں۔ (جس طرح مری ہوئی مچھلی کی حالت ہوتی ہے۔)

5

مے روم بر وَے چنانکہ خس رود

نے بسبّاحی چنانکہ کس رود

ترجمہ: میں اس (کی سطح) پر اس طرح چلوں جس طرح تنکا چلتا ہے، نہ کہ جس طرح کوئی شخص تیر کر چلتا ہے۔

6

مردہ کردم خویش بسپارم بآب

مرگ پیش از مرگ امن ست از عذاب

ترجمہ: میں اپنے آپ کو مردہ بنا لوں (اور) پانی کے حوالہ کر دوں۔ (اضطراری) موت سے پہلے اختیاری موت (کے ساتھ مردہ ہو جانا) عذاب سے امن ہے۔ (آگے مولانا فرماتے ہیں:)

7

مرگ پیش از مرگ این ست اے فتٰی

ایں چنیں فرمود با را مصطفٰیؐ

ترجمہ: اے جوان! مرنے سے پہلے مر جانا یہ ہے، اسی طرح مصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا ہے۔

8

گفت مُوْتُوْا کُلُّکُمْ مِنْ قَبْلِ اَنْ

یَاْتِیَ الْمَوْتُ تَمُوْتُوْا بِالْفِتَنْ

ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ مرجاؤ قبل اس کے موت آئے اور تم فتنوں سے مرو۔

مطلب: حدیث کے لفظ یوں ہیں: ”عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: حَاسِبُوْا أنْفُسَكُم قَبْلَ أنْ تُحَاسَبُوْا، وَزِنُوْهَا قَبْلَ أنْ تُوْزَنُوْا، وَ تَجَهَّزُوْا لِلعَرْضِ الْأَكْبَرِ“ (الأثر: أخرجه ابن أبي الدنيا في محاسبة النفس ص: 29–30) یعنی ”اپنے اعمال کا حساب کر لو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے، اور اپنا وزن کر لو قبل ازیں کہ تمہارا وزن کیا جائے، اور آخرت کی پیشی کے لیے تدبیر کرو۔“ مولانا کا مطلب یہ ہے کہ موتِ اختیاری سے مرجاؤ یعنی خواہشات نفسانیہ اور توہماتِ شیطانیہ سے دست بردار ہو جاؤ، قبل اسکے کہ اضطراری موت آئے اور تم امراضِ فتن سے مرو۔(منہج) اب پھر مچھلی کا حال مذکور ہوتا ہے:

9

ہمچناں مُرد و شکم بالا فگند

آب گہ بردش نشیب و گہ بلند

ترجمہ: (غرض اس مچھلی نے جس طرح تدبیر سوچی تھی) اسی طرح مر گئی اور اپنا پیٹ اوپر رکھا۔ پانی اس کو کبھی نیچے لے جاتا تھا، اور کبھی اوپر۔

10

ہر یکے زاں قاصداں بس غصہ خورد

کہ دریغا ماہی مہتر بمرد

ترجمہ: ان (شکار کا) ارادہ کرنے والوں سے ہر ایک (شکاری) بہت افسوس کرتا تھا کہ ہائے! اتنی بڑی مچھلی (نا حق) مر گئی۔

11

شاد مے شد او ازاں گفت و دریغ

پیش رفت آں بازیم رستم ز تیغ

ترجمہ: وہ مچھلی ان باتوں اور (شکاریوں کے) افسوس سے خوش ہوتی تھی۔ (کہ) میری وہ چال چل گئی اور میں (بے رحمی کی) تلوار سے بچ گئی۔

12

پس گرفتش یک صیّادِ ارجمند

بر سرش تف کرد و بر خاکش فگند

ترجمہ: تو اس کو ایک بھلے مانس شکاری نے اٹھا لیا (اور) اس کے سر پر تھوک کر اسے زمین پر پھینک دیا۔ (اس نے بطور حقارت تھوکا کیونکہ پانی کے اندر مری ہوئی مچھلی مردار اور پانی سے باہر مری ہوئی حلال ہوتی ہے۔)

13

غلط غلطاں رفت پنہاں اندر آب

ماند آں دیگر ہمی کرد اضطراب

ترجمہ: وہ آنکھ بچا کر پوشیدہ طور سے لوٹتی پوٹتی پانی میں چلی گئی۔ وہ دوسری مچھلی (شکاریوں کی نظر میں) رہی جو بے قراری (ظاہر) کرتی تھی۔

مطلب: نیم عاقل مچھلی جس نے نجات کا بہترین موقع کھو کر عین مصیبت کے وقت اپنی نجات کی تدبیر سوچ لی اور مردہ ہو کر بچ گئی، اس شخص کی مثال ہے جو ابتداء سے راہِ ہدایت پر نہیں آتا۔ عمر کا بہت سا حصہ غفلت و معاصی میں کاٹ دیتا ہے، آخر صلحاء و ابرار کی اچھی حالت سے سبق گیر ہو کر اپنی اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔ اہلُ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، اور انکے زیرِ تربیت اپنے آپ کو مردہ بدست زندہ بنا لیتا ہے، اور آخر مستحق نجات ہو جاتا ہے یہ غنیمت ہے۔ آگے تیسری مچھلی آتی ہے جو شکاریوں کے ہتھے چڑھ کر رہتی ہے، یہ وہ شخص ہے جو نہ ابتداء سے راہِ راست پر آتا ہے، نہ انتہاء پر حتّٰی کہ اس کی موت آ جاتی ہے اور وہ مبتلائے عذاب ہوتا ہے:

14

از چپ و از راست مے جست آں سلیم

تا کہ بجہدِ خویش برہاند گلیم

ترجمہ: وہ بے وقوف دائیں بائیں سے اچھلتی تھی۔ تاکہ کود جائے اور اپنا پلا چھڑا لے۔

15

دام افگندند و اندر دام ماند

احمقی او را دراں آتش نشاند

ترجمہ: (حتّٰی کہ) شکاریوں نے جال ڈالا اور وہ جال میں رہ گئی۔ حماقت نے اس کو اس (مصیبت کی) آگ میں ڈالا۔

16

بر سرِ آتش بہ پشت تابۂ

با حماقت گشت او ہمخوابۂ

ترجمہ: آگ پر توے کی پشت پر۔ وہ حماقت سے ہمخواب ہوگئی۔

17

او ہمی جوشید از تف سعیر

عقل مے گفتش اَلَمْ یَأْتِکَ نَذِیْر

ترجمہ: وہ آگ کی حرارت سے تلی جا رہی تھی۔ عقل اس سے کہتی تھی کیا تیرے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا؟

مطلب: یہ اس آیت کی طرف تلمیح ہے: ﴿وَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَؕ - وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ اِذَاۤ اُلْقُوْا فِیْهَا سَمِعُوْا لَهَا شَهِیْقًا وَّ هِیَ تَفُوْرُۙ تَكَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِؕ -كُلَّمَاۤ اُلْقِیَ فِیْهَا فَوْجٌ سَاَلَهُمْ خَزَنَتُهَاۤ اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَذِیْرٌ - قَالُوْا بَلٰى قَدْ جَآءَنَا نَذِیْرٌ فَكَذَّبْنَا وَ قُلْنَا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ ۚۖ- اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ كَبِیْرٍ﴾ (الملک: 6-9) ”اور جو لوگ اپنے پروردگار کو نہیں مانتے ان کے لیے (بھی) دوزخ کا عذاب ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے جب (یہ لوگ) اس میں ڈالیں جائیں گے تو (دور ہی سے) اس کی بڑے زور کی سائیں سائیں ان کو سنائی دے گی اور وہ (ایسی) بھڑک رہی ہو گی کہ (گویا) کوئی دم میں مارے جوش کے پھٹ جائے گی جب جب اس میں (کافروں کا) کوئی گروہ ڈالا جائے گا تو جو (فرشتے) ان پر تعینات ہیں ان سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس (عذاب خدا سے) ڈرانے والا کوئی (پیغمبر) نہیں آیا؟ وہ کہیں گے ہاں۔ ڈرانے والا تو ہمارے پاس آیا تھا، مگر ہم نے (اس کو) جھٹلایا اور کہا خدا نے تو (کتاب وغیرہ) کوئی چیز اتاری نہیں بلاشبہ تم بڑی غلطی میں ہو۔“

17

او ہمی گفت از شکنجہ وز بلا

ہمچو جانِ کافراں قَالُوْا بَلٰی

ترجمہ: وہ (بد بخت مچھلی آگ کے) شکنجہ اور بلا سے (منہ نکال کر) کافروں کی روح کی طرح کہتی تھی کہ ہاں کیوں نہیں (مجھے خطرہ ضرور محسوس ہوا، مگر میری عقل ماری گئی۔)

مطلب: یہ اس ﴿قَالُوْا بَلٰی﴾ کی طرف اشارہ ہے جو اوپر کی آیات میں گزر چکا ہے۔ کافر لوگ آخرت میں عذابِ نار کو سامنے پا کر آرزو کریں گے کہ کاش ہمیں اب پھر دنیا میں بھیج دیا جائے، تو دیکھنا کیسے کیسے اعمالِ صالحہ بجا لاتے ہیں، اس کی مثال بھی اس مچھلی کے حال سے دیتے ہیں۔

18

باز مے گفت او کہ گر ایں بار من

وارہم از محنتِ گردن زدن

ترجمہ: وہ پھر کہتی تھی کہ اگر میں اس مرتبہ قتل کے عذاب سے چھوٹ جاؤں تو:

19

من نسازم جز بدریائے وطن

آبگیرے را نسازم من سکن

ترجمہ: تو میں سوائے دریا کے (اور کسی جگہ) وطن نہ بناؤں۔ میں تالاب کو (کبھی) رہائش گاہ نہ بناؤں گی۔

20

آب بے حد جویم و ایمن شوم

تا ابد در امن و صحت مے روم

ترجمہ: میں بے پایاں پانی تلاش کروں گی، اور بے خوف رہوں گی ہمیشہ امن و سلامتی میں عمر بسر کروں۔

21

ہم چنیں مے کرد با خود نذرہا

کز چنیں ورطہ اگر یابم رہا

ترجمہ: اسی طرح وہ (مچھلی) اپنے دل میں نذریں مانتی تھی، کہ اگر میں اس گرداب سے رہائی پاؤں گی تو:

22

در من عاقل بگیرم روز و شب

تا نیفتم در چنیں رنج و تعب

ترجمہ: تو (پھر) کسی عاقل (مرشد) کا دامن رات دن پکڑے رہوں، تاکہ (آئندہ) ایسی تکلیف و مصیبت میں گرفتار نہ ہوں۔