حصہ دوم
دفترِ چہارم: حکایت: 93
حکایت آں شخص کہ استنجا گفت ”اَللّٰھُمَّ اَرِحْنِیْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ“ بجائے ”اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ المُتَطَھِّرِیْنَ“ کہ وردِ استنجاست و ایں را در وقتِ استنشاق خوانند عزیزے گفت سوراخِ دعا گم کردۂ
اس شخص کی کہانی جس نے استنجا کے وقت دعا کی کہ ”الہٰی مجھ کو جنت کی خوشبو سونگھا“ بجائے اس دعا کے کہ ”الہٰی مجھ کو توبہ کرنے والوں سے کر اور مجھ کو پاکی اختیار کرنے والوں سے بنا“، جو استنجا کا ورد ہے اور مذکورہ دعا کو ناک میں پانی ڈالتے وقت پڑھتے ہیں۔ ایک بزرگ نے فرمایا (ارے!) تو دعا کے سوراخ کو کھو بیٹھا ہے
1
آں یکے در وقتِ استنجا بگفت
کہ مرا با بوئے جنت دار جفت
ترجمہ: ایک شخص نے استنجا کے وقت دعا کی کہ (الہٰی) مجھے جنت کی خوشبو کے قریب رکھ۔ (اور اس سادہ لوح نے اتنا نہ سوچا کہ جس مقام کو میں دھو رہا ہوں اس میں کوئی خوشبو داخل نہیں ہوتی، بلکہ ایک قسم کی بدبو اس سے خارج ہوتی ہے۔ پس جنت کی خوشبو کو اس سے کیا مناسبت؟)
2
گفت شخصے خوب ورد آوردۂ
لیک سوراخِ دُعا گم کردۂ
ترجمہ: ایک شخص نے (اسکو) کہا (بھائی) تو نے دعا (تو) خوب کی، مگر دعا کے سوراخ کو گم کر بیٹھا۔
3
ایں دعا کہ وردِ بینی بود چوں
وردِ بینی را تو آوردی بہ کوں
ترجمہ: یہ دعا تو ناک کا ورد ہے، تو ناک کے ورد کو پاخانہ پھرنے کی جگہ میں کیوں لایا؟
4
رائحۂ جنت ز بینی یافت حُر
رائحۂ جنت کے آید از دُبُر
ترجمہ: (نفس و شیطان سے نجات پانے والا) آزاد آدمی جنت کی خوشبو ناک سے پاتا ہے۔ جنت کی خوشبو پچھلی راہ سے کب آ سکتی ہے؟ (آگے اس کج عملی کی ایک مثال مذکور ہے۔)
5
اے تواضع بردہ پیشِ ابلہاں
وے تکبر بردہ تو پیشِ شہاں
ترجمہ: اے بے وقوفوں کے سامنے تواضح کرنے والے! اور اے (اقلیمِ ولایت کے) بادشاہوں (یعنی اہل اللہ) کے آگے تکبر سے پیش آنے والے!
6
آں تکبر بر خساں خوب ست و چست
ہیں مرد معکوس عکسش بندِ تست
ترجمہ: وہ تکبر تو کمینوں (دنیا داروں) کے خلاف کرنا اچھا اور پھبتا ہے۔ خبردار! الٹا نہ چل، اس (تکبر) کا الٹا استعمال تیرے لیے (ترقّی) کا مانع ہے۔ (مغرور دنیا داروں کے سامنے اکڑ کر رہنا، اور بزرگانِ دین کے ساتھ خاکساری سے پیش آنا شرطِ مردمی ہے۔)
7
از پئے سوراخ بینی رست گل
بو وظیفہ بینی آمد اے عتل
ترجمہ: (غرض) پھول ناک کے سوراخ (کو خوشبو دینے) کے لیے اُگا ہے۔ اے بدخو! سونگھنا تو ناک کا کام ہے۔
8
بوئے گل بہر مشام ست اے دلیر
جائے آں بو نیست ایں سوراخِ زیر
ترجمہ: اے گستاخ! پھول کی خوشبو تو دماغ کے لیے ہے۔ اس خوشبو کی جگہ یہ نیچے کا سوراخ نہیں۔
9
کے ازیں جا بوے خلد آید ترا
بو ز موضع جو اگر باید ترا
ترجمہ: اس جگہ کے ذریعے سے تجھ کو خوشبوئے جنت کب آ سکتی ہے؟ اگر (خوشبوئے جنت) تجھے درکار ہے تو اس (مختص) جگہ (یعنی ناک کے ذریعہ) سے تلاش کر (اب ان مثالوں کو ممثل لہٗ یعنی حُبّ الوطن کے متعلق کج فہمی پر چسپاں فرماتے ہیں:)
10
ہمچنیں حُبُّ الوطن آمد درست
تو وطن بشناس اے خواجہ نخست
ترجمہ: اسی طرح حبُّ الوطن (کی حدیث بھی) درست ہے۔ حضرات! پہلے وطن تو معلوم کرو (کہ کونسا ہے پھر اس کی محبت کا بھی فیصلہ ہو جائے گا۔)
انتباہ: عاقل مچھلی نے کہا تھا کہ میرا وطن تو وہی ہے جہاں مجھے ان صیادوں سے نجات مل سکے، یہ تالاب وطن کہلانے کے قابل نہیں۔ جہاں میری جان خطرے میں ہے اس سے حبُّ الوطنی کی بحث چل پڑی تھی۔ اب پھر وہ مچھلی کہتی ہے کہ مجھے ان ساتھ والی مچھلیوں سے مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ ضرور اسی جگہ پڑے رہنے کا مشورہ دیں گی۔
11
گفت آں ماہی زیرک رہ کنم
دل ز رائے و مشورت شاں بر کنم
ترجمہ: (القصہ) اس دانا مچھلی نے کہا میں (اپنی) راہ لگوں، ان کے رائے اور مشورہ کی پروا نہ کروں۔
12
نیست وقتِ مشورت ہیں راہ کن
چوں علیؓ تو آہ اندر چاہ کن
ترجمہ: اب مشورہ کا موقع نہیں، خبردار! راستہ اختیار کر۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرح کنویں کے اندر آہ کر۔
مطلب: مولانا بحر العلوم شیخ افضل سے نقل کرتے ہیں کہ لوگوں میں مشہور ہے کہ حضرت امیر المؤمنین علی کرّم اللہ وجہہ غلبہ حال کے وقت کنویں میں سر جھکا کر آہ کیا کرتے تھے۔(انتہٰی) صاحبِ منہج فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کو ایک بھید کی بات بتائی، اور اسکے مخفی رکھنے کا حکم دیا۔ اس کنویں سے ایک آواز پیدا ہوئی جس سے وہ راز آشکار ہو گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ کنواں بھی اس راز کا متحمل نہ ہو سکا اور خون سے لبریز ہو گیا۔ حتّٰی کہ کسی موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرف سے گزر ہوا تو آپ نے اس کنوئیں کا یہ حال مشاہدہ کر کے فرمایا: علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ نے اس کنویں میں وہ راز ظاہر کر دیا ہوگا، اسی سبب سے اس کا یہ حال ہو گیا۔ ایک اور روایت میں یوں ہے کہ اس کنویں میں ایک نرکل پیدا ہو گیا، کسی شخص نے وہ نرکل کاٹ کر اسکی بانسری بنا لی۔ جب وہ اسے بجانے لگا تو اس سے ایک لطیف آواز نکلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتفاقاً سرِ راہ وہ آواز سنی تو فرمایا اس آواز سے وہ راز ظاہر ہو رہا ہے جو میں نے علی سے کہا تھا، اور اس کو مخفی رکھنے کی تاکید کی تھی۔(انتہٰی) مولانا کے قول ”چوں علی تو آہ اندر چاہ کن“ کی شرح اور حلِ مطلب کے لیے یہ روایت خوب ہے، مگر مذاقِ صحیح شاید اسکے صدق کی شہادت نہ دے سکے۔ اس لیے کہ:
1۔ دیگر تمام اکابر صحابہ کو چھوڑ کر صرف حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے امینِ اسرار ہونے کا عقیدہ رافضیانہ مشرب کا مظہر ہے، ممکن ہے یہ روایت اسی فرقہ کے مخترعات سے ہو۔
2۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت اس راز کے کتمان و اخفا سے عاجز آ جانے کا خیال صاف طور پر ان کے علوِ ظرف کی توہین ہے۔
3۔ اس راز کو کنویں پر ظاہر کرنا جس سے وہ عوام تک مشتہر ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی خلاف ورزی ہے، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان سے بعید بلکہ ابعد ہے۔
4۔ عہدِ نبوت میں لوگوں کا بانسری بجانے کا شغل ناممکنات سے ہے۔
5۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بانسری کو سننے کا خیال اور بھی صاحبِ روایت کی جہالت ظاہر کرتا ہے۔
6۔ اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ گمان کہ آپ نے اس آواز کو مظہرِ اسرار ٹھہرایا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ صاحبِ روایت نے اسوۂ نبویہ کا مطالعہ نہیں کیا، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے کسی مست قلندر سے اس روایت کو منسوب کرتا۔
7۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مولانا بحر العلوم اور شیخ افضل وغیرہ اکابر اہلِ علم کا اس روایت کو بیان نہ کرنا صاف طور پر اسکے غیر مشہور و وضعی ہونے کی دلیل ہے۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ۔
13
محرمِ آں راہ کمیاب ست و بس
شب روی و پنہاں روی کن چوں عسس
ترجمہ: اس راستے کا واقف بالکل کمیاب ہے۔ (لہٰذا کسی کی رقابت کا انتظار نہ کر) راتوں رات چل دے، اور کوتوال کی طرح رات کو چلنا اختیار کر۔ (منازلِ سلوک میں تن تنہا چلنا ہوتا ہے، اور تمام مشکلات سے خود دوچار ہونا پڑتا ہے، ہاں مرشد کی رہنمائی مدد دیتی ہے۔)
14
سوے دریا عزم کن زیں آبگیر
بحر جو و ترکِ ایں گرداب گیر
ترجمہ: (مچھلی اپنے دل سے کہتی ہے کہ) اس تالاب سے دریا کا قصد کر۔ دریا تلاش کر اور اس گردابِ ہلاکت کو چھوڑ دے۔ (دنیا گردابِ ہلاکت ہے اس سے نکل کر عقبیٰ کا عزم کرنا چاہیے، یعنی دنیاوی زندگی میں توشۂ عقبیٰ جمع کرنا چاہیے۔)
15
سینہ را پا ساخت مے رفت آں حذور
از مقامِ با خطر تا بحرِ نور
ترجمہ: (جو بندگانِ خدا دنیا کے مال و جاہ سے بے نیاز ہو کر) عقبیٰ اور قربِ حق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہ گویا ایک ظلمت کدہ کو چھوڑ کر فضائے پر انوار میں جا رہے ہیں۔
16
ہمچو آہو کز پے او سگ بود
مے دود تا در تنش یک رگ بود
ترجمہ: وہ اس ہرن کی طرح (دوڑتی تھی) جس کے پیچھے کتا (لپکا آتا) ہو۔ (اور) جب تک اس کے بدن میں ایک رگ بھی موجود ہو (وہ اسی طرح) دوڑا چلا جاتا ہے۔
17
خوابِ خرگوش و سگ اندر پئے خطاست
خواب خود در چشم تر سندہ کجاست
ترجمہ: خرگوش کی سی (غفلت کی) نیند (ہو) اور کتا پیچھے (دوڑا آ رہا ہو، یہ سخت) غلطی ہے۔ بھلا ڈرنے والے کی آنکھوں میں نیند کہاں؟
مطلب: معلوم ہوا کہ غافل کو عذابِ آخرت کا خوف ہی نہیں، ورنہ اس کو غفلت کی نیند کب آتی؟ خوابِ خرگوش کی کہانی مشہور ہے کہ خرگوش نے کچھوے کے ساتھ دوڑ کر مقابلہ ٹھہرایا کہ دونوں میں سے جو آگے بڑھ جائے اس کی فتح تصور ہوگی، دونوں ایک مقام سے اکٹھے چلے، خرگوش اپنی تیز رفتاری کے بھروسے پر آدھی مسافت طے کر کے سو گیا کہ جاگ کر مسافت طے کر لوں گا، کچھوا پھر بھی مجھ سے پیچھے رہ جائے گا۔ ادھر کچھوا اس کے سوتے سوتے منزل پر پہنچ گیا اور فتح یاب ہوا۔ بعض کہتے ہیں کہ خوابِ خرگوش کی ضرب المثل اس بناء پر مشہور ہے کہ خرگوش اس طرح سوتا ہے کہ آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔ اور یہ مثل ان لوگوں پر صادق آتی ہے جو بظاہر بیدار نظر آتے ہیں، مگر ان کے دل دنیا کی محویت میں آخرت کی طرف سے سو رہے ہیں۔ منہج میں ترمذی کی ایک روایت منقول ہے: ”عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا رَأَيْتُ مِثْلَ النَّارِ نَامَ هَارِبُهَا وَلَا مِثْلَ الْجَنَّةِ نَامَ طَالِبُهَا“ (ترمذی: 1633) ’’حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا: میں نے جہنم کی مثل کوئی چیز نہیں دیکھی کہ جس سے بھاگنے والا خواب غفلت میں ہو، اور نہ ہی جنت کی نعمتوں و سرور کے مثل کوئی چیز دیکھی ہے جس کا چاہنے والا خواب غفلت میں ہو۔“
18
رفت آں ماہی رہِ دریا گرفت
راہ دور و پہنۂ پہنا گرفت
ترجمہ: (غرض) وہ مچھلی چلی گئی اور اس نے دریائے (نور) کا راستہ اختیار کیا۔ لمبا اور چوڑے سے چوڑا راستہ اختیار کیا۔
19
رنجہا بسیار دید و عاقبت
رفت آخر سوئے امن و عافیت
ترجمہ: اس نے بڑی تکالیف دیکھیں، اور آخر امن و عافیت کی طرف جا پہنچی۔ (مقاماتِ سلوک سخت مشکلات و مصائب کے ساتھ طے ہوتے ہیں۔) عراقی رحمۃ اللہ علیہ؎
دریں وادی فرو شد کاروانہا
کہ کس نشنید آوازِ دراے
خطر بسیار دار در راہِ حق ہشیار شو صائب
کہ موسیٰؑ بے عصا در وادئ ایمن نمی آید
20
خویشتن افگند دریائے ژرف
کہ نیابد حدِّ آں را ہیچ طرف
ترجمہ: اس نے اپنے آپ کو گہرے دریا میں ڈال دیا۔ جس کے کنارہ کو کوئی آنکھ نہیں پاتی۔ (اب آگے باقی دو مچھلیوں کا حال مذکور ہے:)
21
پس چو صیاداں بیاوردند دام
نیم عاقل را ازاں شد تلخکام
ترجمہ: پس جب شکاری جال لے آئے، تو اس سے ناقص العقل (مچھلی) کڑھنے لگی۔
22
گفت آہ من فوت کردم وقت را
چوں نگشتم ہمرہِ آں رہنما
ترجمہ: بولی، افسوس میں نے موقع کھو دیا۔ اس رہنما کے ساتھ کیوں نہ چلی گئی؟
23
ناگہاں رفت او ولیکن چونکہ رفت
می ببایستم شدن در پے بہ تفت
ترجمہ: وہ اچانک چلی گئی، لیکن جب وہ چلی گئی تو مجھے سرگرمی سے اس کے پیچھے جانا چاہیے۔
24
بر گذشتہ حَسرت آوردن خطاست
باز ناید رفتہ یادِ آں ہباست
ترجمہ: گزشتہ (احوال) پر افسوس کرنا غلطی ہے۔ گیا (وقت) واپس نہیں آتا، اسکی یاد فضول ہے۔
25
ایں زماں سُودے ندارد حَسرتم
چُوں کنم چوں فوت شد ایں فرصتم
ترجمہ: اس وقت میری حسرت کچھ مفید نہیں۔ اب جو موقع میرے ہاتھ سے جاتا رہا تو میں کیا کر سکتی ہوں۔
مطلب: مولانا پہلے بھی یہ ارشاد فرما چکے ہیں کہ آدمی کو گزشتہ را صلواۃ آیندہ را احتیاط پر عمل کرنا چاہیے اپنی گزشتہ غلطیوں پر کڑھنا، دستِ حسرت ملنا اور غمگین ہونا فضول ہے۔ اس سے حوصلہ پست اور آئندہ کے لیے بھی قوّتِ عمل سلب ہوتی ہے، بلکہ گزشتہ حالات کو بالکل بھلا کر آیندہ کے لیے راست روی اور حسنِ عمل کی کوشش کرنی چاہیے۔ صبح کا بھولا شام کو گھر آ جائے تو اس کو بھولا ہوا نہ کہو۔ ہدایت پانے کے بعد گزشتہ ایام کی پوری تلافی ہو سکتی ہے۔ اس کی تائید میں ایک پرندے کی کہانی ارشاد فرماتے ہیں: