دفتر 4 حکایت 92: اس حدیث کا راز کہ وطن کی محبت ایمان سے ہے

حصہ دوم

دفترِ چہارم: حکایت: 92

سِرِّ حدیث ”حُبُّ الوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ“ (المقاصد الحسنہ للسخاوی، ارقم:189 وقال: لم اقف علیہ، ومعناہ صحیح)

اس حدیث کا راز کہ ”وطن کی محبت ایمان سے ہے“

مطلب: بعض علماء کے نزدیک اس سے زاد بوم مراد ہے، اور محققین علمائے ظاہر کا مذہب یہ ہے کہ اس سے دارِ آخرت مقصود ہے، کیونکہ انسان کا اصلی وطن وہی ہے، اور اس وطن کی محبت کی صورت یہ ہے کہ اسکے لیے توشہ جمع کرے، اور ظاہر ہے کہ توشہ عقبیٰ کا جمع کرنا ایمان کے مکمّلات سے ہے، اور ایمان پر مبنی ہے۔ اہلِ اشارت کے نزدیک انسان کا وطن مرتبۂ واحدیت ہے، جس میں انسان متعین ہے، اور واحدیت کی محبت کا کمالِ ایمان ہونا ظاہر ہے، کیونکہ وہ حق تعالٰی ہی کی محبت ہے۔(بحر)

1

گر وطن خواہی گذر آں سوئے شط

ایں حدیثِ راست را کم خواں غلط

ترجمہ: اگر تم (اس حدیث کے مطابق رجوع) بوطن چاہتے ہو تو ساحلِ (زندگی) کے اس طرف (یعنی عقبیٰ کی طرف) جاؤ۔ (دنیاوی گھر کو وطن نہ سمجھو، اور) اس سچی حدیث کو غلط نہ پڑھو۔ (آگے حدیث کے اصلی مفہوم کو چھوڑ کر غلط مفہوم اختیار کرنے کی ایک مثال ارشاد فرماتے ہیں:)

2

در وضو ہر عضو را وِردے جدا

آمدست اندر خبر بہرِ دعا

ترجمہ: وضو میں، ہر عضو (کو دھوتے وقت پڑھنے) کے لیے حدیث میں بطور دعا الگ وِرد آیا ہے۔

مطلب: سفرُ السعادت میں مذکور ہے کہ وضو میں ہر عضو کو دھوتے وقت پڑھنے کے اوراد ثابت نہیں ہیں۔ لیکن فقہاء نے مستحبات میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا روا رکھا ہے۔(بحر)

3

چونکہ استنشاق بینی مے کنی

بوئے جنّت خواہ از ربِّ غنی

ترجمہ: (چنانچہ) جب تم ناک میں پانی ڈالو. تو پروردگار غنی سے بہشت کی خوشبو طلب کرو۔

مطلب: کیونکہ خوشبو ناک کے مناسبات سے ہے۔ یعنی یہ دعا پڑھنی چاہیے: ”اَللّٰھُمَ اَرِحْنِیْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ وَارْزُقْنِیْ مِنْ نَعِیْمِھَا وَ لَا تُرِحْنِیْ رَائِحَۃَ النَّارِ“ یعنی ”تو مجھے جنت کی خوشبو سونگھا اور اس کی نعمتوں سے متمتع فرما، اور دوزخ کی بو نہ سونگھا۔“ (منہج)

4

تا تُرا آں بُو کشد سُوئے جناں

بُوئے گل باشد دلیلِ گُلستان

ترجمہ: تاکہ وہ خوشبو تم کو بہشت کی طرف لے جائے۔ پھول کی خوشبو باغ کی طرف لے جانے والی ہوتی ہے۔

انتباہ: اسی طرح منہ دھوتے وقت کہنا چاہیے: ”اَللّٰھُمَّ بَیِّضْ وَجْھِیْ یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَ تَسْوَدُّ وَجُوْہٌ“ یعنی ”الہٰی میرا چہرہ روشن کر جس روز بعض چہرے روشن ہوں گے، اور بعض کالے پڑ جائیں گے۔“ دائیں ہاتھ کو دھوتے وقت کہے: ”اَللّٰھُمَّ اَعْطِنِیْ کِتَابِیْ بِیَمِیْنِیْ وَ حَاسِبْنِیْ حِسَاباً یَّسِیْراً“ یعنی ”الہٰی میرا اعمال نامہ میرے دائیں ہاتھ میں دے، اور مجھ سے آسانی کے ساتھ حساب لے۔“ بائیں ہاتھ کو دھوتے وقت کہے: ”اللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ اَنْ تُعْطِیَنِیْ کِتَابِیْ بِیَسَارِیْ وَ تُحَاسِبُنِیْ حِسَاباً عَسِیْرًا“ ”الٰہی میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ تو میرا اعمال نامہ میرے بائیں ہاتھ میں دے، اور مجھ سے سخت حساب لے۔“ سر کا مسح کرتے وقت کہے: ”اللّٰھُمَّ غَشِّنِیْ بِرَحْمَتِکَ وَ اَنْزِلْ عَلَیَّ مِنْ بَرَکَاتِکَ وَ اَظِلَّنِیْ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِکَ“ یعنی ”الہٰی مجھ کو اپنی رحمت سے ڈھک لے اور مجھ پر اپنی برکتیں نازل کر، اور مجھ کو عرش کے سایہ میں رکھ۔“ کانوں کا مسح کرتے وقت کہے: ”اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِمَّن یَّسْتَمِعُ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُ اَحْسَنَہٗ وَ اَسْمِعْنِیْ مُنَادِیَ الْجَنَّۃِ مَعَ الْاَبْرَارِ“ یعنی ”الہٰی مجھے تو ان لوگوں میں سے بنا جو بات سنتے ہیں پھر اچھی بات کا اتباع کرتے ہیں، اور مجھ کو نیک لوگوں کے ساتھ بہشت کے منادی کی آواز سنا دے۔“ گردن کا مسح کرتے وقت کہے: ”اَللّٰھُمَّ اَعْتِقْ رَقَبَتِیْ مِنَ النَّارِ وَ اَعُوْذُ مِنَ السَّلَاسِلِ وَ الْاَغْلَالِ“ یعنی ”الہٰی میری گردن کو آگ سے آزاد رکھ اور میں زنجیروں اور طوقوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ جب دایاں پاؤں دھوئے تو کہے: ”اَللّٰھُمَّ ثَبِّتْ قَدَمِیْ عَلَی الصِّرَاطِ مَعَ اَقْدَامِ الْمُؤْمِنِیْنَ“ یعنی ”الہٰی مومنوں کے ساتھ صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رکھ۔“ جب بایاں پاؤں دھوئے تو کہے ”اَللّٰھُمَّ ثَبِّتْ قَدَمِیْ عَلَی الصِّرَاطِ یَوْمَ تَزِلُّ اَقْدَامُ الْمُنَافِقِیْنَ“ یعنی ”الہٰی میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ پل صراط پر میرا قدم پھسل جائے، جس روز کہ منافقوں کے قدم پھسل جائیں گے۔“ امام حسن کوفی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ”مَنْ ذَکَرَ اللہَ عِنْدَ الْوُضُوْءَ طَھَرَ جَسَدُہٗ کُلُّہٗ فَاِن لَّمْ یَذْکُرِ اسْمَ اللہِ لَمْ یَطْھُرْ مِنْہُ اِلَّا مَا اَصَابَ الْمَاءُ“(کنزالعمال: آداب الوضوء، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت: ۹/۲۹۴) یعنی جو شخص وضو کے وقت اللہ کو یاد کرے تو اس کا تمام جسم پاک ہو جاتا ہے پس اگر اللہ کا نام نہ لیا، تو صرف اتنا پاک ہوتا ہے جس پر پانی پہنچا ہے۔(منہج القویٰ)

5

چونکہ استنجا کنی وردِ سخن

ایں بود کہ از ذمائم پاک کن

ترجمہ: جب تم استنجا کرو تو یہ کلام ورد ہوتا ہے کہ (الہٰی مجھ کو) بری باتوں سے پاک کر۔

انتباہ: دوسرا مصرعہ تمام نسخوں میں مختلف ہے کہیں ”از زانم پاک کن“ لکھا ہے۔ کسی جگہ ”از زیانم پاک کن“ لکھا ہے۔ منہج میں یوں ہے: ”ایں بود یا رب تو زینم پاک کن“ اس میں ”زیں“ کا اشارہ نجاست کی طرف ہے۔ ہمارا اختیار کردہ نسخہ قلمی نسخے کے مطابق ہے، جو اگلے شعر کے مضمون سے خوب مربوط ہے، اسی لیے اسکو ترجیح دی گئی۔

6

دستِ من ایں جا رسید ایں را بشُست

دستم اندر شُستنِ جانست سُست

ترجمہ: میرا ہاتھ اس جگہ تک پہنچا (اور اس نے) اس (جگہ) کو دھو ڈالا۔ میرا ہاتھ روح کو (ذمائم و رذائل سے) پاک کرنے میں بے کار ہے۔ (یعنی میں نجاستِ ظاہری کو دور کر سکتا ہوں، نجاستِ باطنی کے دور کرنے پر میں قادر نہیں۔)

7

اے ز توکس گشتہ جانِ ناکساں

دستِ فَضلِ تست در جانہا رساں

ترجمہ: اے خدا! تیرے (کرم) سے نالائقوں کی روح (بھی) لائق ہو گئی۔ تیرے فضل کا ہاتھ روحوں میں پہنچ (کر ان کو معائب سے پاک کر) سکتا ہے۔

8

حدِّ من ایں بود کردم من لئیم

زاں سوے حد را نقی کن اے کریم

ترجمہ: میری (طاقت کی) حد اسی قدر تھی (کہ) میں نالائق نے (جسم کی صفائی) کر لی۔ اے کریم! (میری) حد سے آگے (روح) کو صاف تو کر دے۔

9

از حدث شستم خدایا پوست را

از حوادث تو بشو ایں دوست را

ترجمہ: اے خدا! میں نے ظاہر وجود کو ناپاکی سے دھو لیا۔ تو اس (اپنی) دوست (روح) کو (دنیا کی فانی و) حادث چیزوں (کی محبت) سے دھو ڈال۔

انتباہ: وطن کے معنٰی کچھ سے کچھ سمجھ جانے والے کی مثال میں مولانا اس شخص کو پیش فرما رہے ہیں، جو طہارت کے موقع پر بے موقع کلمات پڑھ جاتا تھا۔ یہاں تک اس تمثیل کی تمہید تھی، اب خاص تمثیل آتی ہے۔