دفتر 4 حکایت 91: ایک تالاب اور شکاریوں اور تین مچھلیوں کی کہانی جن میں سے ایک عقلمند، اور ایک ناقص العقل، اور ایک مغرور بے وقوف اور بے عقل تھی، اور ان کا انجام

حصہ دوم

دفتر چہارم: حکایت: 91

قِصّۂ آبگیر و صیّاداں و آں سہ ماہی یکے عاقل، و یکے نیم عاقل، و یکے مغرور ابلہ بے عقل، و عاقبتِ ایشاں

ایک تالاب اور شکاریوں اور تین مچھلیوں کی کہانی جن میں سے ایک عقلمند، اور ایک ناقص العقل، اور ایک مغرور بے وقوف اور بے عقل تھی، اور ان کا انجام

1

قِصّۂ آں آبگیر ست اے عنود

کہ درو سہ ماہی اشگرف بود

ترجمہ: اے جھگڑالو! یہ ایک تالاب کی کہانی ہے، جس میں تین عجیب مچھلیاں (رہتی) تھیں۔

مطلب: پیچھے جو عاقل، نیم عاقل، اور بے عقل کا ذکر تھا یہ قصہ اسکی تمثیل ہے، جس سے یہ نتیجہ نکالیں گے کہ عاقل شروع سے متوجہ الٰی اللہ ہو کر صالحین میں شامل ہو جاتا ہے۔ نیم عاقل مدت تک شیطان کے تابع رہ کر آخر اسکے پنجے سے رستگاری حاصل کر لیتا ہے۔ اور کم عقل کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب مبتلائے عذاب ہوتا ہے، اس وقت کیا ہو سکتا ہے؟

2

در کلیلہ خواندہ باشی لیک آں

صورتِ قِصّہ بود ویں مغزِ جاں

ترجمہ: (جسکو) تم نے کتاب کلیلہ میں پڑھا ہو گا لیکن وہ قصہ کا (صرف) ظاہری پہلو ہے، اور یہ اسکی روح کا مغز ہے۔

3

چند صیادے سوئے آں آبگیر

برگذشتند و بدیدند آں ضمیر

ترجمہ: کئی شکاری اس تالاب کے پاس سے گزرے، اور ان چھپی ہوئی (مچھلیوں) کو دیکھا۔

4

پس شتابیدند تا دام آورند

ماہیاں واقف شدند و ہوش مند

ترجمہ: تو وہ (شکاری) دوڑے گئے تاکہ جال لائیں۔ مچھلیاں (انکے ارادے سے) واقف اور متنبہ ہو گئیں۔

5

آں کہ عاقل بود عزمِ راہ کرد

عزمِ راہِ شکلِ ناخواہ کرد

ترجمہ: جو (مچھلی) عقل مند تھی، اس نے کوچ کر جانے کا ارادہ کیا۔ ایک نے مشکل اور ناگوار راستے کا قصد کیا۔

مطلب: اس بیان میں ”تالاب“ سے مراد دنیا ہے۔ مچھلیوں“ سے مقصود اہلِ دنیا ہیں۔ صیاد“ شیطان ہے۔ جال“ سے مراد وسوسہ ہے۔ عاقل مچھلی“ تارکِ دنیا ہے۔ نیم عقل مچھلی“ وہ دنیادار ہے جو مدت تک شیطان کے تابع رہ کر آخر صالحین کی حالت سے سبق گیر ہو، اور کسی نہ کسی تدبیر سے شیطان کے پنجے سے رستگاری حاصل کرے۔ کم عقل مچھلی“ وہ غافل و بے دین دنیا دار ہے، جو آخر دم تک تابع شیطان رہے۔ (منہج القویٰ)

6

گفت با اینہا ندارم مشورت

کہ یقین سُستم کنند از مقدرت

ترجمہ: اس (عاقل مچھلی) نے (اپنے دل میں) کہا میں ان (دونوں مچھلیوں) سے مشورہ نہ کروں گی۔ جو یقیناً مجھے (ہمت) و قدرت سے سست کر دیں گی۔ (دنیادار سے مشورہ طلب کیا جائے، تو وہ طالبِ دولت اور ترکِ عقبیٰ کا ہی سبق دے گا۔)

7

مہرِ زاد و بود بر جاں شاں تند

کاہلی و جہلِ شاں بر من زند

ترجمہ: پیدائش اور قیام (کی جگہ) کی محبت انکی جان پر غالب آ جائے گی۔ (اس لیے نہ خود یہاں سے ہجرت کریں گی، نہ مجھے کرنے دیں گی اور) انکی سستی و جہالت مجھ پر اثر انداز ہو گی۔ (اسی طرح غافل دنیا داروں کی صحبت اور مشورہ، آدمی کو گمراہ کر دیتا ہے۔)

8

مشورت را زندۂ باید نکو

کہ ترا زندہ کند آں زندہ کو

ترجمہ: مشورہ کے لیے تو زندہ (دل) و نیک (طبع رفیق) چاہیے۔ جو تجھ کو (بھی) زندہ کر دے (مگر) وہ زندہ کہاں ہے؟ (کہیں بھی نہیں لہٰذا چپکے سے چل پڑنا چاہیے۔)

9

اے مسافر با مسافر رائے زن

زانکہ پایت لنگ دارد رائے زن

ترجمہ: اے مسافر! کسی مسافر کے ساتھ (سفر کے متعلق) رائے زنی کر۔ (جو خود سفر کا قصد رکھتا ہو) عورت (جیسے کم ہمت لوگوں) کا مشورہ تو تجھ کو لنگڑا اور بے ہمت) بنا دے گا۔

10

از دمِ حُبّ الوطن بگذر مایست

کہ وطن آنسوست جاں ایں سوئے نیست

ترجمہ: اور حبّ الوطن کے دھوکے سے نکل کھڑا ہو، کیونکہ وطن اگلا جہاں ہے، اے جان! یہ جہان (وطن) نہیں۔ (یعنی ”حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ“ (المقاصد الحسنہ للسخاوی، ارقم:189 وقال فی المقاصد: لم اقف علیہ، ومعناہ صحیح) کا یہ غلط مطلب نہ سمجھ لینا کہ زاد بوم کی محبت ایمان کی قبیل سے ہے، بلکہ اسکا مطلب کچھ اور ہے۔)