دفتر 4 حکایت 90: پورے عقل مند کی علامت، اور آدھے عقل مند کی، اور پورے مرد کی، آدھے مرد کی (علامت) اور بدبخت مغرور ناچیز کی علامت

حصہ دوم

دفترِ چہارم: حکایت: 90

علامتِ عاقلِ تمام، و نیم عاقل، و مردِ تمام، و نیم مرد، و علامتِ شقی مغرور لاشیئ

پورے عقل مند کی علامت، اور آدھے عقل مند کی، اور پورے مرد کی، آدھے مرد کی (علامت) اور بدبخت مغرور ناچیز کی علامت

1

عاقل آں باشد کہ او با مشعلہ است

او دلیل و پیشوائے قافلہ است

ترجمہ: (پورا) عاقل وہ ہے جسکے ساتھ (بصیرت) مشعل ہے۔ وہ (دوسرے لوگوں کے) قافلہ کا (بھی) رہنما اور پیشوا ہے۔

مطلب: یہ وہ بزرگ ہے جو بصیرت باطن سے راہِ حق کو دیکھتا ہے، اور دوسرے لوگوں کو بھی ہدایت کی راہ پر چلاتا ہے چنانچہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ۟ؔعَلٰی بَصِیۡرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ﴾ (یوسف: 108) ”(اے پیغمبر) کہہ دو کہ: یہ میرا راستہ ہے، میں بھی پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں، اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے وہ بھی۔“ بخلاف اسکے کہ جو لوگ اس باطنی روشنی سے محروم ہیں، اور انظارِ فکریہ سے راہِ ہدایت کی تلاش کرتے ہیں وہ خود گمراہ ہوتے ہیں، اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ ”ضَلُّوْا فَاَضَلُّوْا“ کے مصداق ہیں۔

2

پیروِ نورِ خودست آں پیش رو

تابعِ خویش است آں بیخویش رو

ترجمہ: وہ پیشوا اپنے نور کا تابع ہے۔ وہ اپنے آپکے پیچھے چلنے والا ہے جو کہ خود نہیں چلتا (بلکہ خدا کا نور اسکو کھینچ رہا ہے، اس کا نور خدا ہی کا نور ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿یَسۡعٰی نُوۡرُہُمۡ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ﴾ (الحدید: 12) ”کہ انکا نور انکے سامنے اور انکے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا۔“)

3

مومنِ خویش است و ایماں آورید

ہم بداں نورے کہ جانش زو چرید

ترجمہ: وہ اپنے آپ پر ایمان رکھتا ہے (اور اس نورِ خداوندی پر بھی) ایمان لایا ہے۔ جس سے اسکی روح نے غذا پائی ہے۔ (یہ درجہ انبیاء علیہم السّلام و اولیاء کرام کا ہے جنکو قرب حاصل ہے، اور انکو اپنے قرب پر یقین بھی ہے یہ حضرات کامل العقل ہیں۔ اب آگے ناقص العقل لوگوں کا ذکر آتا ہے:)

4

دیگرے کہ نیم عاقل آمد او

عاقلاں را دیدہ کرد آں نور جو

ترجمہ: (1) دوسرا جو آدھی عقل رکھتا ہے، اس نور (ہدایت) کے طالب نے کسی عاقل یعنی نبی یا ولی کو دیکھ کر (اسکے حکم پر) عمل کیا۔

(2) دوسرا جو آدھی عقل رکھتا ہے، اس نورِ (ہدایت) کے طالب نے کسی عاقل یعنی نبی یا ولی کو (اپنی) چشمِ (بصیرت) بنا لیا۔

5

دست در وے زد چو کور اندر دلیل

تا بدو بینا شد و چست و جلیل

ترجمہ: اس نے اس (نبی یا ولی) پر ہاتھ ڈال لیا، جس طرح نابینا (اپنے) راہبر پر (ہاتھ رکھ لیتا ہے۔) حتّٰی کہ وہ اسکی بدولت (چلنے میں) بینا اور ہوشیار اور بڑا با ہمت ہو جاتا ہے۔ (یہ مقلدانِ انبیاء علیہم السّلام و اولیاء کرام ہیں جو خود کامل العقل نہیں، بلکہ ناقص ہیں۔ اس لیے دوسرے حضرات کی عقل کے محتاج ہوئے، آگے فاتر العقل جماعت کا ذکر آتا ہے:)

6

واں خرے کز عقل جو سنگے نداشت

خود نبودش عقل و عاقل را گذاشت

ترجمہ: اور (تیسرے درجے پر) وہ (نرا) گدھا (ہے) جو ایک جو کے برابر بھی عقل نہیں رکھتا۔ وہ خود بھی عاقل نہیں اور عاقل (کے اتباع) کو بھی ترک کر دیا۔ (یہ وہ لوگ ہیں جو تعلیماتِ دین کو چھوڑ کر حکمت و فلسفہ کے پیچھے پڑ رہے ہیں، اور اسکے ذریعہ راہِ حق کی تلاش کرتے ہیں۔) عراقی رحمۃ اللہ علیہ ؎

اگر تو حکمت آموزی بدیوانِ محمدؐ رو

کہ چوں دجّال خر گیرند قلابانِ یونانی

7

خود نداند نے قلیل و نے کثیر

مے نجوید ہم نذیر و ہم بشیر

ترجمہ: وہ خود تو کچھ تھوڑا بہت جانتا نہیں۔ (ساتھ ہی) کسی (انجامِ بد سے) ڈرانے والے اور کسی (فوز و فلاح) کی بشارت دینے والے (کامل) کی تلاش بھی نہیں کرتا۔

8

غرقہ اندر غفلت و در قال و قیل

ننگش آید آمدن خلفِ دلیل

ترجمہ: وہ (انظارِ فکریہ میں غرق ہونے والا گدھا) غفلت اور (فضول) بحث میں ڈوب رہا ہے۔ (ساتھ ہی) اسکو (کسی) راہیر کے پیچھے چلتے شرم (بھی) آتی ہے۔

الخلاف: شرح عربی میں ان دو شعروں کے بجائے یہ شعر درج ہیں:

رہ نداند نے کثیر و نے قلیل

ننگش آید آمدن خلفِ دلیل

9

مے رود اندر بیابانِ دراز

گاہِ لنگاں آید و گاہے بتاز

ترجمہ: وہ جاہل تخیلات و توہمات کے لمبے بیابان میں، کبھی لنگڑاتا ہوا اور کبھی دوڑتا ہوا چلتا ہے۔

10

شمع نے تاپیشواے خود کند

نیم شمعے نے کہ نورے گد کند

ترجمہ: (اسکے پاس عقل کی) شمع نہیں جسکو اپنا رہبر بنائے۔ کوئی ناقص سی شمعِ (عقل) بھی نہیں (کہ کمی پوری کرنے کے لیے کسی دوسرے سے) نورِ (بصیرت) مانگ لے، اور (کام چلا سکے۔)

11

نیست عقلش تا دمِ زندہ زند

نیم عقلے نے کہ خود مردہ کند

ترجمہ: اسکے اندر عقلِ (کامل) نہیں کہ زندہ (دل بزرگ ہونے) کا دعویٰ کر سکے۔ عقلِ ناقص (بھی) نہیں کہ اپنے آپکو (کسی کامل العقل کے آگے) مردہ بنا لے۔

12

مردۂ آں عاقل آید او تمام

تا برآید از نشیبِ خود ببام

ترجمہ: (تاکہ) وہ اس کامل العقل کے آگے بالکل مردہ (بدستِ زندہ) بن جائے۔ حتّٰی کہ اپنی پستی سے (کمالات کے محل) پر پہنچ جائے۔

13

عقلِ کامل نیست خود را مردہ کن

در پناہِ عاقلے زندہ سخن

ترجمہ: (اگر تم میں) عقل نہیں، تو اپنے آپکو کسی عاقل زندہ دم کی پناہ میں مردہ (ہی) بنا لو۔ (یعنی اگر تم خود با کمال نہیں ہو، تو کسی با کمال سے استفاضہ ہی کرو۔ مردہ کو جسطرح چاہو اٹھاؤ بٹھاؤ، لٹاؤ۔ غرض خواہ کسی طرح حرکت اور مطلق مخالفت نہیں کرتا۔ یہی شان مرید کی اپنے پیر کی تعلیم و تربیت میں ہونی چاہیے، کہ وہ جسطرح چاہے مرید کی اصلاح کرے، مرید کو اسکے آگے ”کَالْمَیِّتِ فِیْ یَدِ الْغَسَّالِ“ بن جانا چاہیے، مردہ ہونے کا یہی مطلب ہے۔)

14

زندہ نے تا ہمدمِ عیسیٰؑ شود

مردہ نے تا دم گہِ عیسیٰؑ بود

ترجمہ: (مگر افسوس کہ وہ جاہل فلسفی) نہ تو زندہ ہے، جو (دوسروں کو زندہ کرنے میں) حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا ہم مشرب ہے۔ نہ وہ مردہ ہے، تاکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے دم کا مورد ہو۔

15

زندہ نے و مردہ نے لاشیئ بود

غُورہ باشد نے عِنَب نَے مَے بود

ترجمہ: (جو شخص) نہ زندہ ہو نہ مردہ ہو، وہ کچھ بھی نہیں۔ کچا پھل ہے، جو نہ انگور ہے کہ شراب بنے۔ (انگور خاص ترکیب سے تربیت پا کر شراب بن جاتا ہے، مگر کچا پھل کسی ترکیب سے اس کمال کو نہیں پہنچ سکتا۔ یہی حال جاہل فلسفی کا ہے جو نہ خود ہدایت پائے، نہ کسی ہادی سے طالبِ ہدایت ہو۔)

16

غورۂ کز غورگی در نگذرد

سنگِ بست و خام و ترش و رَد بود

ترجمہ: جو خام پھل خامی سے نہ نکلے۔ وہ بحالتِ خامی خشک، کچا، کھٹا اور ناپسند رہتا ہے۔ (اسی طرح غافل و بدعقیدہ آدمی، جو نہ خود اپنی اصلاح کرے۔ نہ کسی مصلح و مرشد سے مستفیض ہو، وہ ہمیشہ اسی خطرناک حالت میں رہتا ہے، حتّٰی کہ:)

17

جانِ کورش گام ہرسو مے نہد

عاقبت نجہد ولے بر مے جہد

ترجمہ: اسکی اندھی روح (اسی طرح خیالاتِ باطلہ اور اوہامِ واہیہ میں) ہر طرف قدم رکھتی (اور بھٹکتی پھرتی) ہے۔ (ذکرِ) عاقبت (میں) بے تاب نہیں ہوتی، لیکن (موت کے وقت احساسِ عذاب سے) تڑپتی ہے۔ (کَذَا قِیْلَ، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ)

18

سود ندہد برجہیدن آں زماں

زانکہ نازل شد بلا از آسماں

ترجمہ: (مگر) اس وقت اچھلنا (کودنا) مفید نہیں پڑتا۔ کیونکہ (اب) آسمان سے عذاب نازل ہوچکا، (جو ٹل نہیں سکتا۔)