حصہ دوم
دفترِ چہارم: حکایت: 89
بیان کردنِ رسول علیہ السّلام سببِ تفضیل و اختیار کردنِ آں جوان را بر پیرانِ کار دیدہ و کار آزمودہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس جوان کو ماہر و تجربہ کار بڈھوں پر ترجیح دینے اور انتخاب کرنے کا سبب بیان فرمانا
1
گفت پیغمبرؐ کہ اے ظاہر نگر
تو مبیں او را جوان و بے ہنر
ترجمہ: پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ظاہر بین! تو اسکو جوان (یعنی) بے ہنر نہ سمجھ (بے ہنر کا عطف تفسیری ہے۔)
2
اے بسا ریشِ سیاہ و مردِ پیر
وے بسا ریشِ سفید و دل چو قیر
ترجمہ: ارے بہتیرے کالی ڈاڑھی (والے ہیں) اور (وہ جواں) مرد (عقل و تدبیر میں) بڈھے ہیں۔ ارے بہتیرے سفید ڈاڑھی (والے بڈھے ہیں) اور (انکے) دل (سیاہ کاری میں) قیر (کے سیاہ روغن) کی طرح (سیاہ) ہیں۔
3
عقلِ او را آزمودم بارہا
کرد پیری آں جواں در کارہا
ترجمہ: میں نے اسکی عقل کو بارہا آزمایا ہے۔ اس جوان (اکثر) کاموں میں تجربہ کاری کے لحاظ سے بڈھا پن (پیش) کیا ہے۔
4
پیر پیرِ عقل باشد اے پسر
نے سفیدی موے اندر ریش و سَر
ترجمہ: اے عزیز! بڈھا وہ ہے جو عقل کا بڈھا (یعنی بزرگ) ہو۔ نہ کہ ڈاڑھی اور سر کے بالوں کی سفیدی (”بزرگی بعقل است نہ بسال۔“)
5
از بلیس او پیر تر خود کے بود
چونکہ عقلش نیست او لاشئ بود
ترجمہ: (بھلا اگر) وہ (جوان بڈھا بھی ہوتا تو) ابلیس سے زیادہ بڈھا کب ہو سکتا تھا؟ (جس نے لاکھوں برس عبادت کی تھی) جب اس میں عقل نہیں تو نا چیز ہوگا (جسطرح شیطان اس قدر بڈھا ہونے کے باوجود ذرا سی بات میں غلطی کر جانے سے ملعون ہو گیا۔)
6
طفل گیرش چوں بود صاحب کمال
پیر باشد در ہنر آں خوش خصال
ترجمہ: اس (جوان) کو تم (جوان نہیں خواہ) بچہ ہی سمجھو۔ (مگر) جب وہ باک مال ہو تو وہ خوش خصال ہنر کے لحاظ سے بڈھا ہو گا۔
7
طفل گیرش چوںں بود عیسیٰ نفس
پاک باشد از غرور و از ہوس
ترجمہ: اسکو بچہ ہی سمجھ لو (مگر) جب وہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی سی باتیں کرنے والا ہو۔ تو غرور اور خواہش (نفسانی) سے پاک ہو گا۔ (جسطرح حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے بحالتِ شیرخوارگیشیرخوارگی مہد میں گفتگو کی تھی۔ تو بڈھوں کو دم بخود کر دیا۔)
8
آں بیاضِ مو دلیلِ پختگی ست
پیش چشم بستہ کِش کوتہ تگی ست
ترجمہ: وہ بالوں کی سفیدی تو بند شدہ آنکھ ہی کے آگے، پختگی کی دلیل ہے جس (کی نگاہ) کی رفتار (ادراکِ حقائق میں) کمزور ہے۔
9
آں مقلد چوں نداند جز دلیل
در علامت جوید او دائم سبیل
ترجمہ: وہ (ظاہری دلائل کا) پابند چونکہ دلیل کے سوا (ادراکِ حقائق کا اور کوئی طریقہ) نہیں جانتا۔ (اس لیے) وہ ہمیشہ (آثار و) علامات میں (سراغ کا) راستہ تلاش کرتا ہے۔
مطلب: چنانچہ بالوں کی سفیدی کو بزرگی و عقل کی نشانی، اور سیاہی کو جوانی و جہل کی علامت سمجھ کر اپنا فیصلہ صادر کر دیتا ہے۔ حالانکہ کبھی معاملہ اسکے برعکس ہوتا ہے۔ پیچھے معترض نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے خود فرمایا ہے کہ ”پیر باید پیر باید پیشوا“ آگے اسکا جواب دیتے ہیں:
10
بہرِ آں گفتیم کایں تدبیر را
چونکہ خواہی کرد بگزیں پیر را
ترجمہ: اسی (مقلد) کے لیے تو ہم نے حکم دیا ہے کہ جب تو یہ تدبیر کرے، تو کسی بزرگ (کے اتّباع) کو اختیار کر (خود بخود) قیاسی ڈھکوسلوں سے کام نہ لے۔
11
لیک پیرِ عقل نے پیر مُسِنّ
مے نداند ممتحَن از ممتحِن
ترجمہ: لیکن (وہ) عقل کا بزرگ (ہونا چاہیے) نہ کہ عمر رسیدہ بڈھا۔ جو (فتورِ عقل سے) امتحان دینے والے، اور امتحان لینے والے میں فرق نہ سمجھے۔ (آگے اس پیرِ عقل کی تعریف فرماتے ہیں:)
12
آنکہ او از پردۂ تقلید جست
او بنورِ حق بہ بیند ہر چہ ہست
ترجمہ: وہ جو تقلیدِ (مذموم) کے پردے سے نکل گیا۔ وہ موجودات کو حق تعالٰی کے نور سے دیکھتا ہے۔ (”تقلید“ سے یہاں بصیرتِ باطن سے کام نہ لینا مراد ہے۔ تقلیدِ امام مراد نہیں، جو ایک اصطلاحی لفظ ہے۔ بعض غیر مقلدین اس قسم کے اشعار کو ناحق تقلیدِ مصطلح کے رد میں پیش کیا کرتے ہیں، جو ان لوگوں کی کور باطنی ہے۔)
13
نورِ پاکش بے دلیل و بے بیان
پوست بشگافد در آید درمیاں
ترجمہ: (پھر) اس (پیرِ عقل کی بصیرتِ باطن) کا پاک نور، کسی دلیل و بیان کے بغیر (سر بستہ امور کے) چمڑے کو چیرتا ہوا اندر پہنچ جاتا ہے۔ (اور اس پیرِ عقل پر ان امور کے باطنی احوال بلا تقریر و بیان منکشف ہونے لگتے ہیں۔ جیسے حدیث میں فرمایا: ”عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ الخُدْرِيِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اِتَّقُوْا فِرَاسَةَ المُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللّٰهِ“ (سنن ترمذی:3127) ”کہ مؤمن کی فراست سے ڈرو، کیوں کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔“ )
14
پیشِ ظاہر بین چہ قلب و چہ سرہ
او چہ داند چیست اندر قوصرہ
ترجمہ: (بخلاف اسکے) ظاہر بین کہ آگے کیا کھوٹا اور کیا کھرا۔ (سب یکساں ہیں) وہ کیا جانے کہ (سر پوشیدہ) ٹوکری میں کیا ہے؟ (آگے پھر یہ ارشاد ہے کہ آثارِ ظاہر سے احوالِ باطن کا سراغ پانا مشکل ہے۔)
15
اے بسا زرِّ سیہ کردہ بدود
تا رهد از دستِ ہر دُزدِ حسود
ترجمہ: ارے بہتیرے سونے (کے سکے) دھوئیں سے سیاہ کئے ہوئے ہیں۔ تاکہ ہر حاسد چور کے ہاتھ سے محفوظ رہیں۔ (اسی طرح بعض اہل اللہ اپنے کمالات کے اخفا کے لیے ایسے افعال کا اظہار کیا کرتے ہیں، جن سے ان پر بدگمانی ہو۔)
16
اے بسا مسہائے اندودہ بزر
تا فروشد آں بعقلِ مختصر
ترجمہ: اے بہت سے تانبے (کے سکے) سونے کے ساتھ ملمع (ہوتے) ہیں۔ تاکہ انکو کسی کم عقل (آدمی) کے پاس فروخت کیا جائے۔ (مگر:)
17
ماکہ باطن بین جملہ کشوریم
دل بہ بینیم و بظاہر ننگریم
ترجمہ: ہم جو تمام عالم کے باطن کو تاڑنے والے ہیں۔ دل کو دیکھتے ہیں ظاہر کو نہیں۔
18
قاضیانے کہ بظاہر مے تنند
حکم بر اشکالِ ظاہر مے کنند
ترجمہ: اہلِ عدالت جو ظاہر پر توجہ رکھتے ہیں۔ ظاہری صورتوں پر حکم لگایا کرتے ہیں۔
19
چوں شہادت گفت و ایمانش نمود
حکمِ او مومن کنند ایں قوم زود
ترجمہ: جب (کسی نے) کلمۂ شہادت پڑھا اور اپنا ایمان ظاہر کیا۔ تو یہ لوگ فوراً اسکے مومن ہونے کا حکم لگا دیتے ہیں۔ (اور اس حکمِ ظاہر کا نتیجہ یہ ہوا کہ:)
20
بس منافق اندری ظاہر گریخت
خونِ صد مومن بہ پنہانی بریخت
ترجمہ: بہت سے منافق (دل کے کافر) اس ظاہر (کے حکم) میں پناہ گیر ہو گئے۔ اور انہوں نے پوشیدہ (سازشوں سے) سینکڑوں مسلمانوں کو قتل کر ڈالا۔
مطلب: قضاۃِ اسلام ظاہر پر حکم لگا کر منافقوں کو بھی داخلِ اسلام کر لیتے ہیں، جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ دشمنانِ اسلام مسلمانوں کی جماعت میں مل کر ایسے فتنے برپا کرتے ہیں جس سے مسلمان تباہ ہو جاتے ہیں، چنانچہ عبد اللہ بن سبا جو یہودی النسل، یہودی المذہب اور ایک دشمن اسلام تھا، اس نے مسلمانی لباس میں نمودار ہو کر شیعی مذہب کی بنیاد رکھی، اور قیامت تک کے لیے سنی شیعہ کا جھگڑا کھڑا کر دیا۔ غرض بظاہر پر حکم لگانا خطرناک ہے پس تم کو چاہیے کہ:
21
جہد کن تا پیرِ عقل و دیں شوی
تا چو عقلِ کل تو باطن بین شوی
ترجمہ: کوشش کرو کہ تم (ڈاڑھی اور سر کے نہیں، بلکہ) عقل اور دین کے بزرگ بنو۔ تاکہ تم عقلِ کل کی طرح باطن کو دیکھنے والے بن جاؤ۔
مطلب: عقلِ کل سے اس روح القدس یعنی حضرت جبرئیل علیہ السّلام مراد لیا کرتے ہیں، مگر یہاں انبیاء علیہم السّلام و اولیاء کرام کی عقل مراد ہے۔ جسکو باذن اللہ ادراکِ ضمائر کی طاقت ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ تم بھی انکے اتباع میں اپنی عقلِ معاد کو ترقی دو۔ تاکہ کشف کے درجے تک پہنچ جاؤ۔ اب مولانا عقل کے ذکر سے اس کی تعریف و توصیف کی طرف انتقال فرماتے ہیں:
22
از عدم چوں عقلِ زیبا رو نمود
خلعتش داد و ہزاراں عز فزود
ترجمہ: جب عقلِ زیبا عدم سے ظاہر ہوئی۔ تو (قدرتِ حق نے) اسکو خلعت بخشی، اور ہزاروں طرح سے اسکی عزت افزائی کی۔
23
عقل چوں از عالمِ غیبی کشاد
رفعت افزود و ہزاراں نام داد
ترجمہ: عقل جب عالمِ غیب سے نکلی۔ (تو حق تعالٰی نے) اسکی برتری زیادہ کی، اور اسکے ہزاروں نام رکھے۔ (عقل کی جلالتِ شان کی وجہ سے مختلف علمی جماعتوں نے اسکے متعدد نام رکھے ہیں، چنانچہ علوم اسمیہ والوں نے اسکے نام عقلِ نظری، عقلِ علمی، عقلِ کسبی، عقلِ ہیولا، عقلِ بالفعل، عقلِ مستفاد، عقلِ منفعل، عقلِ فعال، اور عقل کل رکھتے ہیں۔ حکماءء اسکو جوہرِ مفارق کہتے ہیں۔ صوفیہ کے نزدیک یہ قلب ہے۔ بعض اسکو نورِ قلب کہتے ہیں۔ بعض نے اسکو روح، اور کسی نے نفسِ ناطقہ سمجھا ہے۔ مشائخِ متقدمین نے اسکو قلم اور روحِ قدسی کے نام سے موسوم کیا ہے، اور مشائخِ متاخرین نے بھی اسکا نام لوح و قلمِ قدسی قرار دیا ہے۔ اور اس لحاظ سے کہ وہ نور افزائے باطن اور مظہرِ صورِ معقولہ ہے نور کہلاتی ہے، اور اس اعتبار سے کہ وہ الہاماتِ ربانیہ اور اشاراتِ ملائکہ کے نقوش کا محل ہے لوح کہلاتی ہے، اور تجلیاتِ الہیہ اور وارداتِ غیبیہ کو لوحِ دل پر منقش کرنے کے لحاظ سے وہ قلم ہے، اور شوائبِ بہہمیہ اور کدوراتِ طبیعہ کے ازالہ کی محرک ہونے کی رو سے روح القدس کے نام سے معروف ہے، اس لیے کہا گیا ہے کہ عقل کے ہزار نام ہیں، جن میں سے بطورِ نمونہ یہ چند پیش کئے گئے۔(منہج)
24
کمتریں زاں نامہائے خوش نفس
اینکہ نبود ہیچ او محتاجِ کس
ترجمہ: ان عجیب اللفظ ناموں میں سے کم سے کم یہ (نام قابلِ توجہ) ہے، کہ وہ بالکل کسی چیز کی محتاج نہیں۔
مطلب: عقلِ ادراک معقولات میں سوائے خداوند تعالٰی کے اور کسی کی محتاج نہیں، کیونکہ وہ خود جوہرِ نورانی ہے، ظلمتِ جہل کو دور کرنے کے لیے اسکو کسی واسطہ کی ضرورت نہیں، اور باقی تمام قوائے مدرکہ اپنے کام میں عقل کی محتاج ہیں۔
25
گر بصورت وا نماید عقل رُو
تیرہ باشد روز پیشِ نورِ او
ترجمہ: اگر عقل، مجسّم ہو کر اپنا چہرہ ظاہر کر دے۔ تو اسکے نور کے آگے دن (کی روشنی) ماند پڑ جائے (کیونکہ قلوبِ اولیاء کے انوار آفتاب کے انوار سے بمدارج افضل ہیں۔)
26
در مثالِ احمقے پیدا شود
ظلمتِ شب پیشِ او روشن بود
ترجمہ: اور (بمقابلہ اسکے) اگر بے وقوفی کا مجسمہ ظاہر ہو جائے۔ (تو وہ اس قدر تاریک ہوگا کہ رات کی تاریکی (بھی) اسکے آگے چمک رہی ہوگی۔
27
کو ز شب مظلم تر و تاری ترست
لیک خفّاش شقی مظلم خورست
ترجمہ: کیونکہ وہ بے وقوفی کا مجسمہ، رات سے بھی زیادہ کالا اور زیادہ تاریک ہے، لیکن بدبخت چمگادڑ تاریک (وقت) کی ہی قدر دان ہے۔
مطلب: جسطرح چمگادڑ کو دن کی روشنی سے نفرت اور رات کی تاریکی سے انس ہے، اسی طرح اشقیاء کو ہدایت کے نور سے نفرت، اور جہالت و ضلالت کی تاریکی سے انس ہے۔
28
اندک اندک خوئے کن با نورِ روز
ورنہ خفاشِ بمانی بے فروز
ترجمہ: (اے بے خبر) آہستہ آہستہ (اہل اللہ کے) دن کے نور سے مانوس ہو۔ تاکہ انکے کمالات سے فیض حاصل کرے، ورنہ تو چمگادڑ (کی طرح) نور سے محروم رہے گا۔
29
عاشقِ ہر جا شکال و مشکلے ست
دشمن ہر جا چراغِ مقبلے ست
ترجمہ: (کم بخت چمگادڑ) ایسی ہر جگہ کی عاشق ہے، جہاں (نجات و فلاح میں) کوئی رکاوٹ اور مشکل (پیش آتی) ہے۔ (اور) ایسی ہر جگہ کی دشمن ہے، جہاں کسی مقبولِ خدا (کی ہدایت و ارشاد) کا چراغ (روشن) ہے، اور (اس سے راہِ نجات نظر آ سکتی ہے۔)
مطلب: مشکلات کے مقام سے مراد دنیوی مال و جاہ کی طلب ہے، جسمیں پڑ کر انسان عاقبت کے فکر و اعمال کی بجا آوری سے غافل ہو جاتا ہے، اور اسکی نجات میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے، ایسے اشخاص کو انبیاء علیہم السّلام کی دعوت اور علماء کرام کی صحبت سے نفرت ہوتی ہے، کیونکہ اس سے دنیوی جاہ و دولت سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔
30
ظلمتِ اشکال زاں جوید دلش
تاکہ افزوں تر نماید حاصلش
ترجمہ: اسکا دل (ان) مشکلات کے اندھیرے کا طالب اس لیے ہے، تاکہ وہ اپنے (دنیوی) فوائد کو ترقی دے (اور خوب کثیر المال و عالی جاہ بن جائے۔)
31
تا ترا مشغول آں مشکل کند
وز نہادِ زشتِ خود غافل کند
ترجمہ: حتّٰی کہ وہ تم کو بھی اس مشکل میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اور اپنے بدوضع وجود سے تم کو غافل کر دیتا ہے۔
مطلب: چمگادڑ کا بد وضع وجود تو ظاہر ہی ہے، جسکی آنکھیں نور سے متنفر اور چندھیائی ہوئی ہیں۔ دنیا رات کو آرام کرتی ہے، تو یہ اسکے کاروبار کا وقت ہے، دنیا دن کو کاروبار کرتی ہے تو وہ سوتی ہے۔ وہ الٹے کام، الٹی روش اور الٹی زندگی کی اس قدر خوگر ہے کہ سوتے وقت بھی چھت یا درخت میں الٹی لٹکتی ہے۔ یہی حال دنیا دار کا ہے جنکے لیے سیدھا راستہ تو یہ تھا کہ دنیا کو دار العمل سمجھ کر طاعات و عبادات کے توشے جمع کرتے، مگر وہ اصل مقصد کو چھوڑ کر دنیا کے فانی فوائد کے حصول میں لگ گئے، تاکہ یہاں خوب عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں۔ انکی مالی و منصبی خوشحالی کو دیکھ کر تم بھی انکی ریس کرنے لگتے ہو، اور چاہتے ہو کہ اسی طرح ہمارے بھی بڑے بڑے محلات اور پُر فضا باغات ہوں۔ کھانے کو مرغوب غذائیں، پہننے کو شاہانہ پوشاکیں، اور سیر کے لیے گھر پر اپنی بگھی یا موٹر موجود ہو، مگر تم یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کم بخت دنیا دار جسکی تم ریس کرتے ہو الٹی راہ پر چل کر اس حالت کو پہنچا ہے، کیا تم پھی الٹا چلنے کو تیار ہو، وہ تو چمگادڑ کی طرح الٹا لٹک رہا ہے، اور تم فریب النفس اور غوائے شیطان سے بقول مولانا کے نہادِ زشت سے بالکل غافل ہو رہے ہو۔ ﴿فَخَرَجَ عَلٰی قَوۡمِہٖ فِیۡ زِیۡنَتِہٖ ؕقَالَ الَّذِیۡنَ یُرِیۡدُوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا یٰلَیۡتَ لَنَا مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیَ قَارُوۡنُ ۙاِنَّہٗ لَذُوۡ حَظٍّ عَظِیۡمٍ﴾ (القصص: 79) ”(پھر (ایک دن) وہ اپنی قوم کے سامنے آن بان کے ساتھ نکلا۔ جو لوگ دنیوی زندگی کے طلب گار تھے، وہ کہنے لگے: اے کاش! ہمارے پاس بھی وہ چیزیں ہوتیں جو قارون کو عطا کی گئی ہیں۔ یقینا وہ بڑے نصیبوں والا ہے۔“ آخر جب قارون کا حسرتناک انجام ان لوگوں نے دیکھا تو اپنی ریس سے نادم ہوئے۔ اور کہنے لگے: ﴿لَوۡ لَاۤ اَنۡ مَّنَّ اللّٰہُ عَلَیۡنَا لَخَسَفَ بِنَا﴾ (القصص: 82) ”اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا، تو وہ ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا۔“