دفتر 4 حکایت 88: اس فضول (معترض) کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں چرب زبانی و طولِ بیان کا سبب

حصہ دوم

دفترِ چہارم: حکایت: 88

سببِ فصاحت و بسیار گوئی آں فضول نزدِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم

اس فضول (معترض) کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں چرب زبانی و طولِ بیان کا سبب

1

پرتوِ مستی بے حدِّ نبی

چوں بزدہم مست خوش گشت آں غبی

ترجمہ: جب (عشقِ الٰہی کے جوش سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی بے پایاں مستی کا پرتو پڑا۔ تو وہ گندہ دماغ (معترض) بھی (اسکے اثر سے) مست و مغرور ہو گیا۔

2

لاجرم بسیار گو شد از نشاط

مست ادب بگذاشت و آمد در خباط

ترجمہ: اس لیے وہ سرور (کی وجہ) سے فضول گو بن گیا۔ مست نے ادب (کا دامن) چھوڑ دیا، اور دیوانگی پر اتر آیا۔ (آگے مولانا بطور نصیحت فرماتے ہیں:)

3

نے ہمہ جا بے خودی شر مے کند

بے ادب را بے ادب تر مے کند

ترجمہ: (عشق کی مستی و) بے خودی ہر جگہ خرابی (برپا) نہیں کرتی۔ (چنانچہ بہت سے اہلِ صلاحیت اسکی بدولت سلوک و عرفان کی منازل طے کر لیتے ہیں۔) البتہ بے ادب کو زیادہ بے ادب بنا دیتی ہے۔

4

گر بود عاقل نکوفر مے شود

ور بود بدخوے بدتر مے شود

ترجمہ: (چنانچہ) اگر وہ (مست و بے خود) عقلمند ہو (یعنی عاشق و معشوق کے مراتب کو ملحوظ رکھنے والا ہو) تو وہ خوش اقبال بن جاتا ہے۔ اور اگر بدطینت ہو (یعنی عاشق و معشوق کے مراتب کا لحاظ نہ رکھنے والا ہو) تو (بد سے) بدتر ہو جاتا ہے۔

5

بر لبیب آید لباب آں کاسِ او

وز غبی کم گردد استیناسِ او

ترجمہ: دانا آدمی کے لیے انکا وہ جام (بےخودی، لیاقت کا) مغز ہے۔ اور اگر غبی ہو تو اسکی قبولیت کم ہو جاتی ہے۔ (اور وہ بدنام اور قابلِ نفرت بن جاتا ہے۔)

مطلب: عالی ظرف و با حوصلہ آدمی کیفیات عشق سے لوگوں میں اور بھی قابلِ عزت بن جاتا ہے، مگر کم ظرف اور بے حوصلہ اس مرتبہ کو پہنچ کر اوچھی باتوں پر اتر آتا ہے، اس لیے نظروں سے گر جاتا ہے، آگے اس شرابِ عشق کی مثال میں ظاہری شراب کا ذکر فرماتے ہیں کہ وہ بھی مختلف مواقع پر مختلف اثر کرتی ہے:

6

بے خود از مے با ادب گردد تمام

با خود از مے بے ادب گردد مُدام

ترجمہ: (اسی طرح) شراب (کے نشے) سے ایک بے نفس (و شریف الطبع) آدمی پورا باادب بن جاتا ہے۔ (بخلاف اسکے) ایک خود پسند شراب سے ہمیشہ بے ادب ہو جاتا ہے۔

مطلب: جو مے نوش اس ام الخبائث کو اعتدال کے ساتھ کم مقدار میں اور بوقتِ خاص پیتے ہیں۔ ان سے اسکی مخصوص خبائث کا ظہور کم ہوتا ہے۔ مگر جو لوگ اسکے نشہ میں اپنے مصالحِ حال اور اسکے نتائجِ مستقبل کو بھی جانتے ہیں، وہ شرور و مفاسد کے مصدر بن جاتے ہیں اور آخر تباہ ہو جاتے ہیں۔ یہاں شبہ ہوتا ہے کہ شرابِ باطن کی مثال میں جو شرابِ ظاہر کو پیش کیا ہے تو شاید اسکی طرح یہ بھی اچھی چیز ہے؟ آگے اس شبہ کا ازالہ فرماتے ہیں:

7

لیک اغلب چوں بدند و ناپسند

بر ہمہ مے را محرم کردہ اند

ترجمہ: مگر چونکہ (شراب پینے والے) زیادہ تر بد اور ناپسند ہی بن جاتے ہیں۔ (اس لیے) شراب کو سب کے لیے حرام قرار دیا گیا تھا۔

8

حکم غالب راست چوں اغلب بدند

تیغ را از دستِ رہزن بستدند

ترجمہ: حکم غالب پر (لگایا جاتا) ہے، چونکہ شراب پینے والوں میں نیک کم اور برے زیادہ ہیں۔ (اس لیے یہ سب کے لیے حرام ٹھہری، جس سے برے لوگوں کی برائی کا تدراک ہوگیا۔ گویا) رہزن کے ہاتھ سے تلوار چھین لے گی۔