دفتر 4 حکایت 87: حضرت با یزید رحمۃ اللہ علیہ کا ”سُبْحَانِیْ مَآ اَعْظَمَ شَانِیْ“ کہنے کا قصہ اور مریدوں کا اعتراض کرنا اور انکا انہیں زبانی نہیں، بلکہ بطورِ مشاہدہ جواب دینا

حصہ دوم

دفترِ چہارم حکایت: 87

قصہ سُبْحَانِیْ مَآ اَعْظَمَ شَانِیْ گفتنِ با یزید قُدِّسَ سِرُّہٗ و اعتراضِ مریداں و جوابِ او مر ایشاں را نہ بطریقِ جوابِ زبان بلکہ از راہِ عیاں

حضرت با یزید رحمۃ اللہ علیہ کا سُبْحَانِیْ مَآ اَعْظَمَ شَانِیْکہنے کا قصہ اور مریدوں کا اعتراض کرنا اور انکا انہیں زبانی نہیں، بلکہ بطورِ مشاہدہ جواب دینا

1

با مریداں آں فقیرِ محتشِم

با یزیدؒ آمد کہ یزداں نک منم

ترجمہ: وہ پُر شوکت فقیر با یزید رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے مریدوں کے سامنے آئے (اور بولے) کہ دیکھو، میں خدا ہوں۔

2

گفت مستانہ عیاں آں ذو فُنون

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنَا ھَا فَاعْبُدُوْنِ

ترجمہ: اس صاحبِ کمالات (شیخ) نے بحالتِ مستی اعلانیہ کہا۔ کہ کوئی معبود نہیں مگر میں، خبردار! پس میری عبادت کرو۔

3

چوں گذشت آں حال و گفتندش صباح

تو چنیں گفتی و ایں نبود صلاح

ترجمہ: جب وہ حال گزر گیا، تو مریدوں نے صبح کے وقت آپ سے کہا۔ آپ نے ایسے لفظ کہے ہیں، اور یہ ٹھیک نہیں۔

4

گفت ایں بار ار کنم ایں مشغلہ

کاردہا در من زنید آں دم ہلہ

ترجمہ: انہوں نے فرمایا اگر اب کے میں نے یہ کام کیا، تو یاد رکھو! کہ میرے جسم میں چھریاں گھونپ دینا۔

5

حق منزَّہ از تن و من با تنم

چوں چنیں گویم بباید کُشتنم

ترجمہ: حق تعالٰی جسم سے پاک ہے، اور میں مجسم ہوں۔ (لہٰذا تسبیح و تنزیہ کا حقدار وہ ہے میں نہیں۔ پس) جب میں یوں کہوں (کہ میں پاک ہوں تو) مجھے قتل کر ڈالنا۔

6

چوں وصیّت کرد آں آزاد مرد

ہر مریدے کاردے آمادہ کرد

ترجمہ: جب اس آزاد مرد نے (یہ) وصیت کی۔ تو ہر مرید نے ایک ایک چھری تیاری کر رکھی۔

7

مست گشت او باز ز استغراقِ زفت

آں وصیتہاش از خاطر برفت

ترجمہ: وہ پھر (تجلی حق کے) اس بڑے جامِ شراب سے مست ہو گئے۔ اور وہ وصیتیں انکے دل سے محو ہو گئیں۔

8

عشق آمد عقلِ او آوارہ شد

صبح آمد شمعِ او بے چارہ شد

ترجمہ: عشق آیا تو انکی عقل بھاگ گئی۔ صبح آئی تو انکی شمع بےکار ہوگئی۔ (چونکہ حضرت با یزید رحمۃ اللہ علیہ نے وہ کلمات غلبۂ عشق میں بحالتِ بے خودی کہے تھے، اس لیے اب مولانا عشق کے ذکر کی طرف انتقال فرماتے ہیں:)

9

عقل خود شحنہ است چوں سلطاں رسید

شحنۂ بے چارہ در کنجے خزید

ترجمہ: عقل (ایک) کوتوال ہے (جو انسانی اخلاق و اطوار کے چوروں کی نگرانی کرتا ہے، اور عشق بادشاہ ہے) جب بادشاہ آیا، تو بے چارہ کوتوال کسی کونے میں جا چھپا۔

10

عقل سایۂ حق بود حق آفتاب

سایہ را با آفتابِ حق چہ تاب

ترجمہ: عقل حق تعالٰی کا سایہ ہے، اور حق تعالٰی آفتاب ہے۔ سایہ کو آفتابِ حق کی (برابری کی) کیا تاب ہے؟

مطلب: مدّعا یہ ہے کہ حضرت با یزید رحمۃ اللّٰہ علیہ اس وقت تجلیِ حق کے مظہر تھے۔ اس لیے وہ قول حق کا تھا۔ حضرت با یزید رحمۃ اللّٰہ علیہ کا نہ تھا، اب مولانا چند نظائر سے اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ ایسے احوال میں انسان کے منہ سے نکلا ہوا کلام کیونکر خدا کا کلام ہو سکتا ہے؟

11

چوں پری غالب شود بر آدمی

گم شود از مرد وصفِ مردمی

ترجمہ: جب جن کسی آدمی میں حلول کر جاتا ہے، تو اس آدمی سے آدمیت کا وصف گم ہو جاتا ہے۔

12

ہر چہ گوید او پری گفتہ بود

زیں سری گر زاں سری گفتہ بود

ترجمہ: جو کچھ وہ (آدمی) کہتا ہے، جن کا قول ہوتا ہے۔ (یعنی) اس (جنکی) طرف سے (جو اس آدمی میں داخل ہے) اگرچہ اس (آدمی کی) طرف سے بولا گیا ہو۔

13

چوں پری را ایں دم و قانوں بود

کردگارِ آں پری خود چوں بود

ترجمہ: جب جن کو یہ حوصلہ اور قاعدہ (حاصل) ہو، تو اس جن کا پروردگار کیسا ہوگا؟

14

اوئے او رفتہ پری خود او شده

تُرک بے الہام تازی گو شدہ

ترجمہ: اس (انسان) کو ہویّت (شخصیت) جاتی رہی، جن ہی وہ بن گیا۔ (چنانچہ تم نے کبھی دیکھا یا سنا ہوگا) کہ ایک (جاہل) تُرک الہام کے بغیر عربی خواں بن گیا۔ (کیونکہ اس وقت اسکے اندر جن بولتا ہے جو عربی خواں ہے۔)

15

چوں بخود آید نداند یک لغت

چوں پری را ہست ایں کار وصفت

ترجمہ: (پھر) جب وہ (ترک) آپے میں آتا ہے، تو (عربی کا) ایک خط نہیں جانتا (ذرا خیال فرمائیے کہ) جب جن میں یہ ہنر اور صفت ہے (تو:)

16

پس خداوندِ پری و آدمی

از پری کے باشدش آخر کمی

ترجمہ: تو جن و انس کا مالک حق تعالٰی شانہٗ جن سے کب کم ہوگا؟ (کہ وہ انسان کی زبان سے تکلّم نہ کر سکے۔)

بحث اہم: ان چھ اشعار میں دو باتیں مندرج ہیں۔ (1) حق تعالٰی کا اپنے کسی خاص بندے کی زبان سے تکلّم فرمانا۔ (2) جنات و شیاطین کا کسی انسان کے جسم میں تصرف کر کے زبان سے تکلّم کرنا، اور یہ بات دعوائے بالا کے ثبوت میں بطور نظیر پیش کی گئی۔ دوسری بات میں جمہور اہلِ سنت متفق ہیں، اور اہلِ اسلام کے علاوہ بہت سے دیگر مذاہب بھی اسکے قائل ہیں، مگر فلاسفہ اور حکماء اس کے منکر ہیں۔ اور اہلِ اسلام میں متقدّمین میں سے معتزلہ جو فلسفۂ یونان سے متاثر اور اسلام کی صحیح تعلیمات سے کم آشنا تھے اسکے قائل نہ تھے، اور آج کل مسلمانوں کی وہ جماعت بھی جو انگریزی تعلیم کی وجہ سے فلسفۂ یورپ سے مانوس ہے، اور جسکو آج کل کے عرف میں نیچری کہتے ہیں اس سے منکر ہیں۔ پہلی بات میں اہل سنت کی کئی جماعتیں مخلتف ہیں۔ صوفیہ کے نزدیک جسطرح جنات و شیاطین انسان کی زبان سے تکلّم کر سکتے ہیں، اسی طرح ملائکہ اور ارواحِ صالحین بھی تکلّم کر سکتی ہیں، بلکہ حق تعالٰی عزوجل کا بھی اپنے کسی برگزیدہ بندے کی زبان سے متکلمانہ ارشاد فرمانا ممکن ہے، مگر اہلِ ظاہر کے نزدیک جنات و شیاطین تو یہ فعل کرتے ہیں، ملائکہ و ارواح صالحین اور حق تعالٰی کا یہ فعل نہیں، بلکہ جہاں کہیں اس قسم کا ادّعا کیا جاتا ہے وہ شیطانی تلبیس ہوتی ہے۔ شیطان بندوں کو بہکانے کے لیے کسی انسان کے جسم میں داخل ہو کر ظاہر کرتا ہے کہ فلاں ولی اللہ یا خود حق تعالٰی ہوں، تاکہ لوگ غیرِ حق کی پرستش سے گمراہ ہوں، اور یہی شیطان کا مقصد ہے۔ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر خوب فیصلہ کن بحث فرمائی ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہ بحث مع ترجمہ یہاں نقل کی جائے۔ فرماتے ہیں:

”تصرف جن و شیاطین در بدنِ آدمی یعنی در روح ہوائی و نسمیہ او، کہ حامل قوی است، و آں را بہ ”صَرْعُ الْجِنّ“ در عربی نامے نامند، و بآں آسیب و خبط در عرف تعبیر مے کنند، نزدِ اہلِ سنت بلکہ اکثر فرقِ اسلام مسلّم است، چنانچہ در تفسیر نیشاپوری وغیرہ در تحتِ آیۂ: ﴿یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ المَسِّ﴾ (البقرۃ: 275) مذکور است، ”وَ اَکْثَرُ الْمُسْلِمِیْنَ عَلَی اَنَّ الشَّیْطَانَ قَادِرٌ عَلَی الصَّرْعِ وَ الْقَتْلِ وَ الْاِیْذَاءِ بِتَقْدِیْرِ اللہِ تَعَالٰی“ و مخالف دریں مسئلہ غیر از فرقِ معتزلہ دیگرے نیست، و آنہا دریں آیۂ توجیہاتِ رکیکہ مے نمائند، چنانچہ در تفاسیرِ آنہا مرقوم ست، و نقلِ آں واہیات بے حاصل۔ در اناجیلِ اربعہ یوحنا و متٰی و غیرہما دہ پانزدہ قصۂ آسیبِ جن و اخراجِ آں از بدنِ مصروع بدمِ عیسوی مذکورست، و در احادیث نیز قدرے کثیر ازیں باب آمدہ، ہرگز کسی را جائے انکار نیست۔ آمدیم بر آنکہ انسان ہم بعد موت ایں کار مے کند یا نہ۔ دریں مسئلہ علمائے اہلِ سنت را اختلاف است۔ اکثر محققین تجویز آں کردہ اند، و بعضے بامتناعِ آں رفتہ۔ دلیل منکراں آنست کہ اگر انسان نیز ایں کار کند باید کہ حقیقتِ او مقلوب بحقیقتِ جن گردد، و انقلابِ حقائق محال است، و نیز اگر انسان صالح است پس ایں نوع ظلم و ایذا چہ قسم از وے بوقوع مے آید کہ خلافِ صلاح است؟ و اگر فاسق است یا کافر پس او از دستِ مؤکلاں عذاب چگونہ خلاص شدہ فرصتِ ایں عمل مے یابد؟ بغابراں مجو زین دریں باب دو گروہ شدہ اند، جماعہ مے گویند کہ ایں از بابِ انقلاب نیست، بلکہ نوعے است از مسخِ اخروی کہ اصلِ آں در آخرت و ما بعد الموت از روئے احادیثِ بسیار ثابت است، و چوں ایں معاملہ از بابِ مسخِ اخروی شد پس خلاص از عذابِ فاسق را چرا لازم آید؟ بلکہ ایں ہم نوعے است از عذاب کہ دران گرفتار است۔ مسلک علمائے حنفیہ ماتریدیہ ہمیں است۔ ملّا معین در شرحِ برزخ کہ از معتمدانِ علمائے ماوراء النہرست مے گوید، اَلْاِنْسَانُ قَدْ یَصِیْرُ جِنًّا فِیْ عَالَمِ الْبَرْزَخِ بِالْمَسْخِ، وَ ھٰذَا تَعْذِیْبٌ وَ غَضَبٌ مِّنَ اللہِ تَعَالٰی عَلٰی مَنْ شَآءَ، کَمَنْ کَانَ یُمْسَخُ فِی الْاُمَمِ السَّابِقَۃِ وَ الْقُرُوْنِ الْمَاضِیَۃِ، رُفِعَ ھٰذَا الْعَذَابُ عَنْ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ الْمَرْحُوْمَۃِ فِیْ عَالَمِ الشَّھَادَۃِ بِبَرَکَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، اِلَّا مَا ھُوَ عَنْ عَلَامَۃِ السَّاعَۃِ الْکُبْرَیٰ فَقَدْ وَرَدَ فِی الْاَحَادِیْثِ الصَّحِیْحَۃِ اَن یَّکُوْنَ فِیْ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ مَسْخٌ وَ خَسْفٌ وَ قَذْفٌ عِنْدَ الْقِیَامَۃِ۔ ذَالِکَ مَسْخُ الْاِنْسَانَ فِی الْبَرْزَخِ یَکُوْنُ غَالِباً فِی الْکُفَّارِ، وَ الْمُؤْمِنِیْنَ الظَّالِمِیْنَ الْمُوْذِیِّیْنَ وَالزَّانِیِّیْنَ وَالْمُغْلِمِیْنَ۔ سِیَّمَا اِذَا مَاتُوْا اَوْ قُتِلُوْا عَلٰی جَنَابَۃٍ۔ کَذَا الْمُرْتَدِّیْنَ غَیْرِ تَائِبِیْنَ، فَلَیْسَ کُلُ مَنْ کَانَ کَذَالِکَ یَکُوْنُ مَمْسُوْخاً، بَلْ مَنْ شَآءُ اللہُ مَسَخَہٗ وَ عَذَّبَہٗ، وَ الْمَسْخُ لَا یَکُوْنُ فِی الصُّلَحَآءِ وَ الْاَوْلِیَآءِ اَصْلًا، وَاِنْ مَاتُوْا عَلٰی جَنَابَۃٍ۔ وَ یَکُوْنَ الْمَسْخُ فِی الْقِیٰمَۃِ کَثِیْراً کَمَا وَرَدَ اَنَّ کَلْبَ اَصْحَابِ الْکَھْفِ یُجْعَلُ بَلْعَماً وَ الْبَلْعَمُ یُجْعَلُ کَلْباً وَ یُدْخَلُ ذَالِکَ فِی الْجَنَّۃِ وَ یُلْقٰی ھٰذَا فِی النَّارِ۔ وَ مِنْ ھٰذَا الْقَبِیْلِ جَعْلُ رَأْسِ مَنْ رَفَعَ اَوْ وَضَعَ رَأْسَہٗ فِی الصَّلوٰۃِ قَبْلَ الْاِمَامِ رَأْسَ حِمَارٍ۔ مِنْہٗ مَسْخُ اٰخِذِ الرِّشْوَۃِ وَ وَاضِعِ الْاَحَادِیْثِ وَ اَمْثَالُ ذَالِکَ کَثِیْرَۃٌ۔(انتھیٰ) و جماعۃ دیگر مے گویند کہ ایں از بابِ انقلاب است نہ از بابِ مسخ است، بلکہ نوعی است از مشابہت در افعال و حرکات کہ اصنافِ مختلفہ را با هم بہم مے رسد، بمنزلہ آنکہ در دورہ روہیلہا جماعہ از ہندیاں دستار کج بستہ و زلفین را آویختہ چند لفظ پشتو آموختہ خود را روہیلہ وضع کردند، و مانند آنہا خشونت در معاملات و ضرب و شلاق بے موجب بعمل مے آوردند۔ کَذَا ھٰذَا۔ وبحکم ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ“ (أبوداؤد: 4131) آن افرادِ انسان را کہ کارِ جنیاں مے کنند در عرف خبیث مے گویند، و بہندی بھوت مے نامند، بے آنکہ تغیرے در حقیقتِ آنہا واقع شود۔ ہمیں است کہ اکثر علمائے عراق و عرب ایں را مسلک مختار گفتہ اند۔ وَ ھُوَ الْاَقْوَیٰ وَالْاَصَحُّ نَظْراً اِلَی الدَّلِیْلِ، وَ اِلَیْہِ کَانَ یَمِیْلُ سَیِّدِی الْوَالِدُ قُدِّسَ سِرُّہٗ فِیْ اِثْنَاءِ الْبَحْثِ فِیْ ھٰذِہِ الْمَسْئَلَۃِ کَمَا وَقَعَ مِرَاراً عَدِیْدَۃً۔ (فتاویٰ عزیزیہ جلد اول ص: 110) ”جن و شیاطین آدمی کے بدن یعنی اسکی روح ہوائی اور نسمیہ میں، جو قوّتوں کی حامل ہے تصرف کرنا۔ جسکو عربی میں صرعُ الجنکہتے ہیں، اور عرف میں آسیب اور خبط سے تعبیر کرتے ہیں، اہلِ سنت بلکہ اکثر فرقہائے اسلام کے نزدیک مسلّم ہے، چنانچہ تفسیر نیشاپوری وغیرہ میں اس آیت کے تحت: ﴿یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ المَسِّ﴾ (البقرۃ: 275) میں یوں مذکور ہے، ”اور اکثر مسلمان مانتے ہیں کہ شیطان اللہ تعالٰی کی تقدیر کے ساتھ صرع اور قتل اور ایذا پر قادر ہے۔“ اور اس مسئلہ میں سوائے معتزلہ کی جماعتوں کے اور کوئی مخالف نہیں، اور وہ اس آیت کی کمزور تاویلیں کرتے ہیں، چنانچہ وہ انکی تفاسیر میں مرقوم ہیں، اور انکی نقل فضول و لاحاصل ہے۔ یوحَنّا و متٰی وغیرہ کی چاروں انجیلوں میں دس پندرہ قصّے آسیبِ جن کے اور بدنِ مصروع سے دمِ عیسوی کے ساتھ اسکے نکالنے کے مذکور ہیں، اور احادیث میں بھی اس بارہ میں بکثرت روایات آئی ہیں، ہرگز کسی انکار کی گنجائش نہیں۔ اب ہم بتاتے ہیں کہ انسان بھی مرنے کے بعد یہ کام کرتا ہے یا نہیں۔ اس مسئلے میں علمائے اہلِ سنت کا اختلاف ہے۔ اکثر محققین نے اسکو تسلیم کیا ہے، اور بعض اسکے عدمِ امکان کی طرف گئے ہیں۔ منکروں کی دلیل یہ ہے کہ اگر انسان بھی یہ کام کرے تو چاہیے کہ اسکی حقیقت جن کی حقیقت میں بدل جائے، حالانکہ انقلابِ حقائق محال ہے، اور نیز اگر انسان صالح ہے تو اس طرح کا ظلم و ایذا اس سے کیونکر وقوع میں آ سکتا ہے جو نیکی کے خلاف ہے؟ اور اگر فاسق یا کافر ہے تو وہ مؤکلان عذاب کے ہاتھ سے کیونکر نجات پا کر اس کام کی فرصت پاتا ہے؟ اس بناء پر اسکو تسلیم کرنے والوں کی دو جماعتیں ہوگئیں، ایک جماعت کہتی ہے کہ یہ انقلاب کی قبیل سے نہیں، بلکہ ایک طرح سے مسخِ اخروی ہے جسکی اصل آخرت میں اور موت کے بعد ازروئے احادیثِ کثیرہ کے ثابت ہے، اور جب یہ معاملہ مسخِ اخروی کی قبیل سے ہوا تو فاسق کی عذاب سے نجات کیونکر لازم آئے؟ بلکہ یہ بھی ایک طرح کا عذاب ہے جسمیں وہ گرفتار ہے۔ علمائے حنفیہ ماتریدیہ کا مسلک یہی ہے۔ ملّا معین جو متعمد علمائے ما وراء النہر سے ہیں شرحِ برزخ میں کہتے ہیں، ”انسان کبھی عالمِ برزخ میں مسخ کے ساتھ جن بن جاتا ہے، اور یہ اللہ تعالٰی کا غضب اور عذاب ہے جس پر وہ (نازل کرنا) چاہتا ہے، جسطرح وہ اممِ سابقہ اور قرونِ ماضیہ میں (مجرموں کو بندر اور سور بنا دیتا تھا،) مگر اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے عالمِ شہادت میں اس امتِ مرحومہ سے یہ عذاب رفع فرما دیا، مگر وہ جو قیامت کی بڑی علامات سے ہے چنانچہ احادیثِ صحیحہ میں وارد ہے کہ اس امت میں قیامت کے وقت صورت بدلنے اور زمین میں دھنس جانے اور پتھر گرنے کے واقعات ہوں گے۔ وہ مسخِ انسان برزخ میں غالباً کفار، اور مومنین ظالمین یعنی موذی و زانی و اغلام باز لوگوں میں ہوگا۔ خصوصاً جو بحالتِ جنابت مر جائیں یا قتل ہو جائیں۔ اسی طرح مرتد جو توبہ نہ کریں، پس یہ لازم نہیں کہ ہر شخص جو ایسا ہو وہ ممسوخ ہو جاتا ہے، بلکہ جس کو اللہ تعالٰی مسخ کرنا اور عذاب دینا چاہتا ہے، اور صلحاء و اولیاء میں بالکل مسخ نہیں ہوتا، اگرچہ وہ جنابت کی حالت میں وفات پائیں۔ اور قیامت میں مسخ بہت ہو گا جیسے کہ وارد ہے اور اصحابِ کہف کے کتے کو بلعم بنا دیا جائے گا اور بلعم کو کتا بنا دیا جائے گا۔ اس کو جنت میں داخل کیا جائے گا اور اس کو دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ اور اس قبیل سے ہر شخص کا سر گدھے کا سا بنایا جانا جو امام سے پہلے سر اٹھائے یا رکھے۔ اور اسی قبیل سے ہے رشوت خور اور واضع احادیث کا مسخ اور بھی اس کی امثال بہت ہیں۔“ انتہٰی۔ اور ایک اور جماعت کہتی ہے کہ یہ نہ انقلاب کے باب سے ہے اور نہ مسخ کی قبیل سے ہے، بلکہ ایک طرح کی مشابہت ہے جو مختلف اصناف کے افعال و حرکات میں پیدا ہو جاتی ہے، جیسے کہ رہیلہ قوم کے عہد میں ہندی لوگوں کی ایک جماعت ٹیڑھی پگڑی باندھ کر اور زلفیں لٹکا کر چند لفظ پشتو کے سیکھ لیتے اور اپنے آپ کو روہیلہ بنا لیتے، اور ان کی طرح معاملات میں سختی اور مار پیٹ بے وجہ عمل میں لاتے۔ اسی طرح یہ ہے۔ اور بمضمون اس حدیث کے کہ ''جو شخص کسی قوم کے ساتھ مشابہت پیدا کرتا ہے پس وہ انہی میں شمار ہوتا ہے'' ان افرادِ انسان کو جو جنوں کے سے کام کرتے ہیں عرف میں خبیث کہتے ہیں، اور ہندی میں بھوت نام رکھتے ہیں، بدوں اس کے کہ ان کی حقیقت میں کوئی تغیر واقع ہو۔ یہی مسلک ہے جس کو اکثر علمائے عراق و عرب نے مختار کہا ہے۔ ”اور وہ زیادہ قوی اور زیادہ صحیح ہے بلحاظ دلیل کے، اور سیدی والد قُدِّسَ سِرُّہٗ بھی اس مسئلہ کی بحث کی اثناء میں اسی طرف مائل تھے جیسے کہ کئی بار واقع ہوا ہے۔“

شاہ صاحب موصوف ایک سائل کے خط کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

”در مسئلہ بروز و تناسخ آنچہ از کتب منقول نمودہ بودند و فرقیکہ درمیانِ بروز و تناسخ نوشتہ بودند نیز صحیح بلکہ نزد صوفیہ ایں نوع تصرف یعنی بروز روح در روح حی یا میت در اصل از خواص حقیقۃ الحقائق تعالٰی و تقدس است، و چوں نسبتِ او تعالٰی با مخلوقات نزد ایشاں نسبت ظاہر بمظاہر، و قیومیت است در مخلوقات نیز ایں نوع تصرف ثابت است۔ آرے صدور ایں نوع تصرف در بعضے مخلوقات کہ ملائکہ و جنیاں باشند عادی و مطرد است، و در بعضے دیگر مخلوقات کہ ارواحِ بنی آدم اند خارقِ عادت، و در قصص اولیاء ازیں باب چیزے بسیار منقول است۔ و خود شیخِ اکبر ازیں باب قدرے کافی روایت کردہ اند۔ و مشارکتِ ارواح بنی آدم بارواحِ جنیاں مثلِ شیخ سدو وغیرہ دریں باب موجبِ نقصانے و قدحے نمی شود۔ چہ مشارکت در تمثیل و تشکیل باشکالِ مختلفہ فیما بین ملائکہ و شیاطین ثابت است، و از اولیاء ہم بسیار منقول است۔ چنانچہ قصہ چہل غزل سید علی ہمدانی قُدِّسَ سِرُّہٗ وغیرہ ازاں باب است، و اصلاً موجب قدح و نقصان ملائکہ و اولیاء نمی گردد، اگر شیاطین را بسببِ اقتضائے نشاۃِ خود ایں قدر مشابہت با ملائکہ و اولیاء حاصل شود چہ باک؟ کہ نیکاں و بداں از ہر جنس باہم در امورِ بسیار شریک اند و می باشند۔ مثل مشہور است کہ ۔ع۔ آنچہ آدم مے کند بوزینہ ہم۔ فرق اینست کہ شیاطین مثل شیخ سدو وغیرہ ایں تصرّف را برائے ایذائے بنی آدم، و بقصدِ تالّہ و طلبِ عبادت و نذر و قرابین برائے خود مے کنند، و ارواحِ مقدسہ برائے القائے علمے، یا احداثِ کیفیتے محمودہ در روح قابل ایں عمل مے نمایند، و بیشتر مدارِ فرق در نیکاں و بداں بقصد و عزائم و نیات ملکہ صالحہ و خبیث مے باشد، ورنہ در صورت عملِ شہداء و کافران در استعمالِ سلاح، و اجراءِ سیف و سنان و قواعد شناسی، فروسیت یکساں مے باشد۔ تفاوتیکہ فیما بین الفریقین است از راہِ حُسنِ نیت و خبیثہ آنست و بس۔ مشابہتِ ایں عملِ ارواحِ مقدسہ با عمل شیخ سدو وغیرہ از شیاطین و تشبہ یک عمل با عملِ دیگر چنداں نزد صوفیہ مستبعد نیست، بلکہ برائے تفہیمِ ایں تمثیل در ارواحِ ایشاں جا بجا مذکور ست۔ حتی در حقِ حضرت مقدسہ ربوبیت، چہ جائے ارواحِ دیگر در نائبہ شیخ ابن فارض مصری علیہ الرحمۃ واقع است۔ و مولانا رومی قُدِّسَ سِرُّہٗ در مثنوی شریف ہماں معنٰی را بفارسی مے فرمائند۔مثنوی ؎

چوں پری غالب شود بر آدمی

گم شود از مردہ وصفِ مردمی

چوں پری را ایندم و قانون بود

کردگار آں پری خود چوں بود

و کنہ آں مقام آن ست کہ نسبتے کہ روح را با بدنِ خود از قیومیت مے باشد، مے تواند کہ روحِ دیگر را کہ اوسع و اقرب باطلاق ازیں روح است بایں روح بہم مے رسد۔ و آں روح حکم روح الروح او پیدا کند۔ و ہر قدر وسعت و اطلاق زیادہ تر شود، ایں تصرف زیادہ تر بروز نمائد۔ حتّٰی کہ در حقیقت الحقائق کہ روح جمیع ارواح است۔ ایں معنٰی اتم و اوفر متحقق مے باشد، و ازاں جناب بر ہر روح ایں تصرف فائز مے تواند شد، آرے استعداد قابلِ شرط است۔ اینست آنچہ بر قواعدِ تصوف منطبق مے تواند شد۔ اما علمائے ظاہر ایں قسم را حمل مے کنند بر تلبیساتِ شیاطین و جن، زیرا کہ ایں نوع تصرفِ ایشیاں را بالاجماع ثابت است۔ پس ایشاں در روحے از ارواحِ ایں نوع تصرف مے نمائند، و گاہے نام یکے از بزرگاں مے گیرند، تا مردم بانکار برنخیزند، و بتعظیمِ پیش آئند، و کلامِ ایشاں را باعتقاد بشنوند، دانستنِ مسائلِ تصوف و مضامینِ خصوص نزدیک جنیاں و شیاطین سہل کار ہست۔ آرے بعضے از شیاطین بایں نوع تصرف صریح اغوا تصدی کنند۔ و نزدِ خواص تلبیسِ ایشاں پیش نمی رود، و بعضے ازینہا در پردۂ ارشاد و تعلیم خوگر کردن، مردم برجوع بسوئے خود قصد مے نمایند، و دریں تلبیسِ خاص نیز در رنگِ عوام اشتباہ پیدا مے کنند۔ و بنا بر ہمیں نام کسے از بزرگان و اکابر مے گیرند۔ و در زمانِ جاہلیت آمدن شیاطین بر بعضے اشخاص بہمیں وضع مثل سنق و سطیح و دیگر کاہناں آں وقت قریب بتواتر آں جا رسیدہ۔ جائے انکار نیست۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابْ۔ و دلیل علمائے ظاہر دریں دعویٰ آنست کہ اگر ایں نوعِ تصرف از ارواحِ طیبہ انبیاء علیہم السّلام و اولیاء یا ملائکہ یا حضرتِ حق واقع است۔ حال آنکہ بالقطع والیقین ایں نوع تصرف از شیاطین و ارواحِ خبیثہ واقع است۔ تلبّسِ عظیم لازم آید، و اشتباہِ قوی۔ رو و مدد و دجاجلہ را ممکن مے شود کہ بروز روح مقدسہ را در خود ادعا نمایند و بر اقوال و افعال آنہا جائے انکار نہ شود۔ و افحام اہلِ حق لازم آید۔ بلکہ دجالِ اکبر را کہ بر بروزِ حضرتِ بحق بخود ادعاء خواہد نمود۔ اسکات و الزام ممکن نشود۔ و قصصے کہ از اولیاء دریں باب منقول ست چنانچہ در نفحات در ذکر اوحد الدین کرمانی است ہمچنیں در فتوحاتِ شیخ اکبر۔ پس آں ہمہ قصصِ اولیاء در حیات است، کہ بروحِ زندہ دیگر تصرف کردہ او را معطل ساختند۔ و بجائے او نطق و تکلّم کردہ۔ و ایں معنٰی جائے اشتباہ نیست کہ در حالتِ حیات اگر شخصے ادعاء بروز روحی از ارواحِ زندگان نماید قولے و فعلے ازو صادر شود، بآں زندہ رجوع کردہ حل شبہ مے تواں کرد۔ بخلاف ارواحے کہ در برزخ اند یا ملائکہ یا حضرت حق جَل و علا۔ و اہلِ مشربِ تصوف کہ تجویز بروز ارواح اولیاء مطقاً خواہ زندہ خواہ مردہ مے نمایند۔ ازیں دلیل چنیں جواب مے گویند کہ اشتباہ و تلبّس چوں سریع الارتفاع باشد و قریب الزوال ازاں باکے نیست۔ و ایں تلبس و اشتباہ از ہمیں قبیل است، کہ بادنٰی رجوع بدلائلِ کتاب و سنت و احکامِ شریعہ مرتفع مے شود۔ افعال و اقوال آن کس را باید کہ ہر معیارِ شرعیت حمل نمایند، اگر مطابق آں باشد بروز روحِ پاک است، و اگر بخلاف آں باشد بروز روحِ خبیث است۔ و نیز مے گویند کہ ایں نوع تلبس و اشتباہ در خرقات ابلیسی ہفت ملکہ ذوقِ الٰہی و تمنیِ شیطان و الہامِ ملکی و وسوسہ شیطانی و تمثیلِ بشری کہ از ملک و جن شیاطین مے شود نیز واقع است۔ و آنچہ از طریقِ رفعِ ایں تلبس و اشتباہ در آں جا بکار بردہ مے شود دریں جا ہم جاری خواہد شد، ”وَ مَا ھٰذَا بِاَوَّلِ قَارُوْرَۃٍ کُسِرَتْ“ بالجملہ طریقِ اسلم ہمیں است کہ امکان را ہر قاعدہ تصوف انکار نباید نمود، و وقوع را کہ محلِ اشتباہ است اسلم نباید داشت۔ کہ دلیلے بر آں سوائے ایں دو سہ نقل بر وقوع قائم نیست۔ و بروز کمونی کہ مجمع علیہ صوفیہ است و رائے ایں نوعِ صور بسیار دارد کہ در کتبِ تصوف مشروع است۔ اما از شواہد ایں بروز در کتبِ حدیث قصّہ زید بن خارجہ است، کہ ابو بکر بن ابی الدنیا فی کتاب من عاش بعد الموت و قاضی ابو بکر بن فحلہ و دیگر محدثین روایت کردہ اند، کہ بعد از موت و قبل از دفن روحِ او با بدن متعلق شدہ آوازے کرد، مضمونش آنکہ ”مُحَمَّدٌ رّسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم النَّبِیُ الْاُمِّیُّ خَاتَمُ النَّبِیِّنَ لَانَبِیَّ بَعْدَہٗ۔ کَانَ ذَالِکَ فِی الْکِتَابِ الْاَوَّلِ ثُمَّ قَالَ الْقَائِلُ عَلٰی لِسَانِہٖ صَدَقَ۔ ثُمَّ قَالَ اَبُوْبَکَرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ خَلِیْفَۃُ رَسُوْلِ اللہِ، اَلصِّدِّیْقُ الْاَمِیْنُ، الَّذِیْ کَانَ ضَعِیْفاً فِیْ جَسَدِہٖ قَوِیًّا فِیْ اَمْرِ اللہِ۔ کَانَ ذَالِکَ فِی الْکِتَابِ الْاَوَّلِ، ثُمَّ قَالَ الْاَوْسَطُ، اُجَلِّداً بِقَوْمٍ، اَلَّذِیْ کَانَ لَایَخَافُ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ، اَلَّذِیْ کَانَ یَمْنَعُ النَّاسَ اَن یَّاْکُلَ قَوِیُّھُمْ ضَعِیْفَھُمْ، عَبْدُاللہِ عُمَرُ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ کَانَ ذَالِکَ فِی الْکِتَابِ الْاَوَّلِ، ثُمَّ قَالَ الْقَائِلُ عَلٰی لِسَانِہٖ صَدَقَ صَدَقَ، ثُمَّ قَالَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ، وَ ھُوَ رَحِیْمٌ بِالْمُؤْمِنِیْنَ، وَھُوَ یُعَافِی النَّاسَ مِنْ ذُنُوْبٍ کَثِیْرَۃٍ اِلٰی آخِرِ الْقِصَّۃِ“ و ازیں قصہ معلوم مے شود کہ درانجا بروز دو روح شدہ بود۔ یکے از آنہا روح زید بن خارجہ کہ با بدنِ خود متعلق شدہ تکلّم مے کرد۔ و دوم روحے دیگر بود کہ بعد از ہر کلام او را تصدیق مے کرد ہم بر زبانِ او۔ پس بروز متنازعہ فیہ ثابت شدہ۔ و در کتبِ حدیث قصہ دیگر نیز ہمیں وتیرہ وارد است کہ الفاظ آں بیاد نیست۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابْ (فتاوٰی عزیزی جلد اول صفحہ: 112)

ترجمہ: ”بروز اور تناسخ کے مسئلے میں جو بات آپ نے کتاب سے نقل کی تھی درست ہے اور وہ فرق بھی جو بروز اور تناسخ کے درمیان لکھا تھا صحیح۔ بلکہ صوفیہ کے نزدیک اس قسم کے تصرف یعنی کسی روح کا دوسرے زندہ یا مردہ انسان کی روح میں ظاہر ہونا دراصل حقیقۃ الحقائق تعالٰی و تقدس کے خواص سے ہے، اور جب حق تعالٰی کی نسبت مخلوقات کے ساتھ انکے نزدیک ظاہر کی نسبت مظاہر کے ساتھ، اور قیومیت مخلوقات میں ہے تو اس قسم کا تصرف ثابت ہے۔ ہاں اس قسم کے تصرف کا صدور بعض مخلوقات میں جو ملائکہ اور جنات ہیں عادی اور عام ہے، اور بعض دوسر ے مخلوقات میں جو بنی آدم کی ارواح ہیں خارق عادت ہے، اور اولیاء کے قصوں میں اس بارہ میں بہت کچھ منقول ہے۔ اور خود شیخ اکبر نے اس بارہ میں بقدر کافی بیان کیا ہے۔ اور ارواحِ بنی آدم کی مشارکت ارواحِ جنات مثل شیخ سدو وغیرہ کے ساتھ اس باب میں موجبِ نقصان و حرج نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ مختلف شکلوں صورتوں کے اختیار کرنے میں ملائکہ و شیاطین میں مشارکت ثابت ہے، اور اولیاء سے بھی منقول ہے۔ چنانچہ قصہ چہل غزل سید علی ہمدانی قدس سرہ وغیرہ اسی قبیل سے ہے، اور ہرگز ملائکہ اور اولیاء پر قدح اور ان کے نقصِ شان کا موجب نہیں ہو سکتا، اگر شیاطین کو اپنی پیدائش کے تقاضے سے ملائکہ اور اولیاء کے ساتھ اس قدر مشابہت حاصل ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ کیونکہ نیک اور بد لوگ ہر جنس سے آپس میں بہت سے امور کے اندر شریک ہیں اور ہوتے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ جو کچھ آدمی کرتا ہے بندر بھی کرتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ شیاطین مثل شیخ سدو وغیرہ یہ تصرف بنی آدم کے ستانے، اور اپنے لیے دعویٰ خدائی اور طلبِ عبادت اور نذر و قربانی چاہنے کے لیے کرتے ہیں، اور ارواحِ مقدسہ اس لیے کرتے ہیں کہ کسی ایسی روح میں کوئی علم القاء کریں، یا کوئی اچھی کیفیت پیدا کریں جو اس عمل کے قابل ہو، اور نیکوں اور بدوں کے قصد و عزائم اور نیتوں کے فرق کا مدار زیادہ تر ان کے نیک یا نا پاک ہونے پر ہوتا ہے، ورنہ بظاہر شہیدوں اور کافروں کا عمل ہتھیار استعمال کرنے، اور تیغ اور نیزہ چلانے اور قواعد جاننے، اور سواری کرنے میں یکساں ہوتا ہے۔ اور وہ فرق جو دونوں فریقوں میں ہے وہ اچھی یا بری نیت کی رو سے ہوتا ہے اور بس۔ ارواحِ مقدسہ کے اس عمل کی مشابہت شیخ سدو وغیرہ شیاطین کے عمل کے ساتھ اور ایک عمل کا دوسرے عمل سے مشابہ ہونا صوفیہ کے نزدیک چنداں بعید نہیں، بلکہ انکی ارواح میں یہ مثال سمجھانے کے لیے جا بجا مذکور ہے۔ حتّٰی کہ حضرت مقدسہ ربوبیت کے حق میں، چہ جائیکہ دوسری ارواح کے لیے نائبہ شیخ ابن فارض مصری علیہ الرحمۃ میں واقع ہے۔ اور مولانا رومی قُدِّسَ سِرُّہٗ مثنوی شریف میں اسی معنٰی کو فارسی میں فرماتے ہیں: (ترجمہ) ”جب جن آدمی پر غالب ہوتا ہے تو آدمی سے آدمیت کا وصف نابود ہو جاتا ہے۔ جب جن کو یہ قاعدہ اور حوصلہ حاصل ہو تو اس جن کے خالق کو کیا کچھ نہ ہوگا؟“ اور اس مقام کا راز یہ ہے کہ جو نسبت روح کو اپنے بدن کے ساتھ قیومیت کے لحاظ سے ہوتی ہے، ممکن ہے کہ وہی نسبت کسی اور روح کو جو اس روح سے مطلقاً زیادہ وسعت و قرب رکھتی ہو اور اس روح کے ساتھ حاصل ہو جائے۔ اور وہ روح، روح الروح کا حکم پیدا کرلے۔ اور جس قدر وسعت و اطلاق زیادہ ہو، یہ تصرف زیادہ تر ظہور پاتا ہے۔ حتّٰی کہ حقیقت الحقائق میں جو تمام ارواح کی روح ہے۔ یہ معنٰی زیادہ کامل اور زیادہ وافر متحقق ہوتے ہیں، اور حضرت الوہیت سے ہر روح پر یہ تصرف فائز ہو سکتا ہے، ہاں قابل کی استعداد شرط ہے۔ یہ ہے وہ بات جو قواعدِ تصوف پر چسپاں ہوسکتی ہے۔ لیکن علمائے ظاہر اس قسم کو تلبیساتِ شیاطین و جن پر حمل کرتے ہیں، کیونکہ اس قسم کا تصرف انکے نزدیک بالاجماع ثابت ہے۔ پس یہ (جنات و شیاطین) کسی روح میں اس قسم کا تصرف کرتے ہیں، اور کبھی نام کسی بزرگ کا لیتے ہیں، تاکہ لوگ انکار پر آمادہ نہ ہو، اور تعظیم کے ساتھ پیش آئیں، اور انکے کلام کو اعتقاد کے ساتھ سنیں، اور مسائلِ تصوف اور مضامینِ فصوص کو سمجھ لینا جنات و شیاطین کے نزدیک ایک آسان کام ہے۔ ہاں بعض شیاطین اس قسم کے تصرف سے صریحاً گمراہ کرنے کا قصد کرتے ہیں۔ اور خاص لوگوں پر انکا فریب نہیں چل سکتا، اور ان میں سے بعض ارشاد و تعلیم کے پردہ میں لوگوں کو اپنی رجوع کا خوگر کرنے کا قصد کرتے ہیں، اور اس تلبیس میں خاص لوگ بھی عوام کی طرح مبتلائے شک ہو جاتے ہیں۔ اور اس لیے وہ اکابر و بزرگان میں سے کسی کا نام لیتے ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں بعض اشخاص مثل سنق و سطیح وغیرہ اس وقت کے کاہنوں پر شیاطین کا اسی طرح کرنا تواتر کے قریب پہنچ چکا ہے۔ انکار کی گنجائش نہیں۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابْ

اور علمائے ظاہر کی دلیل اس دعویٰ میں یہ ہے کہ اگر اس قسم کا تصرف انبیاء علیہم السّلام و اولیاء کی ارواح یا ملائکہ یا حضرتِ حق سے واقع ہے۔ حالانکہ حتماً و یقیناً اس قسم کا تصرف شیاطین و ارواحِ خبیثہ سے واقع ہے۔ نہایت سخت التباس لازم آئے، اور شدید اشتباہ واقع ہو۔ اور دجّالوں کے لیے آسانی ہو جائے کہ اپنے اندر کسی مقدس روح کے بروز کا دعوٰی کریں اور انکے اقوال و افعال پر انکار کرنے کی گنجائش نہ رہے۔ اور اہلِ حق کا لاجواب ہونا لازم آئے۔ بلکہ دجّالِ اکبر کو خاموش و لاجواب کرنا ممکن نہ ہو جو اپنے اندر حضرتِ حق کے بروز کا دعویٰ کرے گا۔ اور جو قصے اس بارہ میں اولیاء سے منقول ہے جیسے نفحات میں اوحد الدین کرمانی کے ذکر میں ہے اسی طرح فتوحاتِ شیخ اکبر میں۔ پس اولیاء کے وہ سب قصے زندگی سے متعلق ہیں، کہ انہوں نے کسی زندہ کے روح میں تصرف کر کے اسکو معطل کر دیا۔ اور اسکے بجائے گفتگو کی۔ اور اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر زندگی میں کوئی شخص کسی زندہ کی روح کے بروز کا دعویٰ کرے اور اس سے کوئی قول اور فعل صادر ہو، تو اس زندہ کی طرف رجوع کر کے شبہ کو حل کر سکتے ہیں۔ بخلاف ان ارواح کے جو برزخ میں ہیں یا بخلاف ملائکہ کے یا حضرتِ حق جل و علا کے۔ اور مشرب تصوف والے جو ارواحِ اولیاء کے بروز کو مطلقاً جائز سمجھتے ہیں خواہ زندہ ہو یا مردہ۔ اس دلیل کا جواب یوں دیتے ہیں کہ اشتباہ و التباس جب فوراً رفع ہو جانے والا اور جلدی زائل ہو جانے والا ہو تو اس کا مضائقہ نہیں۔ اور تلبّس اور اشتباہ اسی قسم کا ہے، کہ دلائل کتاب و سنت و احکام شرعیہ کی طرف ادنٰی رجوع کرنے سے مرتفع ہو سکتا ہے۔ اس شخص کے اقوال و افعال کو معیارِ شریعت سے پرکھنا چاہیے، اگر اسکے مطابق ہوں تو کسی پاک روح کا بروز ہے، اور اگر اسکے خلاف ہوں تو خبیث روح کا بروز ہے۔ اور نیز کہتے ہیں کہ اس قسم کا التباس و اشتباہ خرقاتِ ابلیسی اور ہفت ملکہ ذوقِ الٰہی اور تمنی شیطان اور الہامِ ملکی اور وسوسہ شیطانی اور تمثیلِ بشری میں بھی جو فرشتہ اور جن و شیاطین سے ہوتی ہے واقع ہے۔ اور جو طریقہ اس التباس و اشتباہ کو رفع کرنے کے لیے وہاں کام میں لایا جاتا ہے یہاں بھی جاری ہوسکے گا، اور یہ مشکل صرف اسی ایک جگہ پیش نہیں آتی۔ غرض سلامت طریقہ یہی ہے کہ اس بات کا جو قاعدہ تصوف پر ممکن ہے انکار نہ کرنا چاہیے، اور اسکے وقوع کو جو محلِ اشتباہ ہے جرح سے محفوظ بھی نہ سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ سوائے ان دو تین نقلی باتوں کے اور کوئی دلیل اس کے وقوع پر قائم نہیں۔ اور بروز کمونی جس پر صوفیہ کا اتفاق ہے اس قسم کے سوا بہت سی صورتیں رکھتا ہے جو کتبِ تصوف میں بتفصیل مذکور ہیں۔ لیکن اس بروز کی تائید کتبِ حدیث میں زید بن خارجہ کے قصے سے ہوتی ہے، جسکو ابو بکر بن ابی الدنیا نے کتاب من عاش بعد الموت میں اور قاضی ابو بکر بن فحلہ اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے، کہ انکی روح نے موت کے بعد اور دفن سے پہلے بدن کے ساتھ متعلق ہو کر گفتگو کی، جسکا مضمون یہ ہے کہ ”محمد اللہ کے رسول ہیں صلی اللہ علیہ وسلم، وہ نبی امی ہیں خاتم النبین ہیں ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ یہ بات اللہ کی پہلی تحریر میں ہے، پھر کسی کہنے والے نے ان کی زبان پر کہا، سچ کہتا ہے۔ پھر کہا ابو بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہیں، صدیق ہیں امانت دار ہیں، جو اپنے جسم میں کمزور تھے اور اللہ کے معاملے میں طاقتور تھے۔ یہ بات اللہ کی پہلی تحریر میں ہے، پھر کہنے والے نے ان کی زبان پر کہا سچ کہتا ہے، سچ کہتا ہے، پھر کہا وہ درمیانہ آدمی، لوگوں میں سے زیادہ دلیر، جو اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے سے نہیں ڈرتے تھے، جو لوگوں کو اس سے باز رکھتے تھے کہ کوئی طاقتور کمزور کو کھا جائے۔ اللہ کے بندے عمر امیر المومنین تھے۔ یہ بات اللہ کی پہلی کتاب میں ہے، پھر کہنے والے نے ان کی زبان پر کہا سچ کہتا ہے سچ کہتا ہے، پھر کہا عثمان امیر المومنین ہیں، اور وہ مسلمانوں پر رحم کرنے والے ہیں، اور وہ لوگوں کے بہت سے گناہ معاف کرتے ہیں۔۔۔الخ۔“ اور اس قصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں دو روحوں کا بروز ہوا تھا۔ ایک ان میں زید بن خارجہ کی روح جو اپنے بدن سے متعلق ہو کر بولتی تھی، اور دوسری کوئی اور روح تھی جو ان کی ہر بات کے بعد انہی کی زبان سے تصدیق کرتی تھی۔ پس بروز متنازع فیہ ثابت ہو گیا۔ اور کتبِ حدیث میں ایک اور قصہ بھی اسی وتیرہ پر وارد ہے جس کے الفاظ یاد نہیں۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابْ“

اس بحث کی نقل کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے موضوع لہ اور مصداق کے متعلق بھی چند الفاظ سپردِ قلم کر دیے جائیں۔ بروزِ ارواح کے عجیب و غریب واقعات بہت سے لوگوں نے دیکھے یا سنے ہوں گے۔ مثلاً ایک ان پڑھ آدمی پر ایک حالت طاری ہوتی ہے اور وہ اہلِ ذوق فارسی خوانوں کی طرح دیوان حافظ کی غزلوں کی غزلیں سنانے لگتا ہے۔ ایک جاہل اور گنوار عورت پر یہ کیفیت رونما ہوتی ہے اور وہ حافظوں کی طرح قرآن مجید کے کئی کئی رکوع عمدہ قرات کے ساتھ پڑھ دیتی ہے۔ ناظرین کے ازدیادِ بصیرت کے لیے راقم ایک چشم دید واقعہ بیان کرتا ہے۔ ”عرصہ ہوا میں ایک مدرسہ میں مدرس تھا۔ میرا ایک شاگرد قوم کا برہمن بعمر تیرہ چودہ سال بہت نیک مزاج، کم گو اور شریفانہ طبیعت کا لڑکا تھا۔ مجھے کبھی بھی اس سے کسی قسم کی کودکانہ شرارت و شوخی یا اوچھی باتیں دیکھنے کا موقع نہیں ہوا۔ ناگہاں سنا گیا کہ وہ بیمار ہو گیا بیماری بھی کیا تھی کہ اس پر ایک خاص نئی حالت طاری ہوگئی جس میں وہ اپنے آپ کو ایک سید بزرگ بتاتا تھا اور بڑے وقار و تمکنت کے لہجہ میں جو اس کمسن لڑکے سے کسی طرح بھی متوقع نہیں ہو سکتا تھا۔ لوگوں سے مخاطب ہو کر ناصحانہ و مصلحانہ تقریریں کرتا تھا۔ لوگوں کا ایک جم غفیر اس کے پاس جمع رہتا، حاضرین میں جتنے منہ اتنی باتیں، کوئی غیب کی باتوں کا سوال کرتا کوئی مذہبی بحث چھیڑتا، کوئی علمی نکتہ پیش کرتا، کوئی کسی تاریخی عقدہ کا حل چاہتا۔ یہ لڑکا بھی ایک عالم متبحر کے انداز میں سب کو مُسکت و شافی جواب دیتا جاتا، بعض کج بحث اشخاص زیادہ اڑتے تو عجیب تماشہ ہوتا۔ یہ لڑکا ان کو یہ کہہ کر تم بحث کرنے کا کیا منہ رکھتے ہو۔ ان کے کسی مخفی اخلاقی قصور پر جس کا خود اس شخص کے سوا کسی کو بھی علم نہ ہو سکتا تھا، ٹوک دیتا، جس سے وہ شرمندہ ہو کر دم بخود رہ جاتا۔ یہ حالت اس پر شام کو چند مخصوص ساعت تک رہتی تھی۔ پھر وہ اپنی اصلی حالت میں آ جاتا، مگر ان دنوں وہ غیر معمولی طور سے پاک و صاف اور غسل و طہارت کا پابند رہنے لگا تھا، ایک دو روز وہ اسکول میں بھی حاضر ہوا، کلاس میں بیٹھا تھا۔ میں نے اسکا نام لیکر کہا پرشوتم داس! یہ تم نے شہر بھر میں کیا تماشا برپا کر رکھا ہے؟ اس نے اس سوال کا کوئی جواب دیے بغیر سنجیدگی آمیز خاموشی سے سر جھکا لیا۔ ان ایام میں بظاہر اس پر کسی مرض کے آثار نہ تھے۔ دل و دماغ، دورانِ خون، رنگ بشرہ، حالتِ نبض، رفتارِ تنفس۔ کھانا، پینا، سونا، سارے حالات معتدل تھے، مگر ایک دن سرِ شام گھر والوں سے کہنے لگا کہ آج ہماری تیاری ہے۔ خود پانی گرم کیا، نہایا اور صاف اجلی چادر اوڑھ کر لیٹ گیا، گھر والوں نے ان باتوں کا کچھ خیال نہ کیا۔ مگر صبح اٹھ کر کیا دیکھتے ہیں کہ جسم بے روح پڑا ہے۔“

آگے مولانا اس بات کے ثبوت میں کہ حق تعالٰی کا اپنے بندے کی زبان سے تکلّم فرمانا ممکن ہے ایک اور نظیر پیش فرماتے ہیں:

17

شیر گیر ار خونِ نرّ شیر خورد

تو بگوئی او نکرد آں بادہ کرد

ترجمہ: (دیکھو) اگر کوئی مستِ شراب شیر نر (کے مقابلے میں اس) کا خون پی جائے تو تم کہو گے۔ یہ (بہادرانہ کام) اس نے نہیں کیا، بلکہ اس شراب نے کیا ہے۔(جو اس نے پی رکھی ہے، اور کہو گے:)

18

شیر گیر از شیر کے ترسد بگو

شرحِ راہ از کور کہ پرسد بگو

ترجمہ: مستِ شراب (بھلا) شیر سے کب ڈرتا ہے؟ (اور) راستے کا پتہ اندھے سے کون پوچھتا ہے؟ (ہاں، اندھا ہی پوچھ سکتا ہے۔)

مطلب: جس طرح مست شراب کا یہ غیر معمولی شجاعت کا کام، کسی خارجی چیز کی تاثیر کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے، اسی طرح مست شہود کا یہ غیر معمولی کلام کسی دوسری ہستی کا کلام سمجھنا چاہیے۔ آخری مصرعہ سے مقصود یہ ہے کہ جسطرح صحیح البصر آدمی کو جب کوئی راستہ دریافت کرنا ہو، تو وہ اندھے سے نہیں پوچھتا۔ بلکہ کسی صاحبِ نظر و واقفِ راہ سے پوچھتا ہے، کیونکہ وہ اندھے کو اپنی راہنمائی کے قابل نہیں سمجھتا۔ اسی طرح مست شراب بھی شیر وغیرہ خوفناک بلاؤں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اکثر نسخوں میں یہ دونوں شعر آگے پیچھے درج ہیں، اور چوتھا مصرعہ بعض نسخوں میں یوں درج ہے۔ ”شرحِ راہ از کور کے پُرسد بگو“ ہم نے شعروں کی یہ ترتیب اور چوتھے مصرعہ کا یہ نسخہ قلمی نسخے سے نقل کیا ہے، جو زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے، آگے ایک تیسری نظیر ارشاد ہے:

19

ور سخن پردازد از رازِ کہن

تو بگوئی بادہ گفتہ است ایں سخن

ترجمہ: اور اگر وہ (مست) رازِ قدیم کے متعلق لب کشائی کرے۔ تو تم کہو گے یہ بات شراب نے کہی (یعنی کہلائی) ہے۔ (ورنہ نہ ہمیں ایسی نکتے کی بات کہنے کی لیاقت کہاں؟)

20

بادۂ را مے بود ایں شرّ و شور

نورِ حق را نیست ایں فرہنگ و زور

ترجمہ: (اب ہم پوچھتے ہیں کہ جب) شراب میں اس قدر شور و شر ہو (کہ وہ انسان کے بازو میں شیر افگنی کی طاقت اور اسکی زبان میں کشفِ اسرار کی لیاقت پیدا کر دے) تو کیا خداوند تعالٰی کے نور میں یہ لیاقت اور طاقت نہیں؟ (کہ:)

21

کہ ترا از تو بکل خالی کند

تو شوی پست او سخن عالی کند

ترجمہ: کہ وہ تمکو تم سے بالکل خالی کر دے۔ (پھر) تم تو پست (و کالعدم) ہو جاؤ، اور وہ (خود تمہاری زبان سے سبحانی وغیرہ) اعلٰی پایہ کا کلام کرے۔

مطلب: تمہاری ہستی کو منہدم کر کے تمہارے وجود کو اپنا آلۂ کار بنا لے، پھر جو قول و فعل تمہارے وجود سے سرزد ہوگا وہ درحقیقت اسکا قول و فعل ہوگا، آگے ایک چوتھی نظیر آتی ہے:

22

گرچہ قرآن از لبِ پیغمبرؐ ست

ہر کہ گوید حق نگفت او کافرست

ترجمہ: دیکھو قرآنِ مجید اگرچہ پیغمبرِ خدا (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لب مبارک سے (ادا ہوا) ہے۔ (بایں ہمہ اسکو حق تعالٰی کا کلام ماننا ہمارا ایمان ہے، حتّٰی کہ) جو شخص یہ کہے کہ حق تعالٰی کا کلام نہیں وہ کافر ہے۔ (پس با یزید رحمۃ اللّٰہ علیہ کے قولِ سبحانی کو حق تعالٰی کا قولِ غیر وحی مان لینے میں کیا قباحت ہے؟)

23

چوں ہمائے بے خودی پرواز کرد

آں سخن را با یزیدؒ آغاز کرد

ترجمہ: الغرض جب بے خودی (و فنا) کے ہما نے پرواز کیا۔ تو حضرت با یزید رحمۃ اللہ علیہ نے (پھر) وہی بات (کہنی) شروع کی۔

24

عقل را سیل تحیر در ربود

زاں قوی تر گفت کاوّل گفتہ بود

ترجمہ: (انکی) عقل (مصلحت بیں) کو حیرت کا سیلاب بہا لے گیا۔ (جو ایسے فتنہ خیز الفاظ کہنے سے مانع ہو سکتی تھی، چنانچہ اب) انہوں نے ان الفاظ سے بھی زیادہ سخت الفاظ کہے جو کہ پہلے کہے تھے۔

25

نیست اندر جُبّہ اَم اِلّا خُدا

چند جوئی در زمین و در سما

ترجمہ: (یعنی کہا) میرے جبّے میں سوائے خدا کے کوئی نہیں۔ تم (خدا کو) زمین و آسمان میں کب تک تلاش کرو گے؟ (یہی تو خدا ہے جو اس جبے میں نمایاں ہے۔)

مطلب: اس قول کے قوی تر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پہلے قول کی تو یہ تاویل ہو سکتی تھی، کہ شاید ”سُبْحَانِیْ مَآ اَعْظَمَ شَانِیْ“ کے قول کی حکایت ہو، اور اس قول میں تاویل کی مطلق گنجائش نہیں۔ مکاشفات میں لکھا ہے کہ یہی قول: ”لَیْسَ فِیْ جُبَّتِیْ سِوَی اللہِ“ شیخ ابو سعید نے برسرِ منبر کہا تھا، اور امام الحرمین کے والد شیخ ابو احمد، اور بہت سے دیگر فقہاء وہاں موجود تھے، مگر کسی نے ان پر اعتراض نہ کیا۔

26

آں مریداں جملہ دیوانہ شدند

کاردہا در جسم پاکش مے زدند

ترجمہ: وہ مرید (جنکو با یزید رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کہا تھا کہ اگر پھر میں ایسی حرکت کروں تو میرے چھری مارنا) سب کے سب (یہ معاملہ دیکھ کر) بیتاب ہو گئے۔ (اور) انکے جسم پاک میں چھریاں گھونپنے لگے۔

27

ہر یکے چوں ملحدانِ کرد کوہ

کارد مے زد پیرِ خود را بے ستوہ

ترجمہ: ہر ایک (مرید) کرد کوہ کے ملحدوں کی طرح، بے تحاشا اپنے پیر کے چھری مارتا ہے۔

28

ہر کہ اندر شیخ تیغے مے خلید

باز گونہ از تنِ خود مے درید

ترجمہ: (مگر تماشہ یہ ہوا کہ) جو شخص شیخ (کے بدن) میں تلوار گھساتا تھا، وہ الٹے اپنے ہی بدن کو پھاڑ ڈالتا تھا۔ (یعنی وہ تلوار الٹا خود اسی کے آ لگتی ہے۔)

29

یک اثر نے بر تنِ آں ذو فنوں

واں مریداں خستہ و غرقابِ خوں

ترجمہ: اس صاحب کمالات (حضرت با یزید رحمۃ اللہ علیہ) کے بدن پر تو (زخم کا) ایک نشان نہ تھا۔ اور (ادھر) وہ مرید زخمی اور خون میں غرق (ہو رہے تھے۔)

30

ہر کہ او سوئے گلویش زخم برد

حلقِ خود ببریدہ دید و زار مرد

ترجمہ: جس شخص نے انکے گلے پر وار کیا، اس نے خود اپنا گلا کٹا دیکھا اور بری طرح مرا۔

31

وانکہ او را زخم اندر سینہ زد

سینہ اش بشگافت شد مردہ ابد

ترجمہ: جس شخص نے انکے سینے میں زخم مارا۔ (خود) اسکا (اپنا) سینہ چاک ہوا، اور وہ ہمیشہ کے لیے مر گیا۔

32

وانکہ آگہ بود زاں صاحبِ قِرآں

دل ندادش کہ زند زخمِ گراں

ترجمہ: اور جو شخص اس با اقبال (بزرگ کے مرتبہ) سے آگاہ تھا، اس کے دل نے اجازت نہ دی کہ (اسکے کوئی) کاری زخم مارے، (ہاں معمولی چرکے لگانے سے وہ بھی باز نہ رہا۔)

33

نیم دانش دستِ او را بستہ کرد

جاں ببرد اِلّا کہ خود را خستہ کرد

ترجمہ: اسکی اس ذرا سی عقل نے (جو شیخ کے کاری زخم لگانے سے مانع ہوئی) اسکے ہاتھ کو (اس حرکت سے) روک دیا۔ اس نے اپنی جان تو بچا لی مگر (شیخ کے چرکے لگانے کی پاداش میں) اپنے آپ کو زخمی کر لیا (اگر پوری عقل ہوتی تو اتنی تکلیف بھی نہ پاتا۔)

34

روز گشت و آں مریداں کاستہ

نوحہا از خانہ شاں برخاستہ

ترجمہ: (غرض) دن چڑھا اور (یہ بات مشتہر ہوگئی کہ) وہ مرید (جو اس ہنگامہ آرائی میں مشغول تھے مر کر) کم ہو گئے۔ (تو) انکے گھروں سے نوحہ کی آوازیں بلند ہوئیں۔

35

پیشِ او آمد ہزاراں مرد و زن

کاے دو عالم درج در یک پیرہن

ترجمہ: ہزاروں مرد و زن (یہ چرچا سن کر) ان (شیخ عالی جاہ) کے پاس آئے۔ (اور بکمالِ عقیدت بولے) کہ اے وہ بزرگ! جو اس قدر جامع کمالات ہیں کہ گویا دونوں جہاں (آپکے اس) ایک پیراہن میں سما رہے ہیں۔

36

ایں تنِ تو گر تنِ مردم بدے

چوں تنِ مردم ز خنجر کم شدے

ترجمہ: (فی الواقع آپکا وجود کوئی خاص حیثیت رکھتا ہے، چنانچہ) اگر آپکا یہ بدن لوگوں کا (سا) بدن ہوتا، تو (ان) خنجر (کے واروں) سے لوگوں کے بدن کی طرح فنا ہو جاتا۔

37

با خودے با بے خودے دو چار زد

با خود اندر دیدۂ خود خار زد

ترجمہ: (اس واقعہ کی حقیقت یہ تھی کہ) ایک اہلِ ہستی نے (اس) تارکِ ہستی کا مقابلہ کیا۔ (جو فنا فی اللہ اور بقا باللہ ہے تو اس مقابلہ میں) اہلِ ہستی نے اپنی آنکھ میں کانٹا مار لیا (یعنی خود اپنی اذیت کا سامان کر لیا)۔

انتباہ: حضرت با یزید رحمۃ اللہ علیہ کا قصہ ختم ہوا۔ آگے مولانا یہ بیان فرماتے ہیں کہ مردانِ خدا کو ستانا اپنے آپکو تباہ کرنا ہے۔ ساتھ ہی اسکی وجہ بھی ارشاد فرمائیں گے۔ جو گویا آخری شعر ؎ ”با خودے یا بے خودے۔۔الخ“ کی تفسیر ہے۔

38

اے زدہ بر بے خوداں تو ذوالفقار

بر تنِ خود میزنی آں ہوشدار

ترجمہ: اے اہلِ فنا کے تلوار مارنے والے، یاد رکھ تو اسکو خود اپنے بدن پر مار رہا ہے۔

39

زانکہ بے خود فانی ست و ایمن ست

تا ابد در ایمنی او ساکن ست

ترجمہ: کیونکہ اہلِ فنا (اپنی ہستی سے) مٹا ہوا ہے اور (اپنی ہستی کا احساس نہ رکھنے کی وجہ سے، صدمات کے احساس سے) بے خوف ہے۔ (بلکہ) وہ ہمیشہ کے لیے (اس) بے خوفی (کے مقام) میں مقیم ہے۔

40

نقشِ او فانی و او شد آئینہ

غیر نقشِ روئے غیر آنجائے نہ

ترجمہ: اسکا وجود فنا ہو چکا ہے، اور وہ آئینہ بن چکا ہے۔ (اب) اس موقع پر (جہاں اسکا کسی غیر سے مقابلہ آ پڑے اس) غیر کی صورت کے نقش کے سوا کوئی نہیں ہوتا۔

مطلب: یہ ایک نکتے کی بات ہے توجہ سے سمجھنی چاہیے۔ یعنی اہلِ فنا اپنی ہستی کی کثافت سے پاک ہو کر گویا آئینہ بن جاتے ہیں۔ اس حالت میں اگر کوئی انکے خلاف مقابلہ آرائی اور ایذا رسانی کا قصد کرے تو اسے یقین رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے قصد میں ناکام رہے گا، کیونکہ وہ بزرگ تو اپنے وجود سے فانی ہیں، اور گویا لاشی بن چکے ہیں، اب اگر اس معرکہ میں کوئی موجود ہے تو وہ صرف اس جنگجو و ایذا رسان کا وجود ہے، جسطرح آئینے کے مقابل آنے والے کو صرف اپنا وجود نظر آتا ہے۔ پس اس مقابلہ کا جو نتیجہ ہوگا وہ مولانا ہی کی زبان سے سنو۔

41

گر کنی تف سوئے روئے خود کنی

ور زنی بر آئینہ بر خود زنی

ترجمہ: اگر تو (اس آئینے کی سی صاف ہستی والے کی طرف) تھوکے گا تو اپنے منہ پر تھوکے گا۔ اور اگر آئینے پر وار کرے گا، تو اپنے آپ پر کرے گا۔کَمَا قِیْلَ؎

با صاف دل مجادلہ با خویش دشمنی ست

ہر کس کشد بر آئینہ خنجر بخود کشد

42

ور بہ بینی روے زشت آں نہم توئی

ور بہ بینی عیسیِٰ مریم توئی

ترجمہ: اور اگر تو بدصورت چہرہ دیکھے گا تو وہ بھی تو ہی ہے۔ اگر عیسیٰ بن مریم علیہ السّلام (کی طرح پاک وجود) دیکھے تو وہ (بھی) تو ہی ہے۔

43

او نہ اینست و نہ آں او سادہ است

نقشِ تو درپیشِ تو بنہادہ است

ترجمہ: وہ نہ یہ ہے نہ وہ ہے، بلکہ وہ تو بے رنگ (و بے کیف) ہے۔ تیرا ہی وجود تیرے سامنے دھرا ہے (اور تجھے نظر آ رہا ہے۔)

44

چوں رسید ایں جا سخن لب در بہ بست

چوں رسید ایں جا قلم در ہم شکست

ترجمہ: جب بات یہاں تک پہنچی تو مزید گفتگو سے اس نے دروازہ بند کر لیا۔ (کیونکہ اس مقام میں زیادہ اظہارِ راز پُر خطر ہے) جب قلم یہاں تک پہنچا، تو ٹوٹ گیا (کیونکہ آگے اس راز کے لکھنے کی اس میں تاب نہ تھی۔)

45

لب بہ بند ارچہ فصاحت دست داد

دم مزن وَاللہُ اَعْلَمُ بِالرَّشَادْ

ترجمہ: اب لب بند رکھو اگرچہ فصاحت آمیز (گفتگو) سوجھے۔ دم نہ مارو اور اللہ ہی راستہ کو بہتر جانتا ہے۔ (آگے مولانا اسرارِ غیب کے اظہار کا پُرخطر ہونا بیاں فرماتے ہیں:)

46

بر کنارِ بامے اے مستِ مدام

پست بنشیں یا فرود آ وَالسَّلَام

ترجمہ: اے (عشقِ الٰہی کی) شراب کے مست، تم (قربِ الٰہی کے) کنارۂ بام پر (کھڑے) ہو۔ نچلے ہو کر بیٹھو یا اتر آؤ (یعنی اس مقام کے اسرار سے خاموش رہو ورنہ تنزّل کرنا پڑے گا، اور بس ہمیں اتنی بات کہنی تھی باقی) وَالسَّلَام۔

47

ہر زمانے کہ شوی تو کامراں

آں دم خوش را کنارِ بام داں

ترجمہ: تم جو ہر وقت قربِ الٰہی پر کامیاب ہو رہے ہو۔ تو اس مبارک وقت کو (محل کی) چھت کا کنارہ سمجھو۔

48

بر زمانِ خوش ہراساں باش تو

ہمچو گنجش خفیہ کن نے فاش تو

ترجمہ: تم (مراتبِ قرب کے) اچھے وقت کے لیے ڈرتے رہو۔ (کہ کہیں وہ ہاتھ سے جاتا نہ رہے لہٰذا) اسکو خزانے کی طرح چھپاتے رہو، ظاہر نہ کرو (کہ اس سے وہ درجہ چھن جاتا ہے۔)

وَ نِعْمَ مَا قِیْلَ؎

اے خواجہ دلت چو محرم غیب بود

مے پوش ہر آنچہ سِرّ لاریب بود

اسرارِ خدا بروں مے فگن کہ ز غیب

یک نقطہ اگر بروں فتد عیب بود

49

تا نیاید بر وِلا ناگہ بلا

ترس ترساں رود راں مکمن بلا

ترجمہ: تاکہ (محبوبِ حقیقی کی) دوستی پر اچانک (محرومی کی) بلا نازل نہ ہو جائے۔ خبردار! اس پوشیدہ مقام میں ڈرتے ڈرتے داخل ہو۔

50

ترسِ جاں در وقتِ شادی از زوال

زاں کنارِ بام غیب است ارتحال

ترکیب: ”ترس جاں“ مبتداء ہے ”ارتحال“ خبر ہے۔ ”است“ رابط ”در وقت از زوال“ مبتداء کے متعلقات ہیں۔ ”زان کنار۔۔الخ“ کا تعلق ”زوال“ کے ساتھ ہے۔

ترجمہ: (چنانچہ) مسرتِ (قرب) کے وقت اس بامِ غیب کے کنارے سے دور ہو جانے کا (جو دل کو) خوف (ہے۔) وہ واپسی (کے اندیشہ پر مبنی) ہے۔

مطلب: حصولِ قرب کے وقت جو دل کو دھڑکا لگا رہتا ہے وہ اسی خیال سے ہوتا ہے کہ مبادا اس مقام سے نکال دیے جائیں۔ لہٰذا اس اندیشہ کو سرسری نہ سمجھو، اور حفظِ اسرار کی کوشش کرو جنکا افشا احیاناً سلبِ مقامات کا باعث ہو جاتا ہے۔ دنیاوی خوشیوں کا بھی یہی حال ہے کہ جب کوئی شخص خلافِ توقع کسی مراد پر کامیاب ہو جاتا ہے تو ڈرتا ہے کہ مبادا مجھے اس کامیابی کے مقام سے اترنا پڑے اور یہ مراد چھن جائے۔

51

گر نمی بینی کنارِ بامِ راز

روح مے بیند کہ ہستش اہتزاز

ترجمہ: اگر تم بامِ اسرار کے کنارے کو نہیں دیکھتے۔ (اور سمجھتے ہو کہ ہمیں تنزّل کا خوف نہیں) تو روح دیکھ رہی ہے (جسکی دلیل یہ ہے) کہ اسکو (ایک خاص) خوشی (محسوس ہو رہی) ہے۔ (پس اس مقام کے سلب ہو جانے سے ڈرو۔)

مطلب: بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ سالک مقام سلوک طے کر رہا ہے مگر اسکو اپنے مقامات کا احساس نہیں ہوتا، نہ کوئی غیر معمولی کیفیت نظر آتی ہے۔ اسی کو جہلِ نسبت کہتے ہیں مگر بایں ہمہ اسکو حاصل ہوتی ہے۔ اسی کو اوپر روح کے اہتزاز سے تعبیر کیا ہے۔ جہلِ نسبت چنداں مضر نہیں۔ چنانچہ بعض ایسے مشائخ سنے ہیں کہ انکو اپنے باطن میں کسی قسم کی حظوظ و کیفیات کا پتہ نہیں لگا، مگر مرید انکی توجہ سے بے تاب ہو جاتے تھے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں بھی خود نمائی سے بچنا چاہیے کہ مبادا اگر کوئی درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ گو اسکی خبر نہیں وہ بھی سلب ہی نہ ہو جائے۔

52

ہر نکالے ناگہاں کاں آمدہ است

بر کنارِ کنگرۂ شادی بُدست

ترجمہ: جو عذاب کہ ناگہاں آیا ہے۔ وہ کنگرۂ مسرت کے کنارے پر (نازل) ہوا ہے۔ (یعنی جب کبھی کوئی قوم مبتلائے عذاب ہوئی، تو وہ عینِ راحت اور فارغ البالی کے اوجِ کمال پر پہنچ کر اس حالت میں مبتلا ہوئی ہے، اور اسکا غرور اور غفلت ہی باعثِ عذاب ہوئی ہے۔)

53

جز کنارِ بامِ خود نبود سقوط

اعتبارِ از قومِ نوحؑ و قومِ لوط

ترجمہ: کنارۂ بام (پر پہنچنے) کے بغیر گرنا (وقوع) نہیں پاتا۔ حضرت نوح علیہ السّلام کی قوم، اور حضرت لوط علیہ السّلام کی قوم (کے حال) سے عبرت (پکڑو۔)

مطلب: صرف یہی دو قومیں نہیں بلکہ عاد، ثمودِ، اہلِ مدین وغیرہ تمام وہ اقوام جو اپنے اپنے پیغمبروں کی نافرمانی سے مبتلائے عذاب ہوئی ہیں، فراغت و خوشحالی کی پوری بلندی پر پہنچ کر تباہی کے غار میں گری ہیں، مگر ان دو قوموں کا ذکر یہاں خصوصیت سے اس لیے کیا ہے۔ انکی حالت کو سقوط از بام کے مفہوم کے ساتھ خاص مناسبت ہے۔ چنانچہ قومِ لوط تو اپنے اعمال کی پاداش میں فضائے آسمانی میں بلندی پر لے جا کر نیچے گرائی گئی تھی، اور قومِ نوح کا کشتی میں سوار نہ ہونا گویا اس سفینۂ نجات سے نیچے گرنے کا ہم معنٰی تھا۔

54

اعتبارے گیر تا یابی صفا

از درونِ انبیاء و اولیاء

ترجمہ: (اے طالب!) انبیاء علیہم السّلام و اولیاء کرام کے باطن سے عبرت پکڑ۔ تاکہ تو بھی صفائی پا (کر مثلِ آئینہ بن) جائے۔

مطلب: اس شعر کا تعلق؎ نقشِ او فانی و او شد آئینہ۔۔الخ کے ساتھ ہے، یعنی انبیاء علیہم السّلام و اولیاء کرام فنائے ہستی سے مثلِ آئینہ ہو جاتے ہیں، تم بھی انکے نقشِ قدم پر چل کر مثلِ آئینہ بن سکتے ہو۔ پھر تم کو بھی کوئی دشمن اذیت نہیں پہنچا سکے گا۔ آگے پھر اس معترض کا قصہ چلتا ہے: