دفترِ چہارم: حکایت: 86
جواب گفتنِ پیغمبر آں اعتراض کنندہ را
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا اس اعتراض کرنے والے کو جواب دینا
1
در حضور مصطفائےؐ قند خُو
چوں ز حد بُرد آں عرب از گفتگو
ترجمہ: جب مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں جو قند کی سی (میٹھی) خو رکھتے ہیں۔ اس عرب نے حد سے زیادہ باتیں کیں تو۔
2
آں شہ وَالنَّجْم و سلطانِ عَبَس
لب گزید آں سرد لب را گفت بس
ترجمہ: تو اس (سورۂ) والنجم کے بادشاہ اور (سورۂ) عبس کے سلطان نے (جنکے ذکر میں یہ دونوں سورتیں نازل ہوئی ہیں۔ تعجب سے اپنا) لب کاٹا (اور) اس ٹھنڈے لب والے کو فرمایا۔ بس (بس زیادہ نہ بول۔)
نکات: دونوں شعروں کا لفظ، لفظ خاص رعایت کے ساتھ جمایا گیا ہے۔ ”قند خُو“ میں یہ رعایت کے ساتھ جمایا گیا ہے ”قند خُو“ میں یہ رعایت مضمر ہے کہ حضور بڑی سے بڑی گستاخی پر بھی تلخی کا اظہار کرنے والے نہ تھے، تاہم اس عرب کو خاموش کرانے کا جو نا گوار فرض آپکو ادا کرنا پڑا، تو معلوم ہوتا ہے کہ اسکی گستاخی حد سے بڑھ گئی ہے۔ سورۂ والنّجم میں آپکے بر حق ہونے کا ذکر ہے اس میں یہ اشارہ ہے کہ اس عرب کو آپ کا زجر و منع فرمانا بر حق تھا۔ سورۂ عبس میں ایک موقع پر آپکے چیں بجبیں ہونے کا ذکر ہے۔ اس سے یہ بات مستفاد ہوتی ہے کہ آپکی یہی کیفیت اس وقت بھی تھی۔
3
دست مے زد بہرِ منعش بر دہاں
چند گوئی پیشِ دانائے نہاں
ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسکو منع کرنے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھتے تھے۔ (کہ ارے!) تو واقفِ اسرار کے سامنے کب تک بولتا جائے گا؟
4
پیشِ بینا بردۂ سرگین خشک
کہ بخر ایں را بجائے نافِ مشک
ترجمہ: تو ایک صاحبِ بصیرت کے آگے سوکھا ہوا گوبر لے جاتا ہے۔ کہ اسکو نافۂ مشک کی جگہ خرید لے۔
5
بعر را اے گندہ مغزِ گندہ مُخ
زیرِ بینی بنہی و گوئی کہ اُخ
ترجمہ: اے گندہ مغز اور ناپاک دماغ تو مینگنی کو۔ ناک کے نیچے رکھتا ہے، اور کہتا ہے کہ اَخّا!
6
اخ اخے بر داشتی اے گیج کاج
تاکہ کالائے بدت یا بد رواج
ترجمہ: اے احمق بھینگے! تو نے اخا اخا (کا غُل) مچا رکھا ہے۔ تاکہ تیرا برا مال مقبول ہو جائے۔
7
تاکہ بفریبی مشامِ پاک را
آں چرندہ گلشنِ افلاک را
ترجمہ: تاکہ تو (اپنے خشک گوبر، اور مینگنی کے ساتھ) پاک مغز کو دھوکہ دے سکے؟ (یعنی) اس گلشنِ افلاک کے (خوشبو دار پودے کو) چرنے والے (کے دماغ) کو۔
8
حلمِ او خود را اگرچہ گول ساخت
خویشتن را اندکے باید شناخت
ترجمہ: اگرچہ اسکے علم نے اپنے آپ کو سادہ مزاج بنا رکھا ہے۔ (جس سے تو دلیر ہو گیا، مگر) کچھ اپنے آپ کو بھی پہچاننا چاہیے (کہ تیری کیا ہستی ہے۔)
9
دیگ را گر باز ماند شب دہن
گُربہ را ہم شرم باید داشتن
ترجمہ: اگر رات کو دیگ کا منہ کھلا رہ گیا۔ (تو اس میں کوئی مصلحت یا دیگ والے کی غلطی ہو گی، آخر وہ دیگ بلی کی ضیافت تو نہیں۔ پس) بلی کو بھی (اس میں منہ ڈالتے) شرم کرنی چاہیے۔ (اگر نبی یا ولی حلیم الطبع ہیں، تو جاہلوں کو گستاخی کرتے ڈرنا چاہیے، انکے علم کا تقاضا یہ نہیں کہ ہر کس و نا کس ان پر دلیر ہو جائے۔)
10
خویشتن گر خفتہ کرد آں خوب فَر
سخت بیدارست دستارش مبر
ترجمہ: اگر اس عالی شان (بزرگ) نے اپنے آپکو سویا ہوا ظاہر کیا۔ (تو یاد رکھو کہ) وہ نہایت بیدار ہے، اس کی پگڑی مت اتارو۔
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
دلبر بر صفِ افتادگانِ عشقِ متاز
کہ جائے گردِ ازیں خاک مرد مے خیزد
11
چند گوئی اے لجوجِ باصفا
ایں فسُونِ دیو پیشِ مُصطفیٰؐ
ترجمہ: اے منافق جھگڑالو! یہ شیطانی منتر تو مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کب تک پھونکے گا؟
12
صد ہزاراں حلم دارند ایں گروہ
ہر یکے حلم ازانہا ہمچو کوہ
ترجمہ: یہ لوگ لاکھوں حلم رکھتے ہیں۔ انکا ایک ایک حلم پہاڑ کی مانند ہے۔ (جسطرح پہاڑ کسی کی تحریک سے جنبش نہیں کرتا، اسی طرح یہ حضرات بھی کسی کی زیادتی سے برہم نہیں ہوتے۔)
13
حِلمِ شاں بیدار را اَبلہ کند
زیرکِ صد چشم را گمراہ کند
ترجمہ: انکا علم بیدار مغز، کو (بھی) بیوقوف بنا دیتا ہے۔ (اور) سو آنکھوں والے ہوشیار کو (بھی گمراہ کر دیتا ہے۔ (ہوشیار آدمی بھی انکے کمالِ علم سے دھوکہ کھا کر گستاخی کر بیٹھتا ہے، اور اتنا نہیں سمجھتا کہ انکی پشت پر کس قدر بڑی طاقت آمادۂ حمایت ہے۔ آخر وہ تباہ ہو جاتا ہے۔)
14
حلمِ شاں ہمچوں شرابِ خوب نغز
نغز نغزک بر رَود بالائے مَغْز
ترجمہ: انکا حلم عمدہ عجیب شراب کی مانند ہے۔ جو عمدگی عمدگی میں مغز کو چڑھ جاتی ہے۔ (اور مختلف مستانہ حرکات کی باعث ہوتی ہے۔)
15
مست را بیں زاں شرابِ پُر شگفت
ہمچو فرزیں مست و کژ رفتن گرفت
ترجمہ: مست کو دیکھو کہ اس عجیب شراب (کے نشے) سے، شطرنج کی فرزین کی طرح مست اور ٹیڑھا چلنے لگا۔
16
مردِ بر نازاں شرابِ زودگیر
درمیانِ راہ مے افتد چو پیر
ترجمہ: چنانچہ جوان آدمی اس زود اثر شراب (کے نشے) سے، بڈھے (ضعیف) کی طرح راستے میں گر جاتا ہے۔
17
خاصہ آں بادہ کہ از خمِ نبی ست
نے مئے کہ مستیِ او یک شبی ست
ترجمہ: خصوصاً وہ شراب (بڑی مؤثر ہے، اور دیر پا اثر رکھتی ہے) جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مٹکے سے ہے۔ (یعنی عشقِ الٰہی) نہ وہ شراب جسکا نشہ ایک ہی رات کا ہے۔
18
آنکہ اصحابِ کہف از نُقْل و نَقْل
سہ صد و نہ سال گم کردند عقل
ترجمہ: وہ شراب کہ (جسکو پی کر) اصحابِ کہف نُقل (کھانے) اور پہلو بدلنے (یا غار میں سے کوچ کرنے سے غافل ہو گئے۔) حتّٰی کہ تین سو نو سال تک کے لیے (اپنی) عقل کھو بیٹھے۔ (یہ قصہ اس شرح کی چوتھی جلد میں درج ہوگا۔)
19
زاں زنانِ مصر جامے خوردہ اند
دستہا را شرحہ شرحہ کردہ اند
ترجمہ: اسی (شراب) سے مصر کی عورتوں نے پیالہ پیا ہے۔ (اور بے خود ہو کر اپنے) ہاتھوں و (چھریوں سے) پارہ پارہ کر لیا۔ (یہ قصہ پیچھے کسی جلد میں درج ہو چکا۔)
20
ساحراں ہم سُکرِ موسیٰؑ داشتند
دار را دلدار مے پنداشتند
ترجمہ: جادوگر بھی حضرت موسیٰ علیہ السّلام (کے فیض سے عشقِ الٰہی) کا نشہ رکھتے تھے۔ (اسی لیے) وہ (فرعون کی) سولی کو محبوب سمجھتے تھے۔ (یہ قصہ پیچھے کسی جلد میں درج ہو چکا۔)
21
جعفرِ طیّارؓ زاں مے بود مست
زاں گرو می کرد بے خود پا و دست
ترجمہ: حضرت جعفر رضی اللہ عنہ (بھی) اسی شراب سے مست تھے۔ اسی لیے وہ بے خودی میں ہاتھ پاؤں (راہِ خدا میں) قربان کرتے تھے۔ (یہ قصّہ مفتاح العلوم کی آٹھویں جلد میں درج ہو چکا۔)