دفتر 4 حکایت 83: ایک شخص کی حکایت جو کسی شخص سے مشورہ کرتا تھا اس نے کہا دوسرے سے کرو کیونکہ میں تمہارا دشمن ہوں

دفتر چہارم: حکایت: 83

حکایتِ شخصے کہ با شخصے مشورت مے کرد او گفت کہ با دیگرے کن کہ من عَدُوّم ترا

ایک شخص کی حکایت جو کسی شخص سے مشورہ کرتا تھا اس نے کہا دوسرے سے کرو کیونکہ میں تمہارا دشمن ہوں

1

مشورت مے کرد شخصے با کسے

کز تردد وا رہد وز محبسے

ترجمہ: ایک شخص کسی (دوسرے) کے ساتھ مشورہ کرتا تھا۔ تاکہ (دل کے) تردد اور (قوّتِ فیصلہ کی) بندش سے چھوٹ جائے۔

2

گفت اے خوش نام غیرِ من بجو

ماجرائے مشورت با او بگو

ترجمہ: اس نے جواب دیا کہ اے نیک نام! (آدمی) میرے سوا (کسی اور) کو تلاش کرو۔ (اور) مشورہ کا معاملہ اسکے سامنے پیش کرو۔

3

من عدوم مر ترا با من مپیچ

نبود از رائے عدو فیروز ہیچ

ترجمہ: میں تو تیرا دشمن ہوں مجھ سے نہ لپٹ۔ کوئی شخص دشمن کی رائے (پر عمل کرنے) سے کامیاب نہیں ہوتا۔

4

رَو کسے جو کہ ترا او ہست دوست

دوست بہرِ دوست لا شک خیر جوست

ترجمہ: جا کسی ایسے آدمی کو تلاش کر جو تیرا دوست ہے۔ بے شبہ دوست دوست کا خیرخواہ ہوتا ہے۔

5

من عدوم چارہ نبود کز منی

کژ روم با تو نمایم دشمنی

ترجمہ: میں تیرا (دشمن) ہوں ناچار تقاضائے نفس سے ٹیڑھا چلونگا (اور) تیرے حق میں دشمنی کروں گا۔

6

حارسی از گرگ جستن شرط نیست

جستن از غیر محل ناجستنی ست

ترجمہ: بھیڑئیے سے (بکریوں کی) رکھوالی چاہنا مناسب نہیں۔ غیر جگہ سے (کسی بات کی) توقع رکھنا توقعِ فضول ہے۔

7

من ترا بے ہیچ شکے دشمنم

من ترا کے رہ نمائیم رہزنم

ترجمہ: میں بلاشک تیرا دشمن ہوں۔ میں تیری رہنمائی کب کرنے لگا، میں تو رہزن ہوں۔

8

ہر کہ باشد ہمنشینِ دوستاں

ہست در گلخن میانِ بوستان

ترجمہ: جو شخص دوستوں کا ہمنشین ہو۔ وہ اگر بھٹی میں (بھی ہے، تو) گویا باغ کے اندر ہے۔

9

ہر کہ با دشمن نشیند در زمن

ہست اندر بوستاں در گولخن

ترجمہ: جو شخص کسی وقت دشمن کے پاس بیٹھے۔ وہ باغ کے اندر (بھی گویا) بھٹی میں ہے (آگے مولانا فرماتے ہیں:)

10

دوست را مآزار از ما و منت

تا نگردد دوست خصم و دشمنت

ترجمہ: دوست کو اپنی (ناحق کی) تو تو، میں میں کے ساتھ نہ ستاؤ۔ تاکہ دوست تمہارا مخالف اور دشمن نہ بن جائے۔

11

خیر کُن با خلق بہرِ ایزدت

یا برائے راحتِ جانِ خودت

ترجمہ: مخلوق کے ساتھ اپنے خدا (کی رضا) کے لیے نیکی کرو۔ یا (اگر یہ نہیں تو) خود اپنی جان کے آرام کے لیے (ہی سہی۔)

12

تا همہ را دوست بینی در نظر

در دلت ناید ز کیں نا خوش صور

ترجمہ: تاکہ تم اپنی نظر میں سب کو دوست دیکھو۔ (اور) تمہارے دل میں (بعض و) کینہ کی وجہ سے برے خیالات نہ آئیں۔

13

چونکہ کردی دشمنی پرہیز کن

مشورت با یارِ مهر انگیز کن

ترجمہ: جب تم نے (کسی کے ساتھ دشمنی کی تو اس سے محتاط رہو۔ (اور) مشورہ کی ضرورت ہو تو کسی پر محبت دوست کے ساتھ کرو۔ (اب وہ شخص طالب مشورہ جواب دیتا ہے:)

14

گفت من دانم ترا اے بوالحسن

کو توئی دیرینہ دشمن دارِ من

ترجمہ: کہا اے بوالحسن! میں جانتا ہوں۔ کہ تم مدت سے مجھ سے دشمنی رکھتے ہو۔

15

لیک مردِ عاقلی و معنوی

عقلِ تو نگذاردت کہ کجروی

ترجمہ: لیکن با (ایں ہمہ) تم عقل مند اور با معنٰی شخص ہو۔ تمہاری عقل تمہیں ٹیڑھا چلنے نہ دے گی (آگے مولانا فرماتے ہیں:)

16

طبع خواہد تا کشد از خصم کیں

عقل بر نفس هست بندِ آہنیں

ترجمہ: طبع (بشری) چاہتی ہے کہ دشمن سے انتقام لے۔ (مگر) عقل نفس کے لیے ایک لوہے کی زنجیر ہے۔ (جو اس کو بے جا حرکت کرنے سے روکتی ہے۔ چنانچہ جب طبعِ نفس بے جا حرکت میں آتی ہے تو:)

17

آید و منعش کند وا داردش

عقل چوں شحنہ است در نیک و بدش

ترجمہ: (عقل) آتی اور نفس کو (شرارت سے) باز رکھتی ہے۔ عقل اس کے لیے ہر نیک و بد (معاملہ) میں بمنزلہ کوتوال ہے (جو اسکی نگرانی کرتا رہتا ہے۔)

18

عقلِ ایمانی چو شحنہ عادل ست

پاسبان و حاکمِ شہرِ دل ست

ترجمہ: ایمان عقل (یعنی عقلِ معاد) گویا ایک منصف کوتوال ہے۔ جو دل کے شہر کا محافظ اور حاکم ہے۔ (اور نفس و شیطان کی شرارتوں کا تدارک کرتا ہے۔)

19

ہمچو گربہ باشد او بیدار ھوش

دزد در سوراخ ماند ہمچو موش

ترجمہ: وہ (عقل ایمانی) بلی کی طرح ہوشیار ہوتی ہے۔ (نفس کا) چور (اسکے خوف سے) چوہے کی طرح بل میں (گھسا) رہتا ہے۔

20

در ہر آنجا کہ برآرد موش دست

نیست گربہ ور بُود او مردہ است

ترجمہ: جس مقام میں چوہا زیادتی کرے وہاں بلی نہیں ہے، اور اگر ہے تو وہ مردہ ہے۔ (جس شخص کا نفس آمادۂ شرارت ہو اس میں عقلِ معاد نہیں ہے، اگر ہے تو ناکارہ ہے۔)

21

گربۂ چہ شیر و شیر افگن بود

عقلِ ایمانی کہ اندر تن بود

ترجمہ: عقلِ ایمانی جو (مومن کے) وجود میں ہوتی ہے۔ وہ بلی کیا (بلکہ) شیر اور شیر کو پچھاڑنے والی ہوتی ہے۔

22

غُرّۂ او حاکمِ درّندگاں

نعرۂ او مانعِ چرّندگاں

ترجمہ: اس (عقلِ معاد کے شیر) کی گرج (نفسِ سبعی اور اسکی قوّتوں کے) درندوں پر حاکم ہے۔ اسکا نعرہ (نفسِ بہیمی اور اسکی قویٰ کی) چرندوں کو (حصولِ لذات سے) روک دینے والا ہے۔

23

شہر پُر دُزدست و پُر جامہ کنے

خواہ شحنہ باش گو و خواہ نے

ترجمہ: (جب وجود کا) شہر چوروں اور کپڑے اتار لینے والوں سے پُر ہے۔ تو (ایسا) کوتوال (جو ان مفسدین کی روک تھام نہیں کر سکتا) خواہ (موجود) ہو یا نہ ہو (برابر ہے۔)

24

عقل در تن حاکمِ ایماں بود

کہ ز بیمش نفس در زنداں بود

ترجمہ: عقل وجود کے اندر (ہو تو وہ) ایمان کی (مقتضیات پر عمل کرنے والی) حاکم ہوتی ہے۔ جسکے خوف سے نفس قید خانہ میں ہوتا ہے۔ (آگے انسان صاحبِ عقل کو اسکے اپنے علوِّ منزلت کی طرف توجہ دلاتے ہیں:)

25

عقلِ عقل و جانِ جاں ایں جاں توئی

عقل و جانِ خلق را سلطاں توئی

ترجمہ: اے جان! تم خود عقل کی عقل اور جان کی جان ہو۔ مخلوق کی عقل و جان کے بادشاہ تم ہو (اسی لیے تو انسان اشرف المخلوقات کہلاتا ہے۔)

صائب؎

تا گوہرِ وجودِ ترا نقش بستہ اند

جانِ محیط بر لبِ ساحل رسیدہ است

صد پیرہن عرقِ گل خورشید کردہ است

تا میوۂ وجودِ تو کامل رسیدہ است

26

عقلِ کل سرگشتہ و حیرانِ تست

کل موجودات در فرمانِ تست

ترجمہ: عقل کل (یعنی روح القدس) تیرا (درجہ دیکھ کر) حیران و سرگردان ہے۔ تمام موجودات تیرے حکم میں ہیں۔

مطلب: انسانِ کامل سے خطاب ہے جسکے بہترین مصداق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم ہیں، چنانچہ روح القدس یعنی جبرئیل علیہ السّلام معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کا رتبہ دیکھ کر متعجب ہوئے، اور موجودات کا انسان کے زیرِ فرمان ہونا ظاہر ہے کہ سباع و بہائم اور طیور و وحوش سب کو یہ مسخر کر لیتا ہے۔ عناصر سے یہ گونا گوں خدمات لیتا ہے۔ نباتات و جمادات سے یہ ہزاروں قسم کے فائدے اٹھاتا ہے، جسکی نظیر اور کسی مخلوق میں نہیں ملتی۔ ہر چند کہ مخلوقات میں انسان سے زیادہ قوی ہیکل اس سے زیادہ طاقتور اور اسے زیادہ عظیم الجثہ چیزیں موجود ہیں، مگر محض عقل کی بدولت اس دو پاؤں پر چلنے والی دو گز لمبی مخلوق نے تمام کائنات کو زیرِ نگیں کر رکھا ہے، اسکی تائید میں آگے ایک قصہ ارشاد ہے جس سے ہم ان شاء اللہ مفتاح العلوم کی بارہویں جلد شروع کریں گے اس قصہ کا مدّعا یہ ہے کہ ”بزرگی بعقل است نہ بسال“ اور خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ایک مرتبہ ایک نو عمر آدمی کو محض اس کے جوہرِ عقل کی بدولت فوج کا سپہ سالار بنایا، حالانکہ فوج میں اس سے زیادہ معمر لوگ موجود تھے۔

وَالْحَمْدُ لِلہِ عَلٰی اِخْتِتَامِ الْمُجَلَّدِ الْحَادِیْ عَشَرَ مِنْ مِفْتَاحِ الْعُلُوْمِ شَرْحِ الْمَثْنَوِیْ لِمَوْلَانَا رُوْم عَلَیہِ اَلْفُ اَلْفُ رَحْمَۃٍ مِّنَ الْحَیِّ الْقَیُّوْمِ