دفتر 4 حکایت 82: پیغمبر علیہ السلام کا عقلمندوں کی تعریف اور احمق کی مذمت کرنا

دفتر چہارم: حکایت: 82

ستودنِ پیغمبر علیہ السّلام عاقلاں را و نکوہیدن احمق را

پیغمبر علیہ السلام کا عقلمندوں کی تعریف اور احمق کی مذمت کرنا

مطلب: ”عاقل“ سے مراد وہ شخص ہے جو حق تعالٰی کو پہچانے، اور حق کی طرف پہنچانے والی تدابیر اختیار کرے۔ ”احمق“ وہ ہے جسکا مقصود حظوظِ دنیا کے سوا اور کچھ نہ ہو۔

1

گفت پیغمبر کہ احمق ہر کہ ہست

او عدوِّ ما و غولِ رہزن ست

ترجمہ: پیغمبر صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا ہے کہ جو شخص احمق ہے۔ وہ ہمارا دشمن اور راستہ بند کر دینے والا چھلاوا ہے۔

2

ہر کہ او عاقل بود او جانِ ماست

روحِ او و ریحِ او ریحانِ ماست

ترجمہ: جو شخص عقلمند ہو وہ ہماری جان ہے۔ اسکی روح اور خوشبو ہمارا گلزار ہے۔ (مضمون حدیث یہاں تک تھا، مگر یہ حدیث باوجود تلاش کسی کتاب میں نہیں ملی۔ اگلی عبارت کو مولانا کا مقولہ قرار دینا مناسب ہے۔ حدیثِ مذکور کا تتمہ ٹھہرانا سخت مشکل ہے۔ کَمَا سَیَظْہَرُ۔)

3

عقل دشنامم دہد من راضیم

زانکہ فیضے دارد از فیاضیم

ترجمہ: (کوئی اہلِ) عقل (رفیق) اگر مجھے نازیبا کلمہ بھی کہے تو میں راضی ہوں۔ کیونکہ وہ میری فیاضی سے فیض پا چکا ہے۔

مطلب: مولانا فرماتے ہیں کہ اگر کوئی عقل مند دوست و رفیق یا مرید یا معتقد، ہم کو کسی فرو گذاشت پر کوئی سخت و سست کلمہ کہہ دے تو ہم اپنی علوِّ شان کے خیال سے ناراض نہیں ہوتے، بلکہ خوش ہوتے ہیں اس لیے کہ ہم معصوم عن الخطا تو ہیں نہیں۔ غلطیاں ہم سے سرزد ہونی ممکن ہیں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہ ہمارا دوست از راہِ خیر خواہی ہماری غلطی پر ہم کو تنبیہ کر رہا ہے جو ہماری بہتری کا ذریعہ ہے، اور یہ غلطی پر تنبیہ کرنا بھی ہمارے ہی فیضِ صحبت کا اثر ہے، کہ خیر و شر میں امتیاز، مصائبِ اخلاق کی تشخیص، صاف گوئی کی جرأت، اور نصیحت میں عدم رعایت ہر کس و ناکس کا کام نہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمیں اطمینان ہے کہ عقل مند کا نازیبا کلمہ بھی کسی نہ کسی حکمت پر مبنی ہوگا، اور یہ حکمت اس نے ہمارے ہی فیضِ صحبت سے پائی ہے، ”بدم گفتی و خوردسندم۔ عفاک اللہ نکو گفتی“ اس شعر کو تتمۂ حدیث قرار دینا اس لیے مشکل ہے کہ پیغمبر معصوم عن الخطا ہوتے ہیں۔ ان سے کسی ایسے فعل کا سرزد ہونا ممکن نہیں، جس پر ان کو کوئی شخص نازیبا کلمہ کہے اور وہ فی الحقیقت زیبا یا مبنی بحکمت ہو سکے، اور پیغمبر اس پر اپنی رضا کرے۔ پیغمبر کو دشنام دینا عاقل کا کام نہیں، جاہل و کافر کا کام ہے۔ تو پھر پیغمبر کیونکر کہہ سکتا ہے کہ ”عقل دشنامم دہد الخ“ پس یہاں ہمارا یہ تکلف اس بے تکلف ترجمہ سے بدرجہا بہتر ہے جس سے یہ اشکال پیش آئے۔

4

نبود آں دشنامِ او بے فائدہ

نبود آں مہمانیش بے مائدہ

ترجمہ: اس کی وہ گالی بے فائدہ نہیں ہو گی۔ اسکی وہ مہمانی خوان (سے خالی) نہیں ہو گی۔

5

احمق ار حلوا نہد اندر لبم

من ازاں حلواے او اندر تبم

ترجمہ: احمق اگر میرے منہ میں حلوا (بھی) ڈالے۔ تو میں اسکے حوالے سے تپ میں (مبتلا) ہوں۔

6

ایں یقیں داں گر لطیف و روشنی

نیست بوسِ کونِ خر را چاشنی

ترجمہ: اگر تم پاکیزہ (مزاج) اور روشن (دماغ) ہو تو یقین رکھو۔ کہ (احمق کی مٹھائی گدھے کی دبر سے مشابہ ہے، اور) گدھے کی دبر کو بوسہ دینا پُر مزہ نہیں۔

7

سبلتت گندہ کند بے فائدہ

جامہ از دیگش سیہ بے مائدہ

ترجمہ: بلکہ وہ (بوسہ) تمہاری مونچھوں کو ناحق گندہ کرے گا۔ اسکی دیگ سے (تمہارا) کپڑا خوان (سے فائدہ اٹھائے) بدون سیاہ (ہو گا۔)

8

مائدہ عقلست بے نان و شوا

نورِ عقل ست اے پسر جاں را غذا

ترجمہ: خوان (سے مراد) عقل ہے، جو نان و گوشت کے بغیر ہے۔ اے عزیز! عقل کا نور روح کی غذا ہے۔

9

نیست غیرِ نور آدم را خورش

از جزِ آں جاں را نباید پرورش

ترجمہ: انسان کی (روحانی) غذا نور کے سوا (اور کچھ) نہیں۔ اسکے سوا (کسی اور چیز) سے روح کی پرورش نہیں ہو سکتی۔ (اور اس روحانی غذا کے استعمال کی صورت یہ ہے کہ:)

10

زیں خورشہا اندک اندک باز بُر

کایں غذائے خر بود نے آنِ حر

ترجمہ: ان (جسمانی) غذاؤں سے تھوڑا تھوڑا (تعلق) قطع کرتے جاؤ، کیونکہ یہ گدھے کی خوراک ہے نہ کہ (آزاد مرد) کی۔

11

تا غذائے اصل را قابل شوی

لقمہائے نور را آکل شوی

ترجمہ: تاکہ تم اصلی (روحانی) غذا کے قابل ہو جاؤ۔ (اور) نور کے لقمے کھانے لگو۔

کما قال السعدی الشیرازی رحمۃ اللہ علیہ؎

اندروں از طعام خالی دار

تا در و نورِ معرفت بینی

12

عکس آں نورست کایں ناں ناں شدہ است

فیضِ آں جان ست کیں جاں جاں شدہ است

ترجمہ: اسی نور (علم و معرفت) کا عکس ہے جو روٹی روٹی بن گئی۔ (اور) اس روحِ (نفخۂ الٰہیہ) کا فیض ہے، جو یہ روحِ (حیوانی) روح بن گئی۔

مطلب: انسان نے علم و عقل کی بدولت بیج بونا، فصل کاٹنا، اناج نکالنا، پیسنا، آٹا گوندھنا اور روٹی پکانا سیکھا۔ دوسرے حیوانات میں علم و عقل نہیں ہے، وہ روٹی تیار نہیں کر سکتے۔ اس طرح نفخۂ الٰہیہ کی بدولت صلبِ پدر سے شکمِ مادر میں نطفہ ٹھہرا اور اس میں روح حیوانی پیدا ہوئی، اگر قدرتِ حق پشت پناہ نہ ہوتی تو یہ روح کیونکر پیدا ہوتی؟ حالانکہ ہر قسم کے سیال مادوں کے لاکھوں قطرے ٹپکتے اور فنا ہوتے رہتے ہیں، اور ان سے کوئی روح پیدا نہیں ہوتی۔

13

چوں خوری یکبار از ماکولِ نور

خاک ریزی بر سرِ نانِ تنور

ترجمہ: اگر تم ایک مرتبہ نور کی غذا حاصل کر لو۔ تو تنور کی روٹی پر خاک ڈال دو۔

14

عقل شیدا شد چہ خوانی تُرّہات

راہ پیدا شد چہ پائی بے ثبات

ترجمہ: عقل (اس غذائے روحانی کی) دلدادہ ہو گئی، (اب) تم کیا فضول باتیں کرتے ہو؟ (وہ غذا کی طلب سے رکنے والی نہیں، اب تمہاری ترقی کا) راستہ ظاہر ہو گیا، تم کیوں بے استقلالی کے ساتھ بیٹھے ہو؟

15

عقل دو عقل است اول مکسبی

کہ در آموزی چو در مکتب صبی

ترجمہ: عقل دو طرح کی ہے، ایک (عقل) کسبی۔ جسکو تم (اس طرح) حاصل کرتے ہو جس طرح بچہ مدرسے سے(سیکھتا ہے۔)

16

از کتاب و اوستاد و فکر و ذکر

از معانی وز علومِ خوب و بکر

ترجمہ: کتاب (کے مطالعہ) استاد (کی تعلیم) اور (خود اپنے) غور اور تکرار سے۔ (علم) معانی اور (دیگر) عمدہ اور تازہ علوم (سیکھتا ہے۔)

17

عقل تو افزوں شود بر دیگراں

لیک تو باشی ز حفظِ آں گراں

ترجمہ: (اس تحصیلِ علم سے) تمہاری عقل دوسرے لوگوں سے بڑھ جائے گی۔ مگر تم ان (علوم) کو محفوظ رکھنے سے گرانی (اور ثقالت) محسوس کرو گے (جسکی وجہ یہ ہے کہ:)

18

لوحِ حافظ باشی اندر دور و گشت

لوح محفوظ ست کو زیں در گذشت

ترجمہ: (تحصیلِ علوم کے) دور اور سیر میں تمہیں (نقوشِ علمیہ کو) محفوظ رکھنے والی تختی بننا ہوگا۔ (بخلاف اسکے) جو شخص اس سے (آگے) ترقّی کر گیا، وہ علوم و معارف کی ایسی تختی ہے، جو (خدا کی) حفاظت میں ہے۔

مطلب: علوم ظاہر کی تحصیل سے جو عقل پیدا ہوتی ہے، وہ دل و دماغ کے لیے موجبِ تکلیف و ثقالت ہے، لیکن علومِ باطن سے پیدا ہونے والی عقل سے دل و دماغ کو کوئی اذیت یا تکان محسوس نہیں ہوتی، کیونکہ وہ منجانب اللہ ہے آگے اسی عقل کا ذکر آتا ہے:

19

عقلِ دیگر بخششِ یزداں بود

چشمۂ آں درمیانِ جان بود

ترجمہ: دوسری (قسم کی) عقل حق تعالٰی کا انعام ہے۔ جسکا سر چشمہ روح کے اندر ہے۔

20

چوں ز سینہ آبِ دانش جوش کرد

نے شود گندہ نہ دیرینہ نہ زرد

ترجمہ: جب سینے (کے اندر) سے (اس) عقل کا چشمہ ابلتا ہے۔ تو نہ وہ گندہ ہوتا ہے نہ پرانا نہ زرد۔

21

ور رہِ نبعش بود بستہ چہ غم

کو ہمے جوشد ز خانہ دم بدم

ترجمہ: اور اگر اسکے ابلنے کی جگہ بند ہو جائے تو کیا فکر ہے؟ کیونکہ وہ پھر بھی دم بدم خانہ (قلب) سے ابلتا رہتا ہے۔ (علمِ وہبی کے آثار ظاہر میں نمودار نہ ہوں مگر باطن میں اس کا دریا موجزن رہتا ہے۔)

22

عقلِ تحصیلی مثالِ جویہا

کاں رود در خانہ از گویہا

ترجمہ: (بخلاف اسکے) عقلِ کسبی کی مثال نہروں کی سی ہے۔ جو (کتابوں اور استادوں کی) نالیوں کے ذریعہ خانہ (قلب) میں جاتی ہے۔

23

راہِ آبش بستہ شد شد بے نوا

تشنہ ماند و زار و با صد ابتلا

ترجمہ: (اگر) اسکے پانی (کے آنے) کا راستہ بند ہو جائے تو (اس پانی کا طالب) محروم ہو جاتا ہے۔ پیاسا اور بے حال رہ جاتا ہے، اور سینکڑوں آزمائشوں (میں مبتلا ہو جاتا ہے۔)

مطلب: علمِ رسمی اور عقلِ کسبی کی نہریں کتابوں اور استادوں کے ذریعہ سے دل پر گرتی ہیں، اور اگر کسی وجہ سے یہ ذرائع مسدود ہو جائیں، تو قلب اس عقل سے بے بہرہ رہ جاتا ہے۔ بخلاف اسکے علومِ وہبیہ کا چشمہ خود دل سے ابلتا ہے وہ بیرونی ذرائع پر موقوف نہیں۔ اس لیے اگر اس کا راستہ بند ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ ہو گا یہ کہ اس کے آثار خارج میں نمایاں نہ ہوں گے، لیکن وہ چشمہ اور اس کا غلیان و جریان بند نہ ہو گا، کیونکہ اسکے منبع میں کوئی فتور نہیں آتا وہ دل سے نکلتا ہے اور دل میں رہتا ہے۔

24

از درونِ خویشتن جُو چشمہ را

تا رہی از منّتِ ہر نا سزا

ترجمہ: (اے مخاطب! اس) چشمہ (معارف) کو خود اپنے اندر تلاش کرو۔ کہ ہر نالائق کے احسان سے چھوٹ جاؤ۔ (آگے پھر عقل کی تعریف میں ایک حکایت ارشاد فرماتے ہیں:)