دفتر 4 حکایت 84: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بنی ہذیل میں سے ایک جوان کو فوج کا افسر بنانا جس میں بڈھے اور جنگ آزما (لوگ) موجود تھے

آغازِ شرح

پیچھے یہ ذکر تھا کہ انسان عقل کی بدولت اشرف المخلوقات ٹھہرا، اور انسانی افراد میں سے بھی جو شخص زیادہ ذی عقل ہو، وہ کم عقل افراد پر شرف رکھتا ہے، اگرچہ وہ لوگ جسمانی قوّت میں یا مال و دولت میں یا عمر میں اس سے بڑے ہوں، اسی لیے کہا ہے۔ ”بزرگی بعقل ست نہ بسال“ اب اسکی تائید میں ایک تاریخی حکایت ارشاد ہوتی ہے، جسمیں یہ بیان ہو گا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نوجوان کو محض اسکی عقل و دانش کے لحاظ سے فوج کا افسر بنایا، اگرچہ اس سے زیادہ معمّر لوگ فوج میں موجود تھے۔

حصہ دوم

دفتر چہارم: حکایت: 84

امیر گردانیدنِ رسول علیہ السّلام جوانِ ہذیلی را بر سرّیہ کہ دراں پیراں و جنگ آزمودگان بودند

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بنی ہذیل میں سے ایک جوان کو فوج کا افسر بنانا جس میں بڈھے اور جنگ آزما (لوگ) موجود تھے

1

یک سریّہ مے فرستادے رسولؐ

بہر جنگِ کافر و دفعِ فضول

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ) کافر (لوگوں) سے جہاد کرنے۔ اور فضول (لوگوں) کے دفع (کرنے) کے لیے ایک فوجی مہم بھیج رہے تھے۔

2

یک جوانے را گزید او از ہذیل

میرِ لشکر کردش و سالارِ خیل

ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی ہذیل میں سے ایک جوان کو انتخاب کیا۔ (اور) اسکو افسرِ فوج اور سپہ سالار بنا دیا۔

3

اصل لشکر بیگماں سرور بود

قومِ بے سرور تنِ بے سر بود

ترجمہ: بے شبہ افسر فوج کی اصل (حقیقت) ہوتا ہے۔ جماعت بے امیر جسمِ بے سر ہے۔

4

ایں ہمہ کہ مُردہ و پژمردۂ

زاں بود کہ ترکِ سرور کردۂ

ترجمہ: تم جو یوں مردہ (دل) اور افسردہ (طبع) ہو۔ تو اسکی وجہ یہ ہے کہ تم نے شیخ کا (اتباع) ترک کر دیا ہے۔ (جسکے زیرِ ہدایت اعمال و اشغال بجا لانے سے روحانی حیات حاصل ہوتی ہے۔)

5

از کسل وز بخل وز ما و منی

مے کشی سر خویش را سر میکنی

ترجمہ: تم سستی اور کنجوسی اور غرور و خود پسندی کی وجہ سے سرکشی کرتے ہو۔ اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہو۔ (یہی تمہاری عدمِ ترقی کا باعث ہے۔) مرید کی روحانی پستی عدمِ اتباعِ شیخ کی وجہ سے ہوتی ہے۔)

مطلب: سستی سے شیخ کی ہدایت پر عمل کرنے میں تغافل، اور کنجوسی سے شیخ کی خدمت بجا لانے میں بخل و امساک مراد ہے۔ ”ما و منی“ سے یہ مقصود ہے کہ تم اپنے آپکو باکمال اور شیخ سے مستغنی سمجھتے ہو، جو موجبِ حرمان ہے۔

سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

ز ہستی تہی آے تا پُر شوی

تو از خود پُری راں تہی مے روی

6

ہمچو استورے کہ بگریزد ز بار

او سرِ خود گیرد اندر کوہسار

ترجمہ: تم اس گدھے کی مانند ہو جو بوجھ سے بھاگ نکلے۔ (اور) پہاڑ کے اندر اپنی راہ لگے۔

7

صاحبش درپے دواں کاے خیرہ سر

ہر طرف گرگے ست اندر قصدِ خر

ترجمہ: اس کا مالک پیچھے دوڑتا ہوا (چلائے) کہ اے سرکش! (یہاں) ہر طرف بھیڑیئے گدھے کے قصد میں (پھرتے) ہیں۔

8

گر ز چشمم ایں زماں غائب شوی

پیشت آید ہر طرف گرگِ قوی

ترجمہ: اگر تو اس وقت میری نظر سے غائب ہوگا۔ تو ہر طرف طاقتور بھیڑیئے سے تیرا سامنا ہوگا۔

9

استخوانت را بخاید چوں شکر

کہ نہ بینی زندگانی را دگر

ترجمہ: وہ تیری ہڈیاں شکر کی طرح چبا جائے گا۔ (حتّٰی) کہ تو دوبارہ زندگی (کی صورت) نہ دیکھے گا۔

10

آں مکُن آخر بمانی از علف

آتش از بے ہیزمے گردد تلف

ترجمہ: ایسا نہ کر کیونکہ (اگر اور کچھ نہیں تو) آخر تو گھاس سے (تو) محرم رہ جائے گا۔ (عدمِ خوراک سے مر جائے گا) آگ ایندھن کے نہ ہونے سے بجھ جاتی ہے۔

11

ہیں بمگریز از تصرف کردنم

وز گرانی بار چوں جانت منم

ترجمہ: خبردار! میری دست اندازی سے اور بوجھ کی گرانی سے مت بھاگ۔ (جبکہ) میں (تیرا دشمن نہیں، بلکہ) تیری جان (کی سلامتی کا باعث) ہوں۔ (مرید کو شیخ کے تصرف سے گریز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ کَالمَِیّتِ فِیْ یَدِ الغَسَّالِ“ بن جانا لازم ہے، کہ اس میں اسکی بہتری ہے۔)

12

تو ستوری ہم کہ نفست غالب ست

حکم غالب را بود اے خود پرست

ترجمہ: اے خود پرست! تو بھی (نِرا) گدھا ہے کیونکہ تیرا نفس (تجھ پر) غالب ہے۔ (اور) غالب پر حکم لگایا جاتا ہے (”خود پرست“ بمعنٰی نفس پرست ہے۔ جب نفس کی پرستش ہوتی ہے تو نفس غالب ہوا، اور جس شخص میں نفسِ بہیمی غالب ہے وہ مثلِ بہائم ہے۔)

13

خر نخواندت اسپ خواندت ذوالجلال

اسپِ تازی را عرب گوید تَعَالْ

ترجمہ: (مانا کہ) حق تعالٰی نے تم کو گدھا (کہہ کر) نہیں پکارا (لیکن) گھوڑا (کہہ کر) تو پکارا ہے۔ (چنانچہ) عرب لوگ عربی گھوڑے کو (پکارتے وقت) تَعَالْ“ کہتے ہیں۔

مطلب: اوپر ”خود پرست“ کو کہا تھا کہ تو نِرا گدھا ہے، مگر اسکے گدھا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی سند حق تعالٰی کے کلام پاک سے ملے۔ اب فرماتے ہیں کہ بے شک حق تعالٰی نے یہ لقب تم کو نہیں دیا، مگر آیات قرآنیہ سے تم پر گھوڑے کا نام صادق آنے کا ثبوت تو ملتا ہے۔ یعنی عرب اپنے گھوڑے کو تَعَالْ، تَعَالْ“ کہہ کر پکارا کرتے ہیں۔ اور حق تعالٰی نے تم کو اس لفظ سے پکارنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿قُلۡ تَعَالَوۡا اَتۡلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمۡ عَلَیۡکُمۡ اَلَّا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا﴾ (الانعام: 151) ”(ان سے) کہو کہ: آؤ، میں تمہیں پڑھ کر سناؤں کہ تمہارے پروردگار نے (در حقیقت) تم پر کونسی باتیں حرام کی ہیں۔“ پس جب کلام باری میں تمہارے لیے وہ لقب استعمال ہوا ہے، جو گھوڑے کے لیے مستعمل ہے، تو گویا حق تعالٰی نے تم کو گھوڑے ٹھہرایا۔

14

میرِ آخور بود حق را مصطفٰیؐ

بہر استورانِ نفسِ پُر جفا

ترجمہ: (ان) ظالم نفسِ (امَّارہ) کے گھوڑوں (کو قابو میں رکھنے) کے لیے، مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم حق تعالٰی کی طرف سے دروغۂ اصطبل (مقرر ہو چکے) تھے۔

مطلب: پیغمبر اپنی امت کا گلّہ بان ہوتا ہے، وہ اپنی خداداد تدبیر سے مختلف طبائع کے بہیمی المزاج لوگوں کو ایک راستہ پر ڈال دیتا ہے۔ دوسرے لوگوں میں یہ قابلیت ممکن نہیں۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت لکھی ہے: ”کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا۔ آپ نے جو کچھ اس وقت میسّر تھا اسے عطا فرمایا، مگر اعرابی نے اس پر اپنی نا خوشی کا اظہار کیا۔ جس سے صحابہ کو اس پر غصّہ آ گیا اور اسکو مارنے کے لیے کھڑے ہو گئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے انکو روکا، اور اعرابی کو اپنے ساتھ گھر لے گئے اور اسے کچھ اور دیا، جس سے وہ خوش ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیری طرف سے ہمارے اصحاب کے دل میں کچھ کدورت ہے، بہتر ہے کہ اسی خوشی کا اظہار انکے سامنے بھی کر دے، تاکہ انکا دل تجھ سے صاف ہوجائے۔ چنانچہ وہ اعرابی اصحاب کے سامنے گیا، انکے روبرو بھی اپنی خوشی و شادمانی ظاہر کی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعائیں دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”اِنَّ مَثَلِیْ وَ مَثَلُ ھٰذَا الْاَعْرَابِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ کَانَتْ لَہٗ نَاقَۃٌ شَرَدَتْ عَلَیْہِ فَاتَّبَعَھَا النَّاسُ فَلَمْ یَزِیْدُوْھَا اِلَّا نُفُوْراً فَنَادَاھُمْ صَاحِبُ النَّاقَۃِ خَلَوْا بَیْنِیْ وَ بَیْنَ نَاقَتِیْ فَاِنِّیْ اَرْفَقُ بِھَا وَ اَعْلَمُ فَتَوَجَّہَ لَھَا صَاحِبُ النَّاقَۃِ بَیْنَ یَدَیْھَا فَاَخَذَ لَھَا مِنْ قُمَامِ الْاَرْضِ فَرَدَّھَا ھَوْنًا ھَوْنًا حَتّٰی جَاءَتْ وَاسْتَنَاخَتْ وَ شَدَّ عَلَیْھَا رَحْلَھَا وَاسْتَوَیٰ عَلَیْھَا وَاِنِّیْ لَوْ تَرَکْتُکُمْ حَیْثُ قَالَ الرَّجُلُ مَا قَالَ فَقَتَلْتُمُوْہٗ دَخَلَ النَّارَ“ یعنی ”میری اور اس اعرابی کی مثال اس شخص کی سی ہے جسکی اونٹنی بھاگ گئی ہو۔ لوگ اسکے پیچھے جائیں، مگر وہ (پکڑنے کے بجائے) اسے اور زیادہ بھگا دیں۔ پھر اونٹنی والا انکو پکارے کہ تم مجھے ہی اپنی اونٹنی پکڑنے دو۔ کیونکہ میں اسکو قابو میں لانا خوب جانتا ہوں، چنانچہ اونٹنی والا اسکے سامنے گیا پھر زمین سے کچھ گھاس ہاتھ میں لی، اور اسے آہستہ آہستہ لوٹایا، حتّٰی کہ وہ آ گئی، اور بیٹھ گئی۔ اور اس نے اس پر اپنی کاٹھی ڈالی۔ اور سوار ہو گیا، اگر میں اس وقت جب اس شخص نے وہ الفاظ کہے تھے، تم کو نہ روکتا اور تم اسے قتل کر ڈالتے تو یہ دوزخ میں جا داخل ہوتا۔“ (احیاء العلوم جلد چہارم باب اخلاق النبوۃ) اسی روایت سے مولانا کے اس قول کی تائید ہوتی ہے۔ کہ ”میر آخور بود حق را مصطفٰیؐ“۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق تعالٰی نے اس اعرابی کے سے بہیمی المزاج لوگوں کو انسانیت کا سبق پڑھانے اور ہلاکتِ ابدی سے بچانے کے لیے مبعوث فرمایا تھا، اور آپکو حکم دیا کہ ان لوگوں کو کلمۂ حق کی طرف راغب کریں۔

15

قُلْ تَعَالَوْا گفت از جذبِ کرم

یا ریاضت تاں دہم من رائضم

ترجمہ: حق تعالٰی نے مہربانی کے جوش سے حکم دیا کہ (اے پیغمبر ان سے) کہو کہ (لوگو! ادھر) چلے آؤ۔ تاکہ میں تم کو کثرت کراؤں۔ میں گھوڑوں کے سے سرکش (لوگوں کو) کثرت کرانے والا ہوں۔ (طاعت و عبادت کی کثرت انسان کو منکسر المزاج بندہ بنا دیتی ہے۔)

16

نفسہا را تا مُرَوَّضْ کردہ ام

زیں ستوراں بس لکدہا خوردہ ام

ترجمہ: 1۔ جس سے میں (سرکش) نفسوں کو مطیع بنا رہا ہوں۔ ان گھوڑوں سے میں نے بہت دولتیاں کھائی ہیں۔

2۔ ان گھوڑوں سے میں نے بہت دولتیاں کھائی ہیں۔ حتّٰی کہ میں نے (انکے سرکش) نفسوں کو مطیع کر کے چھوڑا (پیغمبروں کی ہدایتِ خلق کی کوشش میں لوگوں سے گوناگوں اذیتیں سہنے کے حالات معلوم ہی ہیں۔)

17

ہر کجا باشد ریاضت بارۂ از

از لکدہایش نباشد چارۂ

ترجمہ: جہاں کوئی ریاضت کے قاعدہ والا بزرگ ہوتا ہے۔ اس کو اذیتوں کے (سہے) بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ (انبیاء علیہم السّلام و اولیاء کرام کو جاہلوں سے تکالیف ضرور پہنچتی ہیں۔)

18

لاَجَرم اغلب بلا بر انبیاءؑ ست

کہ ریاضت دادنِ خاماں بلاست

ترجمہ: اس لئے زیادہ مصائب انبیاء علیہم السّلام پر آتی ہیں۔ کیونکہ نا پختہ لوگوں کو سیدھا کرنا بجائے خود ایک مصیبت ہے (جس سے یہ لوگ بگڑ کر دکھ پہنچاتے ہیں۔ حدیث میں ہے: ”عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ: اَلْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ فَيُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلٰى حَسْبِ دِيْنِهِ فَإِنْ كَانَ دِيْنُهُ صُلْبًا اِشْتَدَّ بَلَاؤُهُ وَإِنْ كَانَ فِيْ دِيْنِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلٰى حَسْبِ دِيْنِهِ فَمَا يَبْرَحُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتّٰى يَتْرُكَهُ يَمْشِيْ عَلَى الْأَرْضِ مَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ“ (الترمذي: 2398) ”حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! صلی اللہ علیہ وسلّم لوگوں میں سب سے سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: انبیاءِ کرام علیہم الصلاۃ والسّلام کی، پھر درجہ بدرجہ جو اُن سے زیادہ قریب ہوتاہے، چنانچہ آدمی کو اپنی دینی حالت کے مطابق آزمایا جاتاہے، سو اگر اس کا ایمان مضبوط ہو تو اسکی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے، اور اگر اسکے دین میں کمزوری ہو تو اپنی دینی حالت کے بقدر آزمایا جاتاہے، بہرحال آزمائش بندہ مؤمن کے ساتھ لگی رہتی ہے، یہاں تک کہ اسے اس حال میں کر چھوڑتی ہے کہ وہ زمین پر چلتاہے اور اس پر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔)

19

سکسکانید از دمم یرغا روید

تا یُواش و مرکبِ سلطان شوید

ترجمہ: نرم رفتار اور ریاضت یافتہ گھوڑا، جو بادشاہوں اور امیروں کی سواری کے لائق ہو۔


20

قُلْ تَعَالَوْا قُلْ تَعَالَوْا گفت حق

اے ستورانِ ملول اندر سبق

ترجمہ: اے پیش قدمی سے تھک جانے والے گھوڑو! حق تعالٰی نے فرمایا ہے: ”قُلْ تَعَالَوْا قُلْ تَعَالَوْا“ (”کہہ دو چلے آؤ کہہ دو چلے آؤ۔“ پس تم پیش قدمی سے جی نہ چراؤ، ہمت کرو اور آگے بڑھو۔)

21

قُلْ تَعَالَوْا قُلْ تَعَالَوْا گفت حَے

اے ستورانِ فسردہ رَگ و پَے

ترجمہ: اے بے جان رگ پٹھے والے گھوڑو! (خداوندِ) حیّ و (قیّوم) نے فرمایا ہے: ”کہہ دو چلے آؤ کہہ دو چلے آؤ۔“

22

قُلْ تَعَالَوْا قُلْ تَعَالَوْا گُفت ربّ

اے ستوران رمیدہ از ادب

ترجمہ: اے ادب سے بھاگنے والے گھوڑو، پروردگار نے فرمایا ہے: ”کہہ دو چلے آؤ کہہ دو چلے آؤ۔“

23

گر نیایند اے نبی غمگیں مشو

زاں دو بے تمکیں تو پر از کیں مشو

ترجمہ: اے نبی (صلی اللّٰہ علیہ وسلّم!) اگر وہ لوگ (اس بلانے پر نہ آئیں، تو آپ غمگین نہ ہوں۔ ان دو (چار) بے وقار لوگوں سے آپ غضب ناک نہ ہوں۔

مطلب: یہ مضمون اس آیت سے ماخوذ ہے: ﴿وَ مَنۡ کَفَرَ فَلَا یَحۡزُنۡکَ کُفۡرُہٗ﴾ (لقمان:23) ”اور (اے پیغمبر) جس کسی نے کفر اپنا لیا ہے، تمہیں اس کا کفر صدمے میں نہ ڈالے۔“ آگے ان لوگوں کے کفر و انکار کی وجہ بیان فرماتے ہیں:

24

گوشِ بعضے زیں تَعَالَوْاہَا کرست

ہر ستورے را صطبلے دیگرست

ترجمہ: (کیونکہ) بعض لوگوں کے کان اس ﴿تَعَالَوْا﴾ کی نداؤں (کو سننے) سے بہرے ہیں۔ (اس لئے کہ) ہر گھوڑے کا اصطبل جداگانہ ہوتا ہے۔ (جسطرح ہر گھوڑا بلانے سے اپنے اصطبل کی طرف جاتا ہے، اسی طرح سعید سعادت کی طرف، اور شقی شقاوت کی طرف جائے گا۔ ﴿وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا یَسۡتَغۡفِرۡ لَکُمۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ لَوَّوۡا رُءُوۡسَہُمۡ وَ رَاَیۡتَہُمۡ یَصُدُّوۡنَ وَ ہُمۡ مُّسۡتَکۡبِرُوۡنَ﴾ (المنافقون:5) ”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ، اللہ کے رسول تمہارے حق میں مغفرت کی دعا کریں، تو یہ اپنے سروں کو مٹکاتے ہیں، اور تم انہیں دیکھو گے کہ وہ بڑے گھمنڈ کے عالم میں بے رخی سے کام لیتے ہیں۔“

25

منہزم گردند بعضے زیں نِدا

ہست ہر اسپے طویلہ او جُدا

ترجمہ: بعض لوگ اس ندا سے بھاگتے ہیں۔ کیونکہ ہر گھوڑے کا طویلہ جدا ہے۔ (وہ کسی غیر مانوس طویلہ کی طرف بلانے سے نہیں جاتا: ﴿فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا﴾ (نوح:6))

26

منقبض گردند بعضے زیں قصص

زانکہ ہر مُرغے جدا دارد قفص

ترجمہ: بعض ان روایات سے تنگ دل ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہر پرندہ کا پنجرہ الگ ہے: ﴿فَمَنۡ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنۡ یَّہۡدِیَہٗ یَشۡرَحۡ صَدۡرَہٗ لِلۡاِسۡلَامِ ۚ وَ مَنۡ یُّرِدۡ اَنۡ یُّضِلَّہٗ یَجۡعَلۡ صَدۡرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ﴾ (الانعام: 125) ”غرض جس شخص کو اللہ ہدایت تک پہنچانے کا ارادہ کرلے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے، اور جسکو (اسکی ضد کی وجہ سے) گمراہ کرنے کا ارادہ کرلے، اسکے سینے کو تنگ اور اتنا زیادہ تنگ کردیتا ہے کہ (اسے ایمان لانا ایسا مشکل معلوم ہوتا ہے) جیسے اسے زبردستی آسمان پر چڑھنا پڑ رہا ہو۔“ آگے اس تفاوتِ احوال کے چند نظائر پیش فرماتے ہیں:

27

خود ملائک نیز نا همتا بُدند

زیں سبب بر آسماں صف صف شدند

ترجمہ: فرشتے بھی تو باہم غیر مساوی تھے۔ اسی لیے آسمان میں حسبِ اختلاف مراتب، صف صف بن گئے ہیں۔ (جیسے فرمایا: ﴿وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهٗ مَقَامٌ مَّعْلُومٌ - وَ إِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّوْنَ - وَ إِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ﴾ (الصافات: 164-166) ”اور (فرشتے تو یہ کہتے ہیں کہ) ہم میں سے ہر ایک کا ایک معین مقام ہے۔ اور ہم تو (اللہ تعالٰی کی اطاعت میں) صف باندھے رہتے ہیں۔ اور ہم تو اللہ تعالٰی کی پاکی بیان کرتے رہتے ہیں۔“)

28

کودکان گرچہ بیک مطلب درند

در سبق ہر یک ز یک بالا تر اند

ترجمہ: (اسی طرح) بچے اگرچہ (تعلیم کے) ایک ہی مقصد میں (کوشش کر رہے) ہیں۔ لیکن سبق میں ایک سے ایک بڑھ کر ہیں۔ (جیسے فرمایا: ﴿نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَآءُ وَ فَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ﴾ (یوسف: 76) ”اور ہم جس کو چاہتے ہیں، اس کے درجے بلند کردیتے ہیں، اور جتنے علم والے ہیں، ان سب کے اوپر ایک بڑا علم رکھنے والا موجود ہے۔“

29

مشرقی و مغربی را حِسّہاست

منصبِ دیدار حِسِّ چشم راست

ترجمہ: مشرقی اور مغربی لوگوں کے مختلف حواس ہیں۔ (اور تمام حواس مختلف افعال بجا لاتے ہیں) چنانچہ دیکھنے کا کام آنکھ کی حسّ کے لیے (خاص) ہے (جو کسی دوسرے عضو سے نہیں ہو سکتا۔)

30

صد ہزاراں گوشہا گر صف زنند

جملہ محتاجانِ چشمِ روشن اند

ترجمہ: (چنانچہ) اگر لاکھوں کان صف بستہ ہوں۔ (اور دیکھنے کا کام کرنا چاہیں، تو) سب کے سب (اسکے لیے) روشن آنکھ کے محتاج ہیں۔

31

باز صفِّ گوشہا را منصبے

در سماع جان و اخبارِ نُبے

ترجمہ: پھر کانوں کی جماعت کے لیے (کسی ذی) روح (کی آواز) کو اور قرآن مجید کے قصص کو سننے کی (خاص) خدمت (مقرر) ہے۔

32

صد ہزاراں چشم را آں راہ نیست

ہیچ چشمے از سماع آگاہ نیست

ترجمہ: (اور) لاکھوں آنکھوں (میں سے کسی) کو بھی وہ طریقہ نہیں (آتا۔) کوئی آنکھ سننے سے آگاہ نہیں۔

33

ہمچنیں از حسّ یک یک مے شمر

ہر یکے معزول ازاں کارِ دگر

ترجمہ: اسی طرح ایک ایک حسّ کو گن جاؤ۔ ہر ایک (حسّ) دوسری حسّ کے کام سے بے تعلق ہے۔

34

پنج حسّ ظاہر و پنج اندرون

در صف اند اندر قیام الصَّافّون

ترجمہ: پانچ ظاہری حواس اور پانچ باطنی، صف بستہ ہیں (اور) صف بستہ (فرشتوں) کے (سے) قیام میں (ہیں۔)

مطلب: جس طرح ملائکہ صف بستہ اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ کسی جماعت کا کام صرف تسبیح و تقدیس ہے، کوئی جماعت آسمانوں میں مصروفِ عمل ہے، کوئی زمین میں مشغولِ کار ہے۔ اسی طرح حواس کی جماعتوں کا حال ہے جن میں سے ظاہری حواس باصرہ، سامعہ، شامہ، ذائقہ، لامسہ ہیں۔ اور باطنی حواس حسِّ مشترک، خیال، وہم، حافظہ اور متصرفہ ہیں۔ اور قوائے، نباتیہ، ہاضمہ، جاذبہ، ماسکہ، دافعہ ہیں۔ یہ سب کی سب اپنے اپنے وظائفِ عمل میں مشغول اور اپنے اپنے مقام میں متمکّن ہیں۔ نہ کوئی دوسری جگہ جا سکتی ہے، نہ دوسرا کام اختیار کر سکتی ہے۔ یہی حال نیک و بد انسانوں کا ہے، نیک نیکی کے مقام سے مانوس اور نیک کاموں کے خوگر ہیں، اور بد بدی کی طرف راغب اور برے کام کے عادی ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

35

ہر کسے کو از صفِ دیں سرکش ست

مے رود سوُئے صفے کاں ناخوش ست

ترجمہ: ہر شخص جو دینداری کی صفت سے سرکشی کرتا ہے۔ وہ اس صف کی طرف جاتا ہے جو اچھی نہیں (کیونکہ وہ اس سے مانوس ہے۔) غنی رحمۃ اللہ علیہ؎

از تنزلِ پست فطرت را نباشد ہیچ باک

بیمِ افتادن نباشد هر که باشد نے سوار

36

تو ز گفتارِ تَعَالَوْا کَم مکن

کیمیائے بس شگرف ست ایں سخُن

ترجمہ: (اے پیغمبر!) آپ ﴿تَعَالَوْا﴾ کی ندا میں کمی نہ کریں۔ یہ قول بہت عجیب کیمیا ہے۔

37

گر مسے گردد ز گفتارت نفیر

کیمیا را ہیچ از وَے وا مگیر

ترجمہ: اگر کوئی (جاہل جو نا قابلیت میں گویا) تانبہ (ہے) آپکے قول سے متنفر ہو۔ تو (آپ پروا نہ کریں اور اپنے قول کی کیمیا کو اس سے ہرگز بند نہ کریں۔ (بلکہ یہ قول برابر فرماتے رہیں، شاید وہ راہِ راست پر آ جائے۔)

38

ایں زماں گرم است نفسِ کافرش

گفتِ تو سودش دہد در آخرش

ترجمہ: اس وقت جو وہ آپکے ارشاد کو مانتا نہیں، تو اسکی وجہ یہ ہے کہ ابھی) اسکا نفسِ کافر جوش میں ہے (آپ باربار اس کو سمجھائیں گے تو) آخر آپ کا قول اسکو مفید ہو گا۔

39

قُلْ تَعَالَوْا قُلْ تَعَالَوْا اے غُلام

ہیں کہ اِنَّ اللہَ یَدْعُوْا بِالسَّلَامِ

ترجمہ: (اے پیغمبر!) ”کہو چلے آؤ کہو چلے آؤ۔“ اے لڑکے! آگاہ رہ کہ ”اللہ تعالٰی سلامتی کی طرف بلاتا ہے۔“ (اشارہ بآیۂ: ﴿وَ اللّٰہُ یَدۡعُوۡۤا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ ؕ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴾ (یونس: 25) ”اور اللہ تعالٰی لوگوں کو سلامتی کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے، اور جسکو چاہتا ہے سیدھے راستے تک پہنچا دیتا ہے“

40

خواجہ باز آ از منی و از سری

سر ورے جو کم طلب کن سروری

ترجمہ: صاحب! غرور اور سرداری (کے زعم) سے باز آؤ۔ کوئی سردار تلاش کرو، سرداری کی خواہش نہ کرو۔ (مرشد تلاش کرو، خود باکمال ہونے کے مدّعی نہ بنو۔)