دفتر 4 حکایت 80: حضرت ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کا حضرت با یزید رحمۃ اللہ علیہ کی پیشگوئی سے مطلع ہونا

دفتر چہارم: حکایت: 80

شنیدنِ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ خبر دادنِ با یزید رحمۃ اللہ علیہ

حضرت ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کا حضرت با یزید رحمۃ اللہ علیہ کی پیشگوئی سے مطلع ہونا

1

ہمچناں آمد کہ او فرمودہ بود

بوالحسن از مردماں او را شنود

ترجمہ: جسطرح انہوں نے (یعنی با یزید رحمۃ اللہ علیہ نے) فرمایا تھا۔ اسی طرح ہوا (اور) ابو الحسن رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو لوگوں سے سنا (کہ با یزید رحمۃ اللہ علیہ نے یوں فرمایا ہے۔)

2

کہ حسن باشد مرید و امتم

درس گیرد ہر صباح از تُربتم

ترجمہ: کہ ابو الحسن میرا مرید اور میرا امتی ہوگا۔ وہ ہر صبح میری قبر سے فیض حاصل کرے گا۔

3

ہر صباحے آید و خواند سبق

بر سرِ خاک و شود پیرے بحق

ترجمہ: وہ ہر صبح تربت پر آئے گا اور سبق پڑھے گا۔ (حتّٰی کہ) وہ پیر برحق بن جائے گا۔

4

ہر صباحے تیز رفتے بے فتور

بر سرِ گورش نشستے با حضور

ترجمہ: (اس بنا پر) وہ بلا تاخیر ہر صبح تیزی سے جاتے۔ (اور) انکی قبر پر حضورِ (دل) سے بیٹھ جاتے۔

5

گفت من ہم نیز خوابش دیدہ ام

وز روانِ شیخ ایں بشنیدہ ام

ترجمہ: (اور) انہوں نے کہا، میں نے بھی انکو خواب میں دیکھا ہے۔ اور شیخ کی روح سے یہ بات سنی ہے۔

6

ہر صباحے رو نہادے سوئے گور

ایستادے تا ضحٰی اندر حضور

ترجمہ: وہ ہر صبح قبر کا رخ کرتے۔ اور پہر دن چڑھے تک حضور میں کھڑے رہتے۔

7

تا مثالِ شیخ پیشش آمدے

یا کہ بے گفتے شکالش حل شدے

ترجمہ: حتّٰی کہ شیخ کی مثالی صورت انکے سامنے آتی۔ یا بغیر گفتگو کے انکی مشکل حل ہو جاتی۔

8

تا یکے روزے بیامد با سعود

گورہا را برفِ نو پوشیدہ بود

ترجمہ: حتّٰی کہ ایک روز وہ سعادت مندی کے ساتھ آئے۔ تو قبروں کو تازہ برف نے ڈھک رکھا تھا۔

9

توے بر تو برفہا ہمچوں علم

قبہ قبہ دیدہ شد جانش بہ غم

ترجمہ: پہاڑ کی طرح تہ برتہ برفیں۔ (اور ان کی) چوٹیوں پر چوٹیاں دیکھ کر ان کی جان غمگین ہوئی۔ (کیونکہ اب معلوم نہ تھا کہ با یزید رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کہاں ہے؟)

10

بانگش آمد از خطیرۂ شیخِ حَیّ

ھَا اَنَا اَدْعُوْکَ کَیْ تَسْعٰی اِلَیّ

ترجمہ: تو ان کو شیخ زندہ کے ڈیرے سے آواز آئی۔ ہاں! میں تم کو بلا رہا ہوں، تاکہ تم میری طرف دوڑتے رہو۔

انتباہ: شیخ کو زندہ اس لیے کہا کہ شہدا کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے: ﴿وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ﴾ (آل عمران: 169) ”اور (اے پیغبر) جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوئے ہیں، انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھنا، بلکہ وہ زندہ ہیں، انہیں اپنے رب کے پاس رزق ملتا ہے۔“ اور جہادِ اکبر کا شہید جہاد بالسیف کے شہید سے افضل ہوتا ہے، کیونکہ وہ تیغِ عشق سے شہید ہوا ہے، اور ظاہر ہے کہ تیغِ عشق سے شہید ہونا تیغِ آہن کے ساتھ شہید ہونے سے افضل ہے۔ حضرت با یزید رحمۃ اللہ علیہ کے ندائیہ کلمات کو جو عربی میں ذکر کیا ہے، اس میں یہ اشارہ ہے کہ عالمِ برزخ کی زبان بھی عربی ہے، جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے، کہ اہلِ جنت کی زبان عربی ہوگی۔

11

ہیں بیا ایں سو بر آوازم شتاب

عالم ار برفست رو از من متاب

ترجمہ: ہاں ہاں! میری آواز پر جلدی ادھر چلے آؤ۔ اگر (سارا) جہان (بھی) برف (بن چکا) ہے، تو مجھ سے رخ نہ پھیرو (اور دنیا کی برف کی طرح ناپائیداری اور سردی پر صبر کرو۔)

12

حالِ او زاں روز شد خوب و بدید

آں عجائب راکہ اوّل مے شنید

ترجمہ: پھر اس روز سے ان کا (باطنی) حال اچھا ہوتا گیا، اور انہوں نے وہ عجائبات دیکھ لیے، جن کو پہلے سنا کرتے تھے۔

13

باز باید گشت سوے آں غلام

کرد باید آں حکایت را تمام

ترجمہ: (اب) اس غلام کی طرف واپس چلنا چاہیے۔ (اور) اس کہانی کو ختم کرنا چاہیے۔