دفتر چہارم: حکایت: 79
کژ وژیدنِ باد بر سلیمان علیہ السّلام بسبب زلّتِ او
حضرت سلیمان علیہ السّلام کی لغزش کی وجہ سے ہوا کا ان پر ٹیڑھا چلنا
1
باد بر تختِ سلیماںؑ رفت کژ
پس سلیماںؑ گفت بادا کژ مغژ
ترجمہ: ہوا حضرت سلیمان علیہ السّلام کے تخت پر ٹیڑھی چلی۔ تو حضرت سلیمان علیہ السّلام نے فرمایا: اے ہوا! ٹیڑھی نہ چل۔
2
باد ہم گفت اے سلیمانؑ کژ مرو
ور روی کژ از کژم خشمیں مشو
ترجمہ: ہوا نے بھی کہا اے سلیمان علیہ السّلام! ٹیڑھے نہ چلو۔ اور اگر آپ ٹیڑھے چلیں گے تو میری کجروی سے ناراض نہ ہو جیے۔
3
ایں ترازو بہر ایں بنہاد حق
تا رود انصاف ما را در سبق
ترجمہ: یہ (اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے کی) ترازو حق تعالٰی نے اس لیے قائم کی ہے۔ کہ ہمارے معاملات میں انصاف عمل میں آئے۔
4
از ترازو کم کنی من کم کنم
تا تو با من روشنی من روشنم
ترجمہ: آپ ترازو سے کم کریں گے تو میں کم کر دوں گی۔ جبتک آپ میرے ساتھ روشن ہیں، میں روشن ہوں۔ (﴿وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا﴾ (الشوریٰ: 40) یعنی ”اور کسی برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے۔“)
5
ہمچنیں تاجِ سلیماںؑ میل کرد
روزِ روشن را برو چوں لیل کرد
ترجمہ: اسی طرح (ایک مرتبہ) حضرت سلیمان علیہ السّلام کا تاج ٹیڑھا ہو گیا۔ (اور) اس نے (تفکّر کی وجہ سے) ان پر دن دہاڑے اندھیر ڈال دیا۔
6
گفت تاجا کج مشو بر فرقِ من
آفتابا گم مشو از شرقِ من
ترجمہ: انہوں نے فرمایا اے تاج! تو میرے سر پر ٹیڑھا نہ ہو۔ اے آفتاب! تو میری مشرق سے گم نہ ہو۔
7
راست مے کرد او بدست آں تاج را
باز کج میشد براں تاج اے فتٰی
ترجمہ: آپ اس تاج کو ہاتھ سے سیدھا کرتے تھے۔ تو اے جوان! تاج ان پر ٹیڑھا ہو جاتا۔
8
ہشت بارش راست کرد و گشت کژ
گفت تاجا چیست آخر کژ مغژ
ترجمہ: آٹھ بار اسکو سیدھا کیا اور وہ ٹیڑھا ہو جاتا تھا۔ (آخر تنگ آ کر) فرمایا۔ اے تاج! آخر یہ کیا بات ہے؟ تو کجروی نہ کر۔
9
گفت اگر صدرہ کنی تو راست من
کژ شوم چوں کژ شوی اے موتمن
ترجمہ: (تاج نے) کہا امانت دار! جب آپ کج ہیں، تو اگر (مجھے) سو مرتبہ بھی سیدھا کریں گے تو میں ٹیڑھا ہوتا رہوں گا۔
10
پس سلیماںؑ اندرونش راست کرد
دل براں شہوت کہ بودش کرد سرد
ترجمہ: تو حضرت سلیمان علیہ السّلام نے اپنے دل کو سیدھا کر لیا۔ (اور اپنے) دل کو اس خواہش پر جو آپ کو تھی، ٹھنڈا کر لیا۔
11
بعد ازاں تاجش ہماں دم راست شد
آنچناں که تاج را مے خواست شد
ترجمہ: اسکے بعد انکا تاج فورًا سیدھا ہو گیا۔ آپ تاج کو جس طرح چاہتے تھے (اسی طرح) ہو گیا۔
12
بعد ازانش کژ ہمے کرد او بقصد
تاج او مے گشت تارَک جو بقصد
ترجمہ: اسکے بعد آپ اس کو قصدًا ٹیڑھا کرتے تھے۔ تو تاج بالارادہ سر کی تلاش میں واپس (سیدھا) ہو جاتا۔
13
ہشت کرت کژ بکرد آں مہترش
راست مے شد تاج بر فرقِ سرش
ترجمہ: اس شاہ نے اس کو آٹھ مرتبہ ٹیڑھا کیا۔ تو تاج آپکے سر کی چوٹی پر سیدھا ہو جاتا تھا۔
14
شاہ گفت اے تاج چونست ایں زماں
کژ کنم تو راست کردی ز امتحاں
ترجمہ: شاہ (سلیمان علیہ السّلام) نے کہا اے تاج! اب کیا بات ہے؟ کہ میں تجھ کو امتحانًا ٹیڑھا کرتا ہو تو تو سیدھا ہو جاتا ہے۔
15
تاج ناطق گشت اے شہ ناز کن
چوں فشاندی پر ز گل پرواز کن
ترجمہ: تاج بولا اے شاہ! (سلیمان علیہ السّلام) خوشیاں منائیے۔ جب آپ نے (روح کے) پروں سے (خواہشِ نفسانی کی) مٹی جھاڑ دی۔ تو (اب روحانی ترقّیات کے لیے پرواز) کیجئے۔
انتباہ: اس واقعہ میں چار باتیں سبق آموز ہیں۔ اول۔ ہوا اور تاج وغیرہ غیر ذی روح اشیاء کا تکلّم جو عقائد کی رو سے بالکل جائز اور امرِ واقع ہے۔ اگر اہلِ فلسفہ اسکے منکر ہیں تو یہ انکی کوتاہ فہمی و جہالت ہے۔ دوم۔ یہ کہ انسان کے اکثر مصائب و تکالیف خود اسکے اپنے اعمال کا نتیجہ و ثمرہ ہوتے ہیں۔ جیسے فرمایا: ﴿وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ﴾ (الشوریٰ: 30) یعنی ”اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے، اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے۔“ کوتاہ نظر انسان ان مصائب کو سوئے اتفاق یا اپنی بد قسمتی پر محمول کر کے اپنے آپ کو برئ الذمہ سمجھتا ہے، مگر خاصانِ خدا کو اللہ تعالٰی کی طرف سے یہ علم ہو جاتا ہے کہ فلاں تکلیف انکے فلاں فعل کی بنا پر پیش آئی ہے۔ سوم۔ حضرت سلیمان علیہ السّلام نے جس خواہش سے اپنے دل کو باز رکھا، وہ خواہش مباح تھی۔ معاصی کی قسم سے نہ تھی، کیونکہ انبیاء علیہم السّلام گناہ سے معصوم ہوتے ہیں۔ انکو اپنے علوِ شان کی وجہ سے اکثر مباحات سے پرہیز رکھنا بھی لازم ہوتا ہے۔ چنانچہ بفحوائے ”حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْن“ عامہ صالحین کی نیکیاں بھی ان حضرات کے لیے بمنزلۂ سیئات ہیں۔ چہارم۔ انبیاء علیہم السّلام کا کمالِ اطاعت چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السّلام نے تاج کی گفتگو سے متنبّہ ہو کر فورًا اپنی اصلاح کر لی۔ ”پس سلیمان علیہ السّلام اندرونش راست کرد۔“ ہم لوگوں کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے، جو اکابر کی نصائح اور کتبِ دینی کے مطالعہ سے بھی عبرت پذیر نہیں ہوتے۔ حالانکہ انبیاء کرام علیہم السّلام جمادات کے تکلّم سے بھی اپنی اصلاح کر لیتے ہیں۔ آگے پھر تاج کہہ رہا ہے:
16
نیست دستوری کزیں من بگذرم
پردہائے غیب ایں بر ہم درم
ترجمہ: مجھے اجازت نہیں ہے کہ اس (حد) سے آگے بڑھوں۔ (اور) اس (معاملہ) کے اخفا کے پردوں کو چاک کروں۔
مطلب: تاج کہتا ہے کہ راست رو کے ساتھ راستی اختیار کرنا، اور کج رو کے ساتھ کجی سے پیش آنا منجانب اللہ میرا فرض ہے، میں اسکے خلاف نہیں کر سکتا، اور اس بات کے اظہار سے میں نے معاملۂ مجازات کا راز ظاہر کر دیا، جسکو قدرت نے بمصلحتِ امتحان مخفی رکھا ہے۔ پس اس سے زیادہ اس معاملہ پر روشنی ڈالنے اور رازِ قدرت کو ظاہر کر دینے کی مجھے اجازت نہیں۔ معاملۂ مجازات پر پردۂ اخفا ڈالنے میں قدرت کی مصلحت یہ ہے کہ پاک و ناپاک فطرتوں کا فرق عیاں ہو جائے، اور خالص و مغشوش نیتوں میں اشتباہ نہ رہے۔ اب ہر شخص خواہ وہ نیک فطرت ہو یا بد فطرت، نیک و بد اعمال کی جزا و سزا سے بے پرواہ ہو کر عمل کرتا ہے۔ نیک فطرت نیک اعمال پسند کرتا ہے، اور بد فطرت برے اعمال کی طرف راغب ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہر عمل کا نتیجہ و ثمرہ ہر شخص کے نزدیک اسی طرح یقینی ہوتا ہے جسطرح سورج کے طلوع سے روشنی کا پھلینا یقینی ہے، تو بے شبہ ہر بد فطرت آدمی بھی برے اعمال کے نتائج سے ڈر کر نیک اعمال اختیار کر لیتا۔ پھر معلوم نہ ہوتا کہ نیک فطرت کون ہے اور بد فطرت کون۔ یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ہر گناہ و معصیت کی سزا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلّم نے بتا دی جو کتبِ دین میں درج ہے۔ پھر یہ کہنا صحیح کیونکر ہو سکتا ہے کہ ہر شخص اعمال کی سزا و جزا سے بے پرواہ ہو کر عمل کرتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں یقینی امر سے وہ امر مراد ہے جس میں عقلِ انسانی کو اپنے تجربہ اور قیاس کی بنا پر کوئی شبہ باقی نہیں رہتا، جسطرح طلوعِ آفتاب سے روشنی کا ظہور یا دو اور دو چیزوں کا مل کر چار ہو جانا وغیرہ۔ اور ظاہر ہے کہ اعمال کی سزا و جزا وغیرہ تمام ایمانیات مذکورہ قسم کے یقیناتِ عقلیہ میں سے نہیں، بلکہ صرف معتقدات ہیں، جنکا دائرہ صرف ان لوگوں تک محدود رہتا ہے جنکو پیغمبر کی راست گوئی پر یقین ہے۔ چنانچہ وہ کروڑوں انسان جو ایمان بالغیب سے محروم اور تعلیماتِ پیغمبری سے بیگانہ ہیں۔ ان ایمانیات کے صاف منکر ہیں۔ اگر یہ امور یقینیاتِ عقلیہ کی قبیل سے ہوتے تو دنیا میں ایک آدمی بھی انکا منکر نہ ہوتا، اور پھر دنیا میں کافر کا لفظ ہی بے معنٰی قرار پاتا، بلکہ کفار جو ان امور کے صاف منکر ہیں وہ تو رہے درکنار خود عامہ مومنین کو ہی لیجئے، جنہوں نے ہر بات میں عقلِ بشر کو معیارِ علم بنا رکھا ہے، انکے یہ معتقدات بھی شکوک و شبہات کے آماجگاہ بنے رہتے ہیں۔ پس ان امور کو یقینیات کیونکر کہہ سکتے ہیں؟ ہاں جو حضرات ”کَاَنَّکَ تَرَاہُ“ کے مقام پر فائز ہیں، اور جو ”لَوْ کَشَفَ الْغِطَاءُ مَا زَادَتْ یَقِیْنًا“ اپنے اس مقام کی خبر دے رہے ہیں، ان کا معاملہ ہی اور ہے، اور وہ اس بحث کے مصداق نہیں۔ وہ عقلِ بشر کی رہنمائی سے بے نیاز ہیں۔ آگے تاج کہتا ہے:
17
بر دهانم نہِ تو دستِ خود بہ بند
مر دہانم را ز گفتِ نا پسند
ترجمہ: (یا حضرت!) آپ میرے منہ پر اپنا دست مبارک رکھ دیجئے۔ (اور) میرے منہ کو نازیبا کلام سے روک دیجئے (تاکہ میں رازِ غیب کو افشا نہ کروں۔) آگے مولانا نصیحت فرماتے ہیں۔ جو اسی حکایت سے مستنبط ہے:)
18
پس ترا ہم غم کہ پیش آید ز درد
بر کسے تہمت منہ بر خویش گرد
ترجمہ: پس (اے بندے!) تجھ کو (کسی) تکلیف سے جو غم پیش آئے۔ تو کسی دوسرے پر تہمت نہ لگا، بلکہ اپنے آپ کی پڑتال کر (کہ شاید مجھ سے کوئی گناہ ہو گیا ہے۔ یہ اسکی سزا ہے۔)
19
ظن مبر بر دیگرے اے دوست کام
آں مکن کہ مے سگالید آں غلام
ترجمہ: اے یار کے پیارے! کسی دوسرے پر بد گمانی نہ کر۔ جسطرح اس غلام نے بدگمانی کی (تو ایسا نہ کر۔)
20
گاہ جنگش با رسول و مطبخی
گاہ خشمش با شہنشاہِ سخی
ترجمہ: (چنانچہ) کبھی اسکی جنگ قاصد اور باورچی کے ساتھ تھی۔ کبھی اسکا غصہ بادشاہ سخی پر تھا۔
21
ہمچو فرعونے کہ موسٰیؑ ہشتہ بود
طفلگانِ خلق را سر مے ربود
ترجمہ: فرعون کی طرح جس نے (اپنے اصلی دشمن یعنی) حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو تو چھوڑ دیا تھا۔ اور لوگوں کے بچوں کے سر (نا حق) کاٹ رہا ہے۔
22
آں عدو در خانۂ آں کور دل
او شدہ اطفال را گردن گسل
ترجمہ: وہ دشمن (تو) اس اندھے دل والے کے گھر میں (موجود تھا۔ مگر) وہ (بے گناہ) بچوں کی گردنیں کاٹتا رہا۔
23
تو ہم از بیروں بدی با دیگراں
و اندروں خوش گشتہ با نفسِ گراں
ترجمہ: تو بھی (یہی غلطی کرتا ہے کہ) باہر دوسرے لوگوں کے ساتھ بد سلوکی کر رہا ہے۔ اور (اپنے) اندر نفسِ مکروہ کے ساتھ خوش ہے۔ (حدیث: ”أَعْدَى عَدُوِّكَ نَفْسُكَ الَّتِىْ بَيْنَ جَنْبَيْكَ“ (السلسلة الضعيفة: 1164) یعنی ”تیرا سب سے سخت دشمن تیرا نفس ہے جو تیرے دونوں پہلوؤں میں ہے۔“)
24
خود عدوت اوست قندش مے دهی
وز بروں تہمت بہر کس مے نہی
ترجمہ: تیرا دشمن وہی (نفس) ہے، تو اس کو قند کھلا (کھلا کر پال) رہا ہے۔ اور باہر ہر شخص پر تہمت لگاتا (پھرتا) ہے (کہ یہ میرا دشمن ہے۔)
25
ہمچو فرعونے تو کور و کوردل
با عدو خوش بے گناہاں را مُذل
ترجمہ: تو فرعون کی طرح اندھا اور اندھے دل والا ہے۔ دشمن کے ساتھ خوش (اور) بے گناہ (لوگوں کو ذلیل کرنے والا ہے۔)
26
چند فرعونا کشی بے جرم را
مے نوازی ایں تن پُر غرم را
ترجمہ: اے فرعون! (طبع آدمی) تو کب تک بے گناہ (لوگوں) کو مارے گا؟ (اور الٹا اپنے) اس جسم کی پرورش کر رہا ہے جو (کثرتِ معاصی سے گویا) تاوانوں سے پُر ہے۔ (اسی لیے یہی سب سے پہلے واجب القتل ہے۔)
27
عقلِ او بر عقلِ شاہاں مے فزود
حکمِ حق بے عقل و کورش کردہ بود
ترجمہ: اسکی عقل بادشاہوں کی عقل سے بڑھ کر تھی۔ (مگر) حق تعالٰی کے حکم نے اسکو بے عقل اور اندھا بنا دیا تھا۔
28
مُہرِ حق بر چشم و بر گوش و خرد
گر فلاطون ست حیوانش کند
ترجمہ: حق تعالٰی کی مہر (جب) آنکھ اور کان اور عقل (پر لگ جاتی ہے۔ تو) اگر افلاطون بھی ہو تو اسے حیوان بنا دیتی ہے۔
29
حکمِ حق بر لوح مے آید پدید
آنچناں کہ حکمِ غیب با یزید
ترجمہ: حق تعالٰی کا حکم تختی پر ظاہر ہو جاتا ہے۔ جسطرح حضرت با یزید رحمۃ اللہ علیہ کا حکم غیب (ظاہر ہو گیا۔)