دفتر 4 حکایت 77: غلام کی حکایت کی طرف رجوع کرنا، جس نے اپنی روزی کی کمی کے سبب سے بادشاہ کی طرف رقعہ لکھا، اور بادشاہ کی بے توجہی

دفتر چہارم: حکایت: 77

باز گشتن بحکایتِ غلام، کہ رقعہ نوشت سوئے شاہ جہتِ کمیِ اجرے او، و بے التفاتیِ شاہ

غلام کی حکایت کی طرف رجوع کرنا، جس نے اپنی روزی کی کمی کے سبب سے بادشاہ کی طرف رقعہ لکھا، اور بادشاہ کی بے توجہی

1

ہمچناں کاں شخص از نقصانِ کشت

رقعہ سوئے صاحبِ خرمن نوشت

ترجمہ: (غرض غلام نے بادشاہ کی طرف رقعہ لکھا) جسطرح کوئی شخص کھیتی کی کمی سے۔ کھلیان کے مالک کو رقعہ لکھے۔ (شاید اس میں یہ اشارہ ملحوظ ہو کہ غلام نے اپنی حماقت سے وہ رقعہ اس تحکم و ادا سے لکھا، جس طرح وہ خود بادشاہ کو اس نقصان سے مطلع کر رہا ہے۔ حالانکہ اسے اپنے نقصان کے تدارک کے لیے عجز و تضرّع سے التماس کرنی لازم تھی۔ یہ اشارہ اس بنا پر مفہوم ہوتا ہے کہ کاشتکار کا مالکِ اراضی کو نقصانِ فصل کی اطلاع دینا کوئی التجا نہیں بلکہ رپورٹ ہوتی ہے۔)

2

رقعہ اش بردند پیشِ شاہ راد

خواند او رقعہ جوابے وا نداد

ترجمہ: تو اسکا رقعہ بادشاہِ دانا کے حضور میں پیش کیا گیا۔ اس نے رقعہ پڑھا، اور کوئی جواب نہ دیا۔

3

گفت او را نیست الا دردِ لوت

پس جوابِ احمق اولٰی تر سکوت

ترجمہ: (صرف اتنا) کہا کہ اس (غلام) کو محض خوراک کا دکھ ہے۔ پس احمق کا جواب خاموشی ہی بہتر ہے۔

کَمَا قِیْلَ؎

اِذَا نَطَقَ السَّفِیْہُ فَلَا تُجِبْہُ

فَخَیْرٌ مِنْ اِجَابَتِہٖ السُّکُوْتُ

4

نیستش دردِ فراق و وصلِ ہیچ

بندِ فرعست و نجوید اصل ہیچ

ترجمہ: (اسکو ہمارے) فراق و وصل کا کوئی درد نہیں۔ وہ متعلقات کا پابند ہے، اصل کا بالکل طالب نہیں۔

5

احمق ست و مردۂ ما و منی

کز غمِ فرعش فراغِ اصل نے

ترجمہ: وہ احمق ہے، اور ہستی و خودی پر مٹ رہا ہے۔ کہ (خورد و نوش وغیرہ) متعلقات کے غم سے اسکو اصل کی (تلاش) کی فرصت نہیں۔

مطلب: بادشاہ و غلام کی حکایت کے پردے میں خالق و مخلوق کے تعلق کی طرف اشارہ ہے، جو لوگ جنت اور اسکی حور و قصور کی طمع میں خدا پرستی کرتے ہیں۔ انکی مثال اس غلام کی سی ہے جو اپنی شکم پروری کی دھن میں بادشاہ کا مدحیہ قصیدہ لکھ رہا ہے۔ بندہ کامل وہ ہے جو خدا کی پرستش، خاص خدا کے لیے کرے۔ حور و قصور کا خیال تک بھی دل میں نہ لائے، خدا مل گیا تو سب کچھ پا لیا۔ ”چوں ازو گشتی ہمہ چیز از تو گشت“ عہد قریب میں پنجاب کے اندر سائیں توکّل شاہ انبالوی رحمۃ اللہ علیہ ایک شیخِ کامل گزرے ہیں۔ کسی شخص نے ان سے عرض کیا کہ حضرت مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جسکی برکت سے مجھے روٹی ملتی رہے، سائیں صاحب نے فرمایا، مجھے روٹی حاصل کرنے کا کوئی عمل نہیں آتا۔ البتہ ایسا عمل بتا سکتا ہوں جسکی برکت سے تم کو روٹی دینے والا مل جائے۔ آگے مولانا اس مقصد کو پُرزور تقریر میں بیان فرماتے ہیں:

6

آسمانہا و زمین یک سیب داں

کز درختِ قدرتِ حق شد عیان

ترجمہ: آسمانوں کو اور زمیں کو ایک سیب سمجھو۔ جو قدرتِ حق کے درخت سے نمودار ہوا ہے۔

7

تو چو کرمے درمیان سیب در

از درخت و باغبانی بے خبر

ترجمہ: تو گویا ایک کیڑا ہے (جو) اس سیب کے اندر ہے۔ (اور) درخت اور باغبان سے تو بے خبر ہے۔ (اسی طرح ایک دنیا پرست انسان اپنے مبدء سے بے خبر، اور اپنے خالق سے غافل ہوتا ہے۔ یہی حال اس غلام کا تھا۔)

8

آں یکے کرمے دگر در سیب ہم

لیک جانش از بروں صاحبِ علم

ترجمہ: اسی سیب میں ایک اور کیڑا ہے۔ لیکن اس کی روح بیرونی عالم کی (واقفیت کی) علم بردار ہے۔ (اس سے مراد عارف باللہ ہے، جو اپنے مبدءِ آفزینش اور اپنے منتہا و معاد کو خوب سمجھتا ہے۔)

9

جنبشِ او واشگافد سیب را

بر نتابد سیب آں آسیب را

ترجمہ: اسکی حرکت سیب کو پھاڑ ڈالتی ہے۔ اور سیب اس صدمہ کو برداشت نہیں کر سکتا۔ (عارف کا زہد و تقوٰی مقتضیاتِ دنیا کو پارہ پارہ کر ڈالتا ہے۔)

10

بردریدہ جنبشِ او پردہا

صورتش کرم ست و معنٰی اژدہا

ترجمہ: اسکی حرکت نے پردوں کو چاک کر ڈالا۔ صورت میں وہ کیڑا ہے، مگر باطن سے (مہیب) اژدہا ہے۔ (اب ایک مثال سے یہ سمجھاتے ہیں، کہ انسان ادنٰی درجہ سے اس اعلٰی رتبہ پر کیونکر فائز ہوتا ہے کہ اس کو کیڑے سے اژدھا بن جانے والا کہہ سکیں۔)

11

آتشے کاوّل ز آتش مے جہد

او قدم بس سُست بیروں مے نہد

ترجمہ: آگ سے جو چنگاری پہلے پہلے چھوٹتی ہے۔ وہ بڑی کمزور سی باہر آتی ہے۔

12

دایہ اش پنبہ است اوّل لیک اخیر

مے رساند شعلہا او تا اثیر

ترجمہ: اسکی (پرورش کرنے والی) دایہ روتی ہے، لیکن آخر میں۔ وہ (اس قدر بلند ہوتی ہے کہ اپنے) شعلے کرۂ نار تک پہنچا دیتی ہے۔ (اس تمثیل سے مقصود یہ ہے کہ:)

13

مرد اول بستہ خواب و خورست

آخر الامر از ملائک برترست

ترجمہ: آدمی پہلے (آغاز سلوک میں) کھانے اور سونے کا پابند ہے۔ (جسطرح عام لوگ ہوتے ہیں) آخر (انتہائے سلوک میں) فرشتوں سے بھی بڑھ کر ہے۔ (جب کہ وہ تسبیح و تہلیل کی غذا پانے لگتا ہے۔)

14

در پناہِ پنبہ و کبریتہا

شعلۂ نورش برآید تا سہا

ترجمہ: (جسطرح ایک چھوٹی سی چنگاری) روئی اور گندھک کی پناہ میں (آتش جہاں سوز بن جاتی ہے۔ اسی طرح انسان طاعات و عبادات کی بجا آوری سے آفتابِ جہاں تاب بن جاتا ہے، اور) اسکے نور کا شعلہ (ستارہ) سہا تک پہنچنے لگتا ہے۔

15

عالمِ تاریک روشن می کند

کندۂ آہن بسوزن می کند

ترجمہ: وہ (اپنے انوار سے) تاریک جہاں کو روشن کر دیتا ہے۔ (اپنے تصرّفات سے) لوہے کے شہتیر کو سوئی سے اکھاڑ ڈالتا ہے۔

16

گرچہ آتش نیز ہم جسمانی ست

نے ز روح ست و نہ از روحانی ست

ترجمہ: (دیکھو) اگرچہ آگ بھی جسمانی چیز ہے۔ نہ وہ روح (کی قسم) سے ہے، نہ روحانی (اشیاء کی جنس سے) ہے۔ (تاہم وہ اس قدر ترقی کرتی جاتی ہے۔ پھر روح اور روحانی اشیاء کی ترقّی کا تو کیا ٹھکانہ۔ آگے جسم پر روح کی فوقیت بیان فرماتے ہیں:)

17

جسم را نبود ازاں عز بہرۂ

جسم پیشِ بحرِ جاں چوں قطرۂ

ترجمہ: جسم کا اس عزت و شوکت سے کچھ حصہ نہیں ہے۔ (جو روح کا ہے) جسم روح کے سمندر کے آگے ایک قطرہ کی مانند ہے۔

18

جسم از جاں روز افزوں مے شود

چوں رود جاں جسم بیں چوں مے شود

ترجمہ: جسم روح کی بدولت روز بروز نشو و نما پاتا ہے۔ جب جان (نکل) جاتی ہے، تو دیکھو جسم کا کیا حال ہوتا ہے۔

19

حدِ جسمت یک دو گز خود بیش نیست

جانِ تو تا آسماں جولاں کنے ست

ترجمہ: (اور لیجئے) تمہارے جسم کی حد ایک دو گز سے زیادہ نہیں ہے۔ (اور) تمہاری روح آسمان تک اڑتی چلی جاتی ہے۔

20

تا ببغداد و سمرقند اے ہُمام

روح را اندر تصور نیم گام

ترجمہ: اجی حضرت! (اگر آپ اس کو مبالغہ سمجھتے ہیں تو تجربہ کر لیجئے کہ) روح کے تصور میں بغداد اور سمرقند تک، آدھے قدم کے برابر (مسافت) ہے۔

21

دو درم سنگ ست پیہ چشمِ تاں

نورِ روحش تا عنانِ آسمان

ترجمہ: (اور لیجئے) تمہاری آنکھوں کی چربی دو درم (7 ماشہ) وزن (رکھتی) ہے۔ (مگر) اسکی روح کا نور فضائے آسمان تک (جاتا ہے۔)

22

نور نے ایں چشم مے بیند بخواب

چشم بے ایں نور نبود جز خراب

ترجمہ: (آنکھ کی روح کا) نور اس آنکھ کے بغیر (بھی) خواب میں دیکھتا ہے۔ (مگر) آنکھ اس نور کے بغیر بالکل بیکار ہے۔ (اس سے ثابت ہوا کہ آنکھ کا جسم اسکی روح کا محتاج ہے، اور اسکی روح اسکے جسم کی محتاج نہیں۔)

23

جاں زریش و سبلتِ تن فارغ ست

لیکن تن بے جان بود مردار و پست

ترجمہ: (غرض) روح جسم کی ڈاڑھی مونچھ سے بے نیاز ہے۔ لیکن جسم جان کے بغیر مردار اور کم رتبہ ہے۔

24

بازنامہ روحِ حیوانی ست ایں

پیشتر آ روحِ انسانی ببیں

ترجمہ: روحِ حیوانی کی یہ شان ہے (جو مذکور ہوئی۔ تو ذرا) اور آگے آئیے اور روحِ انسانی کو دیکھئے (کہ اسکی شان کس قدر بلند ہے۔)

25

بگذر از انساں و ہم از قَال و قِیْل

تا لبِ دریائے جانِ جبرئیل

ترجمہ: بشریت سے آگے بڑھو، اور (علومِ مروّجہ کی) گفتگو سے بھی (نکلو۔) جبرائیل علیہ السّلام کی روح (تقدّس) کے (سیراب کرنے والے دریائے معارف کے) ساحل تک پہنچو۔

26

بعد ازانت جانِ احمدؐ لب گزد

جبرئیل از بیمِ تو واپس خزد

ترجمہ: اسکے بعد تم (اس عظیمُ الشّان درجے) پر (فائز ہو گئے کہ) حضرت احمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم کی روح (مبارک) کو تعجب آئے گا۔ (کہ ہمارا امتی کہاں سے کہاں پہنچ گیا، اور) جبرئیل علیہ السّلام تمہاری ہیبت سے پیچھے کو سرکنے لگیں گے۔

27

گوید ار آئیم بقدرِ یک کماں

من بسوئے تو بسوزم در زماں

ترجمہ: (اور) کہیں گے اگر میں تمہاری طرف، ایک کمان کی مقدار آگے آؤں۔ تو فورًا جل جاؤں۔ (جسطرح انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے معراج میں کہا تھا، کہ میں اور آگے جاؤں تو تجلّیِ حق مجھے پھونک ڈالے گی۔ ”کمان“ کا لفظ سورۂ نجم کی اس آیت کی رعایت سے استعمال ہوا ہے: ﴿فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی﴾ (النجم: 9))

28

ایں بیاباں خود ندارد پا و سر

بے جوابِ نامہ خستہ است آں پسر

ترجمہ: یہ (قربِ حق کا) بیابان تو ابتداء و انتہا نہیں رکھتا۔ (ادھر) وہ لڑکا رقعہ کے جواب کے بغیر بے تاب ہے (پہلے اسکی خبر لو۔)