دفتر چہارم: حکایت: 76
نقصانِ اجرائے دل و جانِ صوفی از طعامِ اللہ تعالٰی
صوفی کے جان و دل کا روزینہ اللہ تعالٰی کے طعام سے کم ہو جانا
1
صوفیے از فقر چوں در غم شود
عین فقرش دایۂ و مطعم شود
ترجمہ: (1) ایک صوفی جب محتاجی سے غمگین ہو جاتا ہے۔ تو عین محتاجی اسکی دایہ اور پرورش کرنے والی بن جاتی ہے۔
(2) کوئی صوفی محتاجی سے غمگین کیوں ہو؟ (جبکہ) عین محتاجی اس کی دایہ اور پرورش کرنے والی ہوتی ہے۔
2
زانکہ جنت از مکارِہ رُستہ است
رحم قسمِ عاجز اشکستہ است
ترجمہ: کیونکہ بہشت تکالیف سے پیدا ہوتا ہے۔ رحم عاجز شکستہ کا حصہ ہے۔ (حدیث میں آیا ہے: ”عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: حُفَّتِ الْجَنَّةُ بِالْمَكَارِهِ وَحُفَّتِ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ“ حضرت انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت نا پسندیدہ اور تکلیف دہ چیزوں سے گھری ہوئی ہے، اور جہنم شہوتوں سے گھری ہوئی ہے“ (سنن ترمذی: 2559))
3
آنکہ سرہا بشکند او از علُو
رحمِ حق و خلق ناید سوئے او
ترجمہ: (بخلاف اسکے) جو شخص تکبر سے لوگوں کے سر کچلتا ہو۔ خدا اور مخلوق کا رحم اسکی طرف نہیں آتا۔
4
ایں سخن آخر ندارد واں جواں
از کم اجرائے نان شد ناتواں
ترجمہ: یہ (تسلیم و رضا کی) بحث تو خاتمہ نہیں رکھتی۔ اور وہ جوان روزینۂ نان کی کمی سے عاجز آ گیا ہے۔ (پہلے اسکا فیصلہ کرو۔ یہاں مولانا اس کا قصہ چھیڑنے لگے تھے کہ اوپر کی بحث کا کچھ تتمہ باقی رہ گیا تھا، وہ پھر زبان پر آ گیا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:)
5
شاد آں صوفی کہ رزقش کم شود
آں شبہ اش در گردد و او یَم شود
ترجمہ: خوش ہے وہ صوفی جسکی (ظاہری) روزی کم ہو جائے۔ اس (کے وجود) کی وہ پوتھ (قلّتِ طعام سے) موتی بن جائے، اور وہ (خود) سمندر ہو جائے۔
سعدی رحمۃ اللہ علیہ؎
اندروں از طعام خالی دار
تا درو نورِ معرفت بینی
6
زاں جرائے خاص ہر کہ آگاہ شد
او سزائے قرب و اجرے گاہ شد
ترجمہ: جو شخص اس خاص (روحانی) روزی سے واقف ہو گیا۔ (جو قلتِ طعام سے میسر ہوتی ہے) وہ قربِ (حق) اور (باطنی) روزی کے مقام کا مستحق ہو گیا۔
7
زاں جرائے روح چوں نقصان شود
جانش از نقصانِ او لرزاں شود
ترجمہ: (اور) اگر اس روحانی روزی میں کمی آ جائے۔ تو اسکی جان اسکی کمی سے کانپنے لگے۔
8
پس بداند کہ خطائے رفتہ است
کہ سمن زارِ رضا نشگفتہ است
ترجمہ: تب اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ (مجھ سے) کوئی قصور ہو گیا ہے۔ جبھی تو (مجھ پر) رضائے الٰہی) کا باغ نہیں کھلا۔
مطلب: ان چار اشعار کا ملخص یہ ہے کہ جسمانی روزی جس سے اکل و شرب کا سامان مراد ہے، اور روحانی روزی جس سے واردات و فیوضِ غیب مقصود ہیں، دونوں کی کمی میں خاص حکمتِ الٰہی مرکوز ہوتی ہے، اور یہ دونوں صورتیں صوفی کے لیے مفید ہیں۔ چنانچہ جسمانی روزی کی قلت سے اسکے باطن میں انوار پیدا ہو جاتے ہیں، اور روحانی روزی کی کمی سے اسکو اپنی تقصیروں پر تنبہ ہو جاتا ہے، اور وہ طاقت و تقوٰی میں بیش از پیش مستعد ہو جاتا ہے۔ یہاں ایک نکتہ کی بات قابلِ لحاظ ہے یعنی فیضانِ غیب خواہ بلا واسطہ منجانب اللہ ہو، یا بواسطہ مرشد، بہرکیف اسکا مورد وہی ہوتا ہے جو متادب بکمالِ ادب ہو، اور جسطرح ارتکابِ معصیت فیوضِ غیب کا مانع ہے، اسی طرح مرشد کے ساتھ ضعفِ عقیدت یا سوئے ادب یا عدمِ اطاعت، فیضان سے محروم رہنے کا باعث ہے۔