دفتر 4 حکایت 75: حضرت ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کا پیدا ہونا حضرت با یزید رَوَّحَ اللّٰہُ رُوْحَہُ کی وفات کے بعد

دفتر چہارم: حکایت: 75

زادنِ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ بعد از وفات با یزید رَوَّحَ اللّٰہُ رُوْحَہُ

حضرت ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کا پیدا ہونا حضرت با یزید رَوَّحَ اللّٰہُ رُوْحَہُ کی وفات کے بعد

1

زادہ شد آں شاہ نردِ ملک باخت

از عدم پیدا شد و مرکب بتاخت

ترجمہ: (غرض) وہ شاہ (اقلیمِ طریقت) پیدا ہوئے اور ملکِ (ولایت) کی بازی کھیلنی شروع کی۔ عدم سے ظاہر ہوئے اور (عالم وجود کی طرف) گھوڑا دوڑایا۔

2

از پسِ آں سالہا آمد پدید

بوالحسن بعد از وفاتِ با یزید

ترجمہ: حضرت ابوالحسن رحمۃ اللہ علیہ اس (پیشگوئی کے واقعہ) سے برسوں پیچھے۔ (بلکہ) حضرت با یزید رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے (بھی) بعد پیدا ہوئے۔

3

جملہ خوہائے او از امساکِ وجود

آنچناں آمد کہ آں شہ گفتہ بود

ترجمہ: انکی تمام خصلتیں بخشش کرنے اور نہ کرنے میں اسی طرح (ظہور میں) آئیں۔ (جسطرح) کہ اس (اقلیمِ معرفت کے) تاجدار (یعنی حضرت بایزید رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمائی تھیں۔

4

لوحِ محفوظ ست او را پیشوا

از چہ محفوظ ست محفوظ از خطا

ترجمہ: (کیوں نہ ہو) لوحِ محفوظ ان کے پیش نظر ہے۔ (جس میں سے وہ مستقبل کے واقعات مطالعہ کر کے بیان فرماتے ہیں۔ اور لوحِ محفوظ کو جو لوحِ محفوظ کہتے ہیں تو) تو وہ کس سے محفوظ ہے؟ غلطی سے محفوظ ہے۔ (پس اسکو مطالعہ کر کے واقعات بتانے والے کا بیان بھی غلطی سے محفوظ ہونا لازم ہے۔)

5

نے نجوم ست و نہ رمل ست و نہ خواب

وحیِّ حق وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ

ترجمہ: (یہ ایک) وحیِ حق (ہے، جو) نہ نجوم ہے، نہ رمل ہے، نہ خواب ہے۔ (جس میں غلطی کا احتمال ہو) اور اللہ تعالٰی بہتر جانتا ہے۔

6

از پئے روپوشِ عامہ درمیاں

وحیِ دل گویند او را صوفیاں

ترجمہ: صوفی لوگ اس (وحی حق) کو عام لوگوں سے چھپانے کے لیے۔ وحیِ قلب کہہ دیتے ہیں (ورنہ درحقیقت وہ وحیِ الٰہی ہے۔)

مطلب: عام لوگوں سے اس کو چھپانے میں مصلحت یہ ہے کہ فتنہ برپا نہ ہو کیونکہ جب کوئی عارف یہ کہنے لگے کہ مجھے وحیِ الٰہی سے فلاں بات معلوم ہوتی ہے، تو عوام یہ سمجھیں گے کہ وہ نبوت کا مدّعی ہے۔ پھر مخلوق کا اس سے بد اعتقاد ہو جانا رہا الگ، اسکی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ صاحبِ منہج فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی﴾ یعنی ”اور ہم نے موسٰی علیہ السلام کی والدہ کو الہام کیا۔“ (القصص: 7) ﴿وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ﴾ یعنی ”اور تیرے پروردگار نے شہد کی مکھی کو بذریعہ وحی حکم دیا۔“ (النحل: 68) حالانکہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی والدہ، اور شہد کی مکھی انبیاء علیہم السّلام میں داخل نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے کلام نفسی کے ساتھ ملائکہ، انبیاء علیہم السّلام، اور خاص خاص اولیاء سے متکلم ہوتا ہے، تو ان کے نفوس میں معانی اور کلمات، علی اختلافِ لغات پیدا کر دیتا ہے، اور اللہ تعالٰی اپنے علمِ قدیم کے موافق جس امر کا ارادہ کرتا ہے، وہ انکو سمجھا دیتا ہے اور وہ اپنی قوت تجرد و استعداد کے موافق اس تفہیم سے مستفید ہو جاتے ہیں۔ پس یہ تفہیم ملائکہ اور انبیاء علیہم السّلام میں وحی کہلاتی ہے، اور اولیاء کرام میں اسکا نام الہام ہے۔ مگر صوفیوں نے وحیِ الہام کا نام وحی القلب مقرر کر لیا۔ (انتہٰی)

7

وحیِ دل گیرش کہ منظر گاہِ اوست

چوں خطا باشد کہ دل آگاہِ اوست

ترجمہ: (خیر) اس (وحیِ الٰہی) کو وحیِ قلب (ہی) مان لو (تو کچھ بے جا نہیں) کیونکہ (دل) حق تعالٰی کے نظر فرمانے کی جگہ ہے۔ (پھر) وہ (وحی) غلط کیونکر ہو (جبکہ دل حق تعالٰی) کے فضل سے آگاہ ہے (غافل نہیں۔)

8

مومن یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہ شدی

از خطا و سہو بیروں آمدی

ترجمہ: (اگر) تم (اسطرح کے) مومن (کامل الایمان) بن جاؤ ”جو اللہ تعالٰی کے نور سے دیکھتا ہے۔“ تو پھر خطا، اور سہو سے باہر نکل جاؤ گے۔ (حدیث میں آیا ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: ”عَنْ أَبِيْ سَعِيْدِ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اِتَّقُوْا فِرَاسَةَ المُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ“ (سنن ترمذی: ٣١٢٧) یعنی ”کہ مومن کی فراست سے ڈرو، وہ اللہ عزوجل کے نور سے دیکھتا ہے۔“)

انتباہ: یہاں تک وحیِ قلب اور اس کے صدق کا ذکر تھا۔ اب پھر اس غلام کا قصہ چلتا ہے جو طعام کی حرص میں بادشاہ کو رقعہ لکھنے لگا ہے، مگر ابھی بمناسبتِ مقام اتنی بات اور فرمائیں گے کہ صوفی کے لیے قلّتِ روزی مضر نہیں بلکہ مفید ہے، اسکو اس سے شاکی نہ ہونا چاہیے۔