دفتر 4 حکایت 73: حضرت با یزید بسطامی قُدِّسَ سِرُّہٗ کا ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش کی بشارت، اور ان کی صورت اور سیرت کا ایک ایک نشان برسوں پہلے دینا، اور تاریخ نویسوں کا انکی تصدیق کے لیے لکھ لینا

دفتر چہارم: حکایت: 73

مژدہ دادنِ با یزید رحمۃ اللہ علیہ از زادنِ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ، پیش از سالہا و نشانِ صورت و سیرتِ او یک بیک، و نوشتنِ تاریخ نویساں آں را جہتِ صدقِ او

حضرت با یزید بسطامی قُدِّسَ سِرُّہٗ کا ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش کی بشارت، اور ان کی صورت اور سیرت کا ایک ایک نشان برسوں پہلے دینا، اور تاریخ نویسوں کا انکی تصدیق کے لیے لکھ لینا

1

آں شنیدی داستانِ با یزید

کہ ز حالِ بو الحسن از پیش دید

ترجمہ: تم نے حضرت با یزید (بسطامی رحمۃ اللہ علیہ) کا وہ قصہ سنا ہے۔ کہ انہوں نے حضرت ابوالحسن کا حال (انکے پیدا ہونے سے) پہلے ہی دیکھ لیا تھا۔

2

روزے آں سلطانِ تقوٰی مے گذشت

با مریداں جانبِ صحرا و دشت

ترجمہ: ایک دن وہ (اقلیمِ) پرہیزگاری کے بادشاہ (اپنے) مریدوں کے ساتھ، جنگل بیابان کی طرف جا رہے تھے۔

3

بوے خوش آمد مر او را ناگہاں

در سوادِ رے ز حدِ خارقان

ترجمہ: اچانک ان کو رے کے علاقہ میں (مقامِ) خرقان کی سرحد سے، خوشبو محسوس ہوئی۔

4

ہم در آنجا نالۂ مشتاق کرد

بوئے را از باد استنشاق کرد

ترجمہ: تو وہ اسی جگہ مشتاقانہ رونے لگے۔ (اور) ہوا سے خوشبو سونگھتے رہے۔

5

بوے خوش را عاشقانہ مے کشید

جانِ او از باد بادہ مے چشید

ترجمہ: وہ (اس) خوشبو کو عاشقوں کی طرح سونگھتے تھے۔ انکی جان ہوا سے (گویا ایک طرح کی) شراب نوشی کر رہی تھی۔ (آگے ہوا کی اس تاثیر سے با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے مست ہونے کی ایک مثال دیتے ہیں:)

6

کوزہ کو از یخ آبہ پُر بود

چوں عرق بر ظاہرش پیدا شود

ترجمہ: (ایک کوزہ جو) برف آمیختہ پانی سے پُر ہو۔ جب اسکی بیرونی سطح پر پسینہ نمودار ہوتا ہے۔

7

آں ز سردیِّ ہوا آبے شدہ است

از درونِ کوزہ نم بیروں نجست

ترجمہ: (ہم سمجھ جاتے ہیں کہ) یہ (پیالے کی بیرونی سطح کے ساتھ چھونے والی) ہوا سرد ہو جانے سے پانی بن گیا ہے۔ کوزے کے اندر سے پانی باہر نہیں آتا۔

8

باد بوئے آور مر او را آب گشت

آب ہم او را شرابِ ناب گشت

ترجمہ: (اسی طرح) ابو الحسن رحمۃ اللہ علیہ کی خوشبو لانے والی ہوا۔ با یزید (بسطامی رحمۃ اللہ علیہ) کے لیے پانی بن گئی (اور) پانی بھی انکے لیے شراب بن گیا۔

مطلب: چونکہ ہوا کے اندر آبی مادہ بکثرت ہے، جو حرارت پا کر مستحیل بہوا ہو جاتا ہے، اور پھر کسی موقع پر وہ برودت پا کر پانی بن جاتا ہے۔ اس لیے جب ایک برتن میں برف آمیختہ پانی ہو اور بیرونی ہوا اس پیالہ سے چھوئے تو پیالے کی ٹھنڈک سے ہوا متاثر ہو کر مستحیل بآب ہوگی، اور پیالہ پر اس پانی کی شکل اختیار کرنے والی ہوا سے شبنم کے قطرات نمودار ہو جائیں گے۔ مدّعا یہ ہے کہ جسطرح ہوا اس پیالے سے جو ایک خاص کیفیت سے متکیف ہے، چھو کر پانی بن جاتی ہے، ورنہ وہ ہر شجر و حجر سے چھوتی ہے اور پانی نہیں بنتی۔ اسی طرح وہ خوشبودار ہوا خاص با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کو محسوس بلکہ مستی افزا ہوئی، اور کسی پر یہ اثر نہ کیا تو یہ خاص انہی کی صلاحیت تھی، ورنہ اور بھی کئی مرید ساتھ تھے۔ انکو اسکا احساس تک نہ ہوا۔ حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے اسی احساس کی تائید میں زمانۂ حال کا ایک واقعہ قابلِ ذکر ہے۔ میرے ایک محترم جو ریاست کے امیر کبیر اور حضرت خواجہ ضیاء معصوم رحمۃ اللہ علیہ کے مرید ہیں، مجھ سے بیان کرتے ہیں کہ عرصہ ہوا ہمارے اقارب میں ایک مجذوب تھے، جنکے احوال و مواجید پر تمام لوگوں کو حسنِ اعتقاد تھا۔ وہ گاؤں کے ایک متصلہ جنگل میں اکثر پھرا کرتے تھے۔ مدتِ مدید ہوئی کہ انکا انتقال ہوچکا، اور انکے حالات و واقعات بھی عوام کے لوحِ حفظ سے محو ہو چکے، اور ہم لوگوں کو تائیدِ غیب نے حضرت خواجہ صاحب کے سلسلۂ متوسلین میں داخل ہونے کی سعادت سے بہرہ مند کیا۔ (خواجہ ضیاء معصوم رحمۃ اللہ علیہ اس دور کے اکابر مشائخ نقشبندیہ میں شمار ہوتے ہیں۔ حضرت مجدد صاحب قُدِّسَ سِرُّہٗ کی اولاد سے ہیں۔ وطن کابل، امیر حبیب اللہ خان والی کابل انکے مرید تھے۔ مؤلف) ایک مرتبہ حضرت خواجہ صاحب پنجاب میں تشریف لائے تو ہماری التجا پر ہمارے گاؤں کو بھی اپنی تشریف آوری سے شرف بخشا۔ ہماری مسجد گاؤں سے باہر اس جنگل سے متصل واقع ہے جس میں وہ مجذوب پھرا کرتے تھے۔ ایک دن عصر یا شاید ظہر کا وقت تھا ۔ خواجہ صاحب نے نماز کے لیے وضو کیا۔ اس وقت اتفاق سے اس جنگل کی طرف آپ کی نظر پڑی تو آپ اس غور و توجہ سے ادھر دیکھنے لگے جس طرح کسی خاص چیز کا نظارہ جاذبِ نظر ہو، اور مسجد سے نکل کر اس جنگل کی طرف تشریف لے گئے۔ ہم لوگ بھی ساتھ ہو لیے۔ کچھ دیر پھر پھرا کر واپس آ گئے اور کچھ نہیں فرمایا۔ نہ کسی کو پوچھنے کی جرأت ہوئی۔(انتہٰی) اوپر کے شعر ”آں ز سردیِ ہوا آ بے نہ گشت" میں ایک پُر مزہ اختلاف ہے۔ بحر العلوم کے متون میں یہ شعر یوں درج ہے۔

ع۔ از درون کوزہ نم بیروں زدہ است

آں سردیِ ہوا آبے شدہ است

ظاہر ہے کہ یہ نسخہ اس فلسفہ کے بالکل برعکس واقع ہوا ہے جو ان اشعار میں مقصود ہے۔ خصوصًا ”درونِ کوزہ“ سے ”نم“ کا باہر نکلنا قطعًا خلافِ مقصود ہے۔ مولانا بحر العلوم کو اسکی توجیہ و توضیح میں بہت کچھ خامہ فرسائی کرنی پڑی، مگر منہج کے متن نے جس کو ہم نے اختیار کیا ہے، سارا جھگڑا طے کر دیا۔ اس نسخے میں دونوں مصرعوں کی تقدیم و تاخیر کے مطلب کو اور بھی برجستہ بنا دیا۔ ممکن ہے اسی طرح اکثر جگہ ناقلین کی غلط نگاریاں شارحین کے لیے موجبِ اشکال ہوتی ہوں۔

9

چوں درو آثارِ مستی شد پدید

یک مرید او را در آں دم در رسید

ترجمہ: جب مستی کی کیفیت ان میں ظاہر ہوئی۔ تو فورًا ان کے پاس ایک مرید پہنچا۔

10

پس بپرسیدش کہ ایں احوالِ خوش

کہ برون ست از حجاب پنج و شش

ترجمہ: پھر ان سے پوچھا کہ یہ عجیب حالات۔ جو پانچ (حواس) اور چھ (جہات) کے حجاب سے باہر ہیں۔

11

گاہ سرخ و گاہ زرد و گہ سپید

میشود رویت چہ حال ست و نوید

حتّٰی کہ آپ کا چہرہ، کبھی سرخ، کبھی زرد، اور کبھی سفید ہوا جاتا ہے۔ کیسے حالات ہیں اور (کیا) بشارت (ہے۔)

12

میکشی بوے و بظاہر نیست گل

بیشک از غیب ست از گلزارِ گل

ترجمہ: آپ (بار بار) بو سونگھ رہے ہیں اور بظاہر (کوئی) پھول (موجود) نہیں ہے۔ بے شک وہ (پھول عالمِ) غیب سے اور وحدت کے باغ سے ہوگا۔

13

اے تو کامِ جانِ ہر خود کامۂ

ہر دم از غیبت پیام و نامۂ

ترجمہ: اے حضرت! آپ ہر مراد مند (مرید) کی جان کے مراد ہیں۔ آپ کو ہر دم غیب سے نامہ و پیام (آتا) ہے۔

14

ہر دمے یعقوب وار از یوسفے

مے رسد اندر مشامِ تو شفے

ترجمہ: آپکے دماغ میں ہر وقت حضرت یعقوب علیہ السَّلام کی طرح کسی یوسف علیہ السلام کی طرف سے، تشفی پہنچتی ہے۔ (”شفے“ امالہ ہے ”شفا“ کا)

15

قطرہ بر ریز بر ما زاں سبو

شمۂ زاں گلستاں با ما بگو

ترجمہ: ایک قطرہ اسی (غیب کے) مٹکے سے ہم پر گراؤ۔ اس باغ کا کچھ حال ہم کو سناؤ۔

16

خو نداریم اے جمالِ مہتری

کہ لبِ ما خشک و تو تنہا خوری

ترجمہ: اے بزرگی کے حسن! ہم (اس بات کے) عادی نہیں۔ کہ ہمارے لب تو خشک ہوں، اور آپ اکیلے نوش کئے جائیں۔

17

اے فلک پیمائے چستِ چست خیز

زاں چہ خوردی جرعۂ بر ما بریز

ترجمہ: اے آسمان کو ناپ ڈالنے والے چالاک و سبک پرواز! جو کچھ آپ نے نوش کیا ہے، ایک گھونٹ ہمیں بھی دیجئے۔

18

میرِ مجلس نیست در دوراں دگر

جز تو اے شہ در حریفاں درنگر

ترجمہ: اے (اقلیمِ ولایت کے) بادشاہ! دیکھئے یارانِ بزم میں زمانے بھر کے اندر، آپ کے سوا اور کوئی صدرِ محفل نہیں ہے۔ (اس لیے رندانِ قدح خوار کی آپکی طرف نظر ہے۔)

19

کے تواں نوشید ایں مے زیر دست

مے یقیں مر مرد را رسوا گرست

ترجمہ: یہ (فیضانِ غیب کی) شراب ہاتھوں کے نیچے (چھپا چھپا کر) پینا کب مناسب ہے؟ شراب یقینًا آدمی (کے راز) کو طشت از بام کر دیتی ہے۔

20

بوئے را پوشیدہ مکنوں کند

چشمِ مستِ خویشتن را چوں کند

ترجمہ: وہ (اپنے منہ کی) بو (شراب) کو پوشیدہ و مخفی رکھتا ہے۔ (مگر) اپنی مست آنکھوں کو کیا کرے (جس سے شراب کی مستی ٹپکی پڑتی ہے۔)

21

خود نہ آں بوئے است ایں کندر جہاں

صد ہزاراں پردہ اش دارد نہاں

ترجمہ: (اور) یہ (فیضانِ غیب کی خوشبو) وہ بو بھی نہیں۔ جسکو جہان میں سینکڑوں پردے مخفی رکھ سکیں۔

22

پُر شد از تیزیِ او صحرا و دشت

دشت چہ کز نُہ فلک ہم درگذشت

ترجمہ: اس (بو) کی تیزی سے صحرا اور جنگل پُر ہو گئے۔ جنگل تو کیا ہے وہ نو آسمانوں سے بھی گزر گئی۔

23

ایں سرِ خم را بہ کہگل در مگیر

کایں برہنہ نیست خود پوشش پذیر

ترجمہ: اس خم کے منہ کو مٹی کے ساتھ خام (کرنے کی کوشش) نہ کرو۔ کیونکہ یہ ننگا ڈھکے جانے کے قابل ہی نہیں۔

24

لطف کن اے راز دانِ راز گو

آنچہ بازت صید کردش باز گو

ترجمہ: اے واقفِ اسرار! جو اسرار بیان فرمایا کرتے ہیں۔ آپ کے باز (ہمت) نے جس چیز کو شکار کیا ہے (وہ ہم کو) بتا دیجئے (اب حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہ جواب دیتے ہیں:)

25

گفت بوے بوالعجب آمد بمن

ہمچنانکہ مر نبی را از یمن

ترجمہ: (حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے) کہا، اس وقت مجھے ایک عجیب خوشبو محسوس ہوئی ہے۔ جسطرح نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو یمن سے (محسوس ہوئی تھی۔)

26

کہ محمدؐ گفت بر دستِ صبا

از یمن مے آیدم بوے خدا

ترجمہ: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا، بادِ صبا کے ہاتھ سے، میں یمن کی طرف سے خداوند تعالٰی کی خوشبو پاتا ہوں۔ (حدیث میں وارد ہے: ”اِنِّیْ لَاَجِدُ نَفَسَ الرَّحْمٰنِ مِنْ قِبَلِ الْیَمَنِ“ یعنی ”میں یمن کی طرف سے رحمٰن کی خوشبو معلوم کرتا ہوں۔“)

27

بوے رامیں مے رسد از جانِ ویس

بوئے یزداں مے رسد ہم از اویس

ترجمہ: رامین کی خوشبو ویس کی روح سے پہنچ رہی ہے۔ خداوند تعالٰی کی خوشبو اویس سے آ رہی ہے۔

مطلب: ”یزداں“ محبوبِ حقیقی ہے، اور اویس عاشق۔ مقصود یہ ہے کہ محبوب کی خوشبو اسکے عاشق کے ذریعہ محسوس ہو رہی ہے، مگر ”رامین“ اور ”ویسکی تمثیل یہاں برعکس واقع ہوئی ہے، کیونکہ اس میں یہ مطلب ٹھہرتا ہے کہ عاشق کی خوشبو معشوق سے پہنچتی ہے، اور اس میں کوئی لطف نہیں، کیونکہ معشوق کی خوشبو ہی اشتیاق فزا ہوتی ہے نہ کہ عاشق کی۔ اسکی تاویل یوں کی گئی ہے، کہ رامین پہلے عاشق تھا، مگر پھر ویسہ کا عشق اس شدت کو پہنچ گیا کہ وہ عاشق ہوگئی، اور رامین اسکا معشوق ہو گیا، یہاں وہی حالت مراد ہے۔

28

از اویس و از قرن بوئے عجب

مر نبی را مست کرد و پُر طرب

ترجمہ: اویس (قرنی رحمۃ اللہ علیہ) اور قرن (کی طرف) سے آنے والی عجیب خوشبو نے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو مست اور پُرسرور کر دیا۔ (اب اویس کی خوشبو میں ایسی تاثیر ہونے کی وجہ بیان فرماتے ہیں:)

29

چوں اویس از خویش فانی گشتہ بود

آں زمینی آسمانی گشتہ بود

ترجمہ: چونکہ اویس اپنی ہستی سے فانی ہو چکے تھے۔ اس لیے وہ زمینی (انسان سے) آسمانی (بندے) بن چکے تھے۔ (اللہ کے آسمانی بندے یعنی ملائکہ صفاتِ الٰہیہ کے اعلٰی مظاہر ہیں۔ اس لیے اویس (قرنی رحمۃ اللہ علیہ) کی خوشبو رحمٰن کی خوشبو تھی۔)

30

آں ہلیلہ پروریدہ در شکر

چاشنیِ تلخیش نبود دگر

ترجمہ: (مثلًا) وہ ہلیلہ جو قند میں مربہ کی جائے۔ پھر اس کے ذائقہ میں تلخی نہیں رہتی۔

31

آں ہلیلہ رستہ از ما و منی

نقش دارد از ہلیلہ طعم نے

ترجمہ: کیونکہ وہ ہلیلہ انانیت اور خودی سے نکل گئی۔ وہ ہلیلہ کی صورت رکھتی ہے، ذائقہ نہیں (ذائقہ قند کا ہے جو اس میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ اس طرح اویس کی صورت انسانی تھی، مگر اوصاف ملائکہ کے سے تھے۔)

32

آں کسے کز خود بکلّی در گذشت

ایں منی و مائیِ خود در نوشت

ترجمہ: جو شخص اپنی خودی سے بالکل گزر گیا۔ اس نے اپنی خودی اور انانیت کو تہہ کر (کے رکھ) دیا۔

33

ایں سخن پایاں ندارد باز گرد

تا چہ گفت از وحیِ غیب آں شیرِ مرد

ترجمہ: یہ (فنا و بقا کی) بحث تو خاتمہ نہیں رکھتی۔ واپس چلو (اور بتاؤ) کہ اس شیر مرد (حضرت با یزید رحمۃ اللہ علیہ نے) وحیِ غیب کی کیا بات سنائی؟