دفتر چہارم: حکایت: 71
حکایتِ آں مدّاح کہ از جہتِ ناموس شکرِ ممدوح مے کرد، و بوئے اندوہِ اندرونِ او از خلاقتِ دلقِ ظاہرِ او مے نمود
اس مدح کرنے والے کی کہانی جو (اپنی) آبرو کے لیے ممدوح کا شکریہ ادا کرتا تھا، اور اسکے باطن سے اور ظاہری گدڑی کی بوسیدگی سے غم کی بو آ رہی تھی
1
آں یکے با دلق آمد از عراق
باز پرسیدند یاراں از فراق
ترجمہ: ایک شخص (ملک) عراق سے (جس میں دار الخلافہ بغداد واقع ہے) گدڑی پہنے ہوئے آیا۔ یاروں نے اس سے فراقِ (وطن) کا حال پوچھا۔
2
گفت آرے بد فراق اِلَّا سفر
بود بر من پس مبارک مژدہ ور
ترجمہ: اس نے جواب دیا کہ ہاں (وطن کی) جدائی (ناگوار) تھی۔ مگر (یہ) سفر میرے لیے بڑا مبارک اور موجبِ بشارت تھا۔
3
کہ خلیفہ دادہ دہ خلعت مرا
کہ قرینش باد صد مدح و ثنا
ترجمہ: کیونکہ اس خلیفہ نے جسکو (میری طرف سے) سو مدح و ثنا پہنچے، مجھ کو دس خلعت دیئے۔
4
شکرہا و حمدہا بر مے شمرد
تاکہ شکر از حد و اندازہ ببرد
ترجمہ: وہ شکر اور تعریف بار بار کرتا تھا۔ حتّٰی کہ شکر کو حد و اندازہ سے بڑھا دیا۔
5
پس بگفتندش کہ احوال نژند
بر دروغِ تو گواہی مے دہند
ترجمہ: تو لوگوں نے اسے کہا، تیری خراب حالت تیرے جھوٹ پر گواہی دے رہی ہے۔
6
تن برہنہ سر برہنہ سوختہ
شکرہا دزدیدہ یا آموختہ
ترجمہ: بدن (ننگا) اور سر ننگا (دھوپ) سے جل رہا ہے۔ (یہ حصولِ خلعت کے فضول) شکرانے (یا تو کسی سے) چرا لیے یا سیکھ لیے۔
7
کو نشانِ شکر و حمدِ میرِ تو
بر سر و بر پائے بے توقیرِ تو
ترجمہ: تیرے ممدوح کی مدح و شکر کا نشان۔ تیرے بے آبرو سر اور پاؤں پر کہاں ہے؟ (اگر ممدوح کی مدح صحیح ہے، تو کم از کم اسکی داد و دہش سے تیرے سر پر دستار اور پاؤں میں جوتا تو ہوتا۔)
8
گر زبانت مدحِ آں شہ مے تند
ہفت اندامت شکایت مے کند
ترجمہ: اگر تیری زبان اس بادشاہ کی تعریف میں مصروف ہے۔ تو تیرے ساتوں اعضا شکایت کر رہے ہیں۔
9
در سخائے آں شہ و سلطانِ جود
مر ترا کفشے و شلوارے نبود
ترجمہ: کیا اس بادشاہِ اہلِ کرم کی بخشش سے۔ تیرے حصہ میں ایک جوتا اور پاجامہ نہ تھا؟
10
گفت من ایثار کردم آنچہ داد
میر تقصیرے نکرد از افتقاد
ترجمہ: کہا جو کچھ اس نے دیا، میں نے (بطور خیرات) دے ڈالا۔ بادشاہ نے (میری) دلجوئی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
11
بستدم جملہ عطاہا از امیر
بخش کردم بر یتیم و بر فقیر
ترجمہ: میں نے تمام انعامات بادشاہ سے حاصل کیے۔ (اور) یتیموں و فقیروں کو عطا کر دیئے۔
12
مال دادم بستدم عمرِ دراز
در جزا زیرا کہ بودم پاک باز
ترجمہ: میں نے مال (راہِ خدا میں) دیا (اور اسکے) بدلے میں لمبی عمر پائی، کیونکہ میں پاکباز تھا۔
13
پس بگفتندش مبارک مال رفت
چیست اندر باطنت ایں دودِ تفت
ترجمہ: تو انہوں نے کہا، مبارک ہو (تم جیسے پاکباز کے پاس یہ) مال (جو دنیا کی ناپاک چیز ہے) جاتا رہا۔ (مگر یہ تو بتاؤ کہ) تمہارے اندر یہ (غم کا) تیز دھواں کیا ہے؟ (تم کو تو خوش ہونا چاہیے تھا۔)
14
صد کراہت در درونِ تو چو خار
کے بود اندہ نشانِ ابتشار
ترجمہ: سینکڑوں تکلیفیں تیرے اندر کانٹے کی طرح (کھٹک رہی) ہیں۔ غم خوش حالی کا نشان کب ہوسکتا ہے؟
15
کو نشانِ عشق و ایثار و رضا
گر درست ست آنچہ گفتی مَا مَضٰی
ترجمہ: تو نے جو گزشتہ حال سنایا ہے (کہ میں نے تمام مال بخش دیا) اگر (وہ) صحیح ہے۔ تو (تیرے) عشق (الٰہی) اور بخشش اور رضا کا نشان کہاں ہے؟
16
خود گرفتم مال گم شد میل کو
سیل اگر بگذشت جائے سیل کو
ترجمہ: میں نے مان لیا کہ (تیری بخشش سے) مال کم ہو گیا۔ (مگر وہ) عشق کہاں ہے (جو عطائے مال کا باعث تھا) سیلاب اگر گزر گیا تو سیلاب کی جگہ کہاں ہے؟ (اگر سیلاب آیا ہو تو اسکے گزرنے کی جگہ میں جا بجا کٹی ہوئی زمین کے نشان، اور ریت کے تودے ہونے چاہئیں، ورنہ آمدِ سیلاب کا دعوٰی غلط ہے۔)
17
چشمِ تو گر بُد سیاہ و جاں فزا
گر نماند او جاں فزا ارزق چرا
ترجمہ: تیری آنکھ اگر (جوانی میں) سیاہ، اور جان کو بڑھانے والی تھی۔ اگر (اب بڑھاپے میں) وہ جاں فزا نہیں رہی (تو کم از کم اسکی سیاہی تو باقی ہو) پھر وہ زرد کیوں ہے؟
18
کو نشانِ پاکبازی اے تُرش
بوے لافِ کژ ہمے آید خمش
ترجمہ: اے ترش رو! تیری پاکبازی کا ثبوت کیا ہے؟ بیہودہ گپ کی بو آ رہی ہے، چپ رہ۔
19
صد نشاں باشد دروں ایثار را
صد علامت ہست نیکوکار را
ترجمہ: بخشش کے سینکڑوں نشان باطن میں ہوتے ہیں۔ نیکوکار کی سینکڑوں علامات ہیں۔
20
مال در ایثار اگر گردد تلف
در دروں صد زندگی آید خلف
ترجمہ: مال اگر بخشش سے اڑ جائے۔ تو باطن میں سینکڑوں زندگیاں اسکے عوض آ جاتی ہیں۔
21
در زمینِ حق زراعت کردنی
تخمہائے پاک وانگہ دخل نے
ترجمہ: (ذرا سوچو تو سہی کہ) حق تعالٰی (کے دین) کی زمین میں (عمل کی) کاشت کرنی ہو (اور) بیج پاک ہوں۔ پھر پیداوار نہ ہو! (یہ ناممکن ہے۔)
22
گر نگردد زرعِ جاں یک دانہ صد
صحن اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِع کے بود
ترجمہ: اگر (اس) روحانی کھیتی کے ایک دانہ سے سو (دانہ) پیدا نہ ہوں۔ تو اللہ تعالٰی کی زمین کی فضا وسیع کب ہو؟
مطلب: دوسرا مصرعہ اس آیت سے اقتباس ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَفّٰہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ قَالُوۡا فِیۡمَ کُنۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا کُنَّا مُسۡتَضۡعَفِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ قَالُوۡۤا اَلَمۡ تَکُنۡ اَرۡضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوۡا فِیۡہَا ؕ فَاُولٰٓئِکَ مَاۡوٰٮہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا﴾ (النساء: 97) یعنی ”جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا۔ اور اسی حالت میں فرشتے انکی روح قبض کرنے آئے تو بولے: تم کس حالت میں تھے؟ وہ کہنے لگے کہ: ہم تو زمین میں بے بس کر دیئے گئے تھے۔ فرشتوں نے کہا: کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے؟ لہذا ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے، اور وہ نہایت برا انجام ہے۔“
23
اصل اَرْضُ اللہ قلبِ عارفست
لامکان ست و ندارد فوق و پست
ترجمہ: اللہ تعالٰی کی زمین دراصل عارف کا قلب ہے۔ جو لامکان ہے اور اسکی بلندی و پستی نہیں۔
24
گر نہ روید خوشہ از روضاتِ ہو
پس چہ وَاسِعْ باشد اَرْضُ اللہ بگو
ترجمہ: اگر حق تعالٰی کے باغات سے کوئی خوشہ پیدا نہ ہو۔ تو فرمائیے اللہ تعالٰی کی زمین کیا فراخ ہوئی؟
25
چونکہ ایں ارضِ فنا بے ریع نیست
چوں بود اَرْضُ اللہ آں مستوسعے ست
ترجمہ: جب یہ (دنیا کی) فانی زمین بے پیداوار نہیں۔ تو اللہ تعالٰی کی زمین کے کیا کہنے! وہ تو بڑی وسیع ہوگی۔
26
ریع آں را نے حد و نے عد بود
کمتریں دانہ دہد ہفصد بود
ترجمہ: اسکی پیداوار کی حد و شمار نہیں۔ (بیج کا ہر دانہ) کم سے کم دانے دے تو سات سو ہوں گے۔
مطلب: یہ مضمون اس قرآنی ارشاد کے موافق ہے کہ: ﴿مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ﴾ (البقرۃ: 261) یعنی ”جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں انکی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیں اگائے، ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے ( ثواب میں) کئی گنا اضافہ کردیتا ہے، اللہ بہت وسعت والا (اور) بڑے علم والا ہے۔“
27
حمد گفتی کو نشانِ حامدوں
نے برونت ہست اثر نے اندروں
ترجمہ: تو (خلیفہ کی داد و دہش پر اللہ تعالٰی کی) حمد کرتا ہے، تو حمد کرنے والوں کا سا نشان کہاں ہے؟ (اس حمد کا) نہ تیرے ظاہر پر کوئی اثر (موجود) ہے نہ باطن میں۔
28
حمدِ عارف مر خدا را راست ست
کہ گواہِ حمدِ او شد پا و دست
ترجمہ: عارف کا خدا کی حمد کرنا صحیح (معنٰی میں حمد) ہے۔ کیونکہ اسکے ہاتھ اور پاؤں (وغیرہ تمام اعضا) اسکی حمد کے شاہد ہیں (جن میں حمدِ الٰہی کے انوار درخشاں ہیں۔)
29
از چہِ تاریک جسمش برکشید
وز تگِ زندانِ دنیا اش خرید
ترجمہ: (اس حمد نے) اسکو جسمانیت کے تاریک کنوئیں سے نکال (کر اوجِ روحانیت پر پہنچا) دیا۔ اور دنیا کے قید خانے کی تہ سے اسکو نجات دلا دی۔
30
اطلسِ تقوٰی و نورِ مؤتلف
آیتِ حمدست او را بر کتف
ترجمہ: پرہیزگاری کا اطلس اور ایک معتاد نور۔ (بطور) نشانِ حمد اسکے کندھے پر (موجود) ہے۔
31
وارہیدہ از جہانِ عاریہ
ساکنِ گلزار و عینِ جاریہ
ترجمہ: وہ چند روزہ دنیا سے چھوٹ گیا ہے۔ (وہ معارف کی) بہشت، اور جاری چشمے کا مقیم ہے۔ (اللہ تعالٰی نے بہشت کی تعریف میں فرمایا ہے: ﴿فِیۡہَا عَیۡنٌ جَارِیَۃٌ﴾ (الغاشیۃ: 12) ”اس جنت میں بہتے ہوئے چشمے ہوں گے۔“)
32
بر سریرِ سرِّ عالی ہمتش
مجلس و جاہ و مقامِ رتبتش
ترجمہ: اعلٰی بھید کے تخت پر اسکی ہمت (پہنچی ہوئی ہے۔) وہ اسکی نشست گاہ اور درجہ اور مقام اور مرتبہ ہے۔
33
مقعدِ صدقے کہ صدیقاں درو
جملہ سر سبزند و شاد و تازہ رُو
ترجمہ: وہ ایسی صدق کی نشست گاہ ہے۔ جس پر تمام صدیق خوشحال و مسرور و تازہ رو ہیں۔ (اشارہ بمضمون آیت: ﴿اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ نَہَرٍ - فِیۡ مَقۡعَدِ صِدۡقٍ عِنۡدَ مَلِیۡکٍ مُّقۡتَدِرٍ﴾ (القمر: 54،55) یعنی ”(البتہ) جن لوگوں نے تقویٰ کی روش اپنا رکھی ہے، وہ باغات اور نہروں میں ہوں گے۔ ایک سچی والی نشست میں۔ اس بادشاہ کے پاس جسکے قبضے میں سارا اقتدار ہے۔“)
34
حمدِ شاں چوں حمدِ گلشن از بہار
صد نشانے دارد و صد گیر و دار
ترجمہ: ان (حضرات) کی حمد باغ کی حمد سے مشابہ ہے۔ (جو) بہار کے لیے (کرتا ہے) وہ (حمد) سینکڑوں نشان اور سینکڑوں شان و شکوہ رکھتی ہے۔
35
بر بہارش چشمہ و نخل و گیاہ
واں گلستاں و نگارستان گواہ
ترجمہ: اس (حمد) کی بہار پر چشمہ کھجور اور گھاس۔ اور وہ باغ و عجائبات گواہ ہیں۔
36
شاہدِ شاہد ہزاراں ہر طرف
در گواہی ہمچو گوہر در صدف
ترجمہ: (عارف کی حمد پر) ہر طرف ہزاروں گواہ گواہی میں حاضر ہیں۔ (اور انکی گواہی اس طرح روشن ہے) جس طرح سیپ کے اندر موتی (کی چمک۔)
37
بوے سیرِ بد بیاید از دمت
وز سر و رو تابد اے لافی غمت
ترجمہ: برے لہسن کی بو تیری سانس سے آ رہی ہے۔ اور اے لاف زن! تیرے سر اور چہرے سے غم نمایاں ہو رہا ہے۔
38
بو شناسانند حاذق در مصاف
تو بجلدی ہاؤ ہو کم کن گزاف
ترجمہ: میدانِ جنگ میں ہوشیار لوگ بُو شناس ہیں۔ تو ناحق شجاعت کے دعوے نہ کر۔
39
تو ملاف از مشک کاں بوے پیاز
از دمِ تو میکند مکشوف راز
ترجمہ: تو مشک کی شیخی نہ بگھار کیونکہ وہ پیاز کی بو تیرے سانس سے راز افشا کر رہی ہے۔
40
گل شکر خوردم ہمیگوئی و بو
مے زند از سِیر کہ یا وہ مگو
ترجمہ: تو کہہ رہا ہے کہ میں نے گلقند کھائی ہے۔ اور بو آ رہی ہے لہسن کی (جو بزبانِ حال کہتی ہے) کہ بیہودہ نہ بک۔
41
ہست دل مانندۂ خانۂ کلاں
خانۂ دل را نہاں ہمسایگاں
ترجمہ: دل ایک بڑے گھر کی مانند ہے۔ دل کے گھر کے لیے مخفی پڑوسی (بھی) ہیں۔
42
از شگافِ روزن و دیوارہا
مطّلع گردند بر اسرارہا
ترجمہ: (جو خانہ قلب کی) کھڑکی، اور دیواروں کی دراڑ سے۔ (قلب کے) اسرار پر آگاہ ہو جاتے ہیں۔
43
از شگافے کہ نداند ہیچ وہم
صاحبِ خانہ ندارد ہیچ سہم
ترجمہ: (اور) ایسی دراڑ سے جسکو کوئی وہم (بھی) نہیں جانتا۔ (مگر) گھر والے کا (اس میں) کوئی حصہ نہیں۔
44
از نبے بر خواں کہ دیو و قومِ او
مے برند از حالِ انساں خفیہ بو
ترجمہ: قرآن مجید سے پڑھ (کر معلوم کر) لو کہ شیطان اور اسکی ذریّات مخفی طور سے انسان کے حال کا سراغ لگا لیتے ہیں۔
مطلب: اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ لَا یَفۡتِنَنَّکُمُ الشَّیۡطٰنُ کَمَاۤ اَخۡرَجَ اَبَوَیۡکُمۡ مِّنَ الۡجَنَّۃِ یَنۡزِعُ عَنۡہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوۡاٰتِہِمَا ؕ اِنَّہٗ یَرٰٮکُمۡ ہُوَ وَ قَبِیۡلُہٗ مِنۡ حَیۡثُ لَا تَرَوۡنَہُمۡ ؕ اِنَّا جَعَلۡنَا الشَّیٰطِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ لِلَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴾ (الأعراف: 27) یعنی ”اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو! شیطان کو ایسا موقع ہرگز ہرگز نہ دینا کہ وہ تمہیں اسی طرح فتنے میں ڈال دے جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکالا، جبکہ ان کا لباس ان کے جسم سے اتر والیا تھا، تاکہ انکو ایک دوسرے کی شرم کی جگہیں دکھا دے۔ اور وہ اسکا جتھ تمہیں وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ ان شیطانوں کو ہم نے انہی کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔“
44
از رہے کہ انس ازاں آگاہ نیست
زانکہ زیں محسوس و زیں اشباہ نیست
ترجمہ: (اور وہ سراغ) ایسے مخفی راستے سے (لگاتے ہیں) جس سے انسان آگاہ نہیں۔ کیونکہ وہ (شیطان) اس محسوس (عالم) اور ان ملتی جلتی اشیاء سے نہیں (کہ انسان کو نظر آجائے۔)
45
در میانِ ناقداں زرقے متن
با محک اے قُلبِ دوں لافے مزن
ترجمہ: کھوٹا کھرا پہچاننے والوں میں (بیٹھ کر) فریب نہ کر۔ اے کھوٹے کمینے! کسوٹی کے آگے لاف زنی نہ کر۔
46
مر حک را راه بود در نقد و قلب
کہ خدائش کرد امیرِ چشم و قلب
ترجمہ: کسوٹی کو کھرے کھوٹے (کی شناخت) میں دخل ہوتا ہے۔ کیونکہ خدا نے اسکو آنکھ اور دل کا فرمانروا بنایا ہے۔
مطلب: ان سات اشعار کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ اہل اللہ اپنی بصیرتِ باطن سے بذریعہ کشف دوسرے لوگوں کے دل کی کیفیات معلوم کر لیتے ہیں۔ اے دلق پوش تیری محرومی و مغمومی کا حال بھی ان پر عیاں ہے۔ لہٰذا انکے سامنے اپنے خوشحالی و استغنا کی لاف زنی کرنا فضول ہے۔ آگے ان حضرات کے صاحبِ کشف ہونے کی ایک اور دلیل ارشاد ہے:
47
چوں شیاطین با غلیظیہائے خویش
واقفند از سرِّ ما در فکر و کیش
ترجمہ: جب شیطان بھی اپنی ناپاکی کے باوجود، ہمارے خیالات و معتقدات کے راز پر واقف ہیں۔ (چنانچہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿اِنَّہٗ یَرٰٮکُمۡ ہُوَ وَ قَبِیۡلُہٗ﴾ (الاعراف: 27) ”وہ اور اسکا جتھ تمہیں وہاں سے دیکھتا ہے۔ یہ شعر شرط ہے جسکی جزا آگے چوتھا شعر ہے، ما بین کے اشعار متعلقات ہیں۔)
48
مسلکے دارند دزدیدہ دروں
ما ز دزدیہائے ایشاں سرنگوں
ترجمہ: وہ (ہمارے) باطن میں چوری چھپے آمد و رفت رکھتے ہیں۔ ہم انکی چوریوں سے سرنگوں (اور مبتلائے آفات ہو رہے) ہیں۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا ارشاد ہے: ”إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِيْ مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ“ (بخاري في صحيحه باب صفة إبليس وجنوده حديث رقم: 2961) یعنی ”شیطان انسان کی رگ رگ میں پھرتا ہے۔“)
49
دم بدم خبط و زیانے مے کنند
صاحبِ نقب و شگافِ روزنند
ترجمہ: وہ شیاطین دم بدم وسوسہ (ڈالتے) اور (صفائی قلب کو) نقصان پہنچاتے ہیں۔ (وہی تو قلب کی) کھڑکی کے نقب اور شگاف والے ہیں۔ (جو اس راہ سے داخل ہوتے ہیں۔ ﴿یَیَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّ﴾ (البقرۃ: 275) ”جسے شیطان نے چھو کر پاگل بنا دیا ہو۔“
50
پس چرا جانہائے روشن در جہاں
بے خبر باشند از حالِ نہاں
ترجمہ: پس (معرفت کے نور سے) منور (ہونے والی) روحیں دنیا میں۔ پوشیدہ حال سے بے خبر کیوں رہنے لگیں؟
51
در سرایت کمتر از دیواں شدند
روحہا کہ خیمہ بر گردوں زدند
ترجمہ: کیا وہ روحیں جو (روحانی عروج سے) آسمان پر خیمہ زن ہیں۔ (قلب کے اندر) داخل ہونے میں شیطانوں سے بھی گئی گزری ہوگئیں؟
52
دیو دُزدانہ سوئے گردوں رود
از شہاب محرق او مطعوں شود
ترجمہ: (حالانکہ) شیطان (کو اتنی طاقت نہیں کہ آسمان پر چڑھ سکے چنانچہ وہ) چور کی طرح آسمان کی طرف جاتا ہے۔ تو ٹوٹتے تارے سے جلایا اور زخم رسیدہ کیا جاتا ہے۔
53
سرنگوں از چرخ زیر افتد چناں
کہ شقی در جنگ از زخمِ سناں
ترجمہ: وہ (زخم کھا کر) آسمان سے اس طرح سر کے بل گرتا ہے۔ جسطرح کافر جہاد میں (کسی مسلمان کے نیزے کے زخم سے۔)
54
آں ز رشک روحہائے دلپسند
از فلک شاں سرنگوں مے افگنند
ترجمہ: یہ بات (انبیاء علیہم السّلام و اولیاء کرام کی) مقبول ارواح کی غیرت کی وجہ سے ہے۔ (کہ) ان (شیاطین) کو آسمان سے سرنگوں گرا دیا جاتا ہے۔
مطلب: انبیاء علیہم السّلام و اولیاء کرام کی ارواح، عرش پر صعود کرکے قربِ حق میں باریاب ہوتی ہیں۔ غیرتِ حق کا تقاضا ہے کہ شیطان اس مقام میں باریاب نہ ہو۔ اس لیے اس پر شہابِ ثاقب کی مار پڑتی ہے۔ دلق پوش کو ملامت کرنے والے کہتے ہیں کہ شیطان کی سی مطرود و مطعون ہستی جو آسمانوں میں باریاب نہیں ہو سکتی، قلوب میں سرایت کرنے کی طاقت رکھتی ہے، تو اولیاء اللہ کی ارواح کو کیوں نہ یہ طاقت حاصل ہو گی؟ بحر العلوم فرماتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں شیاطین آسمان پر چڑھ کر آسمانی خبریں معلوم کر لیتے اور کاہنوں کو بتا دیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی بعثت کے بعد شیاطین آسمان پر چڑھنے سے روک دیے گئے۔ چنانچہ قرآن مجید میں جنوں کا قول ہے: ﴿وَّ اَنَّا کُنَّا نَقۡعُدُ مِنۡہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمۡعِ ؕ فَمَنۡ یَّسۡتَمِعِ الۡاٰنَ یَجِدۡ لَہٗ شِہَابًا رَّصَدًا﴾ (الجن: 9) ”اور یہ کہ: ہم پہلے سن گن لینے کے لیے آسمان کی کچھ جگہوں پر جا بیٹھا کرتے تھے۔ لیکن اب جو کوئی سننا چاہتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ ایک شعلہ اسکی گھات میں لگا ہوا ہے۔“ آگے اسی دلق پوش سے خطاب ہے:
55
تو اگر شلّی و لنگی کور و کر
ایں گماں بر روحہائے مہ مبر
ترجمہ: (اے لاف زن!) اگر تو لنجا، لنگڑا، اندھا، بہرا ہے (اور کشفِ اسرار کی طاقت نہیں رکھتا۔) تو عالی قدر ارواح پر ایسا گمان نہ کر (وہ تو دلوں کی باتیں معلوم کر لیتی ہیں۔)
56
شرم دار لاف کم زن جاں مکن
کہ بسے جاسوس ہست آں روئے تن
ترجمہ: (کچھ) شرم کر، لاف نہ مار، (نا حق) جان نہ توڑ۔ کیونکہ عالمِ اجسام سے ماورا بہت سے جاسوس ہیں۔ (جو چھپی باتیں معلوم کر لیتے ہیں۔)