دفتر 4 حکایت 70: غلام کے روزی کی طلب میں رقعہ لکھنے کا باقی حصہ

دفتر چہارم: حکایت: 70

بقیہ نوشتنِ غلام رقعہ بطلبِ اجرے

غلام کے روزی کی طلب میں رقعہ لکھنے کا باقی حصہ

1

رفت پیش از نامہ پیشِ مطبخی

کاے بخیل از مطبخِ شاہِ سخی

ترجمہ: (وہ غلام) خط (لکھنے) سے پہلے (شاہی) خانساماں کے پاس گیا۔ اور (کہنے لگا) کہ اے سخی بادشاہ کے باورچی خانہ سے بخل کرنے والے!

2

دور ازو وز ہمتِ او کایں قدر

از جری ام آیدش اندر نظر

ترجمہ: اس سے اور اسکی ہمت سے تو (یہ بات) بعید ہے، کہ اسکی نظر میں میری روزی اس قدر ٹھہرے (یہ محض تم لوگوں کی کارستانی ہے۔)

3

گفت بہرِ مصلحت فرمودہ است

نے برائے بخل و نے تنگیِ دست

ترجمہ: (خانساماں) نے کہا (بادشاہ نے) کسی مصلحت سے (یہ) حکم دیا ہے۔ بخل یا تنگدستی کی وجہ سے نہیں۔

4

گفت دہلیزیست و اللہ ایں سخن

پیشِ شہ خاک ست ایں زرِّ کہن

ترجمہ: (غلام نے) کہا واللہ یہ بات باہر (کے یار لوگوں) کی (ایجاد) ہے۔ (خاص بادشاہ کی طرف سے نہیں) بادشاہ کے آگے (روٹی کی حقیقت ہی کیا ہے؟) یہ پرانا سونا بھی خاک (کے برابر) ہے۔ (پرانے سونے سے خالص و مسکوک مراد ہے، تازہ سونا جو ابھی معدن سے آیا ہو، عمومًا غیر خالص ہوتا ہے۔)

5

مطبخی دہ گونہ حجت بر فراشت

او ہمہ رد کرد از حرصے کہ داشت

ترجمہ: (غرض) خانساماں نے دس (دس) طرح کے عذر کئے۔ مگر اس (غلام) نے اس حرص کی وجہ سے جو وہ رکھتا تھا سب رد کر دیے۔

6

چوں جری کم آمدش در وقتِ چاشت

زد بسے تشنیعِ او سودے نداشت

ترجمہ: جب دن کا کھانا (حسبِ دستور) اسکو کم ملا۔ تو وہ بہت کچھ بکتا رہا (مگر) کچھ فائدہ نہ ہوا۔

7

گفت قاصد مے کنید اینہا شما

گفت نے کہ بندہ فرمانیم ما

ترجمہ: (پھر) کہنے لگا کہ تم لوگ (خود) یہ تمام (شرارتیں) قصدًا کرتے ہو۔ (بادشاہ کا یہ حکم نہیں ہے۔ خانساماں نے) جواب دیا، ہم تو (بادشاہ کے) حکم کے غلام ہیں۔

8

ایں مگیر از فرع ایں از اصل گیر

بر کماں کم زن کہ از بازوست تیر

ترجمہ: اسکو شاخ کی طرف سے نہ سمجھو (بلکہ) اسکو جڑ سے سمجھو۔ کمان کا ذکر نہ کرو، کیونکہ تیر بازو (کے زور سے آیا) ہے۔ (یہ کاروائی ملازموں کی طرف سے نہیں ہے، بلکہ خاص بادشاہ کے حکم سے ہے۔)

9

مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ ابتلاست

بر نبی کم نِہ گنہ کاں از خداست

ترجمہ: (آیت:) ﴿مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ﴾ (بندوں کے لیے ایک) امتحان ہے۔ (اسکے متعلق) نبی صلی اللہ علیہ وسلّم پر الزام نہ رکھو۔ کیونکہ وہ خدا کی طرف سے ہے۔

مطلب: یہ بیت مولانا کا مقولہ ہے، مطبخی کا مقولہ بھی ہو سکتا ہے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے جو سورہ انفال میں فرمایا ہے: ﴿وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی﴾ (الانفال: 17) یعنی ”اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلّم! جنگِ بدر میں تم نے تیر نہیں چلائے جب کہ تم نے تیر چلائے تھے، بلکہ اللہ تعالٰی نے چلائے۔“ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم سے فعلِ رمی کی نفی کی ہے، پھر اثبات بھی کیا ہے۔ پس یہ آیت بندوں کے لیے ایک امتحان ہے، جو شخص حقیقتِ امر کو جانتا ہے اسے معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم اس وقت قربِ فرائض کے مرتبے میں تھے، اس لیے فاعلِ رمٰی در حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ رمٰی کی نسبت در اصل حق کی طرف نسبت ہے، اور اسکی نفی فاعلیتِ حق کی جہت سے ہے۔ پس نفی و اثبات دونوں صحیح ہیں، اور جو شخص مغزِ حقیقت سے محروم ہے وہ سمجھتا ہے کہ نفی مجاز ہے۔ اس لحاظ سے کہ چونکہ آپ کی یہ قوت جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے کفار کو یہ شکست دی تھی، عطیۂ خدا تھی۔ اس لیے وہ رمٰی بھی گویا خدا ہی کی طرف سے تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم سے مجازًا اسکی نفی کر دی گئی، جیسے کہ علمائے معانی کی کتابوں میں لکھا ہے۔ مطبخی کا مقولہ ہونے کی تقدیر پر مطلب یہ ہے کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی رمی در حقیقت خدا کی رمی تھی، اسی طرح ہمارا یہ فعل بھی دراصل بادشاہ کا فعل ہے۔(بحر)

6

آب از سر تیرہ است اے خیرہ چشم

پیشتر بنگر یکے بکشائے چشم

ترجمہ: اے بے حیا (یا اے تیز غصہ والے!) پانی اوپر (چشمے ہی) سے مکدر (آ رہا) ہے۔ ذرا آگے دیکھ (اور) آنکھ کھول (یہ آپ سے آپ مکدر نہیں ہو گیا۔)

7

شد ز خشم و غم درون بقعۂ

سوئے شہ بنوشت خشمیں رقعۂ

ترجمہ: (جب غلام کو مطبخی کی باتوں سے کچھ تسکین نہ ہوئی، تو) وہ غم و غصہ سے گھر میں گیا۔ (اور) بادشاہ کی طرف ایک غضب آلود خط لکھا۔

8

اندراں رقعہ ثنائے شاہ گفت

گوہرِ جود و سخائے شاہ سفت

ترجمہ: اس رقعہ میں (پہلے حسب دستور) بادشاہ کی تعریف کی۔ (اور) بادشاہ کے جود و کرم کے موتی پروئے۔

9

کاے ز بحر و ابر افزوں کفِّ تو

جملہ محتاجاں بتو آوردہ رو

ترجمہ: کہ اے وہ کہ تیرا ہاتھ بخشش میں دریا اور بادل سے بڑھ کر ہے۔ تمام محتاج تیری طرف رخ کرتے ہیں۔

10

زانکہ ابر آنچہ دہد گریاں دہد

کفِّ تو خنداں پیاپے خواں نہد

ترجمہ: (تیرا ہاتھ ابر سے افضل) اس لیے (ہے) کہ ابر جو کچھ دیتا ہے، رو کر دیتا ہے۔ (اور) تیرا ہاتھ ہنستا ہوا بار بار خوان رکھتا ہے۔

11

ظاہرِ رقعہ اگرچہ مدح بود

بوے خشم از مدح اثرہا مے نمود

ترجمہ: (وہ) رقعہ اگرچہ بظاہر مدح (پر مشتمل) تھا۔ (مگر) غصے کی بو مدح (کے اندر) سے (اپنے) آثار ظاہر کر رہی ہے۔

مطلب: غلام کی نیت میں غصہ بھرا ہوا تھا، مگر وہ ظاہرداری سے بادشاہ کی تعریف کر رہا تھا۔ اس لیے بقول: ”اَلْاِنَاءُ یَتَرَشَّحُ بِمَا فِیْہِ“ اس مدح میں بھی بغض و عناد کی بو آ رہی تھی۔ اس سے مولانا اس ارشادی مضمون کی طرف انتقال فرماتے ہیں، کہ اسی طرح بندوں کے اعمال خلافِ نیت ہونے کی وجہ سے بے نور ہیں:

12

زاں ہمہ کارِ تو بے نورست و زشت

کہ تو دوری دور از نورِ سرشت

ترجمہ: (اے مخاطب!) اسی لیے تو تمہارے تمام اعمال بے نور اور بدنما ہیں۔ کہ تم (حسنِ نیت کے) فطری نور سے دور ہو (اور بہت) دور ہو۔

13

رونقِ کارِ خساں کاسد شود

ہمچو میوہ تازہ زُو فاسد شود

ترجمہ: کمینے لوگوں کے کام کی رونق (خرابیِ نیت کی وجہ سے) کم ہو جاتی ہے۔ جس طرح تازہ میوہ (اپنے اندر کی فاسد رطوبت کے سبب سے) جلدی خراب ہو جاتا ہے۔

14

رونقِ دنیا بر آرد زو کساد

زانکہ ہست از عالمِ کون و فساد

ترجمہ: دنیا کی رونق جلدی مندی پڑجاتی ہے۔ کیونکہ وہ بننے اور بگڑنے والے عالم سے ہے۔ (جس طرح ایک خوش رنگ میوہ جلدی بگڑ جاتا ہے۔ اسی طرح دنیا کی ہر چیز فانی ہونے کی وجہ سے رو بزوال ہے، اور اس فساد و خرابی کی علت خود اسکے اندر موجود ہے۔)

15

خوش نگردد از مدیحے سینہا

چونکہ در مداح باشد کینہا

ترجمہ: (غرض) ایسی مدح سے سینے خوشی سے لبریز نہیں ہوتے۔ جب مدح کرنے والے میں کینے (بھرے) ہوں۔ (آگے نصیحت فرماتے ہیں:)

16

اے دل از کیں و کراہت پاک شو

وانگہاں اَلْحَمْد خواں چالاک شو

ترجمہ: اے دل! کینہ اور نفرت سے پاک ہو جا۔ پھر (اللہ تعالٰی کی) حمد کر اور (ترقی کے لیے) تیز رو ہو جا۔ (طاعت و عبادت کے لیے پاکیِ باطن و صفائیِ نیت شرط ہے۔)

17

بر زباں اَلْحَمْد و اکراہ از دروں

از زباں تلبیس باشد یافسوں

ترجمہ: زبان پر حمد، اور دل میں نفرت (ہو۔ تو صرف) زبان سے (کلماتِ عبادات ادا کرنا) فریب ہے، یا مکر۔

18

وانگہاں گفتہ خدا کہ بنگرم

ہم بظاہر ہم بباطن ناظرم

ترجمہ: اور اسی لیے تو خداوند تعالٰی نے فرمایا ہے کہ میں (بندے کا) ظاہر بھی اور باطن بھی دیکھ رہا ہوں۔

مطلب: اس مضمون کی آیات بکثرت آئی ہیں۔ منجملہ انکے ایک یہ ہے: ﴿اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ یُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُؕ﴾ (البقرۃ: 284) یعنی ”اگر تم اپنے دل کی بات کو ظاہر کرو یا مخفی رکھو بہر حال اللہ تعالٰی اس پر تم سے حساب کرے گا۔“ آگے اس مضمون کی ایک حکایت ہے کہ بناوٹ کی مدح و تعریف کچھ مفید نہیں: