دفتر 4 حکایت 69: مدعی (درویشی) کو دعویٰ سے روکنا اور اتباعِ سنت کی ہدایت کرنا

دفتر چہارم: حکایت: 69

زجر کردن مدّعی را از دعوٰی و امر کردن بمتابعتِ سنت

مدعی (درویشی) کو دعویٰ سے روکنا اور اتباعِ سنت کی ہدایت کرنا

1

بو مسیلم گفت من خود احمدم

دینِ احمدؐ را بفن بر ہم زدم

ترجمہ: مسیلمہ (کذّاب) نے کہا، میں خود احمد (صلی اللہ علیہ وسلّم) کی طرح پیغمبر ہوں۔ احمد (صلی اللہ علیہ وسلّم) کے دین کو میں نے (ایک خاص) حیلے سے تباہ کر دیا۔

2

بو مسیلم را بگو کم کن بطر

غرّۂ اوّل مشو آخر نگر

ترجمہ: مسیلمہ کذاب کو کہو کہ (فضول) شیخی نہ بگھار! شروع (شروع میں لوگوں کے رجوع اور اتباع کرنے) پر مغرور نہ ہو (اس کا) انجام دیکھ (کہ کس قدر مہلک ہے۔)

3

ایں قلادوزی مکن از حرصِ جمع

پس روی کن تا فتد در پیش شمع

ترجمہ: خبردار! (مال جمع کرنے) کی حرص سے پیشوا بننا اختیار نہ کر۔ (بلکہ) پیچھے چلنا اختیار کر تاکہ (تیرے) آگے شمع واقع ہو۔

مطلب: مسیلمہ کذّاب نے دنیاوی وجاہت کی حرص سے خود نبی ہونے کا دعوٰی کیا، آخر مردود جہنمی ہوا۔ اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا اتباع کرتا، تو ایک صحابی ہوتا، اور آفتابِ رسالت سے اکتسابِ انوار کرتا۔ اسی طرح جو شیوخِ کذابین، دنیا کے کمانے کے لیے مرشد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ مسیلمہ کی روش اختیار کر رہے ہیں، اگر وہ مرشد بننے کے بجائے کسی مرشدِ کامل کے مرید ہو کر فیض حاصل کرتے، تو بڑے خوش نصیب ہوتے۔ ”شمع“ سے مراد مرشد کامل ہے، جسکو پیشوا مان لیا جائے۔ شمع آگے آگے ہو تو راستہ نظر آتا رہتا ہے۔

4

شمع مقصد را نماید ہمچو ماہ

کایں طرف دانہ ست یا خود دام گاہ

ترجمہ: شمع (منزلِ) مقصود کو چاند کی طرح دکھاتی ہے۔ کہ ادھر دانہ ہے یا جال کی جگہ ہے۔ (اسی طرح مرشد کامل مرید کو بتا دیتا ہے کہ فلاں باتیں ذریعۂ نجات ہیں، اور فلاں مہلکات ہیں۔)

5

گر بخواہی ور نخواہی با چراغ

دیدہ گردد نقشِ باز و نقشِ زاغ

ترجمہ: خواہ تم چاہو یا نہ چاہو (بہر صورت) چراغ کے ساتھ۔ باز کی صورت، اور کوّے کی صورت نظر آجاتی ہے۔ (مرشدِ کامل رہنما ہو، تو ضرور صراطِ مستقیم پر قدم راسخ ہو جاتا ہے۔ خواہ قصد ہو یا نہ ہو۔)

6

ورنہ ایں زاغاں دغل افروختند

بانگِ بازانِ سفید آموختند

ترجمہ: ورنہ (اگر مرشدِ کامل کی مشعلِ ارشاد نہ ہو، تو پھر ہدایت پانا مشکل ہے، کیونکہ) ان کوؤں نے فریب (کا چراغ) روشن کر رکھا ہے۔ اور سفید بازوں کی آواز سیکھ رکھی ہے (فریبی پیروں نے کاملین کی نقل اڑا لی ہے۔ اس لیے عوام النّاس کے لیے کامل و ناقص میں تمیز کرنا مشکل ہے۔)

7

بانگِ ہدہد گر بیاموزد قطا

رازِ ہدہد کو و پیغامِ سبا

ترجمہ: اگر قطا (جو ایک سنگخوار پرندہ ہے) ہدہد کی آواز سیکھ لے تو (فضول ہے۔ کیونکہ وہ) ہدہد کا راز اور سبا کا پیغام کہاں (پیش کر سکتا) ہے۔

مطلب: ہدہد نے شہرِ سبا، اور ملکۂ بلقیس کا سراغ لگایا، اور حضرت سلیمان علیہ السّلام کی بارگاہ میں عرض کیا تھا، پھر حضرت سلیمان علیہ السّلام کا پیغام ملکہ کو پہنچایا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مکار آدمی بزرگانِ طریقت کے ملفوظات حفظ کر کے خود پیر و مرشد ہونے کا دعوٰی کرے، تو وہ ان بزرگوں کے سے احوال و مقامات کہاں سے لائے گا؟ چنانچہ احوال و مقالات سے کامل و ناقص میں نمایاں فرق ہوجاتا ہے۔ بشرطیکہ کچھ بصیرت ہو۔ اس لیے فرماتے ہیں:

8

بانگِ پَر رستہ ز پر بستہ بداں

تاجِ شاہاں را ز تاجِ ہدہداں

ترجمہ: پَردار کی آواز کو (مصنوعی) پَر لگانے والے کی آواز سے (الگ) پہچانو۔ بادشاہوں کے تاج کو ہدہدوں کے تاج سے (پیرِ کامل اور پیرِ ناقل میں جو فرق ہے، اسکو ملحوظ رکھو۔)

9

حرفِ درویشاں و نکتۂ عارفاں

بستہ اند ایں بے حیایاں بر زباں

ترجمہ: درویشوں کی باتیں، اور عارفوں کے نکتے۔ ان بے حیاؤں نے زبان پر چڑھا لیے (اور لوگوں کو سناتے، اور بہکاتے پھرتے ہیں۔)

10

ہر ہلاکِ امّتِ پیشیں کہ بود

زانکہ جندل را گماں بردند عود

ترجمہ: اگلے زمانے کی کسی قوم پر جب کبھی تباہی آئی۔ تو اس لیے کہ انہوں نے پتھر کو لکڑی سمجھا۔ (ان لوگوں نے باطل کو حق سمجھا، اس لیے مستوجب عذاب ہو کر ہلاک ہوئے۔)

11

بود شاں تمییز کاں مظہر کند

لیک حرص و آز کور و کر کند

ترجمہ: (یہی نہیں کہ ان لوگوں سے بے خبری میں یہ غلطی ہوئی، بلکہ) ان میں (کافی) تمیز تھی جو (حق و باطل کو) ظاہر کر دیتی ہے۔ لیکن (وہ لوگ دنیا طلبی کی) حرص و طمع (میں مبتلا تھے، جو چنگے بھلے انسان کو) اندھا اور بہرا کر دیتی ہے۔ (اس لیے وہ قابلِ عفو نہیں۔ چنانچہ:)

12

کوریِ کوراں ز رحمت دور نیست

کوریِ حرص ست کاں معذور نیست

ترجمہ: (سچ مچ کے) اندھوں کی نا بینائی (ایک سچا عذر ہے، اس لیے وہ) رحمت سے دور نہیں۔ (مگر یہاں تو) حرص کی نا بینائی ہے، جو قابلِ عذر نہیں۔ (آگے اسکی ایک نظیر ارشاد ہے:)

13

چار میخِ شہ ز زحمت دور نیست

چار میخِ حاسدی مغفور نیست

ترجمہ: بادشاہ کا سزا دینا رحم سے دور نہیں۔ مگر حسد کی آگ سے خود سزا پانا قابلِ بخشش نہیں۔

مطلب: حق تعالٰی اپنے بندے پر کوئی مصیبت نازل کرے تو اس کو صبر کا اجر ملتا ہے، مگر حاسد کو اسکے حسد کی مصیبت پر کوئی اجر نہیں ملتا، کیونکہ یہ مصیبت خود اسکے نفس کی پیدا کردہ ہے۔ اللہ تعالٰی کی طرف سے نہیں بلکہ اس سے اس کی نیکیاں بھی تباہ ہو جاتی ہیں۔ آگے پھر نفعِ عاجل کی حرص میں عذابِ آجل سے بے پرواہ ہونے سے منع فرماتے ہیں:

14

ماہیا آخر نکو بنگر بہ شست

بد گلوئی چشمِ آخر بینت بست

ترجمہ: اے مچھلی (سے مشابہ بندے!) تو ذرا (اس) جال پر تو نظر کر) جس میں تو قید ہونے کے قریب ہے۔ لقمہ کی حرص کرنے والے) خلق کی برائی نے تیری عاقبت بیں آنکھ بند کر دی۔

15

با دو دیدہ اوّل و آخر ببیں

ہیں مباش اعور چو ابلیسِ لعیں

ترجمہ: دونوں آنکھوں کے ساتھ اوّل اور آخر کو دیکھ۔ خبردار! ابلیس ملعون کی طرح کانا (یعنی صرف دنیا کو دیکھنے والا) نہ بن۔ (ابلیس نے صرف موجودہ عالم پر نظر کر کے خاکی و آتشی مخلوق کے مقابلے کا جھگڑا چھیڑ لیا، اور اپنی عاقبت تباہ کر لی۔)

16

اعور آں باشد کہ حالی دید و بس

چوں بہائم بے خبر از پیش و پس

ترجمہ: کانا وہ ہوتا ہے جس نے صرف موجودہ عالم کو دیکھا۔ (اور) چوپایوں کی طرح آگے پیچھے سے بے خبر رہا۔ (صرف دنیا کو دیکھنے والا مثل بہائم ہے، اور بہائم کی بصیرت ہیچ ہے۔ آگے اس بات کی دلیل ایک فقہی مسئلے سے دیتے ہیں:)

17

چوں دو چشم گاؤ در جرمِ تلف

همچو یک چشم ست کش نبود شرف

ترجمہ: چونکہ بیل کی دونوں آنکھیں پھوڑنے (یا نکال ڈالنے) کے جرم میں۔ (انسان کی) ایک آنکھ کے برابر ہیں، کیونکہ اسکو (انسان پر) فضیلت نہیں ہے۔

18

نصف قیمت ارزد آں دو چشمِ او

کہ دو چشمش راست مسند چشمِ تو

ترجمہ: (اس لیے) اسکی وہ دونوں آنکھیں نصف قیمت پاتی ہیں۔ کیونکہ اسکی دونوں آنکھوں کا سہارا تیری آنکھ ہے۔

مطلب: خلاصۂ دلیل یہ ہے کہ بہائم کی آنکھیں انسان کی آنکھ سے کم رتبہ ہیں۔ انکے اتلاف کی صورت میں تاوان لازم نہیں آتا، جو انسان کی آنکھ کے اتلاف پر لازم آتا ہے۔ ان ابیات میں صرف اتنی بات بتانی مقصود ہے کہ بہائم کی آنکھیں انسان کی آنکھ کے آگے ہیچ ہیں۔ فقہی مسئلہ اس باب میں یہ ہے، جیسا کہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ اگر بکری کی آنکھ پھوڑی جائے تو اسی قدر تاوان دینا ہو گا، جس قدر بکری کی قیمت میں نقصان آ جائے، اور بیل، اونٹ، گدھے، خچر، گھوڑے کی آنکھ ہو تو جانور کی قیمت کا چوتھا حصہ دینا ہوگا۔ مگر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ان میں بھی بکری کی طرح، صرف بقدرِ نقصان قیمت دینی پڑتی ہے۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے چوپائے کی آنکھ میں ربع قیمت کا فیصلہ فرمایا ہے۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ دیا ہے۔ (انتہٰی) کتبِ فقہ میں جانور کی ایک آنکھ کا تاوان اسکی قیمت کے چوتھے حصے کے برابر لازم آنے کی دلیل یہ دی ہے، کہ چوپائے سے خدمت لیتے وقت چار آنکھیں کام دیتی ہے۔ دو آنکھیں چوپائے کی اور دو آنکھیں اس سے کام لینے والے کی۔ گویا چوپائے کی چار آنکھیں ہیں، اور اسکی ایک آنکھ کا تلف ہونا اسکی بصارت مستعملہ کا چوتھا حصہ ضائع ہونے کا ہم معنٰی ہے۔ اس توجیہ پر الدرّ المختار میں یہ اعتراض لکھا ہے۔ لٰکِنْ یَرِدُ عَلَیْہِ اَنَّہٗ لَوْ قَفَا عَیْنَيْ حِمَارٍ مَثَلًا اَنَّہٗ یَضْمَنُ نِصْفَ قِیْمَتِہٖ وَ لَیْسَ کَذَالِکَ یعنی ”اس پر یہ اعتراض لازم آتا ہے کہ اگر مثلًا ایک گدھے کی دو آنکھیں پھوڑ دی جائیں تو اسکی نصف قیمت کے برابر تاوان دینا پڑے، حالانکہ ایسا نہیں۔(انتہٰی) مگر شامی نے اسکی شرح میں لکھا ہے۔ ”وَ لٰکِنْ نَقَلَ الْقُھُسْتَانِی الْقَوْلَ بِضَمَانِ النِّصْفِ عَنْ فَخْرِ الْقُضَاۃِ“ یعنی ”قہستانی نے فخر القضاۃ سے نصف قیمت کے برابر تاوان دینے کا فتوٰی نقل کیا ہے۔“ (انتہٰی) اس سے معلوم ہوا کہ مولانا کا یہ فرمانا کہ چوپایہ کی دونوں آنکھوں کا تاوان اسکی نصف قیمت کے برابر ہے، جمہور فقہاء رحمہم اللہ کے قول خلاف ہے۔ البتہ فخر القضاۃ کے فتوٰی کے مطابق ہے۔ ”نصف قیمت ارزد“ منہج کے متن کا نسخہ ہے، اور قلمی نسخہ بھی اسکا مؤید ہے، اور یہی اصح ہے۔ ہمارے نسخ میں ”ربع قیمت ارزد“ درج کر دیا۔ یہ کسی کم فہم ناقل کا تصرّف معلوم ہوتا ہے، جس نے اپنی دانست میں ان الفاظ کو کتبِ فقہ کی عبارت کے مطابق کر دیا، مگر اتنا نہ سوچا کہ کتبِ فقہ میں ایک ایک آنکھ کا تاوان ربع قیمت ہے، اور یہاں دونوں آنکھوں کا تاوان مذکور ہے۔ ”دو چشمش راست مسندِ چشمِ تو“ کا مطلب وہی معلوم ہوتا ہے جو فقہ میں دابہ کی ایک آنکھ کا تاوان ربع قیمت ٹھہرانے کی توجیہ میں پیش کیا گیا ہے، یعنی دابہ کی آنکھیں مالک کی آنکھوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔ مولانا بحر العلوم نے اعلٰی فقیہ ہونے کے باوجود اس مقام کو جو حل کیا ہے، وہ سراسر فقہ کے خلاف ہے۔ چوپایہ کی آنکھ کا تاوان بیان کرنے کے بعد اب وہ انسان کی آنکھ کا تاوان بتاتے ہیں۔

19

ور کنی یک چشم آدم زادۂ

نصف قیمت لازم ست از جادۂ

ترجمہ: (بخلاف اسکے) اگر تم کسی آدمی کی آنکھ نکال ڈالو۔ تو فتوائے (شرع) میں نصف دیت لازم (آتی ہے۔)

مطلب: ”وَ فِیْمَا کَتَبَہُ النَّبِیُ عَلَیْہِ السَّلَامُ لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ وَ فِی الْعَیْنَیْنِ اَلدِّیَۃُ وَ فِیْ اَحَدِھِمَا نِصْفُ الدِّیَۃِ وَ لِاَنَّ فِیْ تَفْوِیْتِ الْاِثْنَیْنِ مِنْ ھٰذِہِ الْاَشْیَاءِ تَفْوِیْتُ جِنْسِ الْمَنْفَعَۃِ اَوْ کَمَالُ الْجَمَالِ فَیَجِبُ کُلُّ الدِّیَۃِ وَ فِیْ اَحَدِھِمَا تَفْوِیْتُ النِّصْفِ فَیَجِبُ نِصْفُ الدِّیَۃِ۔“ یعنی ”نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے عمرو بن حزم کو جو مکتوب شریف بھیجا۔ اس میں یہ الفاظ بھی تھے کہ آنکھوں میں پوری دیت ہے، اور ایک آنکھ میں نصف دیت ہے، اور اسکی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان اعضا میں سے دونوں کے ضائع ہونے کی صورت میں پوری منفعت یا کمالِ جمال کا فوت ہو جانا مقصود ہے۔ پس پوری دیت واجب ہے، اور ایک کے فوت ہونے میں آدھا نقصان ہے، اس لیے نصف دیت واجب ہے۔ (ہدایہ) آگے انسانی آنکھ کے بہائم پر فائق ہونے کی وجہ بتاتے ہیں:

20

زانکہ چشمِ آدمی تنہا بخود

بے دو چشمِ یار کارے مے کند

ترجمہ: کیونکہ انسان کی آنکھ اکیلی آپ سے آپ۔ کسی مددگار کی دو آنکھوں کے بغیر کام کرتی ہے۔ (بخلاف اسکے بہائم کی آنکھیں مالک کی آنکھوں کے ساتھ مل کر کام کر سکتی ہیں۔)

21

چشمِ خر چوں اوّلش بے آخِرست

گر دو چشمش ہست حکمِ اعورست

ترجمہ: (مگر) گدھے کی آنکھ کا اوّل (کو دیکھنا) چونکہ عاقبت (بینی) سے خالی ہے۔ (لہٰذا) اگر اسکی دو آنکھیں ہیں (تو بھی) وہ ایک چشم کے حکم میں ہے۔

22

ایں سخن پایاں ندارد آں خفیف

مے نویسد رقعہ در طمعِ رغیف

ترجمہ: یہ بحث انتہا نہیں رکھتی ہے، اور وہ کم عقل (غلام) روٹی کی حرص میں خط لکھ رہا ہے۔ (اسکا قصہ ختم کرو۔)