دفتر چہارم: حکایت: 68
تفسیر: ﴿فَاَوۡجَسَ فِیۡ نَفۡسِہٖ خِیۡفَۃً مُّوۡسٰی - قُلۡنَا لَا تَخَفۡ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡاَعۡلٰی﴾ (طٰهٰ: 67٫68)
اس آیت: ﴿فَاَوۡجَسَ فِیۡ نَفۡسِہٖ خِیۡفَۃً مُّوۡسٰی - قُلۡنَا لَا تَخَفۡ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡاَعۡلٰی﴾ (طٰهٰ: 67٫68) کی تفسیر (یعنی ”اس پر موسٰی کو اپنے دل میں کچھ خوف محسوس ہوا۔ ہم نے کہا: ڈرو نہیں، یقین رکھو تم ہی سربلند رہو گے۔“)
مطلب: جب فرعون نے حضرت موسٰی علیہ السّلام کے مقابلے کے لیے مملکتِ مصر کے جادوگروں کو جمع کیا، اور مجمعِ عام میں انہوں نے جادو کے زور سے رسیوں اور لکڑیوں کے سانپ بنا کر میدان میں چھوڑے، تو موسٰی علیہ السّلام کسی قدر ہراساں ہو گئے۔ اللہ تعالٰی نے بذریعہ وحی فرمایا: ﴿لَا تَخَفۡ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡاَعۡلٰی﴾ (طٰہٰ: 68) یعنی ”اے موسیٰ ڈرو نہیں، یقین رکھو تم ہی سربلند رہو گے۔“ شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ موسٰی علیہ السّلام کا خوف اس لیے نہ تھا کہ وہ ساحروں کے عمل کے بطلان میں متردّد تھے، یا انکے سانپوں سے ڈرتے تھے، بلکہ انکو خوف یہ تھا کہ دیکھنے والوں کی نظر میں کہیں حق اور باطل میں تمیز مشکل نہ ہو جائے، اور ظاہر میں لوگ جادوگروں کو غالب اور حق بجانب نہ سمجھنے لگیں۔ ادھر جادوگروں نے گمان کیا کہ موسٰی علیہ السّلام انکے جادو سے ڈرنے لگے۔ اس لیے انہوں نے سمجھ لیا کہ موسٰی علیہ السّلام ساحر نہیں ہیں، کیونکہ ساحر دوسرے ساحر سے ڈرتا نہیں۔ پھر جب موسٰی علیہ السّلام نے عصا پھینکا، اور وہ اژدہا بن گیا، تو ان جادوگروں کو یقین ہو گیا کہ یہ خدائی معجزہ ہے جادو نہیں، کیونکہ اگر جادو ہوتا تو موسٰی علیہ السّلام خائف نہ ہوتے، اس لیے جادوگر فورًا ایمان لے آئے۔ فرمایا: ﴿قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ ہٰرُوۡنَ وَ مُوۡسٰی﴾ (طٰہٰ: 70) کہنے لگے کہ: ہم ہارون اور موسٰی علیہما السّلام کے رب پر ایمان لے آئے۔ نجم الدین کبریٰ فرماتے ہیں۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ خوف جبلتِ بشریت میں مرکوز ہے۔ اگرچہ نبی ہو، پھر اللہ اس خوف کو زائل فرما دیتا ہے۔ (منہج) مولانا یہاں حضرت موسٰی علیہ السّلام کے اسی خوف و حیرت کا ذکر فرماتے ہیں، جو ان لوگوں کی عدمِ تمیز سے پیدا ہوا، نہ کہ جادوگروں کے غلبہ اور ان سانپوں سے، اور مقصد اس سے یہ ہے کہ جسطرح اللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی علیہ السّلام کی یہ مشکل حل فرما دی، اسی طرح وہ اہلِ سلوک کی تمام مشکلاتِ معارف حل فرما دیتا ہے۔
1
گفت موسٰیؑ سحر ہم حیراں کنے ست
چوں کنم کایں خلق را تمیز نیست
ترجمہ: حضرت موسٰی علیہ السّلام نے (جناب باری میں) التجا کی (کہ الٰہی! معجزہ کی طرح) جادو بھی (لوگوں کو) حیرت میں ڈالنے والا ہے۔ میں کیا کروں کہ ان لوگوں کو (حق و باطل کی) تمیز نہیں (اس لیے اندیشہ ہے کہ جادو کو برحق سمجھنے لگیں۔)
2
گفت حق تمییز را پیدا کنم
عقل بے تمییز را بینا کنم
ترجمہ: حق تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ میں (لوگوں کی نظروں میں) تمیز پیدا کر دوں گا۔ (اور) تمیز نہ کر سکنے والی عقل کو بصیرت بخش دوں گا۔
3
چونکہ معجزہات را ظاہر کنم
عقل را در دیدنش فاخر کنم
ترجمہ: جب میں تمہارے (اژدہے عصا، اور یدِ بیضا کے) معجزوں کو ظاہر کروں گا۔ تو (دیکھنے والو کی) عقل کو (یہ) فخر بخش دوں گا (کہ وہ حق و باطل میں تمیز کر سکے۔)
4
دیدہ بخشم عقلِ بے تمییز را
کور سازم جاہلِ ناچیز را
ترجمہ: بے تمیز عقل کو (تمییز کی) نظر بخش دوں گا۔ جاہل ناچیز کو اندھا کر دوں گا۔ (طالبِ حق کو حق نظر آ جائے گا) اور وہ ایمان سے بہرہ مند ہو جائے گا، شقیِ منکر ایمان سے محروم رہے گا۔
5
گرچہ چوں دریا بر آوردند کف
موسیا تو غالب آئی لَا تَخَفْ
ترجمہ: اگرچہ (وہ) جادوگر سمندر کی طرح (جوش و تلاطم سے) جھاگ لا رہا ہے۔ (مگر) اے موسٰی! ڈرو نہیں، تم ہی غالب رہو گے۔ (حق تعالٰی کا خطاب یہاں تک تھا۔ اب مولانا فرماتے ہیں:)
6
بود اندر عہدِ خود سحر افتخار
چوں عصا شد مار آنہا گشت عار
ترجمہ: جادو (بھی) اپنے زمانے میں (قابلِ) فخر (سمجھا جاتا) تھا۔ (مگر) جب عصا سانپ بن گیا تو وہ سب (جادوگریاں) باعثِ شرم بن گئیں۔
7
ہر کسے را دعوٰیِ حسن و نمک
سنگِ مرگ آمد نمک ہا را محک
ترجمہ: (اسی طرح) ہر ایک (اہلِ فن کو اپنے اپنے عہد میں) حُسن و ملاحت کا دعوٰی رہا ہے۔ (مگر) موت کا پتھر (ان) ملاحتوں کے لیے کسوٹی ثابت ہوا۔
مطلب: حضرت موسٰی علیہ السّلام کے عہد میں جادو قابلِ فخر تھا، اور حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے زمانے میں طب اور علاج باعثِ افتخار سمجھا جاتا تھا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے عہدِ مبارک میں فصاحت و بلاغت مایۂ نازش تھی تو اللہ تعالٰی نے ہر پیغمبر کو اسی قوم کا معجزہ عطا فرمایا، جو اس زمانے کے قابلِ فخر کمال کا معارضہ کر کے خداوندی طاقت کے آگے، انسانی قوت و شوکت کے عجز کا ثبوت پیش کرسکے۔ چنانچہ جادو کے مقابلے میں حضرت موسٰی علیہ السّلام کو اژدہا عصا کا معجزہ عطا فرمایا، اور حکمائے یونان کی طبابت کے مقابلے میں حضرت عیسٰی علیہ السّلام کو دم کے ذریعہ برص و جذام وغیرہ امراض دور کر دینے کا معجزہ دیا، اور عرب کی بے نظیر فصاحت کے مقابلہ میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت کا زندہ جاوید معجزہ بخشا۔ بے شک انسانی طاقت نے غلطی سے خدائی طاقت کا مقابلہ کرنا چاہا، لیکن موت نے دودھ کا دودھ، اور پانی کا پانی کر دیا، اور غافل و گستاخ انسان کو اپنی اس گستاخی پر ندامت و خجالت اٹھانی پڑی۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
8
سحر رفت و معجزۂ موسیٰؑ گذشت
ہر دو را از بام بود افتاد طشت
ترجمہ: جادو جاتا رہا، اور حضرت موسٰی علیہ السّلام کا معجزہ بھی گزر گیا۔ مگر دونوں اپنی ہستی میں (حق و باطل ہونے کے لحاظ سے) مشہور ہو گئے۔
9
بانگِ طشتِ سحر جز لعنت نماند
بانگِ طشتِ دیں بجز رفعت نماند
ترجمہ: (چنانچہ) جادو کے طشت کی آواز (یعنی اسکی شہرت) سوائے لعنت کے (باقی) نہیں رہی۔ (اور) دینِ (حق) کے طشت کی آواز سوائے عزت (و فوقیت) کے (باقی) نہیں رہی۔
10
چوں محک پنہاں شدست از مرد و زن
در صف آ اے قلب اکنوں لاف زن
ترجمہ: جب مردوں اور عورتوں (کی نظر) سے (تمییز و شناخت کی) کسوٹی غائب ہے۔ تو اے کھوٹے (اور ناقص مدّعی! تیری چاندی ہے، اب تو) میدان میں آ، اور (اپنے کمالات کی) لاف زنی کر (کوئی اعتراض کرنے والا نہیں۔)
11
وقتِ لاف استت محک چوں غائب
مے برندت از عزیزی دست دست
ترجمہ: اب جو (موت اور سوال قبر اور حسابِ آخرت کی) کسوٹی غائب ہے، تو (تجھے) لاف (زنی) کا موقع (حاصل) ہے۔ لوگ تجھ کو (مرشدِ کامل سمجھ کر) عزت کے ساتھ دست بدست لے جاتے ہیں۔
12
ہر دمت عزّے و نازے در فزود
چوں محک آمد چرا گشتی کبود
ترجمہ: (لاف زنی کے وقت تو) ہر وقت تیری عزت اور فخر ترقی پر رہا۔ (مگر) جب (موت کی) کسوٹی آ گئی، تو پھر تو (حسرت و خجالت سے) سیاہ رو کیوں ہو گیا؟
13
قلب مے گوید ز نخوت ہر دمم
اے زرِ خالص من از تو کے کمم
ترجمہ: کھوٹا سونا ہر لمحہ غرور کے ساتھ مجھے کہتا ہے۔ اے خالص سونے! میں کیا تجھ سے کچھ کم ہوں؟
14
زر ہمی گوید بلے اے خواجہ تاش
لیک مے آید محک آمادہ باش
ترجمہ: خالص سونا (یوں) جواب دیتا ہے کہ بھائی! (اچھا) یوں ہی سہی۔ لیکن (ابھی موت کی) کسوٹی آ رہی ہے، تیار رہ۔ (پھر تیری قلعی کھل جائے گی۔)
15
مرگِ تن ہدیہ است بر اصحابِ راز
زرِ خالص را چہ نقصان ست کاز
ترجمہ: جسم کی موت، اہلِ باطن کے لیے تحفہ ہے (کہ انکی روح عنصری قید سے نجات پا کر محبوبِ حقیقی سے جا ملتی ہے۔ ہاں بے شک) خالص سونے کو قینچی سے کیا نقصان؟
مطلب: خالص سونے کو قینچی سے کاٹا جائے تو اس سے سونے کا نقصان نہیں ہوتا، بلکہ اس سے اسکی اندرونی چمک دمک ظاہر ہوجاتی ہے۔ بخلاف اسکے کھوٹے سونے کو کاٹنے سے اسکی اندرونی کھوٹ ظاہر ہوجاتی ہے۔ اسی طرح موت کی کسوٹی سے نیک لوگوں کی نیکی نمایاں، اور بد اعمال لوگوں کی بد اعمالی فاش ہوجاتی ہے۔ پہلے مصرعہ کا مضمون حدیث سے ماخوذ ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے: ”تُحْفَةُ الْمُؤْمِنِ الْمَوْتُ“ (رواه البيهقي في شعب الْإيمان: 9418) یہ بھی وارد ہے کہ ”اَلْمَوْتُ رَیْحَانَۃُ الْمُؤْمِنِ“ (کنز العمال: 42136) نیز مروی ہے ”اَلْمَوْتُ غَنِیْمَۃُ الْمُؤْمِنِ“ (بشری الکئیب بلقاء الحبیب: تالیف: امام جلال الدین سیوطی)(منہج)
16
قلب اگر در خویش آخر بیں بُدے
آں سیہ کاٰخر شد او اوّل شدے
ترجمہ: کھوٹا اگر آپ سے آپ عاقبت اندیش ہوتا۔ تو ندامت کی سیاہ روئی جو اسے آخر میں پیش آئی، پہلے ہی اختیار کرلیتا (زندگی ہی میں گناہوں پر پشیمان ہونا بڑا مبارک ہے، پھر موت کے وقت دستِ حسرت کاٹنا نہیں پڑتا۔)
17
چوں شدے اوّل سیہ اندر لَقَا
دور بودے از نفاق از شِقا
ترجمہ: اگر وہ پہلے ہی (ندامتِ گناہ سے) سیاہ (رو) ہوجاتا۔ تو قیامت میں نفاق (کے الزام) اور بدبختی (کے انجام) سے دور رہتا۔ (شدید ندامت کے وقت، چہرہ متغیر ہوجاتا ہے، یہاں ”سیاہ شدن“ سے یہی مراد ہے۔)
18
کیمیائے فضل را طالب بُدے
عقلِ او بر زرقِ او غالب بُدے
ترجمہ: (پھر) وہ (بناوٹی بزرگی کے بجائے حقیقی) بزرگی کی کیمیا کا طالب ہوتا۔ اسکی عقل مکاری پر غالب آ جاتی (اور وہ مکر و فریب سے نفرت کرتا۔)
19
چوں شکستہ دل شدے از حالِ خویش
جابرِ اشکستگاں دیدے بہ پیش
ترجمہ: اگر وہ اپنی گنہگاری کی حالت سے شکستہ دل ہو جاتا۔ تو شکستہ دلوں کی دلجوئی کرنے والے کو (اپنے) سامنے (موجود) پاتا۔ (”جابر“ کے معنٰی جوڑنے والا یعنی اپنے گناہوں پر خجل ہونے والے کا خدا کارساز ہے۔)
20
عاقبت را دید او اشکستہ شد
از شکستہ بند در دم بست شد
ترجمہ: اس نے آخرت پر نظر کی (اور اپنے گناہوں کے خیال سے) شکستہ (دل) ہو گیا۔ تو ٹوٹے کو باندھنے والے (کی جناب) سے فورًا (اس کا دل) باندھ کر (صحیح و سالم) کر دیا گیا۔
21
فضل مسہا را سوئے اکسیر راند
آں زر اندود و از محک محروم ماند
ترجمہ: (خداوند تعالٰی کے) فضل و کرم نے (کفر کے) تانبوں کو (ایمان کی) اکسیر کی طرف پہنچا (کر مومن بنا) دیا۔ (مگر) وہ (نفاق و ریا کا) ملمع کسوٹی سے محروم (رہ کر وہی کافر کا کافر) رہا۔ (کافر ایمان سے بہرہ مند ہو جاتا ہے، مگر بناوٹی مسلمان اور ریا کار شیخ کی اصلاح مشکل ہے۔)
22
اے زر اندودہ مکن دعوٰی ببیں
کہ نماند مشتریت اعمٰی چنیں
ترجمہ: اے ملمع کار (شیخ) دیکھ (اپنے کمال) کا دعوٰی نہ کر۔ کیونکہ تیرا خریدار یوں (ہمیشہ) اندھا نہیں رہے گا۔
23
نورِ محشر چشمہا بینا کند
چشم بندیِّ ترا رسوا کند
ترجمہ: (چنانچہ) قیامت کا نور آنکھوں کو روشن کر دے گا۔ اور تیری نظر بندی کو (جسکی آڑ میں تو لوگوں کے ایمان کو تباہ اور انکے مال کو غارت کر رہا ہے) خوار کر دے گا۔
24
بنگر آنها را کہ آخر دیدہ اند
حسرتِ جانہا و رشکِ دیدہ اند
ترجمہ: ان لوگوں کو دیکھ جو آخرت کا خیال رکھتے ہیں۔ (اور فریب و مکر کرنے سے بچتے ہیں) وہ (عام لوگوں کی) جانوں کے لیے (اس) حسرت (کا باعث) ہیں (کہ کاش ان جانوں کو یہ درجہ حاصل ہوتا) اور (عام لوگوں کی) آنکھوں کے لیے (موجبِ) رشک ہیں (کیونکہ یہ عاقبت بینی انکو میسر نہیں۔ پس تو بھی مکر اور فریب سے باز آجا۔)
25
منگر آنها را کہ حالی دیدہ اند
سِرّ فاسد ز اصلِ سر ببریدہ اند
ترجمہ: ان لوگوں کو نہ دیکھ جنہوں نے (دنیا کے) موجودہ (فانی فوائد) کو نصب العین بنایا ہے۔ (اور پیری کا ڈھونک رچانے کے لیے) اصل معارف کی (کتربیونت) سے کچھ اناپ شناپ باتیں تراش لیں (اور لوگوں کو سنانی شروع کر دیں۔)
26
پیش حالی بیں کہ در جہل ست و شک
صبحِ صادق صبحِ کاذب ہر دو یک
ترجمہ: (ایسے پیروں کی) موجودہ (بزرگانہ صورت) کو دیکھنے والے کے آگے جو کہ جہالت اور شک میں (مبتلا) ہے۔ صبحِ صادق، اور صبحِ کاذب دونوں یکساں ہیں۔
27
صبحِ کاذب صد ہزاراں کارواں
داد بربادِ ہلاکت اے جواں
ترجمہ: اے جوان! صبح کاذب نے لاکھوں قافلوں کو (جو اس وقت فجر کے دھوکے میں چل پڑتے ہیں، ڈاکوؤں کے ہاتھوں) ہلاکت سے برباد کر دیا ہے۔ (جھوٹے اور دنیا طلب پیر کا مرید ہونے والا تباہ ہو جاتا ہے۔)
28
صبحِ صادق را طلب کن اے عزیز
تا ز صدقِ او شوے صاحب تمیز
ترجمہ: اے عزیز! صبحِ صادق (یعنی مرشد کامل) کو تلاش کرو۔ تاکہ اسکے صدق سے تم (حق و باطل میں) تمیز کرنے کے قابل ہو جاؤ (مرشدِ ناقص کا کذب تم کو مضر ہوگا۔)
29
نیست نقدے کش غلط انداز نیست
وائے آں جاں کش محکّ و گاز نیست
ترجمہ: کوئی نقد (سکہ) ایسا نہیں جس کا (کوئی ہم شکل کھوٹا سکہ) غلط فہمی میں ڈالنے والا نہیں۔ وہ جان قابلِ افسوس ہے، جس کے پاس (کھوٹے کو پرکھنے کے لیے) کسوٹی اور (اسکو کاٹ کر دیکھنے کے لیے) قینچی نہیں۔
مطلب: جھوٹے، مکار، دنیا طلب، زر اندوز، عیاش پیر بھی اس دلقِ مرقّع، اور تسبیح و سجادہ وغیرہ درویشانہ سامان کے ساتھ مزین ہوتے ہیں، جو بزرگانِ طریقت کے لیے مخصوص ہے۔ اس لیے کاملین اور مزورین میں تمیز کرنا سخت مشکل ہے۔ اور جس شخص کو علم نہیں، اور نہ اس میں کامل و ناقص کا فرق سمجھنے کی اہلیت ہے۔ اسکی دولتِ ایمان کا خدا حافظ؎
ظاہری وضع ایسے پیروں کی
سادہ لوگوں کو ہے پھنسا لیتی
ریش و تسبیح و جبہ و دستار
شکلِ عباد و صورتِ ابرار
دیدۂ نیم باز اور رخِ زرد
لمحہ لمحہ پہ نعرۂ پر درد
شکل زہاد کی بنائی ہوئی
اک اداسی سی منہ پر چھائی ہوئی
باتوں باتوں میں شعر لاتے ہیں
اور دلکش قصص سناتے ہیں
ہر ادا میں کمال کے دعوے
قال کے دم میں حال کے دعوے
بنتے ہیں اپنے منہ میاں مٹھو
ورد نَحْنُ ہے چھوڑ کر یَا ہُو
خرقۂ فخر ہے لباس ایسا
جس میں اچھا برا نہیں دکھتا
عرشیِ تا تواں! سنبھل کے ذرا
مکر کا دام جا بجا ہے بچھا
30
باز رَو سوئے غلام و کتبتش
کو سوے شہ مے نویسد نامہ خوش
ترجمہ: (اب) پھر غلام اور اسکے (خط) لکھنے کی طرف چلو۔ جو بادشاہ کی طرف (ایک) عجیب و غریب خط لکھنے لگا ہے۔
مطلب: شیوخ مزورین کی قلعی کھولنے اور انکے معتقدین کو تنبیہ کرنے کے بعد، مولانا پھر غلام کے قصے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، مگر ابھی ایک ہی شعر اس سلسلے کا کہا تھا کہ پھر شیوخ مزورین کو ملامت اور تنبیہ کرنے کی طرف خیال منتقل ہو گیا۔ گویا اس مضمون سے کچھ پیاس باقی تھی، جسکو پوری طرح فرو کیے بدوں دوسری طرف متوجہ نہ ہو سکے۔ اب اسکو نئے عنوان سے شروع کرتے ہیں: