دفتر 4 حکایت 67: دنیا سے دھوکا کھانے والوں، اور نفس کے قیدیوں سے خطاب

دفتر چہارم: حکایت: 67

خطاب با مغرورانِ دنیا، و گرفتارانِ نفس

دنیا سے دھوکا کھانے والوں، اور نفس کے قیدیوں سے خطاب

1

اے بکردہ اعتماد واثقے

بر دم و بر چاپلوسی فاسقے

ترجمہ: اے کسی بدکار (و عیّار بناوٹی پیر) کے فریب، اور چکنی چپڑی باتوں پر پختہ عمل کرنے والے۔

2

قبۂ بر ساختستی از حباب

آخر آں خیمہ است بس واہی طناب

ترجمہ: تو نے اس (پیر پر تزویر کے اعتقاد کا) گنبد بنا رکھا ہے۔ (مگر وہ گنبد) اس قدر کمزور ہے، جیسے بلبلے سے بنا ہو۔ آخر وہ نہایت کمزور رسیوں والا خیمہ ہے۔

مطلب: کمزور رسیوں والا خیمہ جیسے مکڑی کا جالا، جو نہ دھوپ اور بارش سے پناہ دے سکے، نہ سردی سے بچائے، اور نہ ہوا وغیرہ میں قائم رہ سکے۔ اسی طرح شیوخِ مزورین کا توسّل کوئی دینی و دنیاوی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، بلکہ ”خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ“ کا مصداق بنا دیتا ہے۔ آگے اسکی وجہ ارشاد فرماتے ہیں:

3

زرق چوں برق ست اندر نورِ آں

راہ نتوانند دیدن رہرواں

ترجمہ: (کیونکہ) فریب (اور بناوٹ) گویا بجلی کی چمک ہے۔ جسکی روشنی میں راہرو راستہ نہیں دیکھ سکتے۔

مطلب: جسطرح بجلی کی چمک ناپائدار ہے، اور اسکی لمحہ بھر کی روشنی کے بعد پھر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اسی طرح ان بناوٹی پیروں کے توسّل کا آغاز و انجام ظلمت و جہالت کا مظہر ہے۔

4

ایں جہاں و اہلِ آں بے حاصلند

ہر دو اندر بیوفائی یک دل اند

ترجمہ: یہ دنیا، اور اہلِ دنیا بے فیض ہیں۔ دونوں بے وفائی میں یکساں ہیں۔

5

زادۂ دنیا چو دنیا بے وفاست

گرچہ رُو آرد بتو آں رو قفاست

ترجمہ: دنیا میں پیدا ہونے والا (ہر شخص) دنیا کی طرح بے وفا ہے۔ اگرچہ وہ تمہاری طرف رخ کرے مگر وہ رخ (در حقیقت) بے رخی ہے۔ (”قفا“ کے معنی گُدّی کے ہیں، یعنی دنیادار بظاہر محبت سے ملتے ہیں، مگر دل میں خلوص و صداقت نہیں۔)

6

اہل آں عالم چو آں عالم زبر

تا ابد در عہد و پیماں مستمر

ترجمہ: (بخلاف اسکے آخرت) کا خیال رکھنے والے، اپنی نیکوکاری کی وجہ سے۔ ہمیشہ عہد و اقرار میں (اسی طرح) پائدار ہیں جس طرح وہ (اگلا) جہان (پائدار) ہے۔

7

خود دو پیغمبر بہم کے ضد شدند

معجزاتِ ہم دگر کے بستدند

ترجمہ: چنانچہ دو پیغمبر آپس میں کب مخالف ہوئے ہیں؟ اور ایک دوسرے کے معجزات کب چھینتے ہیں؟ (مگر دنیادار ایک دوسرے کا مال چوری، خیانت، غصب، نہب سے اڑانے کو تیار ہیں۔)

8

کے شود پژ مردہ میوۂ آں جہاں

شادیِ عقبٰی نگردد اند ماں

ترجمہ: اس (اگلے) جہان کا میوہ کب خراب ہو سکتا ہے؟ آخرت کی خوشی غم نہیں بن سکتی۔ (بخلاف اسکے دنیا کی ہر چیز رو بزوال ہے، اور یہاں کی خوشی کا انجام غم ہے۔)

9

نفس بے عہدست زاں رو کُشتنی ست

او دنی و قبلہ گاہِ او دنی ست

ترجمہ: نفس (امّارہ) بد عہد ہے، اس لیے واجب القتل ہے۔ وہ کمینہ ہے، اور اسکا قبلہ گاہ بھی کمینہ ہے۔

مطلب: دنیا داروں کی غداری اور اشیائے دنیا کی نا پائداری پر توجہ دلانے کے بعد، اس چیز کا ذکر فرمایا ہے جو دنیا داروں پر مسلّط ہے، اور جسکے تسلط کی وجہ سے دنیا مذموم قرار پائے۔ وہ کیا! نفسِ امّارہ اور نفسِ کا قبلہ گاہ یعنی معبودِ فسق و معصیت، کبر و تفاخر، اور ہوا و ہوس ہے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿اَفَرَاَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوَاہُ﴾ (الجاثیہ: 23) “کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو اپنی خواہش کا پجاری ہے۔“

10

نفسہا را لائق ست ایں انجمن

مردہ را در خور بود گور و کفن

ترجمہ: (دنیاداروں کی) یہ مجلس (امّارہ) نفس کے لائق ہے۔ (کیونکہ یہ) نفس مردار ہیں (اور) مردے کے لیے قبر اور کفن مناسب ہے۔

مطلب: دنیا کا جو حلقہ دین اور اخلاقِ حسنہ سے خالی ہو، بمنزلۂ گور ہے۔ وہ نفسِ امّارہ کے لائق ہے، اور اسکے لائق: ﴿اَلْخَبِیْثَاتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ﴾ (النور: 26)

11

نفس اگرچہ زیرک ست و خردہ داں

قبلہ اش دنیاست او را مردہ داں

ترجمہ: نفس اگرچہ ہوشیار، اور نکتہ شناس ہے۔ (مگر جب) دنیا اسکی قبلہ ہے، تو اسکو مردہ سمجھو۔ (دنیا دار کیسا ہی زیرک و بیدار مغز ہو، مگر جب عقبیٰ سے غافل ہے تو گویا کچھ بھی نہیں۔)

12

آبِ وحی از حق بدیں مردہ رسید

شد ز خاکِ مردۂ زندہ پدید

ترجمہ: (جب) اس (نفس پرست دنیا دار) مردے کو حق تعالٰی کی طرف سے الہامِ (ہدایت) کا پانی پہنچا۔ تو (گویا) بے جان مٹی سے ایک زندہ پیدا ہو گیا۔ (بعض اوقات ایک غافل دنیا دار قدرتی طور سے عبرت اور تنبہ ہو کر باعثِ ہدایت ہو جاتا ہے، یہ توفیقِ الٰہی اور الہامِ حق ہے۔)

13

تا نیاید وحی زو غرّہ مباش

تو بداں گلگونۂ طال بقاش

ترجمہ: (1) جب تک اس (ہادیِ مطلق) کی طرف سے ہدایت کا الہام نہ آئے۔ تو اس (نفسِ ناپاک کی) اس رنگ آمیز بات سے کہ (ابھی) عمر لمبی پڑی ہے۔ (پھر کبھی توبہ کر لینا) دھوکہ نہ کھانا۔

(2) جب تک اس (ہادیِ مطلق) کی طرف سے ہدایت کا الہام نہ آئے، جسکا بقا (تمہاری جان میں خدا کرے) ہمیشہ رہے۔ اس (نفس) کی رنگ آمیز باتوں سے دھوکہ نہ کھانا (کہ آخر انکا رنگ فانی ہے۔)

مطلب: حق تعالٰی کی طرف سے الہامِ ہدایت آنے کے بعد تو نفس کی کچھ بھی پیش نہیں جا سکتی۔ البتہ اس الہام کے ورود سے پہلے نفس کی شرارت کا بہت اندیشہ ہے۔ اس وقت مردانہ ہمت سے کام لینے، اور اس سگِ خبیث الطبع کی مکاریوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے، اور نفس کے شرور سے بچنے کے لیے کسی مرشدِ کامل کی تلاش بھی جاری رہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

14

بانگ وصیتے جُو کہ آں خامل نشد

تابِ خورشیدے کہ آں آفل نشد

ترجمہ: (شیطان اور نفس کی آواز کو چھوڑ کر) وہ آواز اور ذکر تلاش کرو جو ساقط (و منعدم) نہیں ہوا۔ (اور) ایسے آفتاب کی چمک (ڈھونڈو) جو غروب نہیں ہوا۔

15

آں ہنرہائے دقیق و قال و قیل

قومِ فرعونند اجل چوں آبِ نیل

ترجمہ: (نفس دنیا طلبی کے لیے جو) صنائعِ لطیفہ اور قیل و قال اختیار کر رہا ہے۔ وہ سب موت سے فنا ہو جائیں گے۔ (وہ گویا) قومِ فرعون ہیں، اور موت دریائے نیل (ہے، جس میں وہ قوم غرق ہو گئی تھی۔) کَمَا قِیْلَ۔ ع۔

سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا

16

رونق و طاق و طرنب و سحرِ شاں

گرچہ خلقاں را کشد گردن کشاں

ترجمہ: (دنیا طلبی کے دقیق ہنر، جو گویا) ان لوگوں کا اقبال اور شان و شوکت اور جادو (ہیں۔) اگرچہ مخلوق کو بزور اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔

17

سحرہائے ساحراں واں جملہ را

مرگ چوبے داں کہ آں شد اژدہا

ترجمہ: (مگر ان) جادوگروں کے جادوؤں (اور ان سب لوگوں کے لیے) موت کو (حضرت موسیٰ علیہ السّلام) کا عصا سمجھو جو اژدہا بن گیا۔

18

جادوئے ہا را ہمہ یک لقمہ کرد

یک جہاں پُر شب بُد آں را صبح خورد

ترجمہ: (اور) وہ (اژدہا) تمام جادوؤں کو ایک لقمہ کر گیا۔ ایک جہاں رات (کی تاریکی) سے پُر تھا۔ اس (تاریکی) کو صبح کھا گئی۔

مطلب: جس طرح وہ اژدہا جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کو نگل گیا۔ اسی طرح موت تمام دنیوی شان و شوکت کو تہ و بالا کر دیتی ہے۔ یہ دنیوی شان و شوکت بمنزلۂ ظلمت ہے، اور موت گویا صبح ہے، جو آتے ہی تاریکی کو نابود کر دیتی ہے۔ دوسرا مصرعہ اژدہے کے سحر کو باطل کر دینے کی تمثیل میں واقع ہوا تھا، مگر اسکے مضمون سے مولانا کا ذہن ایک اور لطیف مضمون کی طرف منتقل ہو جاتا ہے، جسکا ملخص یہ ہے کہ وجودِ مطلق کا نور، جب ازل میں ظاہر ہوا تو اس سے عدم کی تاریکی فنا ہو گئی، اور دنیا موجود ہو گئی اور دنیا کے وجود سے حق تعالٰی کی ذات و صفات میں کوئی زیادتی نہیں ہوئی، بلکہ اَلْاٰنَ کَمَا کَانَ چنانچہ آگے یہی مضمون چل رہا ہے:

19

نور ازاں خوردن نشد افزوں و بیش

بل ہماں سانست کو بودہ است پیش

ترجمہ: (وجودِ مطلق کا) نور اس عدم کی تاریکی کو کھا جانے سے زیادہ نہیں ہوا۔ بلکہ (اب بھی) اسی طرح ہے، جس طرح پہلے تھا۔

20

در اثر افزوں شدہ در ذات نے

ذات را افزونی و آفات نے

ترجمہ: نشان میں زیادتی ہوئی، ذات میں نہیں۔ ذات کے لیے زیادتی، اور کمی واقع کرنے والی آفات (ممکن) نہیں ہیں۔

21

حق ز ایجادِ جہاں افزوں نشد

آنچہ اول آں نبود اکنوں نشد

ترجمہ: حق تعالٰی جہان کو موجود کر دینے سے کچھ بڑھا نہیں۔ جو کچھ پہلے نہ تھا، اب نہیں ہوا۔

22

لیکن افزوں شد اثر ز ایجادِ خلق

درمیانِ آں فراواں ست فرق

ترجمہ: لیکن مخلوق کو وجود میں لانے سے (نشان و) اثر میں زیادتی ہوگئی۔ اور اس میں بڑا فرق ہے۔

23

ہست افزونیِ اثر اظہارِ او

تا پدید آید صفات و کارِ او

ترجمہ: اثر کی زیادتی اس (پروردگار) کی طرف سے (اپنی ذات کا) اظہار ہے۔ تاکہ اسکی صفات اور صنعت کا ظہور ہو جائے۔

مطلب: مولانا بحر العلوم فرماتے ہیں کہ ”یک جہاں پُر شب بُد آں را صبحِ خورد“ سے لے کر یہاں تک (ابیات کا) مطلب یوں معلوم ہوتا ہے کہ جہان جو ما سویٰ اللہ ہے ظلمتِ عدم میں مستور، اور ثبوتِ علمی کے مرتبہ میں معدوم، اور احدیّتِ حق سبحانہٗ کے مرتبہ میں لاشے تھا۔ صبحِ وجود سے نفسِ ذاتِ حق مراد ہے، جس نے ظلمتِ عدم کو نابود کر دیا۔ ذاتِ حق اعیان میں ظاہر ہوئی۔ پس اعیان نے وجود کا جامہ پہنا، جو اپنی ذات میں معدوم تھے۔ ”وَمَا شَمَمْتُ رَائِحَۃً مِّنَ الْوُجُوْدِ اِنَّمَا الْوُجُوْدُ حَقٌّ ظَھَرَ فِیْھَا“ پس اعیانِ ممکنہ کا لباس وجودِ عاریت ہے، اور یہ نورِ وجود جس سے ذاتِ حق مراد ہے، ان ممکنات کے ظہور، اور ظلمت عدم کے بطلان سے اپنے کمالِ ذات میں کچھ متزاید نہیں ہوا، بلکہ وہ اپنی احدیتِ اسماء و صفات کے ساتھ جیسا کہ پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے۔ وَھُوَ اَلْاٰنَ کَمَا کَانَ اور اس کمال کو صوفیہ کرام کی اصطلاح میں کمالِ ذاتی کہتے ہیں۔

لیکن مرتبۂ احدیت میں اگر اعیانِ ثابتہ کے لحاظ سے تکثر اسماء ہے، اور صفات متزاید ہیں۔ مثلًا قادر سے حاکم ممتاز ہو گیا۔ تاہم یہ کمال جو اعیانِ ثابتہ کی نسبت حاصل ہے، اور وہ کمال اسماء کی قبیل سے ہے۔ اعیانِ ثابتہ کے ثبوت پر موجود ہونے کے باوجود قدیم ہے زوال پذیر نہیں، کیونکہ اتصاف بصفات، اور تمیزِ اسماء، اور ثبوتِ اعیانِ ثابتہ، ازلی ہیں۔ پس مرتبۂ واحدیت میں بھی وہ جسطرح اسماء کی تمیز کے ساتھ تھا، اب بھی ہے کسی طرح متزائد نہیں ہوا۔ پس ظاہر ہوا کہ اعیانِ ممکنات میں خارج کے اندر وجودِ حق کا ظاہر ہونا اسکے کسی کمال کو ترقی کا موجب نہیں، نہ کمالِ ذاتی میں اور نہ کمال اسمائی میں، لیکن اس کمال کے اثر اور فرع میں جو کمالِ اسماء ہے۔ ان اسماء کے احکام اور آثار کے ظہور سے زیادتی اور افزونی حاصل ہوجاتی ہے۔ جنکی بنا اسماء کے اپنے مظاہر میں ظاہر ہونے پر ہے، لیکن ذاتِ حق سبحانہٗ اور ذات با احدیت اسماء و صفات اَلْاٰنَ کَمَا کَانَ ہے۔ ہاں جب مخلوق موجود ہوئی، تو کمالِ اسماء کے اثر میں زیادتی آ گئی۔ چنانچہ خلق کے وجود میں آنے سے حق تعالٰی کی خالقیت ظاہر ہوگئی، اور وہ خالق ہو گیا۔ رزق خوار کے وجود سے اسکی رازقیت ظاہر ہوئی، اور وہ رازق کہلایا۔ گنہگار کے وجود سے اسکی مغفرت یا انتقام کا ظہور ہوا، اور وہ غفور اور منتقم ٹھہرا۔ اور ترکی افزونی سے ذاتِ حق کا اپنے آپ کو ظاہر کرنا مقصود ہے، تاکہ اسکی اسماء و صفات نمایاں ہوں، جیسے کہ حدیثِ قدسی شاہد ہے: ”کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ“ (انتہٰی) آگے یہ بتاتے ہیں کہ ذاتِ حق کے لیے افزونی کیوں ممتنع ہے:

24

ہست افزونیِّ ہر ذاتے دلیل

کو بود حادث بعلّتہا علیل

ترجمہ: ہر ذات (کے کمال) کی زیادتی (اس بات کی) دلیل ہے۔ کہ وہ حادث ہے (قدیم نہیں، اور ارباب و) علل (پر موقوف ہونے) کی وجہ سے ناقص ہے۔

مطلب: جب کوئی ذات (ایک وقت کمال سے محروم تھی، پھر اسکو کوئی کمال حاصل ہوا، تو وہ حصولِ کمال میں کسی علت پر سبب یا جاعل و مکمل کی محتاج ہوگی۔ ایسی ذات ازلی و قدیم نہیں ہو سکتی، اور یہ بات حق تعالٰی کی ذات سے بعید بلکہ ابعد ہے۔ آگے اس مضمون کے مشکل و اَدق ہونے کا ذکر فرماتے ہیں:

25

نکتہ شد باریک اینجا اے رفیق

لیک بشنو تو مقالاتِ دقیق

ترجمہ: اے دوست یہاں (یہ) نکتہ باریک ہو گیا۔ (جسکا سمجھنا سمجھانا ذرا مشکل ہے) مگر تم باریک باتیں سنتے جاؤ۔ (اللہ تعالٰی انکا سمجھنا آسان کر دے گا۔)

انتباہ: آگے اس بات کی توضیح میں کہ علوم و معارف کے دقائق حق تعالٰی کی تائید سے سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا ذکر فرماتے ہیں: