دفتر 4 حکایت 66: اس بات کا بیان کہ عارف حق تعالٰی کے نور کی غذا پاتا ہے (کیونکہ وارد ہے:) کہ میں اپنے پروردگار کے پاس رات گزارتا ہوں جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کا قول ہے: کہ بھوک اللہ تعالٰی کا طعام ہے، جس سے وہ صدیقوں کے بدنوں کو زندگی بخشتا ہے، یعنی اللہ تعالٰی کا طعام بھوک میں پہنچتا ہے

دفتر چہارم: حکایت: 66

بیان آنکہ عارف را غذائیست از نورِ حق کہ: ”اَبِیْتُ عِنْدَ رَبِّیْ یُطْعِمُنِیْ وَ یُسْقِیْنِیْ، وَ قَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ عَلیٰۤ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ: اَلْجُوْعُ طَعَامُ اللّٰہِ یُحْیِیْ بِہٖ اَبْدَانَ الصِّدِّیْقِیْن، اَیْ طَعَامُ اللّٰہِ یَصِلُ فِی الْجُوْعِ“

اس بات کا بیان کہ عارف حق تعالٰی کے نور کی غذا پاتا ہے (کیونکہ وارد ہے:) کہ میں اپنے پروردگار کے پاس رات گزارتا ہوں جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کا قول ہے: کہ بھوک اللہ تعالٰی کا طعام ہے، جس سے وہ صدیقوں کے بدنوں کو زندگی بخشتا ہے، یعنی اللہ تعالٰی کا طعام بھوک میں پہنچتا ہے

مطلب: بخاری شریف کی روایت ہے: عَنْ عائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا: قَالَتْ نَھٰی رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْوِصَالِ رَحْمَةً لَھُمْ، فَقَالُوْا: إِنَّکَ تُوَاصِلُ قَالَ: إِنِّيْ لَسْتُ کَھَيْئَتِکُمْ إِنِّيْ یُطْعِمُنِيْ رَبِّي وَیَسْقِيْنِیْ (البخاري في الصحیح، کتاب الصوم: 1863) ”یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے لوگوں پر شفقت کے باعث انہیں وصال کے روزے رکھنے سے منع فرمایا: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا: آپ تو وصال کے روزے رکھتے ہیں۔ فرمایا: میں تم جیسا نہیں ہوں، مجھے تو میرا رب کھلاتا بھی ہے، اور پلاتا بھی ہے۔“ (انتہٰی) اس قسم کی روایات ابوداؤد وغیرہ میں بھی ہیں۔ اسکی توجیہ میں آئمہ مختلف ہیں۔ بعض کہتے ہیں آپ کو بہشتی نعمتیں کھلائی پلائی جاتی ہیں، اور ان سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ روزہ دنیا کے طعام سے ٹوٹتا ہے۔ بعض کہتے ہیں آپ کو بحالتِ خواب کھلایا جاتا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ لازم اکل و شرب سے مجاز ہے، اور وہ طاقت ہے یعنی اللہ تعالٰی مجھ کو طاقت بخش دیتا ہے جو تم کو حاصل نہیں۔(حاشیہ بخاری)

1

آدمی را شِیر از سینہ رسد

شِیرِ خر از نیمِ زیرینہ رسد

ترجمہ: آدمی (کے بچے) کو (اس کی ماں کے) سینے سے دودھ ملتا ہے۔ گدھے (کے بچے) کا دودھ (گدھی کے) نیچے کے آدھے (دھڑ) سے پہنچتا ہے۔

مطلب: انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اس لیے اس کی غذا اعلٰی مقام سے آتی ہے، اور چوپائے مثلًا گدھا انسان سے کم رتبہ ہے۔ اس لیے اسکی غذا ادنٰی مقام سے پہنچتی ہے۔ اس پر سوال ہو سکتا ہے کہ یہ فرقِ مراتب کیوں رکھا گیا؟ اب اسکا جواب دیتے ہیں:

2

عدل قسّام ست و قسمت کردنیست

اے عجب کہ جبر نے و ظلم نیست

ترجمہ: (یہ گونا گوں صلاحیت و استعداد کے) تقسیم کرنے والے (تعالٰی شانہ) کا انصاف، اور (اسی کا) تقسیم فرمانا ہے۔ (کہ جو شخص جس چیز کے قابل تھا، وہی اس کو دی) بڑی عجیب بات یہ ہے کہ یہ تقسیم کوئی جبر اور ظلم نہیں۔

مطلب: خاصانِ حق کو طعامِ غیب ملنے کا ذکر جو عنوان میں درج ہے۔ یہ اس بیان کی تمہید ہے یعنی کسی کو ایسی اعلٰی روحانی غذا کا حاصل ہونا، اور کسی کا اس سے محروم رہنا اللہ تعالٰی کی تقسیم ہے۔

کَمَا قِیْلَ؎

قسمت کیا ہر چیز کو قسّامِ ازل نے

جو شخص کہ جس چیز کے قابل نظر آیا

بلبل کو دیا نالہ تو پروانہ کو جلنا

غم مجھ کو دیا سب سے جو مشکل نظر آیا

مولانا بحر العلوم فرماتے ہیں۔ تحقیق اس بات کی یہ ہے کہ ممکنات کے اعیان ثابتہ اللہ تعالٰی کی ذات کی شیونات ہیں، اور ہر شان ایک حالت کا امکان اور صلاحیت رکھتی ہے، جسکے سوا کسی دوسری صلاحیت کا اس میں ہونا ممکن نہیں۔ مثلًا ابوجہل کا عین ثابت اسی بات کا مقتضی تھا کہ وہ ایمان نہ لائے، اور مستوجبِ جہنم رہے اور اللہ تعالٰی نے ہر ممکن عین ثابت پر انہی حالات کا افاضہ فرمایا ہے جسکے لیے وہ مستعد تھا (انتہٰی ملخصًا) اس پر شبہ وارد ہوتا ہے کہ کسی کو ایمان اور کسی کو کفر، کسی کو تقوٰی اور کسی کو فسق تقسیم کر دینا تو انصاف کے خلاف ہے۔ دوسرے مصرعہ میں مولانا اسکا جواب دیتے ہیں، کہ یہ جبر و ظلم نہیں کیونکہ جبر ہوتا تو بندے کا اختیار سلب کیا جاتا۔ حالانکہ بندہ اپنے فعل و عمل میں پورا اختیار رکھتا ہے اور اسکی دلیل یہ ہے کہ:

3

جبر بودے کے پشیمانی بدے

ظلم بودے کے نگہبانی بدے

ترجمہ: (اگر) جبر ہوتا تو (بندے کو اپنے فعلِ بد پر) پشیمانی کیوں ہوتی؟ (اگر) ظلم ہوتا تو (حق تعالٰی کی طرف سے بندے کی اس قدر) حفاظت کیوں ہوتی؟

مطلب: حق تعالٰی بندوں پر جبر و ظلم کرنے کی نسبت سے پاک ہے۔ بندہ گناہ کرتا ہے تو آخر میں اسکو پشیمانی لاحق ہوتی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نے اپنے اختیار سے گناہ کیا تھا۔ اگر مجبورًا و مضطرًا اس سے گناہ کا ارتکاب ہوتا، تو ہرگز وہ اس پر پشیمان نہ ہوتا۔ اضطراری فعل کی ایک مثال بیماری ہے۔ چنانچہ بیمار ہونے پر کوئی پشیمان نہیں ہوتا، اور کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں نے بہت برا کام کیا جو بیمار ہو گیا، کیونکہ بیمار ہو جانا یا بیماری سے بچنا اسکے اختیار سے باہر ہے۔ البتہ اگر وہ کسی مضر چیز کو کھا پی جانے سے بیمار ہوا ہو، تو اپنی اس بد پرہیزی پر ضرور پشیمان ہوگا، کیونکہ وہ اسکے اختیار میں تھی۔ پس گنہگار کا اپنے گناہوں پر پشیمان ہونا، اس بات کی روشن دلیل ہے کہ بندہ جو کام کرتا ہے اپنے اختیار سے کرتا ہے، قدرت اسکو کسی کام پر مجبور نہیں کرتی۔ حق تعالٰی سے ظلم کا وقوع بھی محال ہے: ﴿وَ مَا رَبُّکَ بِظَلّام لِّلْعَبِیْدِ﴾ (فصلت: 46) اور اسکی ایک دلیل یہ ہے کہ ظالم مظلوم کی بہتری نہیں چاہتا، کیونکہ اگر وہ اسکی بہتری چاہتا تو اس پر ظلم نہ کرتا، مگر حق تعالٰی ہر وقت اپنے بندوں کی بہتری چاہتا ہے۔ انکو صحت، رزق، اولاد وغیرہ گوناگوں مرادات سے متمتع کرتا ہے، اور لاکھوں بلاؤں سے بچاتا ہے۔ اگر وہ بندوں پر ظلم کرنے والا ہوتا (مَعَاذَ اللہ) تو فاقہ، مرض، حرق، غرق، درندہ، گزندہ لاکھوں بلاؤں سے انکی حفاظت کیوں کرتا؟ چونکہ مضمون سخت سنگلاخ اور معرکۃ الآرا ہے۔ اس لیے مولانا اب تنگیِ وقت کا عذر کر کے اس بحث کو بند کرنا چاہتے ہیں:

4

روز آخر شد سبق فردا بود

رازِ ما را روز کے گنجا بود

ترجمہ: دن ختم ہو گیا (اب) سبق کل ہوگا۔ (لیکن اگر دن ختم نہ ہوتا تو بھی اس بحث کا خاتمہ مشکل تھا کیونکہ) ہمارے راز کی گنجائش دن میں کہاں ہے؟

5

حاصل آنکہ در دخول و در ایاب

درنگر وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاالصَّوَابْ

ترجمہ: خلاصہ یہ ہے کہ تم داخل ہوتے اور واپس جاتے وقت۔ نظر کر لو اور اللہ تعالٰی بہتر جانتا ہے۔

مطلب: یہ عارف سے خطاب ہے یعنی تم حق تعالٰی کے حضور میں جانے، اور مخلوق کے پاس سے رجوع کرنے کے وقت اپنی حالت کو ملاحظہ کر لو، تو معلوم ہو جائے گا کہ حق تعالٰی کے پاس سے کس قسم کی غذائے روحانی حاصل ہوتی ہے۔(بحر) طعامِ الٰہی اور فیوضِ غیب سے بہرہ مند ہونے والوں کے مقابلہ میں اب گرفتارانِ نفس سے خطاب فرماتے ہیں جو اس فضیلت سے محروم ہیں: