دفتر 4 حکایت 65: دنیا کا دنیا داروں کو زبانِ حال سے نصیحت کرنا، اور ان لوگوں پر اپنی بے وفائی ظاہر کرنا جو اس سے وفا چاہتے ہیں، اور اپنے آپکی مذمت کرنا

دفتر چہارم: حکایت: 65

نصیحتِ دنیا اہل دنیا را بزبانِ حال، و بیوفائیِ خود را وا نمودنِ بوفا جویندگان ازو، و نکوہیدنِ خویش

دنیا کا دنیا داروں کو زبانِ حال سے نصیحت کرنا، اور ان لوگوں پر اپنی بے وفائی ظاہر کرنا جو اس سے وفا چاہتے ہیں، اور اپنے آپکی مذمت کرنا

1

ہمچنیں دنیا اگرچہ خوش شگفت

عیبِ خود را بانگ زد با جملہ گفت

ترجمہ: (جس طرح ملّا نے اپنی پگڑی کا نقص خود بخود چور سے بیان کر دیا) اسی طرح دنیا اگرچہ خوب شگفتہ (نظر آتی) ہے۔ مگر بآوازِ بلند اپنا عیب سب سے بیان کر رہی ہے۔

2

اندریں کون و فساد اے اوستاد

آں دغل کون و نصیحت آں فساد

ترجمہ: (کہ) اے استاد! (ہونے کے مدّعی) اس بننے بگڑنے (والے عالَم) میں بننا فریب ہے، اور بگڑنا نصیحت ہے۔

مطلب: دنیا کی عمارت و نضارت، جاہ و اقبال، ساز و سامان سے آدمی دھوکہ کھا کر خدا سے غافل، اور موت سے بے پرواہ ہو جاتا ہے، مگر جب انقلاب کی آندھی اس تمام نظر فریب تماشہ کو تہ و بالا کر دیتی ہے تو پھر اسے عبرت ہوتی ہے، اور خدا یاد آنے لگتا ہے۔ اور یہ گویا دنیا کی طرف سے ایک نصیحت و موعظت ہے جسکو وہ زبانِ حال سے ادا کر رہی ہے۔

3

کون مے گوید بیا من خوش پیم

واں فسادش گفت او من لاشیم

ترجمہ: (دنیا اپنی) ساخت (سے بزبانِ حال) کہتی ہے کہ (میری طرف) آؤ میں مبارک قدم ہوں۔ اور وہ اس (ساخت) کی تباہی (سے بزبانِ حال) کہتی ہے، جاؤ میں کچھ بھی نہیں۔ (آگے بعض اشیاءِ عالم کے انقلابات و تحولات کے نظائر بطور ثبوت پیش فرماتے ہیں:)

4

اے ز خوبیِ بہاراں لب گزاں

بنگر آں سردی و زردیِ خزاں

ترجمہ: اے (موسمِ) بہار کی خوبی سے (از راہِ تعجب) لب کاٹنے والے! خزاں کی وہ سردی اور زردی بھی دیکھ لے (جو باغ و بہار کو ملیامیٹ کر دیتی ہے، اور دیکھ کیا سے کیا ہو گیا۔)

5

روز دیدی طلعتِ خورشید خوب

مرگِ او را یاد کن وقتِ غروب

ترجمہ: تم نے دن کو آفتاب کا خوبصورت جلوہ دیکھ لیا۔ غروب کے وقت اسکی موت کو (بھی) یاد کرو۔

6

بدر را دیدی بریں خوش چار طاق

حسرتش را هم ببیں وقتِ محاق

ترجمہ: تم نے اس (آسمان کے) خوبصورت خیمے پر چودھویں رات کا چاند دیکھ لیا۔ (پھر اسکے) گھٹنے کے وقت اسکی حسرت بھی دیکھو۔

7

کودکے از حسن شد مولائے خلق

بعدِ فردا شد خَرِف رسوائے خلق

ترجمہ: ایک لڑکا (نو عمری میں رہتے) حسن سے مخلوق کا سردار بن جاتا ہے۔ (پھر) کل کے بعد بڈھا پھوس (ہو کر) دنیا میں خوار ہو جاتا ہے۔

8

گر تنِ سیمیں براں کردت شکار

بعد پیری بیں تنے چوں پنبہ زار

ترجمہ: اگر (اب) حسینوں کے بدن نے تم کو شکار کر لیا ہے۔ تو (ان کا) بدن بڑھاپے کے بعد (سفید ڈاڑھی اور مونچھوں سے) روئی کے کھیت کے مشابہ دیکھ لو۔

9

اے بدیدہ قُوْتہائے چرب خیز

فضلۂ آں را ببیں در آبریز

ترجمہ: اے چکنی (مزیدار) غذاؤں کو دیکھنے والے! اٹھ۔ انکا فضلہ (بنا ہوا) بیت الخلا میں دیکھ لے۔

10

مر خبث را گو کہ آں خوبیت کو

آں فریبِ و حسن و مرغوبیت کو

ترجمہ: (اب) اس گندگی سے پوچھ کہ تیری وہ پہلی خوبی کہاں گئی؟ وہ تیرا خوب صورت اور پسندیدگی کا فریب کیا ہوا ہے؟

11

بر طبق کو عشوہ و نرمی و خُوت

بر سبد کُو جلوہ و نغزی و بوت

ترجمہ: (وہ) طشت کے اوپر تیرا نخرہ اور نزاکت اور عادت کہاں ہے؟ (وہ) ٹوکری کے اندر تیرا جلوہ اور انوکھا پن اور خوشبو کدھر ہے؟

12

گوید او دانہ بُد من دام آں

چوں شدی تو صیدِ دانہ شد نہاں

ترجمہ: (گندگی) جواب دیتی ہے، وہ (نزاکت و خوشبو وغیرہ ایک طرح سے) دانہ تھا، اور میں اسکا جال تھی۔ جب تو (دانہ کی رغبت سے) شکار ہوگیا، تو دانہ غائب ہو گیا۔ (غذا کی لذت و خوشبو انسان کو آمادۂ حرص کردیتی ہے، جب وہ اسکی حرص کا شکار ہو کر اس سے پیٹ بھر لیتا ہے، تو غذا کی وہ تمام صفات جو محرّک تھیں، کم ہو جاتی ہیں اور وہ فضلہ بن جاتی ہے۔)

13

بس انامل رشکِ استاداں شدہ

در صناعت عاقبت لرزاں شدہ

ترجمہ: بہتیری انگلیاں صنعت کے کاموں میں، استادوں کو مات کرنے والی ہوتی ہیں۔ آخر وہ کانپنے لگتی ہیں۔

14

نرگسِ چشمِ خماری ہمچو جاں

آخر اعمش بیں و آب از وے چکاں

ترجمہ: مست آنکھ کی نرگس، جو جان کی طرح (پیاری ہوتی) ہے۔ آخر (اسکو) چندھیائی ہوئی دیکھ لو، اور اس سے پانی ٹپکتا ہوا۔

15

حیدرے کاندر صفِ شیراں رود

آخر او مغلوبِ موشے مے شود

ترجمہ: وہ بہادر جو شیروں کی صف میں بیباکانہ جاتا ہے۔ آخر بڈھا ہو کر ایک چوہے (کو دفع کرنے) سے عاجز آ جاتا ہے۔

مطلب: شیر جوانی میں بڑے بڑے شیرانِ خونخوار سے نہیں ڈرتا، مگر بڑھاپے میں جب ضعیف و نحیف ہو جاتا ہے تو پھر چوہے بھی اسکے سر پر قلابازیاں کھاتے ہیں، تو انکو منع نہیں کر سکتا۔ ”حیدر“ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا لقب بھی ہے۔ اس تقدیر پر یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ وہ شیرِ خدا کی تیغ خارا شگاف نے عمرو بن عبدِ ود، اور مرحب جیسے دلاورانِ عرب کو چشم زدن میں کاٹ گرایا۔ وہ ابن ملجم جیسے بزدل و نامراد کے ہاتھوں سے مجروح ہو گئے، جو صبح کی تاریکی میں گھات لگائے کھڑا تھا، اور اس لحاظ سے ابن ملجم چوہے سے مشابہ تھا، کیونکہ چوہا بھی روشنی سے بھاگتا ہے اور تاریکی میں اپنا کام کرتا ہے۔

16

طبعِ تیزِ دور بینِ محترِف

چوں خرِ پیرش ببیں آخر خرِف

ترجمہ: اہلِ حرفہ کی تیز و دور اندیش طبیعت کو۔ آخر بڈھے گدھے کی طرح مضمحل دیکھ لو۔

17

زلفِ جعدِ مشکبارِ عقل بر

آخر او چوں دُمِ زشتِ پیرہ خر

ترجمہ: خم دار و خوشبو دار زلف جو عقل کو چھین لیتی ہے۔ آخر وہ بڈھے گدھے کی بدنما دم سے مشابہ (ہو جاتی ہے۔)

18

خوش ببیں گونش ز اوّل با کشاد

آخر آں رسوائیش بین و فساد

ترجمہ: (غرض) دنیا کی تیاری کو شروع میں پُر لطف دیکھو گے۔ آخر میں اسکی رسوائی اور خرابی دیکھ لو۔

19

زانکہ او بنمود و پیدا دام را

پیشِ تو بر کند سُبلتِ خام را

ترجمہ: کیونکہ اس نے اعلانیہ اپنا (جاہ و مال کا) جال تم کو دکھا دیا۔ (اور) تمہارے سامنے (جاہ و مال کے) خام (طبع طالبوں) کی (ڈاڑھی) مونچھ نوچ ڈالی (تم نے دنیا کا حسن و جمال بھی دیکھ لیا، اور اسکے حسن و جمال پر فریفتہ ہونے والوں کا حشر بھی ملاحظہ کر لیا۔

20

پس مگو دنیا بتزویرم فریفت

ورنہ عقلِ من ز دانہ مے شگیفت

ترجمہ: پس (دنیا کے طالبوں کا حشر دیکھ چکنے کے بعد) یہ مت کہو کہ دنیا نے مجھے فریب کے ساتھ دھوکہ دیا۔ ورنہ میری عقل (اسکے جاہ و مال کے) دانہ کی طرف سے صبر کر لیتی (کیونکہ تم دنیا کے شیدائیوں کے انجام سے تجربہ حاصل کر چکے ہو، پھر دھوکہ کھانے کے کیا معنی؟)

21

طوقِ زرین و حمائل بیں ہلہ

غُلُّ و زنجیرے شدست و سلسلہ

ترجمہ: خبردار! سونے کا گردن بند، اور ہار دیکھ لو۔ (جو آخر) طوقِ آہنی اور زنجیر اور بیڑی بن گیا (دنیا کا مال و جاہ، آخر وبالِ جان بن جاتا ہے۔)

22

ہمچنیں ہر جزوِ عالم مے شمر

اوّل و آخر در آرش در نظر

ترجمہ: اسی طرح دنیا کی ہر چیز کو گنتے جاؤ۔ اور اسکے آغاز و انجام کو نظر میں لاؤ (تو معلوم ہوگا کہ دنیا کی ہر خوبی کا آخر باعث خرابی ہے۔)

23

ہر کہ آخر بیں تر او مسعود تر

ہر کہ آخر بیں تر او مطرود تر

ترجمہ: جو شخص انجام کو بخوبی دیکھنے والا ہے، وہ بڑا سعادت مند ہے۔ جس شخص کو چرنے چگنے کی جگہ کا خیال زیادہ رہتا ہے، وہ نہایت مردود ہے۔ (آخرت کا خیال رکھنے والا بندہ نیک، اور شکم پرور بد ہے، شکم پرور موجودہ فائدہ کو دیکھتا ہے، اسکے نتیجہ کی پرواہ نہیں کرتا۔)

24

روے ہر یک چوں مہِ فاخر ببیں

چونکہ اول دیدۂ آخر ببیں

ترجمہ: تم (بھی) پُر افتخار چاند کی طرح (جو ہر نیک و بد پر درخشاں ہے) ہر ایک کا چہرہ دیکھو۔ (اور عبرت پکڑو) جب تم نے آغاز دیکھا ہے، تو انجام بھی دیکھو۔ (لوگوں کے عروج و اقبال کو دیکھ کر دنیا پر فریفتہ نہ ہوجاؤ، بلکہ دنیا کی غداری کو دیکھ کر کچھ عبرت بھی حاصل کرو، کہ وہ کس قدر قابلِ نفرت ہے۔)

25

تا نباشی ہمچو ابلیس اعورے

نیم بیند نیم نے چوں ابترے

ترجمہ: تاکہ تم ابلیس کی طرح یک چشم نہ ہو جاؤ۔ جو ایک ناقص البصیرت کی طرح آدھا دیکھتا ہے، اور آدھا نہیں دیکھتا۔

26

دید طینِ آدم و دینش ندید

ایں جہاں دید آں جہاں بینش ندید

ترجمہ: (چنانچہ شیطان نے) حضرت آدم علیہ السّلام کی مٹی کو دیکھا، (جس سے انکا وجود بنا تھا) انکے دین کو نہ دیکھا۔ (اس کم بخت نے) اس عالم (دنیا) کو دیکھا (جس سے وہ مٹی تھی) انکو اس عالم (آخرت) پر نظر کرنے والے نہ دیکھا (یا انکے اس جہان کو دیکھنے والے یعنی قلب کو نہ دیکھا۔)

مطلب: شیطان نے حضرت آدم علیہ السّلام کو خاکی مخلوق دیکھ کر استحقارًا کہا: ﴿خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ﴾ (الاعراف: 12) یہ نہ دیکھا کہ دین و مذہب میں انکا رتبہ کس قدر بلند ہے، اور اس پر بھی غور نہ کیا کہ وہ آخرت کے معاملہ کا کس قدر اہتمام رکھنے والے ہیں، جو ایک خلیفۃ اللہ فی الارض کے شایانِ شان ہے، اور یہ بات انکی افضیلت و مسجودیت کے لیے کافی تھی۔ آگے دور اندیشی و عاقبت بینی کی فضیلت ایک دلیل سے ثابت کرتے ہیں:

27

فضلِ مرداں بر زناں اے بو شجاع

نیست بہرِ قوت و کسب و ضیاع

ترجمہ: اے بڑے بہادرو! (دیکھو) مردوں کی فضیلت عورتوں پر۔ (جسمانی) طاقت، اور کمائی اور جائداد کی وجہ سے نہیں ہے۔

28

ورنہ شیر و پیل را بر آدمی

فضل بودے بہرِ قوت اے عمٰی

ترجمہ: ورنہ اے کور چشم! شیر اور ہاتھی کو طاقت کی وجہ سے، آدمی پر برتری حاصل ہوتی۔

29

فضلِ مردان بر زن اے حالی پرست

زاں بود کہ مرد پایاں بیں تراست

ترجمہ: اے (موجودہ) حال کی لکیر کے فقیر! مردوں کی فضیلت عورت پر۔ اس لیے ہے کہ مرد زیادہ عاقبت اندیش ہے۔

انتباہ: یہاں شبہ ہو سکتا ہے کہ مخاطب کو پہلے ”ابو شجاع“ کا پُر عزت خطاب دیا۔ پھر اعمٰیاور ”حالی پرستکے مذموم لقبوں سے مخاطب کیا؟ یہ اختلافِ تخاطب بے لطف ہے۔ اسکا جواب یہ ہے کہ جس شخص کو مردوں کی فضیلت کی اصلی وجہ معلوم نہیں، وہ تنبیہی الفاظ کا ہی مستحق ہے۔ پس ”ابو شجاع“ کے لفظ سے اسکے حقیقی معنٰی نہیں، بلکہ طنزًا اسکی ضد یعنی بزدل و نامرد مقصود ہے۔ جیسے ہندی میں کسی کو بھلا مانس کہہ کر شریر و مفسد مراد لیتے ہیں۔

30

مرد کاندر عاقبت بینی خم ست

او ز اہلِ عاقبت چوں زن کم است

ترجمہ: جو مرد عاقبت اندیشی میں پست (و کجرو) ہے۔ وہ اہلِ عاقبت (اور نیکو کاریوں) سے عورتوں کی طرح کم رتبہ ہے۔ (آگے پھر دنیا کے عروج و زوال، اور اقبال و ادبار سے عبرت پذیر ہونے کی ہدایت فرماتے ہیں:)

31

از جہاں دو بانگ مے آید بضد

تا کدامی را تو باشی مستعد

ترجمہ: دنیا سے دو مختلف آوازیں آتی ہیں۔ (اب تم خود ہی سوچو) کہ تم کون سی (آواز کو سننے) کے لیے مستعد ہو۔

32

آں یکے بانگش نشورِ اَتْقِیَا

ویں دگر بانگش فریبِ اَشْقِیَا

ترجمہ: اسکی ایک آواز (جو اسکی غداری و ناپائیداری سے آگاہ کرتی ہے) پرہیزگاروں کو جگا دینے والی ہے۔ اور یہ اسکی دوسری آواز (جو اسکے جاہ و اقبال کی طرف بلاتی ہے۔) بدبختوں کو دھوکہ دینے والی ہے۔

33

بانگِ خار و بانگِ اشگوفہ شنو

بعد ازاں شو بانگِ خارش را گرو

ترجمہ: (دنیا کے زوال کے) کانٹے کی آواز اور اسکے اقبال کے غنچہ کی آواز سنو۔ اسکے بعد اسکے کانٹے کی آواز کے گرویدہ ہو جاؤ (یعنی دنیا کو ناپائیدار و فانی سمجھو۔)

34

من شگوفہ خارم اے فخرِ کبار

گل بریزد من بمانم شاخِ خار

ترجمہ: (چنانچہ دنیا کہتی ہے) اے بڑے لوگوں کے مایۂ فخر! میں غنچہ کا کانٹا ہوں (غنچہ کھل کر پھول بن جاتا ہے) اور پھول مرجھا کر جھڑجاتا ہے، تو میں کانٹوں بھری شاخ رہ جاتی ہوں (دنیا میں عروج و زوال دونوں موجود ہیں۔ عروج ختم ہو جاتا ہے، اور زوال کی تباہ کاریوں کے کھنڈر رہ جاتے ہیں۔)

اختلاف: بعض نسخوں میں پہلا مصرعہ یوں درج ہے۔ ”من شگوفہ خارم اے خوش گرم دار“ یعنی اے خوب سرگرم رہنے والے۔

35

بانگِ اشگوفش کہ اینک گل فروش

بانگِ خارِ او کہ سوئے ما مکوش

ترجمہ: اسکے غنچہ کی آواز (یہ ہے) کہ دیکھو پھول بیچنے والا (کس طرح اپنی دکان کو آراستہ کئے بیٹھا ہے۔ آؤ اور سیر کے مزے اڑاؤ۔) اسکے کانٹے کی آواز یہ ہے، کہ ہماری طرف آنے کی کوشش نہ کرو (ورنہ تکلیف اٹھاؤ گے۔)

36

ایں پذیرفتی بماندی زاں دگر

کہ محبّ از ضدِّ محبوب ست کر

ترجمہ: (اگر) تم نے یہ (آواز) قبول کر لی، تو اس دوسری (آواز) سے (بیگانہ) رہ گئے۔ کیونکہ (کسی سے) محبت کرنے والا اپنے محبوب کے خلاف باتوں کو سننے سے بہرا ہوتا ہے۔ (انکو سننا پسند نہیں کرتا۔)

37

آں یکے بانگ اینکہ اینک حاضرم

بانگِ دیگر بنگر اندر آخرم

ترجمہ: (دنیا کی) وہ آواز ایک یہ ہے کہ دیکھو میں اچھی شکل و شمائل کے ساتھ حاضر ہوں۔ (میرے وصل کو غنیمت سمجھو) دوسری آواز یہ ہے کہ میرے انجام کو دیکھو (کہ کس قدر حسرت ناک و اندوہ خیز ہے، اس لیے مجھ سے کنارہ کشی رکھو۔)

38

حاضری ام ہست ہمچو مکر و کیں

نقشِ آخر ز آئینہ اوّل ببیں

ترجمہ: میری (محبت نما) حاضری (بھی) مکر، اور دشمنی سے مشابہ ہے۔ آغاز کے آئینے میں انجام کے حروف پڑھ لو۔

39

چوں یکے زیں در جوال اندر شدی

آں دگر را ضد و نا در خور شدی

ترجمہ: جب ان دو متضاد آوازوں میں سے ایک کو تم نے اختیار کر لیا۔ تو تم دوسری آواز کے خلاف اور اسکے ناقابل بن گئے۔

40

اے خنک آں کوز اوّل آں شنید

کِش عقول و مسمع مرداں شنید

ترجمہ: مبارک ہے وہ جس نے ابتدا سے (دنیا کی وہ آواز) سن لی۔ (جس میں وہ اپنی غداری و ناپائیداری کا اظہار کرتی ہے، کیونکہ اس آواز کو) عام لوگوں کی عقلیں، اور خاص لوگوں کے کان سن چکے ہیں۔

مطلب: اگر دنیا کے جاہ و اقبال کے اندر ہی اسکے زوال کا نقشہ پیشِ نظر رہے، تو انسان مبتلائے غفلت نہ ہو۔ اس پر شبہ وارد ہوتا ہے کہ جو حالات ابھی ظہور پذیر نہیں ہوئے کیا وہ مشاہدے میں آ سکتے ہیں؟ دوسرے مصرعہ میں اس شبہ کا جواب ہے کہ بے شک عام لوگ واقعات سے قیاس کر سکتے ہیں، کہ دنیا کے اقبال کا نتیجہ زوال ہے، اور خاص لوگ اپنے نورِ باطن سے اس زوال کے نقشے کا مشاہدہ آنکھوں سے کرتے اور اسکی آواز کانوں سے سنتے ہیں۔ آگے ایک تمثیل میں یہ بات بیان فرماتے ہیں کہ جو آواز بھلی یا بری پہلی مرتبہ انسان کے کان میں پڑے، وہ اسی کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ پھر دوسری آواز کو جو اس کے خلاف ہو، کبھی قبول نہیں کرتا:

41

خانہ خالی یافت او را جا گرفت

غیرِ آتش کژ نماید یا شگفت

ترجمہ: اس (آواز) نے (دل کے) گھر کو خالی پایا، تو اس کو (اپنا) ٹھکانہ بنا لیا۔ اب اسکے سوا (کسی اور قسم کی آواز) دل کو ٹیڑھی (اور) ناپسند نظر آتی ہے۔ (آگے اسکی دلیل سنیے:)

42

کوزۂ نو کو بخود بَولے کشید

آں خبث را آب نتواند برد

ترجمہ: ایک کورا برتن جو پیشاب کو جذب کر لے۔ تو اسکی ناپاکی کو پانی دور نہیں کر سکتا۔

مطلب: ایک مرتبہ جو عادت پڑجائے، پھر وہ مرتے دم تک نہیں جاتی۔ یہ بیان فرماتے ہیں کہ ہر شخص دنیا میں ضرور کسی نہ کسی نیک یا بد مؤثر سے متاثر ہوتا ہے، اور وہ وہی تاثر اختیار کرتا ہے جسکی اس میں صلاحیت ہوتی ہے۔ اسکو مختلف مثالوں سے واضح کریں گے:

43

در جہاں ہر چیز چیزے را کشد

کفر کافر را و مرشد را رشد

ترجمہ: جہان میں ہر چیز دوسری چیز کو جذب کر رہی ہے۔ (چنانچہ) کفر کافر کو اور ہدایت اہلِ ہدایت کو (اپنی طرف کھینچتی ہے۔)

44

در جہاں ہر چیز چیزے جذب کرد

گرم گرمے را کشید و سرد سرد

ترجمہ: جہان میں ہر چیز نے دوسری چیز کو جذب کیا ہے۔ گرم نے گرم کو سرد نے سرد کو۔

45

کہربا ہم ہست و مقناطیس ہست

تا تو آہن یا کہی آئی بشست

ترجمہ: (اس جہان میں نیک و بد اعمال کا) کہربا بھی ہے، اور مقناطیس (بھی) ہے۔ تاکہ تم لوہا یا تنکا (بن کر اسکے) جال میں پڑ جاؤ (اور نیک یا بد بن جاؤ۔)

46

بُرد مقناطیس ار تو آہنی

ور کہی بر کہربا ہم مے تنی

ترجمہ: اگر تم لوہا ہو، تو مقناطیس نے تم کو جذب کر لیا۔ اور اگر تم تنکا ہو تو کہربا سے ٹکرا رہے ہو۔

47

آں یکے چوں نیست با اخیارِ یار

لاجرم شد پہلوے فجّار جار

ترجمہ: ایک آدمی جب نیک لوگوں کا ہم صحبت نہیں۔ تو ضرور بدکاروں کا پڑوسی بن جائے گا۔

48

واں یکے را صحبتِ خار اختیار

لاجرم شد پہلوے ہر خار خوار

ترجمہ: ایک کو کانٹے کی صحبت پسند ہے۔ اس لیے وہ ہر ذلیل کانٹے کے پہلو میں جاتا ہے۔ (آگے یہ ذکر ہے کہ ایک فریق کا ہم صحبت دوسرے رفیق سے متنفر ہوتا ہے:)

49

ہست موسٰیؑ پیشِ قبطی بس ذمیم

ہست ہامان پیشِ سبطی بس رجیم

ترجمہ: حضرت موسٰی علیہ السّلام فرعون (یا ہر قبطی) کی نظر میں قابلِ مذمت ہیں۔ (اور) ہامان حضرت موسٰی علیہ السّلام (یا ہر فرد بنی اسرائیل) کے نزدیک سخت مردود ہے۔

50

جانِ ہاماں جاذبِ قبطی شدہ

جانِ موسٰیؑ طالبِ سبطی شدہ

ترجمہ: ہامان کی روح قبطی کو (اپنی طرف) کھینچنے والی ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السّلام کی روح اسرائیلی کی طالب ہے۔

51

معدۂ خر کہ کشد در اجتذاب

معدۂ آدم جذوبِ گندم آب

ترجمہ: گدھے کا معدہ (غذا) سمیٹنے میں گھاس کو کھا لیتا ہے۔ آدمی کا معدہ گیہوں اور پانی کو کھینچنے والا ہے۔

52

گر تو نشناسی کسے را از ظلام

بنگر او را کوش سا زیدست امام

ترجمہ: اگر تم کسی اندھیرے میں پہچان نہ سکو۔ تو (اسکی شناخت کے لیے) اس شخص کو دیکھ لو جسکو اس نے (اپنا) پیشوا بنا رکھا ہے۔ (کیونکہ اسکے جو خصائل و عادات ہیں، وہ اس نے اپنے پیشوا سے حاصل کیے ہیں۔)

مطلب: مرید کے دین و اخلاق کا کھوج لگانے کے لیے اسکے پیر کے دین و اخلاق کو دیکھ لینا کافی ہے، جس سے اس نے تربیت پائی ہے۔ یہ بیت ایک بڑا قیمتی اصول پیش کر رہی ہے، یعنی جس شخص کے اخلاق و اطوار اور عادات و خصائل کا سراغ لگانا مقصود ہو، اسکے احباب و رفقا کی حالت پر قیاس کر لینا چاہیے، کیونکہ وہ انہی کا ہم مشرب ہے۔ ایک عربی کا مقولہ ہے: ”لَا تَسْاَلْ عَنِ الْمَرْءِ اِسْاَلْ عِنْ قَرِیْنِہٖ“ یعنی کسی آدمی کا اخلاقی حال معلوم کرنے کے لیے اسکے دوست کا حال معلوم کر لینا کافی ہے، اسی طرح کسی شیخِ طریقت کے با کمال یا بے کمال ہونے کے ثبوت کے لیے جن باتوں کا لحاظ ضروری ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسکے مریدوں کی دینی و دنیاوی حالت دیکھنی چاہیے۔ اگر وہ لوگ عبادات کے پابند، بدعات سے محترز، متواضع، متورع اور متوکل ہیں تو سمجھنا چاہیے کہ ان کا پیر باکمال ہے، اور اگر وہ عبادات سے غافل اور بدعات و منہیات کے مرتکب ہیں، تو ان کا پیر بھی ناقص ہے۔ اگرچہ محفلِ سماع میں وہ ہُوْ، حَقْ، کے نعروں سے لوگوں کے کان بہرے کر دیتے ہوں، اور اپنے وجد و حال سے مرغِ نسیم بسمل کا تماشہ دکھاتے ہوں۔ آگے اسکی دلیل ارشاد ہے:

53

زانکہ ہر کرّہ پے مادر رود

تا بداں جنسیتش پیدا شود

ترجمہ: کیونکہ ہر جانور کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے جاتا ہے۔ حتّٰی کہ اس سے اسکی جنسیت ظاہر ہو جاتی ہے (کہ وہ اونٹ کی جنس سے ہے، یا گھوڑے کی جنس سے۔)

انتباہ: یہاں تک مقصودِ تقریر یہ تھا کہ ہر شخص کا لگاؤ اسی شخص کے ساتھ ہوتا ہے، جو اس کا ہم جنس اور ہم مشرب ہو۔ آگے اسکی تائید میں دو حدیثیں پیش فرماتے ہیں جن سے مقصود یہ ہے کہ ہر شخص کو غذا اس قسم کی دی جاتی ہے جسکا وہ اہل ہوتا ہے: