دفتر چہارم: حکایت: 64
حکایتِ آں فقیہ کہ با دستارِ بزرگ بود، و آن کس که دستارش بربود، و بانگ کردنِ او کہ بازش کن و ببیں کہ چہ مے بری آنگہ ببر
ان ملا صاحب کی کہانی جو بڑی دستار والے تھے، اور اس شخص کی جو ان کی دستار اڑا لے گیا، اور ملا صاحب کا چلانا کہ ارے اس کو کھول کر تو دیکھ لے کہ تو کیا لے جا رہا ہے، پھر لے جائیو
1
یک فقیہے ژندہا برچیدہ بود
در عمامہ خویش در پیچیدہ بود
ترجمہ: ایک ملا نے بہت سے چیتھڑے اکٹھے کئے تھے۔ اور انکو اپنی پگڑی میں بھر لیا تھا۔
2
تا شود زفت و نماید آں عظیم
چوں درآید سوئے محفل در حطیم
ترجمہ: تاکہ وہ گنبد نما ہو جائے اور بہت بڑی دکھائی دے۔ جب کہ وہ حطیم میں (حاجیوں کی) مجلس کی طرف تشریف لائے۔
3
ژندہا از جامہا پیراستہ
ظاہر او ستار ازاں آراستہ
ترجمہ: اس نے (مختلف قسم کے) کپڑوں کی دھجیاں جوڑ رکھی تھیں۔ اور ان سے بظاہر پگڑی کو سجایا تھا۔
4
ظاہر دستار چوں حلۂ بہشت
چوں منافق اندراں رسوا و زشت
ترجمہ: (چنانچہ) پگڑی اوپر سے بہشتی پوشاک کی طرح (مزیّن تھی۔ اور) اندر سے وہ منافق (کے دل) کی طرح خوار و بدنما تھی۔
5
پارہ پارہ دلق و پنبہ و پوستین
در درونِ آں عمامہ بد دفین
ترجمہ: گدڑی، روئی اور پوستین کے ٹکڑے۔ اس پگڑی کے اندر ٹھونسے ہوئے تھے۔
6
روئے سوے مدرسہ کردہ صبوح
تا بدیں ناموسِ او یابد فتوح
ترجمہ: علی الصباح اس نے مدرسے کا رخ کیا۔ تاکہ اس آن بان کے صدقے میں وہ (کچھ) نذر (نیاز) حاصل کرے۔
مطلب: مدرسہ سے آج کل کی قسم کے سکول مراد نہیں ہیں، کیونکہ ایسے مدرسہ میں تو ان ملا صاحب کو نذر و نیاز ملنے کے بجائے الٹا ان کی گت بنتی ہے، بلکہ اس زمانے کے علمی مدارس فقہاء و محدثین کی مجالس عام کی حیثیت رکھتے تھے۔ جہاں ہر طبقہ کے علماء جمع ہوتے، علمی لیکچر دیے جاتے۔ طلبا کی جماعت انکو نوٹ کرتی۔ عام شائقین بھی فیضِ استماع حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوتے، جن میں علم دوست و متموّل اصحاب علماء کی خاطر تواضع کرتے۔ یہ ملا صاحب اسی موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے وہاں گئے ہوں گے۔ غرض ملا جی چلے جا رہے تھے۔
7
در رہِ تاریک مردے جامہ کَن
منتظر استادہ بود از بہرِ فن
ترجمہ: ایک اندھیری گلی میں کوئی کپڑے اتار لینے والا آدمی۔ فریب دہی کے انتظار میں کھڑا تھا۔
8
در ربود او از سرش دستار را
پس دواں شد تا بسازد کار را
ترجمہ: اس نے ملا کے سر پر سے پگڑی اڑا لی۔ پھر بھاگ چلا تاکہ (اپنا) مقصد پورا کرے۔
9
پس فقیہش بانگ بر زد کاے پسر
باز کن دستار را آنگہ ببر
ترجمہ: تو ملا نے اسکو آواز دی کہ بچہ! (ذرا) پگڑی کو کھول (تو سہی) پھر لے جانا۔
10
اینچنیں کہ چار پرّہ مے پری
باز کن آں ہدیہ را کہ مے بری
ترجمہ: تو جو اس طرح چار پروں کے ساتھ اڑا چلا جا رہا ہے۔ پہلے اس تحفہ کو کھول (کر دیکھ لے) جس کو تو لیے جاتا ہے۔ (چار پروں سے اڑنا، کنایہ ہے سرعتِ رفتار سے۔)
11
باز کن آں را بدستِ خود بمال
آنگہاں خواہی ببر کردم حلال
ترجمہ: (پہلے) اسکو کھول (کر دیکھ اور) اپنے ہاتھ سے مل۔ (تاکہ تجھے معلوم ہو کہ اس میں کیا کچھ بلا بتر بھرا ہے) پھر چاہے تو لے جا، میں نے تجھ کو معاف کی۔
12
چونکہ بازش کرد آنکہ مے گریخت
صد ہزارش ژندہ اندر رہ بریخت
ترجمہ: جب اس بھاگنے والے نے اس کو کھولا۔ تو اس کے (اندر سے) لاکھوں چیتھڑے راستے میں بکھر گئے۔
13
زاں عمامہ زفت نا بایستِ او
ماند یک گز کہنہ در دستِ او
ترجمہ: اس (ملا) کے اس بھاری (اور) بیہودہ پگڑی سے۔ ایک گز بھر پرانا (کپڑا) اسکے ہاتھ میں رہ گیا۔
14
بر زمیں زد کہنہ را کاے بے عیار
زیں دغل ما را بر آوردی ز کار
ترجمہ: (چور نے) پرانے کپڑے کو زمین پر دے مارا، کہ اے نالائق (ملا!) اس فریب کے ساتھ تو نے ہم کو اپنے کام سے (بھی) رکھا (ورنہ ہم کسی اور رہرو کی اچھی پگڑی اڑاتے۔)
15
ایں چہ تزویرست و مکرست و چہ شید
کہ فگندی مر مرا در قیدِ صید
ترجمہ: یہ کیا فریب ہے، اور مکر ہے اور کیا دغا ہے؟ گویا تو نے (الٹا) مجھے جال میں ڈال لیا اور شکار کر لیا۔
16
شرم ناید مر ترا زیں ژندہا
از دغل بفگندیم اندر دغا
ترجمہ: تجھے ان چیتھڑوں کو (جمع کرنے) سے شرم نہ آئی۔ (اس) فریب سے تو نے مجھے (بھی) دھوکے میں ڈالا، اے دغا باز! (ملا نے فریب تو کیا تھا عام لوگوں سے، کہ وہ اسے علامۂ دہر سمجھ کر نذرانے دیں، مگر اس سے دھوکے میں آ گیا چور۔)
17
گفت بنمودم دغل لیکن ترا
از نصیحت باز گفتم ماجرا
ترجمہ: (ملا نے کہا بے شک) میں نے فریب کیا ہے، لیکن تجھ کو از راہِ نصیحت حقیقت سنا دی۔
مطلب: یعنی یہ فریب ہے تو دوسرے لوگوں کے لیے، تیرے لیے یہ ایک درسِ عبرت ہے۔ اگر تو اپنی کور باطنی سے خود عبرت پذیر نہیں ہوسکتا تو میں نے صریحًا تجھ کو توجہ دلا دی، کہ جس چیز کو تو مایۂ نفع سمجھتا رہا ہے، وہ تیرے لیے سراپائے نقصان ہے۔ یہ چور تو ایک چیز خلافِ مقصود کو اڑا لے جانے کی کوشش میں نقصان اٹھانے والا ہے۔ جو شخص کسی ایسی چیز کو ناجائز طور سے اڑا لینے پر کامیاب ہو جائے جو اس کی مطلوب و مراد ہو، وہ بھی دراصل ناکام ہے۔
خائن خوش ہے کہ مل گیا مالِ خطیر
کیا جانے ہوا جو اس کو نقصانِ کثیر
کھو بیٹھا ہے کیسی نعمتیں بیش بہا
عزت، برکت، امان و ایمان، ضمیر