دفتر 4 حکایت 63: اس غلام کا روزینے کی کمی کی شکایت کا قصہ بادشاہ کی طرف لکھنا

دفتر چہارم: حکایت: 63

نبشتنِ آں غلام قصہ شکایتِ نقصانِ اجرے سوئے بادشاہ

اس غلام کا روزینے کی کمی کی شکایت کا قصہ بادشاہ کی طرف لکھنا

1

رقعۂ پر جنگ و پر ہستی و کیں

مے فرستد پیشِ شاہِ نازنیں

ترجمہ: وہ ایک رقعہ لڑائی، تکبر اور بغض سے بھرا ہوا۔ نازک مزاج بادشاہ کی طرف بھیجتا ہے۔

مطلب: شعر میں غلام کی کمالِ حماقت و سفاہت کی طرف اشارہ ہے، کہ ادھر تو بادشاہوں کی نازک مزاجی کا یہ حال کہ ان سے ”گاہے بسلامے برنجند“ کا احتمال، اور ادھر غلام کی یہ کارستانی کہ بادشاہ کی طرف طنز و تشنیع کا طومار لکھ بھیجا۔ مولانا نے ابھی یہ قصہ دوبارہ چھیڑا ہی تھا کہ فورًا ان کا ذہن ایک درسِ عبرت کی طرف منتقل ہوتا ہے، دیکھئے وہ کس قدر گراں پایہ درس فرماتے ہیں:

2

کا لبد نامہ ست اندر وے نگر

ہست لائق شاہ را آنگہ ببر

ترجمہ: جسم (عنصری گویا) عریضہ ہے، (جسکو تم بادشاہِ حقیقی کے سامنے پیش کر رہے ہو۔) پہلے اس کے اندر نظر ڈال لو (اور فیصلہ کر لو، کہ آیا وہ) بادشاہ کے لائق ہے، پھر اسکو (پیشی) میں لے جاؤ۔

3

گوشۂ رو نامہ را بکشا بخواں

بیں کہ حرفش ہست در خوردِ شہاں

ترجمہ: ایک گوشہ میں جاؤ (اپنے جسمانی) مکتوب کو کھولو، اور پڑھو۔ دیکھو کہ اسکے (اخلاقی) حروف بادشاہ کے لائق ہیں یا نہیں۔

4

گر نباشد در خورِ او را پارہ کن

نامۂ دیگر نویس و چارہ کن

ترجمہ: اگر لائق نہ ہو تو اس کو (ریاضت و مجاہدہ سے) پارہ پارہ کر ڈالو۔ اور (اچھے اخلاقی حروف کا) دوسرا مکتوب لکھو، اور بادشاہ کے حضور میں جانے کی تدبیر کرو (یعنی ریاضات سے اپنے اعمال و اخلاق کی اصلاح کرو۔)

5

لیک فتح نامۂ تن زِب مداں

ورنہ ہر کس سِرِّ دل دیدے عیاں

ترجمہ: لیکن مکتوبِ قالب کا کھولنا آسان نہ سمجھو۔ ورنہ ہر شخص دل کا راز اعلانیہ دیکھ سکتا ہے (اپنے اخلاق کا مطالعہ سخت مشکل ہے۔ آنکھ سارے جہان کو دیکھتی ہے، خود اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتی۔)

6

نامہ بکشادن چو دشوار ست و صعب

کارِ مردان ست نے طفلانِ لعب

ترجمہ: (اس) خط کو کھولنا، چونکہ مشکل اور دشوار ہے۔ اس لیے یہ مردانِ (خدا) کا کام ہے، نہ کہ کھلنڈرے بچوں کا۔

7

جملہ بر فہرست قانع گشتہ ایم

زانکہ در حرص و ہوا آغشتہ ایم

ترجمہ: ہم سب نے (اعمالِ ظاہر کی) فہرست پر قناعت کر رکھی ہے۔ (جس سے اپنے زہد و تقوٰی کی شہرت مقصود ہے) کیونکہ ہم شہرت کی حرص و خواہش میں آلودہ ہیں (اور اخلاق کے فوائد سے نا بلد ہیں۔)

8

باشد آں فہرست دامے عامہ را

تا چناں دانند متنِ نامہ را

ترجمہ: وہ (ہمارے اعمالِ ظاہر کی) فہرست عام لوگوں کے لیے (گویا) جال ہے۔ حتّٰی کہ (اس جال سے دھوکہ کھا کر) وہ سمجھتے ہیں کہ (ہمارے نامۂ باطن کا) مضمون بھی اس قسم کا ہے (یعنی ہماری لمبی ڈاڑھی، اور محراب دار پیشانی کے مطابق ہمارا باطن بھی اخلاقِ فاضلہ سے مزّین ہو گا۔)

9

باز کن سر نامہ را گردن متاب

زیں سخن وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب

ترجمہ: (اس) خط کے عنوان کو کھولو (اور دیکھو اسکے اندر کیا مضمون مندرج ہے۔) اس بات سے گردن نہ موڑو، اور اللہ تعالٰی بہتر جانتا ہے (کہ تمہارا گردن موڑنا کس قدر بیہودہ کام ہے۔)

10

ہست آں عنوان چو اقرارِ زباں

متنِ نامہ سینہ را کن امتحاں

ترجمہ: مثلًا وہ عنوان (کلمۂ توحید کے ساتھ) اقرار باللّسان ہے۔ تو تم سینے کی چٹھی (یعنی قلب) کے مضمون کی بھی پڑتال کر لو۔

11

کہ موافق ہست با اقرارِ تو

تا منافق وار نبود کارِ تو

ترجمہ: کہ آیا (تصدیق بالقلب بھی) تمہارے اقرار (باللّسان) کے موافق ہے؟ تاکہ مبادا تہمارا کام منافقانہ نہ ہو۔

مطلب: زبان سے اور دل سے انکار کافر کا کام ہے۔ زبان سے اقرار اور دل سے انکار کرنا منافق کا شیوہ ہے۔ صحیح ایمان کے لیے اقرار باللّسان اور تصدیق بالقلب دونوں ضروری ہیں، اور یہ دونوں رکنِ ایمان کہلاتے ہیں۔ خوب یاد رہے بعض اچھے اچھے پڑھے لکھے ایسی باتوں سے بے خبر رہ جاتے ہیں۔ یہ ایک مثال تھی۔ اسکے سوا نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ تمام احکام و اعمال کا یہی حال ہے کہ ہر عمل کا ایک ظاہری پہلو ہوتا ہے اور ایک باطنی۔ اگر اسکے ظاہری پہلو کے ساتھ باطنی پہلو شامل نہیں جو اسکا مغز اور اسکی اصلی حقیقت ہے تو وہ عمل بیکار ہے، اور ایک منافقانہ فعل ہے۔ ایسے عمل اور فعل کو خط سے تشبیہ دی ہے، جو بادشاہ کے حضور میں پیش ہونے کے قابل نہیں، اسی طرح وہ بے مغز عمل بھی خدا کی بارگاہ میں عزِ قبول پانے کے لائق نہیں۔ چنانچہ احادیث میں اس قسم کا مضمون وارد ہوا ہے، کہ جو نماز آداب و شرائط سے خالی ہو، وہ لوٹا کر نماز پڑھنے والے کے منہ پر مار دی جاتی ہے۔ آگے اس قسم کے اعمالِ بے روح اور طاعاتِ بے مغز کے متعلق مطلقًا فرماتے ہیں:

12

چوں جوالِ بس گرانے مے بری

زاں نباید کم کہ در وے بنگری

ترجمہ: جب تم (بادشاہ کی خدمت میں) تحائف کا بڑا بھاری تھیلا (بھر کر) لے جا رہے ہو۔ تو کم از کم اس میں نظر تو کر لو (کہ یہ اشیاء بادشاہ کے لائق بھی ہیں یا نہیں۔)

13

تا چہ داری در جوال از تلخ و خوش

گر ہمے ارزد کشیدن را بکش

ترجمہ: تاکہ جو کچھ کڑوی اور میٹھی چیزیں تم تھیلے کے اندر رکھتے ہو۔ اگر وہ لے جانے کے قابل ہیں تو لے جاؤ۔

14

ورنہ خالی کن جوالت را ز سنگ

باز خود را ازیں پیکار و ننگ

ترجمہ: ورنہ اپنے تھیلے کو (مفت کے) بوجھ سے خالی کردو۔ (اور) اس جھگڑے اور عار سے اپنے آپ کو نجات دلاؤ۔

15

در جوال آں کن کہ مے باید کشید

سوئے سلطانان و شاہانِ رشید

ترجمہ: تھیلے میں ایسی چیزیں ڈالو، جو مدبر سلاطین و ملوک کے حضور میں لے جانی چاہئیں۔

16

زشت نبود کایں جوال مردہ ریگ

میکشی و باشد آں هم پر ز ریگ

ترجمہ: کیا یہ بری بات نہیں کہ تم اس ناچیز تھیلے کو اٹھا کر لے جاؤ، اور وہ بھی ریت سے بھرا ہوا۔

17

چوں نمی تانی کہ پر لعلش کنی

ہم تہی بہتر کہ ہم جنس تہی

ترجمہ: جب تم اس (وجود کے تھیلے) کو (فضائل کے) جواہرات سے پر نہیں کر سکتے۔ تو (رذائلِ اخلاق کے مٹی ریت پتھر وغیرہ) جسمانی ہم جنس (چیزوں) سے بھرنے کے بجائے خالی ہی اچھا ہے۔