دفتر چہارم: حکایت: 62
چالش عقل با نفس ہمچوں تنازع مجنوں با ناقہ، و میلِ مجنوں سوئے حرہ و میلِ ناقہ سوئے کُرّہ، چنانچہ خود گفتہ ”ھَوٰی نَاقَتِیْ خَلْفِیْ وَ قُدَّامِیَ الْھَوٰی وَ اِنِّیْ وَ اِیَّاھَا لَمُخْتَلِفَانِ“
عقل کا مقابلہ نفس کے ساتھ، جیسے مجنوں کا جھگڑا ناقہ کے ساتھ (تھا، چنانچہ) مجنون کا میلان معزز عورت (یعنی لیلٰی) کی طرف اور ناقہ کا میلان بچے کی طرف تھا، چنانچہ خود اس نے کہا ہے، میرے ناقہ کا میلان میری پچھلی طرف ہے اور میرا میلان میرے آگے (منزل مقصود کی طرف) ہے، ہم دونوں باہم مختلف ہیں
1
روز و شب در جنگ اندر کشمکش
کردہ چالش اوّلش با آخرش
ترجمہ: (ان نیم حیوان و نیم انسان لوگوں کا حال یہ ہے کہ) انکی پہلی (طاقتِ خیر) دوسری (طاقتِ شر) کے ساتھ دن رات جنگ، اور کھینچا تانی میں مقابلہ کر رہی ہے۔
2
ہمچو مجنوں در تنازع با شتر
گہ شتر چربید و گہ مجنونِ حر
ترجمہ: جسطرح مجنوں (اپنی سواری کی) اونٹنی کے ساتھ لڑنے میں (مصروف) تھا۔ کبھی اونٹنی غالب آ گئی، اور کبھی آزاد مرد مجنوں غالب آ گیا۔
3
ہمچو مجنوں اند و چوں ناقہ اش یقین
مے کشد آں پیش و آں واپس بکیں
ترجمہ: ان لوگوں کی مثال یقینًا مجنوں اور اسکے ناقہ کی سی ہے۔ وہ آگے کھینچتا ہے، اور یہ ضد کے ساتھ پیچھے کو ہٹتی ہے۔
4
میلِ مجنوں پیشِ آں لیلٰی رواں
میلِ ناقہ پس پئے طفلش دواں
ترجمہ: مجنوں کی خواہش لیلٰی کی طرف جا رہی ہے۔ تو ناقہ کی خواہش اسکے بچے کی طرف دوڑتی ہے۔
5
یکدم ار مجنوں ز خود غافل شدے
ناقہ گردیدے و واپس آمدے
ترجمہ: اگر مجنوں ایک لمحہ غافل ہوجاتا۔ (اور) اونٹنی کی مہار نہ کھینچتا تو وہ (الٹے پاؤں) پھر جاتی اور واپس آ جاتی۔
مطلب: منہج القوٰی میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ مجنوں نے سنا کہ لیلٰی اس سے ملنے کے لیے آ رہی ہے، تو مجنوں ناقہ پر سوار ہو کر اسکے استقبال کے لیے نکلا مگر ناقہ کے بچے کو گھر چھوڑتا گیا، اس وجہ سے یہ جھگڑا پیش آیا۔ آگے مجنوں کی بے خودی و غفلت کی وجہ بیان فرماتے ہیں:
6
آنکہ او باشد مراقب عقل بود
عقل را سودائے لیلٰی در ربُود
ترجمہ: (اور مجنوں ناقہ اور اسکی مہار سے غافل کیوں نہ ہوتا کہ) جو چیز (آس پاس کی) نگران ہے، وہ عقل تھی۔ (اور مجنوں کی) عقل کو لیلٰی کا عشق اڑا لے گیا۔
7
لیک ناقہ بس مراقب بود و چست
چوں بدیدے او مہارِ خویش سست
ترجمہ: لیکن اونٹنی بڑی چوکس اور چالاک تھی۔ جب وہ اپنی مہار کو سست دیکھتی۔
8
فہم کردے زو کہ غافل گشت و دنگ
رو سپش کردے بکرّہ بے درنگ
ترجمہ: تو مجنوں کی طرف سے سمجھ جاتی کہ وہ غافل و مدہوش ہو گیا (پھر) بلا توقف (اپنے) بچے کی طرف رخ موڑ لیتی (اسی طرح نفس جب عقل کو غافل پاتا ہے، تو فورًا کوئی شرارت کرنے لگتا ہے۔)
9
چوں بخود باز آمدے دیدے ز جا
کو سپش رفتہ ست بس فرسنگہا
ترجمہ: جب مجنوں ہوش میں آتا تو دیکھتا کہ وہ اونٹنی منزل سے کوسوں پیچھے ہٹ آئی۔ (اسی طرح جب عقل بحال ہوتی ہے، تو دیکھتی ہے کہ نفس نے کس قدر تباہی مچا دی۔)
10
در سہ روزہ رہ بدیں احوالہا
ماند مجنوں در تردد سالہا
ترجمہ: تین دن کے راستے میں یہ حالات (پیش آتے) رہے (حتّٰی کہ غریب) مجنوں برسوں (اسی آمدورفت کے چکر میں پڑا رہا۔)
11
گفت اے ناقہ چو هر دو عاشقیم
ما دو ضد بس ہمرہ نالائقیم
ترجمہ: (آخر مجنوں) بولا اے ناقہ! چونکہ ہم دونوں (اپنے اپنے معشوق کے) عاشق ہیں۔ (چنانچہ میں لیلٰی کا اور تو اپنے بچے کی عاشق ہے۔ پس) ہم دونوں (جو ایک دوسرے کی ضد ہیں) نہایت بے جوڑ رفیق ہیں۔
12
نیستت بر وفقِ من مہر و مہار
کرد باید از تو عزلت اختیار
ترجمہ: تیری محبت اور زمام (رفتار) میرے موافق نہیں ہے۔ (اس لیے) تجھ سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے۔ (اس سے مولانا یہ سبق دیتے ہیں:)
13
ایں دو ہمرہ یک دگر را راہزن
گمرہ آں جاں کو فرو ناید ز تن
ترجمہ: (اسی طرح) یہ (جسم، اور جان جو) دونوں (ہمراہ) ہیں، ایک دوسرے کے راہزن ہیں۔ وہ جان گمراہ ہے، جو جسم سے الگ نہ ہو۔
مطلب: جو جان مقتضیاتِ جسم اور لذائذِ نفس سے دست بردار نہیں ہوتی، وہ گمراہ ہے اور منزلِ مقصود سے دور رہ جاتی ہے۔
14
جاں ز عشق عرش اندر فاقۂ
تن ز عشقِ خار بُن چوں ناقۂ
ترجمہ: روح عرش (کمالات کی طرف پرواز کرنے) کے عشق میں بھوکی ہے۔ جسم (لذائذِ جسمانیہ) کی کانٹوں سے بھری جھاڑی کے شوق میں گویا اونٹنی ہے۔ (اونٹ خاردار جھاڑیاں بڑے شوق سے کھاتا ہے۔)
15
جاں کشاید سوئے بالا بالہا
در زدہ تن بر زمین چنگالہا
ترجمہ: روح عالم بالا کی طرف (پرواز کرنے کے لیے) پر کھولتی ہے۔ جسم زمین میں پنجے گاڑ رہا ہے۔
کَمَا قَالَ فِیْ مَوْضِعٍ آخَرَ؎
روح مے پرد سوے عرشِ بریں
سوئے آب و گل شدی در اسفلین
(آگے پھر مجنوں کا قول اور اسکا قصہ چلتا ہے:)
16
تا تو با من باشی اے مردہ وطن
بس ز لیلٰی دور ماندہ جانِ من
ترجمہ: اے وطن پر مرنے والے (ناقہ) جب تک تو میرے ساتھ ہے۔ میری روح لیلٰی سے بہت دور رہ گئی۔
مطلب: اونٹنی کا بچہ پیچھے گھر میں رہ گیا تھا، اس لیے اونٹنی گھر کی مشتاق تھی۔ اس لحاظ سے اسکو مردہ وطن یعنی وطن پر قربان ہونے والی کہا ہے۔ اسی طرح انسان کا ناقۂ جسم عالمِ ناسوت کا دلدادہ و مشتاق رہ کر اپنے ساتھ روح کو بھی محبوبِ حقیقی کی طرف متوجہ ہونے سے غافل رکھتا ہے۔
17
روزگارم رفت زیں گوں حالہا
ہمچو تیہ و قومِ موسٰیؑ سالہا
ترجمہ: اس قسم کے (ہجر و فراق کے) احوال میں میری عمر گزر گئی۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی قوم اور (بیابان) تیہ (کا معاملہ) برسوں (رہا۔ تیہ بنی اسرائیل کا حال پیچھے مفصل گزر چکا ہے۔)
18
خطوتینے بود ایں رہ تا وصال
ماندہ ام در رہ ز سستی چند سال
ترجمہ: یہ راستہ (مقامِ) وصل تک صرف دو قدم تھا۔ جس میں سستی سے میں کئی سال (چلتا رہا۔)
19
راہ نزدیک و بماندم سخت دیر
سیر گشتم زیں سواری سیر سیر
ترجمہ: راستہ نزدیک تھا، اور مجھے سخت دیر ہوگئی۔ میں اس سواری سے سیر ہو گیا، سیر ہو گیا، سیر ہو گیا۔
20
سرنگوں خود را ز اشتر در فگند
گفت سوزیدم ز غم تا چند چند
ترجمہ: (پھر مجنوں نے) اپنے آپکو اونٹنی پر سے سر کے بل گرا لیا۔ (اور) کہا کب سے میں (اس) غم سے جل رہا ہوں۔
21
تنگ شد بر وے بیابانِ فراخ
خویشتن افگند اندر سنگلاخ
ترجمہ: اس پر فراخ جنگل تنگ ہو گیا۔ (آخر) اس نے اپنے آپ کو پتھریلی زمین میں گرا لیا۔
22
آنچناں افگند خود را سخت زیر
کہ مخلخل گشت جسمِ آں دلیر
ترجمہ: اس نے اپنے آپ کو اس سختی سے نیچے گرایا۔ کہ اس دلیر کے جسم کا بند بند ڈھیلا پڑ گیا۔
23
چوں چناں افگند خود را زیر پست
از قضا آں لحظہ پایش ہم شکست
ترجمہ: جب اس نے اس طرح اپنے آپ کو نیچے پستی میں گرایا۔ تو تقدیر سے اس وقت اس کا پاؤں بھی ٹوٹ گیا۔
24
پائے را بربست و گفتا گو شوم
در خمِ چوگانش غلطاں میروم
ترجمہ: (تو) اس نے پاؤں باندھ لیا اور بولا میں گیند بن جاتا ہوں۔ اس کے (عشق کے) بلّے کے خم میں ہوا چلوں گا۔
مطلب: گیند کی رفتار پاؤں سے نہیں ہوتی، بلکہ وہ بلے کی چوٹ سے لڑھکتی ہوئی چلتی ہے۔ گویا وہ اپنی مرضی و ارادہ سے دست بردار ہو کر اپنے آپ کو بلّے کے ارادہ و فعل کے تابع کر دیتی ہے۔ اسی طرح مجنوں نے اپنے پاؤں کو جکڑ کر باندھ کر گیند بن جانا، اور لیلٰی کے عشق کے تابع ہو کر چلنا منظور کر لیا۔ چونکہ مجنوں نے ایسی سواری پر چڑھنے کے بجائے سنگلاخ میں سرنگوں گر پڑنا قابلِ ترجیح سمجھا، جو سوار کے مقصود و مراد کے خلاف چلتی ہو، اس بنا پر مولانا بطور ارشاد فرماتے ہیں:
25
زیں کند نفریں حکیمِ خوش دہن
بر سوارے کو فرو ناید ز تن
ترجمہ: اسی لیے (ایسے) اچھے منہ والا حکیم (سنائی رحمۃ اللہ علیہ جس سے حکمت کے پھول جھڑے ہیں) ایسے سوار پر لعنت بھیجتا ہے، جو بدن (کی سواری) سے نہ اترے۔
مطلب: روح گویا سوار ہے، اور بدن سواری۔ یہ سوار یعنی روح متوجہ بفوق ہے، اور سواری یعنی بدن راغب بہ اسفل، بالکل وہی مجنوں اور اسکی اونٹنی کی سی کیفیت ہے، مگر مجنوں نے ایسی سواری سے کود کر پا شکستہ ہو جانا منظور کر لیا۔ پس افسوس ہے اس انسان پر جو ناجائز مقتضیاتِ جسم سے بچنے کے لیے بدن سے دست بردار نہ ہو۔
26
عشقِ مولٰی کے کم از لیلٰی بود
گوے گشتن بہرِ او اولٰی بود
ترجمہ: (مجنوں لیلٰی کے عشق میں گیند بن گیا تو) کیا مولٰی کا عشق لیلٰی (کے عشق) سے کم ہے؟ اسکے لیے (بدی کی سواری سے دست بردار ہونا اور) گیند بن جانا تو زیادہ اچھا ہے۔
27
گوے شو میگرد بر پہلوے صدق
غلط غلطاں در خمِ چوگانِ عشق
ترجمہ: گیند بن جاؤ (اور) عشق کے بلّے کے خم میں لڑھکتے لڑھکتے سچائی کے پہلو پر لوٹتے ہوئے چلے جاؤ۔
28
کایں سفر زیں پس بود جذبِ خدا
واں سفر بر ناقہ باشد سیرِ ما
ترجمہ: کیونکہ یہ سفر اسکے بعد خدا کی (طرف سے) کشش ہوگا۔ اور وہ اونٹنی پر (چڑھ کر) سفر (کرنا) ہمارا سفر ہوگا۔
مطلب: ”واں سفر“ سے اس سفر کی طرف اشارہ ہے جو ”گوئے مے شو الخ“ کی عبارت میں مذکور ہوا ہے، اور وہ عشق کا مقام ہے جو قبل از وصول ہے اور اسی کو ناقۂ بدن کی سواری کا سفر کہا ہے۔ اسکے بعد یہی سفر جذبہ و حیرت کی صورت اختیار کر لیتا ہے، جسکا مرتبہ وصول کے بعد ہے۔ آگے اس شعرِ ثانی کی اہمیت و عظمت کی طرف اشارہ فرماتے ہیں:
29
اینچنیں سیرے ست مستثنٰی ز جنس
کایں فزود از اجتہادِ جنّ و انس
ترجمہ: اس قسم کا (جذب و حیرت کا) سفر جنس (سفر) سے مستثنٰی ہے۔ (اسے اس معتاد و متعارف سفر کی طرح کا نہ سمجھو) کیونکہ وہ جن و انس کی کوشش سے بالاتر ہے۔ (بخلاف اسکے معمولی سفر جن و انس جب چاہیں کر سکتے ہیں۔)
30
اینچنیں جذبے ست نے بر جذبِ عام
کہ نہادش فضلِ احمدؐ والسّلام
ترجمہ: اس قسم کا جذبِ عام (مدعیانِ فقر و درویشی کا) جذب نہیں ہے۔ (بلکہ یہ وہ جذب ہے) جسکو جناب احمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم کے فضل (و احسان) نے قائم کیا ہے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کے جانشینوں کو عطا ہو۔) والسّلام (وَ اَتَمَّ الْکَلَامْ)
31
قصہ کوتاہ کن برائے آں غلام
کہ سوئے شہ بر بنشستہ است او پیام
ترجمہ: اس غلام (کی سرگزشت بیان کرنے) کے لیے (اس تقریر) کو مختصر کرو۔ جس نے بادشاہ کو پیغام لکھ بھیجا۔