دفتر چہارم: حکایت: 61
تفسیر ﴿وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ فَزَادَتۡہُمۡ رِجۡسًا اِلٰی رِجۡسِہِمۡ وَ مَا تُوۡا وَ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ﴾ (التوبة: 125)
اس آیت کی تفسیر ”رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے تو اس سورت نے ان کی گندگی میں کچھ اور گندگی کا اضافہ کردیا ہے، اور ان کو موت بھی کفر ہی کی حالت میں آتی ہے۔“
1
زانکہ استعداد تبدیل و نبرد
بودش از پستی و آں را فوت کرد
ترجمہ: کیونکہ اس میں پستی سے (نکل کر عروج کرنے کے لیے اخلاقِ رذیلہ کو) بدل ڈالنے، اور نفسِ امّارہ کے ساتھ جنگ کرنے کی استعداد موجود تھی، اور اس (استعداد) کو اس نے فوت کردیا۔
مطلب: اوپر کہا تھا کہ ایسا انسان بہائم سے پست ہے، اب اسکی یہ دلیل دی ہے کہ اس نے فرشتے کے سے اوصاف پیدا کرنے کی صلاحیت کو خود ہاتھ سے کھودیا۔ بہائم کو یہ صلاحیت ملی ہی نہیں، نہ اسکے کھونے کی نوبت آئی۔ انسان ایک عطیہ کو کھو دینے کا مجرم ہے۔ بہائم کو وہ عطیہ ملا ہی نہیں، وہ مجرم کیونکر ہوں اور مجرم بے جرم سے کم رتبہ ہوتا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
2
باز حیواں را چو استعداد نیست
عذرِ او اندر بہیمی روشنی ست
ترجمہ: پھر حیوان میں چونکہ (تبدیلِ اخلاق کی) استعداد نہیں۔ (اس لیے) بہیمہ ہونے (یعنی بہیمی اوصاف کے ساتھ موصوف رہنے اور انکو تبدیل نہ کرنے) میں اسکا عذر ہے۔
3
ز چوں استعداد شد کاں رہبرست
ہر غذائے کو خورد معزِ خرست
ترجمہ: اس (انسان) سے جب (عروج) کی استعداد جاتی رہی، جو (سعادتِ ابدی کی طرف اس کی) رہبر ہے۔ تو جو غذا بھی وہ کھائے وہ (اس کے لیے گویا) گدھے کا مغز ہے۔ (جس سے اس میں انوارِ کمال درخشاں ہونے کے بجائے جہل و حماقت پیدا ہو گی، گوشت خر دندانِ سگ)
4
گر بلا در خورد او افیوں شود
سکتہ و بے عقلیش افزوں شود
ترجمہ: (پھر) اگر وہ بلا در (وغیرہ کوئی دوا بے ہوشی زائل کرنے والی) کھائے تو وہ افیون کی طرح بے ہوشی افزا ثابت ہوتی ہے۔ (اور اس سے) اس کا سکتہ اور بے ہوشی زیادہ ہوجاتی ہے۔
مطلب: اس سے یہ مراد نہیں کہ فی الواقع دواؤں کے خواص و افعال بہیمی الطبع کے لیے برعکس ہو جاتے ہیں، بلکہ یہ ایک مثال ہے اس بات کی کہ جو غذائیں سالک کے لیے مقوی جسم بن کر ممدِ طاعات و عبادات ہو سکتی ہیں، وہ اس بہیمی الطبع کے لیے نفسانی شہوت کی زیادتی کا باعث بن جاتی ہیں، ورنہ ہر زہر و تریاق تمام نیک و بد لوگوں کے جسم پر یکساں اثر کرتے ہیں۔ اس شعر سے 126 اشعار پیشتر مولانا نے بشر کے تین قسموں پر منقسم ہونے پر ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا:
ویں بشر ہم امتحان قسمت شدند
آدمی شکل اند و سہ امت شدند
جن میں سے دو قسموں کا ذکر گزر چکا۔ اب تیسری قسم کا بیان آتا ہے:
5
ماند یک قسمِ دگر در اجتہاد
نیم حیواں نیم حی بارشاد
ترجمہ: (اب) ایک اور (تیسری) قسم (کی جماعت) رہ گئی، جو روحانی ترقی کی کوشش میں، آدھی حیوان (اور) آدھی ہدایت یافتہ ذی روح ہے۔
مطلب: نفسِ انسانی کی تین قسمیں ہیں۔ نفسِ مطمئنہ۔ نفسِ امّارہ۔ نفسِ لوامہ۔ نفسِ مطمئنہ انبیاء علیہم السّلام، اولیاء وغیرہ خاصانِ خدا کا نفس ہے، جو نیکی کے سوا اور کسی بات کا مقتضی نہیں۔ ایسے نفس والوں کا ذکر مولانا نے یوں فرمایا: ع۔ ”یک گروہ مستغرقِ مطلق شدہ الخ۔“ نفسِ امّارہ کفار و مشرکین کا نفس ہے، جو ہمیشہ کفر و فسق کا متقاضی ہے۔ ان لوگوں کا ذکر یوں کیا تھا: ”قسم دیگر با خراں ملحق شدند الخ۔“ اب تیسری قسم کے لوگوں کا حال بیان فرما رہے ہیں۔ یہ عامہ مومنین ہیں جو اللہ تعالٰی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم پر ایمان رکھتے ہیں، مگر انکا نفس مطمئنہ نہیں ہوا بلکہ لوّامہ رہا۔ لوّامہ کے معنٰی ملامت کرنے والا، ان لوگوں میں خیر و شر دونوں قسم کی صلاحیتیں ہیں۔ نفس کی استعدادِ شر کبھی ارتکابِ گناہ کا باعث ہوتی ہے، تو وہ اپنی استعدادِ خیر کے تقاضے سے خود اپنے آپ پر ملامت کرنے اور پشیمان ہونے لگتا ہے۔ آگے اس نفس کی خیر و شر کی متضاد طاقتوں کے تخالف و تجاذب کی مثال مجنوں اور اسکے ناقے سے دیتے ہیں: