دفتر چہارم: حکایت: 60
در تفسیرِ ایں حدیث کہ ”اِنَّ اللہَ تَعَالٰی خَلَقَ الْمَلٰۤئِکٰۃَ وَ رَکَّبَ فِیْھِمُ الْعَقْلَ وَ خَلَقَ الْبَھَآئِمَ وَ رَکَّبَ فِیْھَا الشَّھْوَۃَ وَ خَلَقَ بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ رَکَّبَ فِیْھِمُ الْعَقْلَ وَالشَّھْوَۃَ فَمَنْ غَلَبَ عَقْلُہٗ عَلٰی شَھْوَتِہٖ فَھُوَ اَعْلٰی مِنَ الْمَلٰۤئِکَۃِ وَ مَنْ غَلَبَ شَھْوَتُہٗ عَلٰی عَقْلِہٖ فَھُوَ اَدْنٰی مِنَ الْبَھَآئِمِ“
اس حدیث کی شرح میں کہ اللہ تعالٰی نے فرشتوں کو پیدا کیا اور ان میں عقل کو رکھا، اور جانوروں کو پیدا کیا اور ان میں شہوت کو رکھا، اور بنی آدم کو پیدا کیا اور ان میں عقل اور شہوت (دونوں) کو رکھا۔ پس جس شخص کی عقل اسکی شہوت پر غالب ہے تو وہ فرشتوں سے بھی افضل ہے، اور جسکی شہوت اسکی عقل سے بڑھ جائے تو وہ جانوروں سے گرا ہوا ہے۔
انتباہ: منہج کے متن اور ہمارے نسخے میں اس قول کو حدیثِ نبوی لکھا ہے، مگر حدیث کی کتبِ متدوالہ میں اس کا پتہ نہیں ملتا۔ نہ اسکے الفاظ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا طرز و انداز رکھتے ہیں، بلکہ اسکا انداز حکماء کے کلام کا سا ہے۔ قلمی نسخے میں اسکو صرف حدیث لکھا ہے، اور یہی نسخہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ مولانا نے حدیث کا لفظ بلحاظ لغت، بمعنٰی قول، استعمال کیا ہے۔ ناقلین نے اپنی جودتِ طبع سے حدیث کو بمعنٰی اصطلاحی حدیثِ رسول سمجھ لیا، اور اسکے ساتھ نبی کا کلمہ بھی پڑھا دیا۔ اخلاقِ جلالی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قول حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ہے۔ چنانچہ اس کتاب کی عبارت یہ ہے ”از حضرت علی المرتضٰی کہ مدینۂ علم را باب ست، و باب او طالبانِ یقین را ماتاب رضی اللہ عنہ و کرم اللہ وجہہ، ایں معنٰی منقول است، کہ اللہ تعالٰی ملک را عقل داد بے شہوت و غضب، و حیوان را شہوت و غضب داد بے عقل، و انسان را ہر دو داد۔ پس اگر انسان شہوت و غضب را مطیع و منقادِ عمل گرداند و بکمالِ عقلی برسدِ رتبۂ او از ملک اعلٰی باشد، چہ ملک را مزاحمے در کمال نیست بلکہ اختیارے دراں نے و انسان باوجود مزاحم بغی و اجتہاد بایں رتبہ فائز شدہ، و اگر عقل را مغلوبِ شہوت و غضب سازد خود را از رتبت بہائم فرو تر اندازد چہ ایشاں بواسطہ فقدان عقل کہ ز اوجِ شہوت و غضب تواند بود در نقصان معذور اند بخلاف انسان۔
قطعہ:
آدمی زادہ طرفہ معجونے ست
از فرشتہ سرشتہ وز حیوان
گر کند میل ایں شود کم ازیں
در کند قصہ آں شود بہ ازاں
پس اگر فی الواقع یہ قول حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہو، تو کہہ سکتے ہیں کہ مولانا نے لفظِ حدیث بمعنٰی اثر استعمال کیا ہے۔
1
در حدیث آمد کہ یزدانِ مجید
خلقِ عالم را سہ گونہ آفرید
ترجمہ: حدیث میں آیا ہے کہ خداوند بزرگ نے۔ عالم کی مخلوق کو تین قسم پر پیدا کیا ہے۔
2
یک گروہ را جملہ علم و عقل و جود
او فرشتہ است و نداند جز سجود
ترجمہ: ایک جماعت کو سراپائے علم و فضل و نیکی (بنایا) وہ فرشتے ہیں۔ اور وہ سوائے (طاعت و عبادت) کے اور کچھ نہیں جانتے۔
3
نیست اندر عنصرش حرص و ہوا
نورِ مطلق زندہ از عشقِ خدا
ترجمہ: انکی سرشت میں حرص اور ہوس نہیں ہے۔ (وہ) نورِ مطلق (ہیں، اور) خداوند تعالٰی کے عشق سے زندہ ہیں۔
مطلب: اس سے معلوم ہوا کہ ملائکہ میں عشق ہے، اور یہ بات ملائکہ صمیمہ میں ظاہر ہے، جو شہودِ حق میں ہائم ہیں، اور عالم کی مطلق خبر نہیں رکھتے۔ لیکن جو عشق درد کے ساتھ ہے، اس طرح کہ معشوق کا خیال عاشق کے تمام رگ و پے میں ساری ہو جاتا ہے، یہ عشق انسان کے ساتھ خاص ہے۔ اور کسی مخلوق میں نہیں ہو سکتا کیونکہ قلبِ انسان مسمّٰی باسم اللہ کے مطابق حقیقت جامعہ ہے۔(بحر)
4
یک گروہ دیگر از دانش تہی
ہمچوں حیواں از علف در فربہی
ترجمہ: ایک جماعت عقل سے خالی ہے۔ مثلًا حیوان جو گھاس (چرنے) سے موٹاپے میں ہے۔
5
او نہ بیند جز کہ اصطبل و علف
از شقاوت غافل ست و از شرف
ترجمہ: وہ سوائے اصطبل اور چارہ کے اور کچھ نہیں دیکھتے۔ وہ شقاوت اور سعادت سے بے خبر ہیں۔
مطلب: شرف یا سعادت سے مشاہدۂ حق بجمیع الاسماء و صفات مراد ہیں۔ بہائم اگرچہ مطیعِ حق ہیں، اور حق کو جانتے ہیں، لیکن اسی اسم سے اسکو جانتے ہیں جو انکا رب ہے، اور وہ اسی اسم سے حق تعالٰی کی تسبیح بھی کرتے ہیں۔ دوسرے تمام اسماء سے وہ بے خبر و غافل ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ ذات حق تعالٰی کو صفات تشبیہ کے ساتھ جانتے ہیں، اور صفاتِ تنزیہ سے بے خبر ہیں۔ بہر تقدیر وہ جامعیتِ اسماء سے بے خبر ہیں۔ پس وہ شرف جس سے مراد جامعیت ہے، بے خبر ہوئے۔ ساتھ ہی شقاوت سے بھی بے خبر ہیں، کیونکہ وہ مطیعِ حق ہیں اور وہ مکلّف نہیں ہیں کہ جواب دہ ہوں۔ پس وہ اصلًا شقاوت میں مبتلا نہیں ہوئے۔(بحر)
6
زاں سوم ہست آدمی زاد و بشر
از فرشتہ نیمے و نیمش ز خر
ترجمہ: تیسری (جماعت) سے آدمی زاد اور انسان ہے۔ (جسکا) آدھا وجود فرشتہ سے، اور آدھا گدھے سے (ملتا جلتا) ہے۔
مطلب: انسان میں ملکی اور بہیمی دو طاقتیں موجود ہیں۔ ملکی طاقت طاعت و عبادت، اور علوم و معارف کی طرف کھینچتی ہے، وہ ملائکہ سے مناسبت رکھتی ہے۔ اور بہیمی طاقت اکل و شرب و جماع وغیرہ لذّاتِ سفلیہ کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ بہائم کے ساتھ متناسب ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
7
نیم خر خود مائلِ سفلی بود
نیم دیگر مائلِ علوی بود
ترجمہ: گدھے والا آدھا حصہ (عالمِ) سفلی کی طرف مائل ہے۔ (اور اکل و شرب و جماع وغیرہ کا طالب رہتا ہے، اور) آدھا دوسرا عالمِ علوی کی طرف مائل ہوتا ہے (اور علم و عقل و طاعت و عبادت سے مانوس رہتا ہے۔)
8
تا کدامیں غالب آید در نبرد
زیں دوگانہ تا کدامیں برد نرد
ترجمہ: حتّٰی کہ (ان میں سے) کوئی نہ کوئی معرکہ میں غالب آ جاتا ہے۔ حتّٰی کہ ان دونوں میں سے ایک نہ ایک بازی لے جاتا ہے۔
9
عقل گر غالب شود پس شد فزوں
از ملائک ایں بشر در آزموں
ترجمہ: (چنانچہ) اگر عقل غالب ہو، تو (اس) امتحان میں یہ انسان فرشتوں سے بھی افضل ہو۔
10
شہوت ار غالب شود پس کمترست
از بہائم ایں بشر زاں کابترست
ترجمہ: اگر شہوت غالب ہو، تو یہ انسان بہائم سے بھی کم رتبہ ہے۔ کیونکہ (اس وقت) وہ ابتر (حالت میں) ہے۔
11
آں دو قوم آسودہ از جنگ و حراب
ویں بشر باد و مخالف در عذاب
ترجمہ: وہ ملائکہ و بہائم کی دونوں جماعتیں (اپنی قوٰی کی) ضد و مخالفت سے امن میں ہیں۔ (کیونکہ ان میں متخالف قوتیں نہیں ہیں) اور یہ انسان دو مخالف قوتوں (کی) آپس کی کھینچا تانی سے عذاب میں ہے۔
12
ویں بشر ہم از امتحان قسمت شدند
آدمی شکل اند و سہ امت شدند
ترجمہ: اور (پھر) یہ انسان بھی (طبائع کی) آزمائش سے (مختلف مراتب میں) تقسیم ہو گئے۔ (اگرچہ سب کے سب) انسانی صورت رکھتے ہیں، مگر طبیعت کے لحاظ سے تین گروہ بن گئے۔
13
یک گرہ مستغرقِ مطلق شدہ
ہمچو عیسٰیؑ با ملک ملحق شدہ
ترجمہ: ایک گروہ (حق تعالٰی کے عشق میں) بالکل ڈوب چکا ہے۔ جو حضرت عیسٰی علیہ السّلام کی طرح ملائکہ میں جا ملا۔
مطلب: جیسے کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔ ”اِنَّ الْاَرْوْاحَ اَفَاضِلُ الْاٰدَمِیِّیْنَ دُخُوْلًا فِیْھِمْ الخ۔“ جس کا مفصل بیان مفتاح العلوم کی جلد دوم میں درج ہو چکا ہے، مگر شاہ صاحب کے قول کا تعلق نشاۃ اخرویہ سے ہے، اور مولانا کا مقصد یہ تھا کہ یہ حضرات دنیا میں ہی ملحق بملائکہ ہیں۔ پس تطبیق کی صورت یہ ہے کہ مولانا نے جن لوگوں کی حیاتِ دنیا کی حالت بیان فرمائی ہے، شاہ صاحب نے انہی کی عالمِ عقبٰی کی حالت کا ذکر کیا ہے، یعنی وہ لوگ دنیا میں بطریقِ مناسبت داخلِ ملائکہ ہیں، اور آخرت میں ان کی روح کا مقام بھی وہی ہوگا جو ملائکہ کا ہے۔ آگے اس گروہ کی مزید توصیف فرماتے ہیں:
14
نقشِ آدم لیک معنٰی جبرئیل
رستہ از خشم و ہوا و قال و قیل
ترجمہ: انکی صورت انسانی، لیکن باطن جبریل کا سا ہے۔ وہ غصہ اور خواہش نفسانی اور بیہودگی سے نجات پا گئے۔ (یعنی انکا نفسِ سبعی، اور نفس بہیمی دونوں مغلوب ہیں، اور وہ بشریت میں ملکی صفات رکھتے ہیں۔)
15
از ریاضت رستہ و زہد و جہاد
گوئیا از آدمی او خود نزاد
ترجمہ: وہ مجاہدہ و ریاضت سے چھوٹ گئے اور زہد سے (بھی۔) گویا وہ آدمی ہی کی اولاد نہیں (بلکہ فرشتے ہیں۔)
مطلب: ریاضت و مجاہدہ سے چھوٹ جانے کی وجہ یہ ہے کہ ان باتوں کی ضرورت اثنائے سلوک میں پڑتی ہے، جو محض منازلِ سلوک طے کر کے کمالِ عرفان کو پہنچ جاتا ہے، اسکو ریاضت کی ضرورت نہیں رہتی۔ ریاضات نوافل کے حکم میں ہیں جو بعض صورتوں میں ساقط ہو جاتے ہیں۔ اس لیے نوافل کی تعبیر مجاہدہ و ریاضت سے کی ہے، لیکن فرائض بقائے عقل تک کسی حالت میں ساقط نہیں ہوتے۔ ”آدمی زاد“ نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ انکے اوصافِ حیوانیہ زائل ہو گئے، یا یہ مراد ہے کہ وہ فنا فی اللہ ہو کر تَخَلُّقْ بِاَخْلَاقِ اللہ کے درجہ کو پہنچ گئے، اور یہ دوسری تاویل اولٰی ہے۔(بحر)
16
قسمِ دیگر با خراں ملحق شدند
خشمِ محض و شہوتِ مطلق شدند
ترجمہ: دوسری قسم کے لوگ گدھوں کے ساتھ جا ملے۔ جو سراپائے غصہ اور مجسّمِ شہوت ہیں۔
17
وصفِ جبرئیلی در ایشاں بود رفت
تنگ بود آں خانہ و آں وصف رفت
ترجمہ: ان لوگوں (کی فطرت) میں وہ جبرئیلی (و ملکی) وصف کافی (موجود) تھا، مگر انکا ظرف ہی تنگ تھا، اور وہ وصف (عالی اس میں سما نہ سکا، اس لیے آخر) چلا گیا۔
18
مردہ گردد شخص چوں بیجاں شود
خر شود چوں جانِ او بے آں شود
ترجمہ: چنانچہ جسم جب بے جان ہو جاتا ہے، تو مردار بن جاتا ہے۔ (اسی طرح) جب اسکی جان اس (ملکی وصف) سے خالی ہو جاتی ہے، تو وہ گدھا بن جاتا ہے۔
19
زاغ گردد چوں پئے زاغاں رود
جسم گردد جاں چوں او بے آں شود
ترجمہ: (آدمی) جب کوؤں کے پیچھے جاتا ہے تو کوا بن جاتا ہے۔ (اسی طرح) جان جب اس (وصف) سے معرّا ہو تو (بمنزلہ) جسم (کثیف) ہو جاتی ہے۔
20
زانکہ جانے کاں ندارد ہست پست
ایں سخن حق ست و صوفی گفتہ ست
ترجمہ: کیونکہ جو روح کہ وہ (وصف) نہیں رکھتی، وہ کم رتبہ ہے۔ یہ بات صحیح ہے، اور صوفی نے کہی ہے۔
مطلب: یعنی یہ حکماء کا قول نہیں بلکہ تصوّف کا مسئلہ ہے، اور تصوّف کا ہی نہیں بلکہ حق تعالٰی کا ارشاد ہے کہ ﴿وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا﴾ (الشمس: 10) ”اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔“ صاحبِ مکاشفات کے نزدیک ”صوفی گفتہ است“ میں یہ اشارہ مضمر ہے کہ کوئی جاہل یہ نہ کہے کہ صوفیہ کے نزدیک تمام نیک و بد اور مومن و کافر حق ہیں۔ کسی کو دوسرے سے امتیاز نہیں بلکہ صوفی تو یہ کہتا ہے کہ جو روح اوصافِ خیر سے خالی ہو، وہ بدتر ہے۔
21
او ز حیوانہا فزوں تر جاں کند
در جہاں باریک کاریہا کند
ترجمہ: وہ حیوان سے بھی زیادہ جان کنی میں مبتلا ہوتا ہے۔ (چنانچہ) وہ دنیا میں باریک (و نازک) صنعتیں کرتا ہے (جو دیگر حیوانات نہیں کر سکتے۔)
مطلب: انسان بہیمی صفات میں پڑ کر نہ صرف بہائم میں شامل بلکہ بہائم سے بدتر ہو جاتا ہے، اور اپنے لیے وہ تکالیف و مصائب مول لے لیتا ہے جن سے بہائم محفوظ ہیں۔ چنانچہ ان میں سے ایک یہ کہ اس کو مادی ترقی کے مالیخولیا میں بہت سی صنعت کاریوں کی سر دردی اختیار کرنی پڑتی ہے۔ حیوانات کو اس سر دردی کی ہوا بھی نہیں لگی۔ شہد کی مکھی کو مسدس خانوں کا چھتہ، بیا کو معلق گھونسلا، اور پھٹکی کو بخیہ دار آشیانہ بنانا فطرت نے روز اول سے جو سکھا دیا۔ اس سے انہوں نے ترقی کا پاؤں آگے نہیں رکھا۔ نہ ترقی کرنے کی ان کو پروا ہے۔ بخلاف اس کے انسان کو ضروریاتِ زندگی کی کسی حد پر صبر نہیں۔ مثلًا نقل و حرکت کے ذرائع میں گھوڑے اونٹ کی سواری سے ریل گاڑی، اور ریل گاڑی سے ہوائی جہاز کی طرف ترقی کی اور ابھی خدا جانے کیا کیا نئی ایجادیں زیرِ غور ہیں اور یہ غور و فکر اور محنت و مشقت اس چند روزہ زندگی کے لیے محض ایک مصیبت نہیں تو اور کیا ہے۔ مولانا بحر العلوم فرماتے ہیں کہ انسان کے حیوانات سے زیادہ جان کنی میں مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ عقلِ خداداد کو مقتضیاتِ حرص و شہوت اور لذائذِ حسیہ و امورِ دنیویہ میں استعمال کرتا ہے، جس سے وہ اس طولِ امل میں گرفتار ہو جاتا ہے کہ لذائذ و فوائد مستقبل میں زیادہ سے زیادہ حاصل ہوں۔ بخلاف اس کے حیوانات میں عقل ہی نہیں، اور نہ وہ فکرِ مستقبل رکھتے ہیں، بلکہ وہ صرف نقد بنقد سودے کے خریدار ہیں۔ اس لیے طولِ امل کی بلا سے محفوظ ہیں۔ (انتہٰی) اوصافِ ملکیہ سے خالی رہنے والا دنیا دار دنیاوی امور میں بڑا مبصر، بڑا مدبر، اور نہایت صناع ہوتا ہے، جسکی روشن مثال یورپ اور اس کے بھائی بند امریکہ و جاپان ہیں، کہ آج صناعِ دنیویہ کے آسمان پر اڑ رہے ہیں مگر معاملاتِ آخرت سے ان کی آںکھیں بے نور ہیں۔ اسی قسم کے لوگوں کے لیے کلام اللہ میں وارد ہے: ﴿وَ تَتَّخِذُوۡنَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمۡ تَخۡلُدُوۡنَ﴾ (الشعراء: 129) ”اور تم نے بڑی کاریگری سے بنائی ہوئی عمارتیں اس طرح رکھ چھوڑی ہیں جیسے تمہیں ہمیشہ زندہ رہنا ہے۔“
22
مکر و تلبیسے کہ او تاند تنید
آں ز حیوانے دگر ناید پدید
ترجمہ: انسان کی دوسری جان کنی یہ ہے کہ مکر و فریب (کے جال) جو وہ تن سکتا ہے، وہ کسی دوسرے جاندار سے ظہور میں نہیں آ سکتے۔
مطلب: دنیوی فوائد و لذائذ کے حصول کے حصول کے لیے ابنائے جنس کے ساتھ مکر و دغا، جھوٹ فریب، ہیرا پھیری وغیرہ صدہا حیلہ بازیاں کرنا انسان کا شیوہ ہے، جن میں ایک روحانی اذیّت مضمر ہے۔ اگرچہ تیرہ باطن لوگ محسوس نہیں کرتے۔ دیگر حیوانات میں ان حیلوں کا مادہ ہی نہیں، نہ وہ ان مکاریوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور نہ یہ روحانی اذیت انکو پیش آتی ہے۔ آگے انسان کے دنیاوی علوم و فنون اور صنائع و حرکات کا ذکر فرماتے ہیں:
23
جامہائے زرکشی را بافتن
دُرّہا از قعرِ دریا یافتن
ترجمہ: زر دوزی کپڑے بننا (اور) سمندر کی گہرائی سے موتی حاصل کرنا۔
24
خُردہ کاریہائے علمِ ہندسہ
یا نجوم و علمِ طب و فلسفہ
ترجمہ:(اور) علمِ ہندسہ کی باریک صنعتیں، یا نجوم اور علمِ طب اور فلسفہ۔
25
کاں تعلق با ہمیں دنییستش
رو بہفتم آسمان بر نیستش
ترجمہ: جن کا تعلق اسی دنیا سے ہے، (اور) ساتویں آسمان کی طرف انکی توجہ نہیں ہے۔
26
ایں ہمہ علمِ بنائے آخرست
کہ عمادِ بودِ گاؤ اشترست
ترجمہ: یہ سب اصطبل کی بنیاد کے علم ہیں، جو بیل اور اونٹ کی بود (و باش) کا ستون ہے۔
مطلب: تحصیلِ دنیا کے علوم و فنون جن کو امورِ معاد کے سات تعلق نہیں، وہی حیثیت رکھتے ہیں جیسے گدھوں، گھوڑوں اور بیلوں، اونٹوں کے لیے دانہ چارہ مہیا کرنے کا علم، کیونکہ ان سے بھی پیٹ پالنا مقصود ہے اور ان سے بھی۔ فرق ہے تو صرف اتنا کہ وہاں بہائم کا پیٹ ہے یہاں انسان کا۔
27
بہرِ استبقائے حیواں چند روز
نام آں کردند ایں گیجاں رمُوز
ترجمہ: ان خر دماغ (حکیموں، اور دنیا پرست) لوگوں نے، ان (دنیاوی علوم و فنون) کا نام، جانداروں کے چند روزہ سامان زندگی (میں کام آنے کے) لحاظ سے رموز رکھ لیا۔
28
علمِ راہِ حق و علمِ منزلش
صاحبِ دل داند آں را یا دلش
ترجمہ: (در حقیقت) طریقتِ حق اور اسکی منازل کے علم کو ہی) اسرارِ رموز کہہ سکتے ہیں۔ جس کو) صاحبِ دل جانتا ہے، یا اسکا دل جانتا ہے۔ (دنیاوی علوم اس نام کے مستحق نہیں۔)
29
پس دریں ترکیب حیوانِ لطیف
آفرید و کرد با دانش الیف
ترجمہ: بس (حق تعالٰی نے) اس (سبعی و بہیمی) ساخت پر ایک پاکیزہ جاندار (یعنی انسان) پیدا کیا۔ اور اسکو عقل کے ساتھ مانوس کیا۔
انتباہ: انسان کی ساخت کو لطیف، بدیں لحاظ فرمایا ہے کہ جسمِ انسان کا مزاج تمام مزاجوں سے زیادہ معتدل ہے، یا اسکے لیے کہ وہ ان قوائے کثیرہ کا حامل ہے جو دیگر حیوانات میں نہیں ہے، یا اس لیے کہ اس کی اصل حقیقت حقیقتِ جامعہ ہے۔(بحر)
30
نام کالانعام کرد آں قوم را
زانکہ چہ نسبت کو بیقطہ نوم را
ترجمہ: (مگر جب انہوں نے عقل کو معرفتِ الٰہیہ میں صرف نہ کیا تو حق تعالٰی نے) ان لوگوں کا نام چوپائے رکھ دیا۔ کیونکہ خواب کو بیداری کے ساتھ کیا نسبت؟
مطلب: ان لوگوں کو انسانی بدن و روح، اور انسانی دل و دماغ ملا ہے، اور اس علم و دانش کی صلاحیّت ملی ہے جو انسان کے لیے عطیۂ الٰہیہ ہے، مگر انہوں نے اس عطیہ کی قدر نہ کرتے ہوئے اپنے آپکو معاد کے بجائے ہمہ تن طلبِ معاش میں لگائے رکھا ہے، اور سوائے خواب و خور کے ساتھ اور کسی بات سے سروکار نہ رکھا، جو حیوانی خواص سے ہے۔ اس لیے حق تعالٰی ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے:﴿وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ﴾ (الاعراف: 179) ”اور ہم نے جنات اور انسانوں میں سے بہت سے لوگ جہنم کے لیے پیدا کیے۔ ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، اور ان کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔“ مطلب یہ کہ ان لوگوں کو عقل اور عقل سے کام لینے کے پورے سامان دیے گئے، مگر انہوں نے عقل اور سامانِ تعقل کو معطل رکھ کر بالکل غفلت اختیار کرلی۔ اس لیے انکا درجہ بہائم کے برابر، بلکہ ان سے بھی پست تر ہے۔ دوسرے مصرعہ میں جو خواب و بیداری کا تبائن و تضاد دکھایا ہے۔ آگے دو شعروں میں اسکو مدعا پر چسپاں فرماتے ہیں:
31
روحِ حیوانی ندارد غیرِ نوم
حسّہائے منعکس دارند قوم
ترجمہ: روحِ حیوانی (جو ان لوگوں پر مسلّط ہے) اسکے پاس خوابِ (غفلت) کے سوا اور کچھ نہیں۔ (اسی طرح) یہ لوگ الٹے حواس رکھتے ہیں۔
مطلب: روحِ حیوانی جس میں تمام حیوانات شریک ہیں، عقل سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، اور وہ عقل اور مقتضیاتِ عقل کی طرف سے اس طرح بے خبر ہیں جس طرح کوئی گہری نیند میں سونے والا ارد گرد کے حالات سے بے خبر ہوتا ہے۔ ہاں انسان میں یہ روحِ حیوانی بھی ہے اور عقل بھی، مگر بعض لوگ اپنی عقل کو بیکار رکھ کر بہائم کی طرح خوابِ غفلت میں سو رہے ہیں۔ چنانچہ جن حواس کو آلاتِ تعقل بنا کر معرفتِ حق میں استعمال کرنا چاہیے تھا، ان کو انہوں نے لذائذِ دنیویہ اور مرغوباتِ نفسانیہ کی تحصیل میں لگا رکھا ہے، حتّٰی کہ وہ حواس اس قسم کے خلاف مقصود اور الٹے ٹیڑھے کام کرنے کے عادی ہو گئے۔
32
یقظہ آمد نومِ حیوانی نماند
انعکاسِ حسِّ خود از لوح خواند
ترجمہ: بیداری آئی تو حیوانی (غفلت) کی نیند نہ رہی۔ (پھر بیدار ہونے والے نے) تختی سے اپنی حسّ کو الٹا ہونا پڑھ لیا۔
مطلب: اس بیت کا مطلب بیان کرنے میں شارحین مختلف ہیں۔ مولانا بحر العلوم نے اس سے یہ عجیب و غریب مطلب نکالا ہے کہ یہ دنیا پرست لوگ، جب بیدار مغزی اور عقل رکھتے ہیں، جس کو وہ دنیاوی امور میں استعمال کر رہے ہیں تو پھر خوابِ حیوانی کا احتمال نہ رہا، جو تدبیرات سے غافل ہونے کا نام ہے، اور یہ عقل و بیداری کا الٹا استعمال انکو لوحِ تقدیر سے ملا ہے کہ جو کچھ تقدیر کا نوشتہ ہو، وہی پیش آتا ہے۔ پس وہ شقی ازلی ہے: ”مَنْ شَقٰی شَقٰی فِیْ بَطْنِ اُمِّہٖ“ (انتہٰی) یہ مطلب سراسر تکلّف ہے۔ صاحبِ منہج یوں فرماتے ہیں کہ جو شخص عالمِ قلب میں اپنی حالت کا مشاہدہ کرتا ہے اسکو خوابِ غفلت سے بیداری نصیب ہو جاتی ہے۔ پھر وہ اپنی لوحِ وجود سے اپنے حواس و قوٰی کی غلط کاریوں کا بخوبی مطالعہ کر لیتا ہے۔ (انتہٰی) یہ تاویل ہر چند معقول ہے مگر ما بعد کے ساتھ اسکا کچھ ربط نہیں۔ ہمارے نزدیک اس شعر کا ما قبل و ما بعد کے ساتھ ربط قائم کرنے کے لیے یہ مطلب شاید زیادہ موزوں ہوگا کہ پیچھے فرمایا تھا کہ روحِ حیوانی سوائے خوابِ غفلت کے اور کچھ نہیں رکھتی۔ اب فرماتے ہیں کہ جو انسان روحِ حیوانی کے آگے مغلوب ہو کر خوابِ غفلت میں پڑا رہا، وہ جب مرے گا بفحوائے: ”اَلنَّاسُ نِیَامٌ فَاِذَا مَاتُوْا اِنْتَبَھُوْا“ (قول سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ: المقاصد الحسنۃ: 442) گویا بیدار ہو جائے گا۔ پھر اسکی حیوانی غفلت جاتی رہے گی، اور وہ اپنی قوٰی و حواس کی غلط کاریوں کو اپنی جزائے اعمال سے صاف محسوس کرے گا۔ اگلے شعر میں اسکی حالت کو ایک مثال سے واضح کر کے پھر آخر میں اسکی شقاوت کا اظہار فرمائیں گے:
33
ہمچو حسِّ آنکہ خواب او را ربُود
چوں شد او بیدار عکسِ او نمود
ترجمہ: (اسکی مثال) اس شخص کی حسّ کی مانند (ہے) جسکو نیند نے مغلوب کر لیا ہو۔ جب وہ جاگتا ہے تو اس (حسّ) کی خلاف کاری اسے نظر آ گئی (کیونکہ بیداری میں حواس کا عمل کچھ اور ہوتا ہے، اور خواب میں کچھ اور۔)
34
لاجرم اسفل بود از سَافِلِیْن
ترکِ اوکن لَا یُحِبُّ الْاٰفِلِیْن
ترجمہ: اس لیے وہ (شخص تمام) گرے ہوئے لوگوں (سے بھی) کم رتبہ ہے۔ اس کو چھوڑو۔ (جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام) چھپ جانے والوں (یعنی چاند، سورج، ستاروں) کو دوست نہیں رکھتے۔ (تم بھی ایسے لوگوں کو دوست نہ رکھو۔)
مطلب: پہلے مصرعہ میں سورۃ التین کی ان آیات کی طرف تلمیح ہے: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔ ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَۙ﴾ ”ہم نے انسان کو بہتر سے بہتر ساخت کا پیدا کیا ہے۔ پھر ہم اس کو (بڈھا کر کے) کم تر سے کم تر مخلوق کے درجے میں لوٹا لائے۔“ (التین: 5-6) مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ چارپایوں سے بھی گرے ہوئے ہیں۔ دوسرے مصرعہ میں ارشاد ہے کہ ایسے لوگوں کی صحبت و رفاقت سے پرہیز کرو، اور اس میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے قصے کی طرف تلمیح ہے، جبکہ انہوں نے غار سے نکل کر سب سے پہلے ستارے کو، پھر چاند کو، اسکے بعد سورج کو دیکھا اور ان میں سے ہر ایک کو ربوبیت کے نا قابل پاکر اس سے بیزاری ظاہر کی۔ یہ قصہ پیچھے آٹھویں جلد میں مفصّل درج ہوچکا ہے۔