دفتر چہارم: حکایت: 59
در بیانِ ”تَرْکُ الْجَوَابِ جَوَابٌ“ با آں سخن کہ ”جَوَابُ الْاَحْمَقِ سُکُوْتٌ“ شرح ایں ہر دو دریں قصہ گفتہ شد
اس (قول) کا بیان کہ ”جواب نہ دینا (بھی ایک طرح کا) جواب ہے“ مع اس بات کے کہ ”احمق کا جواب خاموشی ہے“ ان دونوں (قولوں) کی شرح اس قصے میں کی گئی ہے
1
بادشاہے بود او را بندۂ
مردہ عقلے بود و شہوت زندۂ
ترجمہ: ایک بادشاہ (کا ذکر ہے کہ) اسکا ایک غلام تھا۔ (جو) ایک مردہ عقل، اور زندہ شہوت (انسان) تھا۔
2
خردہائے خدمتش نگذاشتے
بدسگالیدے نکو پنداشتے
ترجمہ: وہ اسکی ادنٰی خدمت (بھی) بجا نہ لاتا۔ (بڑی خدمت تو کیا بجا لانی تھیں) وہ (کم بخت) بُری باتیں سوچتا، اور (انکو) اچھی سمجھتا۔ (﴿وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ﴾ (البقرۃ: 11) یعنی ”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم زمین میں فساد نہ مچاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔“)
3
گفت شاہنشہ جِراءش کم کنید
ور بجنگد نامش از خط بر زنید
ترجمہ: بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کی روزی کم کر دو۔ اگر جھگڑنے لگے تو (پھر اسکا نام وظیفہ خواروں کے) رجسٹر سے خارج کر دو۔
مطلب: یعنی اسکی نالائقی کی سزا یہ ہے کہ اسکا وظیفہ کم کر دیا جائے، اور اگر وہ اس سزا سے رو باصلاح ہونے کے بجائے آمادۂ شورش ہو، تو پھر اس کا بالکل وظیفہ بند کیا جائے۔ ”جرا“ بکسر جیم و فتح را بمعنٰی وظیفہ و روزی استعمال ہوا ہے۔ قلمی نسخے میں یہ لفظ ”جریٰ“ بالف مقصورہ درج ہے، اور غیاث میں اسکے معنٰی وظیفہ و راتبہ کے لکھے ہیں۔ منہج القوٰی میں اسکو ”چرا“ بجیمِ فارسی مفتوح لکھا ہے جسکے معنی مویشی کے چارہ کے ہیں، اور بتایا ہے کہ مولانا نے اس لفظ سے اس بد خصلت غلام کو گھاس چرنے والے حیوانات سے تشبیہ دی ہے۔ جیسے اللہ تعالٰی نے کفّار کے بارے فرمایا ہے: ﴿کَاَنَّہُمۡ حُمُرٌ مُّسۡتَنۡفِرَۃٌ﴾ (المدثر: 49) ”اس طرح جیسے وہ جنگلی گدھے ہوں۔“(انتہٰی)
4
عقلِ او کم بود و حرصِ او فزوں
چوں چرا کم دید شد تند و حروں
ترجمہ: عقل اس میں کم تھی اور حرص زیادہ۔ جب اس (گدھے) نے (اپنا) چارہ کم دیکھا تو تند اور سرکش ہو گیا۔
5
عقل بودے گردِ خود کردے طواف
تا بدیدے جرمِ خود گشتے معاف
ترجمہ: (اگر اس میں کچھ بھی) عقل ہوتی، تو اپنے آپ کی پڑتال کرتا۔ تاکہ اپنے قصور کو معلوم کر لیتا (اور پھر اعترافِ جرم کی بدولت بادشاہ کے حضور سے اسکا قصور) معاف ہو جاتا۔
6
چوں خرے پا بستہ تُندد از خری
ہر دو پایش بستہ گردد برسری
ترجمہ: (چنانچہ) جب وہ گدھا جس کا (ایک) پاؤں بندھا ہو، گدھے پن سے تندی کرے۔ تو (اسکے علاوہ) اسکے دو پاؤں جکڑ دیے جاتے ہیں۔ (اسی طرح اس غلام نے ادنٰی سزا پر سیکھنے کی بجائے بڑی سزا کا سامان کر لیا۔)
7
پس بگوید خر کہ یک بندم بس ست
خود بداں دو ز فعلِ آں خس ست
ترجمہ: بس گدھا کہتا ہے کہ میرے لیے ایک (پاؤں کا) بند ہی کافی ہے۔ (اے مخاطب!) تم یاد رکھو کہ وہ دو (بند) اسی نالائق کے کرتوت (کا نتیجہ) ہیں۔
مطلب: غلام کو یہ زیبا دیتا تھا کہ اپنے تنزّل سے عبرت گیر ہو کر آئندہ کے لیے محتاط ہو جاتا، مگر الٹا وہ محکمۂ انعامات کے محرّروں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگا، اور اس سزا کا مستوجب ہوگیا، کہ اسکا نام ہی روزی خواروں سے کاٹ دیا جائے، جس کے بعد اس کو وہ تنزّل ہی غنیمت نظر آئے گا۔ اسی طرح بندے پر جب بحکم کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے، تو وہ ضرور اسکے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ﴾ (الشوریٰ: 30) ”اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے، اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے۔“ ایسے موقع پر بندے کا متنبہ و عبرت گیر ہونا، اور آئندہ کے لیے توبہ کرنا، اور اللہ تعالٰی سے مغفرت مانگنا چاہیے، نہ یہ کہ شکوائے تقدیر کرنا، اور اپنی بد قسمتی پر رونا دھونا، اور باقی ہر طرح کے بے صبری کے کام کرنا شروع کردے، جیسے کہ اکثر عورتوں، اور بعض مردوں کا شیوہ ہے۔ ایسی صورتوں میں خدا کی مزید ناراضگی اور نزولِ بلیّات کا اندیشہ ہے۔ یہاں انہی لوگوں کی مثال گدھے سے دی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ﴾ (الاعراف: 179) ”وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔“
8
گر بدیدے سِرِّ بند آں چشمِ کور
بند بر دستش نہ بستندے بزور
ترجمہ: اگر وہ راز کی (بات) پر غور کر لیتا (کہ یہ سزا کسی قصور پر ہی ملی ہے) تو (پھر) وہ کور چشم نہ ہوتا۔ (بلکہ با بصیرت ہوتا اور پھر) اسکے ہاتھوں کو (بھی) جبرًا نہ جکڑتے۔
9
ور ز جرمِ بندِ پا آگہ بدے
خود ز بندِ دست و پا ایمن شدے
ترجمہ: اور اگر وہ اس جرم سے آگاہ ہوتا، جس کی وجہ سے اس کا (ایک) پیر جکڑا گیا۔ تو (پھر سرکشی نہ کرتا، اور) ہاتھ پاؤں کے (اکھٹے) جکڑے جانے سے امن میں رہتا۔
10
ور نہ تند یدے ز بند آں بوالفضول
او نہ خر بودے بدے شیرِ فحول
ترجمہ: اور اگر وہ (اپنے جرم سے آگاہ نہ تھا، تو کم از کم تحمّل ہی رکھتا، اور وہ) بیہودہ (گدھا) تندی نہ کرتا۔ تو پھر وہ گدھا نہ ہوتا، بلکہ ایک شیرِ نر ہوتا۔