دفتر چہارم: حکایت: 58
بیان تفسیر آیۂ شریفہ: ﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ﴾ (المزمل: 1)
مطلب: پوری آیت یہ ہے: ﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ - قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا - نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا - اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا﴾ (المزمل: 1 تا 4) (”اے چادر میں لپٹنے والے۔ رات کا تھوڑا حصہ چھوڑ کر باقی رات میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہوجایا کرو۔رات کا آدھا حصہ، یا آدھے سے کچھ کم کرلو۔ یا اس سے کچھ زیادہ کرلو، اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو۔“ ”مُزَّمِّل“ کے لفظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو خطاب فرمایا ہے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ آغازِ وحی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم جبرئیل کے خوف سے اپنے آپکو کپڑوں میں چھپا لیتے اور فرمایا کرتے ”زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِی“ یعنی ”مجھے کپڑوں میں چھپاؤ، مجھے کپڑوں میں چھپاؤ۔“ حتّٰی کہ ان سے مانوس ہو گئے، بعض کہتے ہیں کہ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلّم گھر سے نکلے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے کپڑا اوڑھ رکھا تھا، تو جبرائیل علیہ السّلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کو پکارا: ﴿یٰآَیُّھَا الْمُزَمِّلُ﴾ (مزمل: 1) بعض کہتے ہیں اسکے معنٰی ہیں ”ردائے نبوت کو اوڑھنے والا“ یعنی اسکا حامل۔ بعض کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کپڑا اوڑھے لیٹ رہے تھے، تو پھر یہ خطاب ہوا۔(خازن) بعض علماء سے مروی ہے کہ رؤسائے قریش اپنی جہالت کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم پر ان بدبختوں کے اقوال شاق گزرے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم رنجیدگی سے گھر آئے اور کپڑا اوڑھ کر لیٹ گئے۔ پھر جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا: ﴿یٰآَیُّھَا الْمُزَمِّلُ﴾ مولانا اسی قول کے مطابق فرماتے ہیں:
1
خواند مُزَّمِّلْ نبی را زیں سبب
کہ بروں آ از گلیم اے بوالہرب
ترجمہ: اسی سبب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو ”مُزَّمِّلْ“ (یعنی ”کملی اوڑنے والا“) کہہ کر پکارا۔ کہ ابو الہرب! کمبل سے باہر آؤ۔
2
سر مکش اندر گلیم و رو مپوش
کہ جہاں جسمے ست سرگرداں تو ہوش
ترجمہ: کمبلی کے اندر سر نہ چھپا، اور چہرہ مبارک نہ ڈھکو۔ کیونکہ جہان ایک پریشان جسم ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم (اسکی) عقل ہیں۔
مطلب: تمام جہاں بے ہوش و بے فہم ہے، جسطرح انسانی جسم کا حال ہے کہ وہ خود بخود مدرک نہیں ہے، بلکہ روح کے ساتھ اسکا ادراک و احساس وابستہ ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلّم اس جسم کے لیے بمنزلۂ روح و فہم ہیں، جسکے ذریعہ جہان کو خدا شناسی اور عاقبت بینی کی عقل آئی۔(بحر)
3
ہیں مشو پنہاں ز ننگِ مدّعی
کہ تو داری نورِ وحیِ شعشعی
ترجمہ: ہاں! مدعی (باطل کے سامنے آنے) کی عار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم روپوش نہ ہوں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم وحی کا درخشاں نور رکھتے ہیں (جو چھپائے سے چھپ نہیں سکتا۔)
4
ہیں قُمِ الَّیۡلَ کہ شمعی اے ہمام
شمع دائم شب بود اندر قیام
ترجمہ: ہاں اے بزرگ! شب کو بیدار ہو جئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم شمع ہیں۔ (اور) شمع ساری رات کھڑی رہتی ہے۔
مطلب: ”شب“ سے مراد دنیا کی تاریکی جہالت ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کو شمع بلحاظ انوارِ ہدایت کے کہا ہے، اور شمع کے قیام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کا قائم بہدایتِ خلق ہونا مراد ہے۔ اب مطلب ظاہر ہے۔
5
بے فروغت روزِ روشن ہم شب ست
بے پناہت شیر اسیرِ ارنب ست
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کے پَرتو کے بغیر روشن دن بھی (کالی) رات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی پناہ کے بغیر شیر (بھی) خرگوش کی قید میں ہے۔
مطلب: بقول مولانا بحر العلوم ”شیر“ سے مراد روح ہے، اور ”ارنب“سے نفس و شیطان ہے، یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی پناہ نہ ہو تو روح، نفس اور شیطان کے آگے مغلوب ہوجاتی ہے۔ ہمارے نزدیک اسکا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عرب، جو اپنی صفاتِ ذاتیہ کے لحاظ سے ایک شیر تھا، جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کے زیر سایہ نہیں تھا، اس وقت تک خرگوشانِ روم و ایران کا حلقہ بگوش رہا۔ جب اسکو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی پناہ حاصل ہوگئی، تو اس نے چند سال میں ان سلطنتوں کے تخت الٹ دیے، اور وہ اپنی شیرانہ و دلیرانہ صفات سے دنیا کا فرماں روا بن گیا۔
6
باش کشتیباں دریں بحرِ صفا
کہ تو نوحِ ثانئی اے مصطفٰیؐ
ترجمہ: اے مصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم آپ نوحِ ثانی ہیں۔ اس (محبت و) صفا کے دریا میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلّم (امت کے) کشتیباں بن جائیں۔
انتباہ: چونکہ پہلے مصرعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کو ”کشتیبان“ سے تشبیہ دی ہے۔ اس لیے دوسرے مصرعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی تعبیر نوحِ ثانی سے کی ہے، ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذات مبارک کسی کی ثانی نہیں۔ نہ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کا ثانی ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم اپنے مرتبہ میں یگانہ ہیں۔ حضرت نوح اور باقی تمام انبیاء و مرسلین علیہم السّلام آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کے رشحاتِ فیض سے مشرّف برسالت ہوئے ہیں۔(بحر)
7
رہ شناسے مے بباید با لباب
ہر رہے را خاصہ اندر راہِ آب
ترجمہ: ہر ایک راستے کے لیے، باعقل راہ شناس کی ضرورت ہے۔ خصوصًا بحری راستے میں (کیونکہ اس میں میلوں اور منزلوں کے نشان نہیں ہوتے۔)
8
خیز و بنگر کاروانِ رہ زدہ
غُول کشتیانِ ایں بحر آمدہ
ترجمہ: اٹھئے! اور لٹے ہوئے قافلہ کو دیکھئے۔ اس سمندر کا ملّاح شیطان بن رہا ہے۔
9
خضرِ وقتی غوثِ ہر کشتی توئی
ہمچو روح اللہ مکن تنہا روی
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلّم خضر زمانہ ہیں، (اور) ہر کشتی کے فریاد رس ہیں۔ روح اللہ (یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام) کی طرح تنہا چلنا اختیار نہ کیجئے۔
مطلب: ”خضر“ استعارہ ہے اس ذات کے لیے جو علومِ لدُنیہ کا افاضہ کرتی ہے، پس یہ لفظ بمعنٰی مفیضِ علومِ لدنیہ ہے، اور مصرعہ کا مطلب یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم اپنے وقت کے مفیضِ علوم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کے سوا اور کوئی یہ منصب نہیں رکھتا۔ یہاں ہرگز ہرگز نہ سمجھنا چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذات مبارک کو حضرت خضر علیہ السّلام سے تشبیہ دی ہے، اور یہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟ جب کہ اعلٰی کی تشبیہ ادنٰی کے ساتھ درست نہیں۔ دوسرے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ جسطرح حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے مخلوق سے تعلق منقطع کر کے حضورِ بحق اختیار کر لیا۔ اے سرور علیک الصلوٰۃ والسّلام آپ ایسا نہ کریں، بلکہ اہلِ استفاضہ کو فیض بخشنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم مخلوق کے ساتھ رہیں، اور شیخِ افضل نے کہا ہے کہ عیسٰی علیہ السّلام زمین پر اکیلے چلا کرتے تھے، کسی کو ہمراہ نہیں لیتے تھے۔ یہاں التجاء کی ہے کہ یا حضرت آپ ایسا نہ کریں۔ بعض دیگر شارحین جو کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم اکیلے معراج پر نہ جائیں، بلکہ امت کو بھی ساتھ شریک کر لیں تو شاید انکی مراد معراج سے معراجِ اولیاء ہوگی، کیونکہ اس قسم کے معراج میں اولیاء و انبیاء علیہم السّلام کے ساتھ شریک ہوسکتے ہیں، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا خاص اپنا معراج آپ صلی اللہ علیہ وسلّم ہی کے ساتھ مختص ہے، کوئی دوسرا نبی بھی اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتا۔ چہ جائیکہ امت اور اولیائے امت کو اس میں دخل میسر ہو۔(بحر)
10
پیشِ ایں جمعے چو شمعِ آسماں
انقطاع و خلوت آری را بماں
ترجمہ: (مخلوق کے) اس مجمع کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم شمعِ آسمان (یعنی آفتاب) کی مانند ہیں۔ (جس کے بغیر مخلوق میں اندھیر ہے۔) قطع تعلقی، اور تنہا نشینی کو چھوڑئیے۔
11
وقتِ خلوت نیست اندر جمع آئے
اے ہدیٰ چوں کوہ قاف و تو ہمائے
ترجمہ: یا (حضرت!) ہدایت مثلِ کوہ قاف ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم مثلِ ہُما ہیں (اگر چہ ہُما مخفی رہتا ہے، مگر یہ) وقت تنہائی کا نہیں، مجمع میں تشریف لائیے (اور لوگوں کو ہدایت کیجئے۔)
12
بدر بر صدرِ فلک شد روآں
شیر را نگذارد از بانگِ سگاں
ترجمہ: ماہ کامل صدرِ آسمان پر رات کو چلتا ہے۔ وہ کتّوں کے بھونکنے سے اپنی رفتار کو بند نہیں کرتا۔
مطلب: مشہور ہے کہ کتّے چاند کو چلتے دیکھ کر بھونکتے ہیں۔کَمَا قِیْلَ ؎
صد مہ نور مے فشاند و سگ بانگ میزند
سگ بپرس خشمِ تو بر مہتاب چیست
مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم طعنہ باز کافروں کی بد گوئی سے نہ گھبرائیں، اپنا کام کئے جائیں۔
13
طاعناں ہمچوں سگاں بر بدرِ تو
بانگ مے دارند سوئے صدرِ تو
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذات مثلِ بدر پر طعنہ زنی کرنے والے (کافر) کتوں کی طرح ہیں۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کے درجۂ عالیہ کی طرف (منہ کر کے) بھونکتے ہیں۔
14
ایں سگاں کراند ز امرِ اَنْصِتُوْا
از سفہ وعوع کناں بربدرِ تو
ترجمہ: یہ کتّے ﴿اَنْصِتُوْا﴾ (یعنی ”خاموش رہو“) کے (خداوندی) حکم سے بہرے ہیں۔ نادانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کے ماہِ کامل پر بھوں بھوں کر رہے ہیں۔
مطلب: اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿وَ اِذَا قُرِئَ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ وَ اَنۡصِتُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ﴾ (الاعراف: 204) یعنی ”اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو کان لگا کر سنو، اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحمت ہو۔“ مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم قرآن مجید کی آیات سناتے ہیں، جسکے پڑھے جانے پر اللہ تعالٰی لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ خاموش رہو، مگر یہ کتّے اللہ کے حکم کی پرواہ نہیں کرتے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کے قرآن مجید پڑھنے پر بھی بھونکتے چلے جاتے ہیں۔
15
ہیں بمگذار اے شفا رنجور را
تو ز خشمِ کر عصائے کور را
ترجمہ: (1) ہاں اے (کمبلی والے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم گناہوں کے) بیمار کے لیے شفا (ہیں) بہرے پر ناراض ہو کر اندھے کی لاٹھی کو نہ چھوڑیے (ان کی لاٹھی پکڑ کر انہیں راہِ ہدایت پر لے جائیے۔)
مطلب: کفار جو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کا کلام نہیں سنتے۔ اور ﴿صُمٌّۢ بُکۡمٌ عُمۡیٌ﴾ (البقرۃ: 18) کے مصداق ہیں۔ ان پر ناراض ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلّم ان لوگوں کو اپنے فیض سے محروم نہ رکھیں، جو گمراہ ہیں مگر طالبِ ہدایت ہیں۔
ترجمہ: (2) ہاں اے شفا (اے مجسم!) آپ صلی اللہ علیہ وسلّم (گناہوں کے) بیمار کا ساتھ نہ چھوڑیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم آنکھوں کا نور ہیں۔ اندھے کے لیے۔
مطلب: آپ صلی اللہ علیہ وسلّم بیمارِ معاصی کے لیے شفا ہیں، اسکو شفا بخشیے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلّم اندھوں کے لیے عصا و پناہ ہیں، تو دل کی آنکھ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم سے نور پاتی ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کا عصا ہونا بایں معنٰی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم آنکھوں کے نور ہیں۔ اندھے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم سے ہدایت کا راستہ پاتے ہیں۔ شیخ ولی محمد نے کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نورِ چشم ہیں عارفوں کے حق میں۔ اگرچہ مقلدوں کے لیے عصا ہیں۔ اور محمد رضا نے کہا ہے کہ قدسیوں کے حق میں نورِ چشم ہیں۔ اگرچہ ہمارے لیے عالمِ شہادت میں گمراہوں کے رہنما ہیں۔ یہ دونوں تقریریں اگرچہ چسپاں ہوسکتی ہیں، لیکن مفہومِ عبارت سے بعید ہیں۔ (بحر العلوم) ہمارے خیال میں یہ نسخہ ہی ناقلین کے تصرّفات کا نتیجہ ہے، جسکے لیے یہ گوناگوں تقریریں کرنی پڑیں، جن میں خود مولانا بحر العلوم کی تقریر بھی داخل ہے۔
16
نے تو گفتی قائدِ اعمٰی براہ
صد ثواب و اجر یابد از اِلٰہ
ترجمہ: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے یہ نہیں فرمایا، کہ اندھے کو راستہ پر لے جانے والے؟ اللہ تعالٰی (کی درگاہ) سے سینکڑوں اجر پاتا ہے۔
17
ہر کہ او چل گام کورے را کشد
گشت آمر زیدہ و یابد رشد
ترجمہ: جو شخص (کسی) اندھے کو چالیس قدم تک لے جائے، وہ بخشا جاتا ہے اور ہدایت پاتا ہے۔
مطلب: حدیث سے منقول ہے: ”مَنْ قَادَ مَکْفُوْفًا اَرْبَعِیْنَ خُطْوَۃً غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَ مَا تَاَخَّرَ“ یعنی ”جو شخص کسی اندھے کو چالیس قدم لے جائے۔ اسکے اگلے پچھلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔“ (بحر) یہ حدیث کئی طرح سے مروی ہے۔ ابو یعلٰی، طبرانی، ابن عدی، ابو نعیم اور بیہقی نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے، نیز ابن عدی نے ابن عباس اور جابر رضی اللہ عنہم سے، اور بیہقی نے ان سے یوں روایت کی ہے: ”مَنْ قَادَ اَعْمٰی اَرْبَعِیْنَ خُطْوَۃً وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ“ اور خطیب نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یوں روایت کی ہے: ”مَنْ قَادَ اَعْمٰی اَرْبَعِیْنَ خُطْوَۃً غُفِرَ لَہ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ“ (کذا فی جامع الصغیر السیوطی)
18
پس بکش تو زیں جہانِ بے قرار
جوقِ کوراں را قطار اندر قطار
ترجمہ: پس آپ صلی اللہ علیہ وسلّم اس ڈگمگانے والی دنیا سے، اندھوں کی جماعت کو قطار در قطار (راہِ ہدایت کی طرف) لے جائیے۔
19
کارِ ہادی ایں بود تو ہادئی
ماتمِ آخر زماں را شادئی
ترجمہ: ہادی کا کام یہی ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم ہادی ہیں۔ آخری زمانہ کے ماتم کے بجائے خوشی (کی بشارت) ہیں۔
20
ہِیں رواں کن اے امام المتّقین
ایں خیالِ اندیشگاں را تا یقین
ترجمہ: ہاں اے پرہیزگاروں کے امام! ان خیالی پلاؤ پکانے والوں کو، یقین تک پہنچا دیجئے۔ (یعنی جن لوگوں کو اللہ تعالٰی کی توحید اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی رسالت میں شک ہے، انکو مرتبۂ یقین پر پہنچا دیجئے۔)
21
ہر کہ در مکرِ تو دارد دل گرو
گردنش را من زنم تو شاد شو
ترجمہ: جس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کو دھوکہ دینے کی دل میں ٹھان رکھی ہے۔ میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم مطمئن رہیں۔ (ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، عقبہ بن ابی معیط وغیرہ دشمنانِ اسلام کا حشر اسی طرح ہوا۔)
22
بر سرِ کوریش کوریہا نہم
او شکر پندارد و زہرش دہم
ترجمہ: میں اس کی (سابقہ) نا بینائی پر (مزید) نا بینائیاں اضافہ کر دوں گا۔ وہ میرے اس سلوک کو شکّر سمجھے گا، حالانکہ میں اس کو زہر دوں گا۔
مطلب: کفار کو جو اللہ تعالٰی مال و جاہ دیتا ہے تو یہ ان کے لیے استدراج ہے، جس سے وہ رفتہ رفتہ پہلے سے زیادہ غفلت اور سیہ باطنی میں مبتلا ہوتے جاتے ہیں۔ وہ ان فوائد دنیویہ کو اپنا اقبال اور خوش نصیبی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ انکے لیے بد ترین ادبار، اور بدقسمتی کا سامان ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا تَحۡزَنۡ عَلَیۡہِمۡ وَ اخۡفِضۡ جَنَاحَکَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴾ (الحجر: 88) ”اور تم ان چیزوں کی طرف ہرگز آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھو جو ہم نے ان (کافروں) میں سے مختلف لوگوں کو مزے اڑانے کے لیے دے رکھی ہیں، اور نہ ان لوگوں پر اپنا دل کڑھاؤ، اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں، ان کے لیے اپنی شفقت کا بازو پھیلادو۔“ ﴿وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡہُمۡ زَہۡرَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا لِنَفۡتِنَہُمۡ فِیۡہِ ؕ وَ رِزۡقُ رَبِّکَ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی﴾ (طٰہٰ: 131) ”اور دنیوی زندگی کی اس بہار کی طرف آنکھیں اٹھا کر بھی نہ دیکھو جو ہم نے ان (کافروں) میں سے مختلف لوگوں کو مزے اڑانے کے لیے دے رکھی ہے، تاکہ ہم ان کو اس کے ذریعے آزمائیں۔ اور تمہارے رب کا رزق سب سے بہتر اور سب سے زیادہ دیرپا ہے۔“ اور حدیث میں فرمایا: ”عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا رَأَيْتَ اللّٰهَ يُعْطِي الْعَبْدَ مِنَ الدُّنْيَا عَلٰى مَعَاصِيْهِ مَا يُحِبُّ فَإِنَّمَا هُوَ اسْتِدْرَاجٌ ثُمَّ تَلَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ﴿فَلَمَّا نَسُوۡا مَا ذُکِّرُوۡا بِہٖ فَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ اَبۡوَابَ کُلِّ شَیۡءٍ ؕ حَتّٰۤی اِذَا فَرِحُوۡا بِمَاۤ اُوۡتُوۡۤا اَخَذۡنٰہُمۡ بَغۡتَۃً فَاِذَا ہُمۡ مُّبۡلِسُوۡنَ﴾ (الانعام: 44) (مسند احمد بن حنبل: 17311) ”عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: جب تم اللہ عزوجل کو دیکھو کہ وہ بندے کو اس کے گناہوں کے باوجود منہ مانگی مرادیں دے رہا ہے تو یہ استدراج ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے یہ آیت پڑھی: ”پھر انہیں جو نصیحت کی گئی تھی، جب وہ اسے بھلا بیٹھے تو ہم نے ان پر ہر نعمت کے دروازے کھول دیئے، یہاں تک کہ جو نعمتیں انہیں دی گئی تھیں، جب وہ ان پر اترانے لگے تو ہم نے اچانک ان کو آ پکڑا، جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بالکل مایوس ہو کر رہ گئے۔“
23
عقلہا از نورِ من افروختند
مکرہا از مکرِ من آموختند
ترجمہ: ان لوگوں نے (اپنی یہ) عقلیں (جن پر انکو ناز ہے) میرے (ہی) نور سے روشن کی ہیں۔ انہوں نے یہ مکر (جن کے بل پر وہ چالاک بنے پھرتے ہیں) میری حکمت سے اخذ کیا ہے۔
24
چیست خود الّاچُقِ آں ترکماں
پیش پائے نرّہ پیلانِ جہاں
ترجمہ: اس صحرا نشین ترکمان کا خیمہ، کودنے والے نر ہاتھیوں کے پاؤں کے آگے کیا چیز ہے؟ (جس کو وہ ایک ہی پاؤں سے درہم برہم کر دیں۔ یہی حال ان لوگوں کے مکر کا ہماری طاقت کے آگے ہے۔)
25
آں چراغِ او بہ پیشِ صرصرم
خود چہ باشد ایں مہیں پیغمبرم
ترجمہ: اے میرے معزز رسول! اس (کے مکر) کا وہ چراغ میری (گرفت کی) آندھی کے آگے کیا (حیثیت رکھتا) ہے؟
26
خیز در دم تو بصورِ سہمناک
تا ہزاراں مردہ بر روید ز خاک
ترجمہ: اٹھو! (اور) آپ ہولناک صور میں پھونک مارو تاکہ ہزاروں مردے خاک سے نکل کھڑے ہوں۔
مطلب: جب حضرت اسرافیل علیہ السّلام قیامت کو صور پھونکیں گے، تو تمام مردے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس تشبیہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم سے خطاب ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم لوگوں کو حق کی طرف ندا کیجئے، تاکہ ہزاروں مردہ دل حیاتِ ایمان سے زندہ ہو جائیں۔
27
چوں تو اسرافیلِ وقتی راست خیز
رُستخیزے ساز پیش از رست خیز
ترجمہ: چونکہ آپ اپنے وقت کے اسرافیل ہیں، اس لیے اٹھ کھڑے ہو جائیے۔ (اور) قیامت سے پہلے قیامت (برپا) کر دیجئے۔
کَمَا قَالَ الْحَالِیْ؎
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمین جس نے ساری ہلا دی
پڑا ہر طرف غل یہ پیغامِ حق سے
کہ گونج اٹھے دشت و جبل نامِ حق سے
28
ہر کہ گوید کو قیامت اے صنم
خویش بنما کہ قیامت نِک منم
ترجمہ: جو شخص کہے کہ قیامت کہاں ہے، اے محبوب! (اسے) اپنا آپ دکھا (کر کہہ) دو کہ دیکھ قیامت میں ہوں۔
مطلب: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذات پاک بمنزلۂ قیامت اس لحاظ سے ہے، کہ قیامت حق و باطل کو الگ کر دکھائے گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذات مبارک بھی حق و باطل کی تفریق و تمیز کی باعث ہے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے ایک مرتبہ اپنی انگشتِ سبابہ اور وسطی کو ملا کر فرمایا: ”بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ“ (بخاری: 6504) یعنی ”میں اور قیامت دونوں اس طرح متصل ہیں جیسے یہ دونوں انگلیاں۔“ یہاں اتصال سے باہم تشبیہ مراد ہے، اور تشبیہ سے حق و باطل میں تفریق کرنے میں تشبہ مقصود ہے۔ اس سے بھی بہتر تاویل یہ ہے جو بعض دیگر شارحین نے کی ہے۔ قیامت میں مردہ زندہ ہو جائیں گے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی بعثت سے وہ روحانی مردے زندہ ہوگئے، جنکی روحانیت جہل کی موت سے مرچکی تھی۔(بحر) حق تعالٰی کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو خطاب یہاں تک تھا۔ آگے مولانا فرماتے ہیں:
29
درنگر اے سائلِ محنت زدہ
زیں قیامت صد جہاں قائم شدہ
ترجمہ: اے (تحقیقات کی) محنت اٹھانے والے سائل! دیکھ۔ اس قیامت (خیز وجود کی بعثت) سے سینکڑوں عالم قائم ہو گئے۔ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے نور سے اٹھارہ ہزار عالم پیدا ہو گئے۔)
30
ور نباشد اہلِ ایں ذکر و قنوت
پس جوابُ الْاَحْمَق اے سلطان سکوت
ترجمہ: اور اگر کوئی (سائل) ان معارف (کو سننے) اور تسلیم کرنے کے قابل نہیں۔ تو حضرت! احمق کا جواب تو خاموشی ہے۔
مطلب: گویا کوئی شخص مدت سے اس امر کی تحقیق میں دماغ سوزی کر رہا ہے، کہ عالم کیونکر پیدا ہوا؟ اس دماغ سوزی کے لحاظ سے اس کو محنت زدہ کہا ہے۔ اب وہ کسی سے سوال کرتا ہے کہ عالم کیونکر پیدا ہوا؟ مجیب نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے نور سے پیدا ہوا ہے۔ اگر اس میں قبول کی صلاحیت ہے، تو وہ اس جواب کو دل و جان سے تسلیم کر لیتا ہے۔ اگر وہ کوئی شکی الطبع سائل ہے، جسکا دل خطرات و وساوس کا گہوارہ ہے، اور وہ اہلِ ذکر نہیں یعنی حقیقی علوم و معارف سے اس کو لگاؤ نہیں۔ نہ وہ اہلِ قنوت یعنی حق بات کو تسلیم کرنے کے لیے آمادہ ہونے والا ہے، تو ایسے جاہل کا جواب خاموشی ہے۔ ”جوابِ جاہلاں باشد خموشی“ آگے مولانا ایسے موقع پر خاموشی کے مناسب ہونے کا ایک ثبوت دیتے ہیں۔ پھر اس تقریر کو جاری رکھنے سے عذر فرمائیں گے:
31
ز آسمانِ حق سکوت آید جواب
چوں بود جاناں دعا نا مستجاب
ترجمہ: اے جان! جب (کسی دعا کرنے والے کی) دعا غیر مقبول ہو، تو حق تعالٰی کے (اجابت کے) آسمان سے (بھی) خاموشی کا جواب ملتا ہے۔ (تو پھر ہم بھی نا قابلِ خطاب لوگوں کے سوال پر کیوں نہ خاموشی اختیار کریں۔)
32
اے دریغا وقتِ خرمن گاہ شد
لیک روز از بختِ ما بیگاہ شد
ترجمہ: ہائے افسوس! کھلیان کا وقت آ گیا۔ لیکن ہماری قسمت (کی نا رسائی) سے دن بے وقت ہوگیا (اور غلہ نکالنے کا موقع نہ رہا۔)
33
وقت تنگ ست و قضائے ایں کلام
تنگ مے آید برو عمرِ دوام
ترجمہ: وقت تنگ ہے، اور اس تقریر کے پورا ہونے کے لیے ابدی زندگی بھی کم ہے۔ (بعض نسخوں میں ”قضائے“ کی بجائے فراخی درج ہے۔)
34
نیزہ بازی اندریں گو ہائے تنگ
نیزہ بازاں را ہمے آرد بہ ننگ
ترجمہ: (مختصر عمر اور غیر فارغ اوقات کے) ان تنگ گڑھوں میں (بیانِ معارف) کی نیزہ بازی۔ نیزہ بازوں کو خجل کرتی ہے (کہ وہ اپنا جوہر نہیں دکھا سکتے۔)
35
وقت تنگ و خاطر و فہمِ عوام
تنگ تر صدرہ ز وقت ست اے غلام
ترجمہ: وقت تنگ (ہے) اور اے عزیز! تمام لوگوں کا دل اور سمجھ۔ وقت سے بھی سو طرح تنگ ہے۔
36
چوں جوابِ احمق آمد خامشی
ایں درازی در سخن چوں میکشی
ترجمہ: جب احمق کا جواب خاموشی (مناسب) ہے۔ تو پھر تم تقریر کو یہ طول کیوں دے رہے ہو۔
مطلب: اوپر مولانا فرما چکے ہیں ”ور نباشد ایں ذکر و قنوت“ پس ”جوابُ الاحمق اے سلطاں سکوت“ مگر ارادۂ سکوت کے بعد بھی مولانا تقریر فرماتے چلے گئے۔ اس پر خود ان کے دل نے یہ اعتراضی آواز اٹھائی، کہ تم اب بھی تقریر کرتے جاتے ہو۔ اسکا جواب خود ہی آگے یہ دیتے ہیں کہ حق تعالٰی شور زمین کو بھی اپنے بارانِ رحمت سے سیراب کر دیتا ہے، تو ہم کو بھی نا اہل لوگوں سے تقریر و بیان میں دریغ نہ کرنا چاہیے۔
37
حق ز بحرِ رحمت و موجِ کرم
مے دہد ہر شورہ را باران و نم
ترجمہ: حق تعالٰی (اپنے) دریائے رحمت اور موجِ کرم سے۔ ہر شور زمین کو بارش، اور طراوت بخشتا ہے۔ (اسی طرح ہم کو بھی ہر کس و ناکس پر اپنا فیض عام کر دینا چاہیے۔)