دفتر چہارم: حکایت: 57
بیانِ آنکہ حصولِ علم و مال و جاہ مر بدگہر را فضیحتِ اوست، و چوں شمشیرست بر دستِ راہزناں
اس بات کا بیان کہ بد اصل کو علم، مال اور مرتبہ حاصل ہونا اسکی رسوائی (کا باعث) ہے، اور ڈاکوؤں کے ہاتھ میں تلوار کی مانند ہے
1
بدگہر را علم و فن آموختن
دادنِ تیغست دستِ راہزن
ترجمہ: بد اصل کو علم و فن سکھانا۔ (گویا) ڈاکو کے ہاتھ میں تلوار دینا ہے۔
مطلب: سفلہ هنرمند ہو کر برائی پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ جامی رحمۃ اللہ علیہ؎
سفلۂ دوں را چوں گردد معدہ سیر
ہر ہزاراں شور و شر گردد دلیر
مولانا بحر العلوم فرماتے ہیں۔ بدگہر سے مراد وہ شخص ہے جو آیاتِ الٰہیہ سے غافل ہو، کہ اسکا مقصودِ حیات دنیا ہو، اور علم کو اسکا وسیلہ بنا کر طریقۂ محمدیہ کی شاہراہ سے رخ پھیر لے، اور اسکو راہزن بدیں لحاظ کہا گیا ہے کہ خود گمراہ ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے، اور اپنے علم کو گمراہ سازی کا آلہ بنانے والا ہے۔ جیسے کہ فلاسفر کا حال ہے، اور بعض متعصّبین اہلِ کلام مثل طوسی و غیرہ، مبتدعین بھی اس زمرہ میں شامل ہیں۔(انتہٰی)
2
تیغ دادن در کفِ زنگیِ مست
بہ کہ آید علم نادان را بدست
ترجمہ: بدمست زنگی کے ہاتھ میں تلوار دے دینا۔ بہتر ہے اس سے کہ بے وقوف کو علم حاصل ہو جائے۔
مطلب: زنگی ایک تو پہلے کم عقل و خونخوار ہوتا ہے، اور اس پر وہ نشے میں ہو، ساتھ ہی ہاتھ میں آ جائے تلوار، تو پھر اسکے ضررِ عام سے خدا بچائے۔ مگر احمق و کینہ کا علم پڑھ جانا اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ وہ ایک طرف اپنے زعمِ علم میں اکابر علماء کو منہ چڑاتا ہے، دوسری طرف خلافِ تحقیق مسائل ایجاد کر کے عوام کے دین و ایمان کو برباد کرتا ہے۔کمَا قِیْلَ ؎
کمینہ قدر چو یابد ز راستی گذرد
پیادہ پیشہ کند کجروی جو فرزیں شد
3
علم و مال و منصب و جاہ و قِران
فتنہ آرد در کف بد گوہراں
ترجمہ: علم اور مال، اور عہدہ اور درجہ، اور خوش نصیبی کا ۔بد اصل لوگوں کو حاصل ہونا خرابی برپا کرتا ہے۔
4
پس عزا زیں فرض شد بر مومناں
تا ستانند از کفِ مجنوں سناں
ترجمہ: پس اسی لیے مسلمانوں پر جہاد فرض ہوا ہے۔ کہ وہ دیوانے کے ہاتھ سے نیزہ چھین لیں۔
مطلب: ”مجنوں“ سے یہاں مراد کفّار ہیں، جو عقلِ معاد سے بے بہرہ اور فہمِ حقائق سے قاصر ہونے کے لحاظ سے گویا دیوانے ہیں۔ اسلام کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔ کفّار کو بزورِ جبر مسلمان بنانا ہرگز اسلام کا مقصود نہیں۔ مؤرخینِ نصارٰی و ہنود جو اسلام کے بزورِ شمشیر پھیلائے جانے کا الزام لگاتے ہیں آہ، یہ انکی سراسر کور چشمی اور ہٹ دھرمی ہے۔ کفار کے ساتھ جہاد کرنے کا راز صرف اس قدر ہے کہ اگر وہ اسلام کے مقصد اعلائے کلمۃ اللہ و تبلیغِ دین میں مانع نہ ہوں، تو اسلام انکے اپنے کفریہ عقائد و اعمال کے پابند رہتے ہوئے بھی، انہیں اپنے سایۂ رحمت میں لے لیتا ہے۔ جسکی صورت یہ ہے کہ انکی جان و مال کی حفاظت، اور ہر قسم کی فوجی خدمات مسلمان سر انجام دیں گے۔ کفار اس خدمت کے عوض میں جزیہ ادا کریں گے، لیکن اگر کفار نے جزیہ دینا منظور نہ کیا، بلکہ اپنے جان و مال کی حفاظت کے بہانہ خود تیغ بکف رہنے پر اصرار کیا، تو اس کے یہ معنٰی ہیں کہ وہ اسلام کے مقاصد میں حارج و مانع ہونے کے امکانات قائم رکھنا چاہتے ہیں، ایسی صورت میں ان کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم ہے۔ حتّٰی کہ ان کی فوجی و جنگی طاقت ٹوٹ جائے۔ یہی مقصد ہے مولانا کے اس قول کا ”تا ستانند از کفِ مجنوں سنان“ اس مضمون کو ہم نے مفتاح العلوم کی جلد چہارم میں پوری شرح و بسط سے لکھا ہے۔ اس جلد کی فہرست مضامین میں بزیرِ عنوان تراجم و سیر تلاش کرنا چاہیے۔ مولانا کا خاص مقصود یہاں یہ ہے کہ بد طینت عالم، اور دنیّ النفس مالدار جو اکابرِ دین کی ایذا، اور عوام کے اغوا کا باعث ہو، کشتنی و گردن زدنی ہے۔ اسی مقصود کی تمثیل میں بچھو اور دیوانہ کافر کی مثالیں پیش فرمائی ہیں۔ چنانچہ دیوانہ کی مثال کو چسپاں کرتے ہیں:
5
جانِ او مجنوں تنش شمشیرِ او
وا ستان شمشیر را زیں زشت خو
ترجمہ: اس کی روح مجنون ہے، اور اسکا جسم اس کی تلوار ہے۔ (جس طرح مجاہدین دیوانگانِ کفر کے ہاتھ سے تلوار چھین لیتے ہیں۔ اسی طرح تم بھی) اس بد خصلت سے تیغِ (جسم) چھین لو (یعنی اسکو قتل کر ڈالو۔)
6
آنچہ منصب مے کند با جاہلاں
از فضیحت کے کند صد ارسلاں
ترجمہ: جاہل لوگوں کے ساتھ (انکا) منصب جس قدر رسوائی کرتا ہے۔ (وہ) سو شیر (بھی کسی کے ساتھ) کیا کریں گے۔
7
عیبِ او مخفی ست چوں آلت بیافت
مارش از سوراخ بر صحرا شتافت
ترجمہ: اسکا عیب چھپا ہوا ہے، (جب تک اسکو اظہارِ عیب کا سامان نہیں ملا پھر) جب اس نے سامان پایا۔ تو (بدطینتی کا) سانپ (خفا) کے بل سے نکل کر جنگل کی طرف چڑھ دوڑا۔
8
جملہ صحرا مار و کژدم پُر شود
چونکہ جاہل شاہِ حکم مُر شود
ترجمہ: (1) جب جاہل تلخ حکم والا بادشاہ بن جائے۔ تو تمام جنگل سانپ بچھو سے پُر ہو جاتا ہے۔
(2) جب جاہل وسیع اقتدار کا بادشاہ بن جائے۔ تو سارے جنگل پر سانپ بچھو (مجتمع) ہو جاتے ہیں۔
مطلب: بادشاہ یا حاکمِ صوبہ، جاہل بدطینت ہو، تو تمام ملکی صیغے ظالم، بے رحم، غیر مدبر، راشی، بدکار عیش پرست، افسروں سے بھر جاتے ہیں۔ آج کل ہندوستان کی کئی دیسی ریاستیں اس قول کا صحیح مصداق ہیں، اور تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں ہر زمانہ ایسے نظائر پیش کرتا رہا ہے۔ اس سے آگے ہمارے نسخہ میں یہ بیت درج ہے:
چوں قلم در دستِ غدارے بود
لاجرم منصور بر دارے بود
حالانکہ یہ شعر پیچھے دفتر سوم میں گزر چکا ہے، اور وہاں ہم اسکی تاویل مدلّل طریق سے کر چکے ہیں، جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ اس شعر میں منصور بن حلّاج علیہ الرحمۃ کے فتوائے قتل پر دستخط کرنے والے علماء پر غداری کا الزام نہیں ہے۔ جیسے کہ بظاہر مفہوم ہوتا ہے بلکہ اس میں وہ زیر موردِ الزام ہے جو منصور کا خاص دشمن تھا، اور وہی اسکا محرکِ قتل تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی ناقل نے اپنی جودتِ طبع سے یہ شعر دوبارہ یہاں نقل کر دیا، جسکا قوی ثبوت یہ ہے کہ دوسرے کسی مطبوعہ و قلمی نسخے میں یہاں شعر درج نہیں۔
9
مال و منصب ناکسے کارد بدست
طالبِ رسوائیِ خویش آمدست
ترجمہ: مال اور عہدہ جو کوئی نالائق حاصل کرے۔ تو وہ اپنی خواری کا طالب ہے۔
10
یا کند بخل و عطاہا کم دہد
یا سخا آرد بنا موضع نہاد
ترجمہ: یا تو وہ کنجوسی کرے گا اور عطیات نہیں دے گا۔ یا (حد سے زیادہ) سخاوت کرے گا (اور) بے موقع دے گا۔
مطلب: اہلِ علم و ہنر وغیرہ مستحقین کو پھوٹی کوڑی تک نہ دے گا، اور اشرار و مفسدین کو بلا استحقاق مالا مال کر دے گا۔ جن کا تمول و اقتدار، خلقِ خدا کی تباہی کا باعث ہوتا ہے۔
11
شاہ را در خانۂ بیذق نہد
ایں چنیں باشد عطا کاحمق دہد
ترجمہ: بادشاہ کو پیادے کے گھر میں رکھتا ہے۔ وہ اس قسم کی عطا ہوتی ہے جو احمق دیتا ہے۔
مطلب: شاہ شطرنج کا بڑا مہرہ ہوتا ہے، اور بیذق یا پیادہ سب سے ادنٰی یعنی وہ شاہانہ انعام و اکرام کا مصرف دنیا جہاں کے غنڈوں، بدمعاشوں، بھانڈوں، مسخروں، ڈوموں، مراثیوں کو بناتا ہے۔
12
حکم چوں در دست گمراہے فتاد
جاہ پندارید در چاہے فتاد
ترجمہ: جب حکومت کسی گمراہ کے ہاتھ آ گئی۔ تو سمجھو کہ اقبال کنویں میں گر گیا۔
13
رہ نمیداند قلاؤزی کند
جانِ زشتِ او جہاں سوزی کند
ترجمہ: وہ (خود) راستہ جانتا نہیں اور (لوگوں کی) رہنمائی کرتا ہے۔ اس کی بد اصل روح جہان کو تباہ کر رہی ہے۔
14
طفل راہِ فقر چو پیری گرفت
پیرواں را غُول ادبیری گرفت
ترجمہ: بچے نے ایک پیر (و مرشد) کی طرح فقر و درویشی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ (خدا خیر کرے گویا) چھلاوے نے (اپنے) پیروؤں کے لیے بد بختی کا سامان کیا ہے۔ (”ادبیر“ امالہ ہے ادبار کا)
15
کہ بیا تا ماہ بنمایم ترا
ماہ را ہرگز ندید آں بے ضیا
ترجمہ: (اور دعوٰی یہ ہے) کہ آؤ تاکہ میں تم کو چاند دکھاؤں۔ حالانکہ اس اندھے نے چاند کو (خود بھی) ہر گز نہیں دیکھا۔ (شیخِ ناقص لوگوں کو مرید کرتے وقت توقّع دلاتا ہے، کہ میں تم کو سلوک طے کراؤں گا۔ حالانکہ وہ خود سالک نہیں، بلکہ کچھ بھی نہیں، ٹھگ ہے۔)
16
چوں نمائی چوں ندیدستی بعمر
عکسِ مہ در آب ہم اے خامِ غمر
ترجمہ: اے خام طبع (اور) نادان لڑکے! تو نے عمر بھر چاند کا عکس بھی پانی میں نہیں دیکھا، تو دوسروں کو (چاند) کیا (خاک) دکھائے گا؟
مطلب: ایسے شخصِ ناقص سے کوئی اتنا پوچھے کہ تو لوگوں کو حق کے مظاہر کا مشاہدہ کیا خاک کرائے گا؟ جب کہ تو خود مظاہر کو بھی نہیں جانتا۔ یہاں تک تین شعروں میں حکامِ نا اہل کی نظیر میں شیوخِ غیر سالک کا ذکر کیا تھا۔ اب پھر نا اہل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں:
17
احمقاں سرور شدستند و ز بیم
عاقلاں سرہا کشیدہ در گلیم
ترجمہ: احمق لوگ سردار بن گئے، اور (انکے شر و فساد کے) خوف سے۔ عقلمند لوگوں نے کمبل میں سر چھپا لیا۔ کما قال السعدی الشیرازی رحمۃ اللہ علیہ ؎
نا سزائے را چو بینی بختیار
عاقلاں تسلیم کردند اختیار
چوں نداری ناخنِ درّندہ تیز
بابداں آں بہ کہ کم گیری ستیز
”گلیم“ کے لفظ سے مولانا کا ذہن فورًا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی گلیم پوشی کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ چنانچہ حق تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کو ﴿یَاَیُّھَا الْمُزَمِّلُ﴾ (مزمل: 1)کا خطاب اسی لحاظ سے فرمایا، اور مولانا کے نزدیک اس خطاب سے مقصد یہ تھا کہ اے پیغمبر! کمبل سے سر نکالو اور دنیا سے شر و فساد کا خاتمہ کردو، اور مولانا کا مقصود اس ذکر سے اہل علم و اربابِ عقل کو حوصلہ دلانا ہے، کہ تم نا اہل لوگوں کے خوف سے کمبل میں سر نہ چھپاؤ۔ اللہ تعالٰی کا نام لے کر اٹھو، اور باطل پرستی کے طلسم کو توڑ ڈالو۔ چنانچہ فرماتے ہیں: