دفتر 4 حکایت 56: حضرت سلیمان علیہ السّلام کا مسجد اقصٰی کے ایک گوشے میں خروب کے اگنے سے غمگین ہونا، جب کہ خروب نے گفتگو کی اور اپنی خاصیت بیان کی

دفترِ چہارم: حکایت: 56

غمگین شدنِ سلیمان علیہ السّلام از خروب رستن در گوشۂ مسجدِ اقصٰی، چوں خروب بسخن در آمد و خاصیتِ خود گفت

حضرت سلیمان علیہ السّلام کا مسجد اقصٰی کے ایک گوشے میں خروب کے اگنے سے غمگین ہونا، جب کہ خروب نے گفتگو کی اور اپنی خاصیت بیان کی

1

ہمچنیں روزے سلیماںؑ از قضا

شد بعادت مسجد اندر اے فتٰی

ترجمہ: (غرض اے جوان!) اسی طرح ایک دن حضرت سلیمان علیہ السّلام اتفاق سے، حسبِ عادت مسجد میں گئے۔

2

نو گیاہے دید اندر گوشۂ

رُستہ بر وے دانہ ہمچوں خوشۂ

ترجمہ: ایک (قسم کی) نئی گھاس (مسجد کے) ایک کونے میں دیکھی، اسکے اوپر خوشہ کی طرح دانے آگے (ہوئے) تھے۔

3

دید بس نادر گیاہے سبز و تر

مے ربود آں سبزیش نور از بصر

ترجمہ: انہوں نے بڑی عجیب ہری بھری گھاس دیکھی۔ جسکی وہ سبزی آنکھوں کو چندھیا رہی تھی۔

4

پس سلامش کرد در دم آں حشیش

او جوابش گفت و بشگفت از خوشیش

ترجمہ: پس اس گھاس نے فورًا انکو سلام کیا۔ انہوں نے اسکا جواب دیا، اور اسکی تازگی سے خوش ہوئے۔

5

گفت نامت چیست برگو بے دہاں

گفت خرُّوب ست اے شاہِ جہاں

ترجمہ: فرمایا تیرا نام کیا ہے؟ منہ کے بغیر ہی بتا دے، وہ بولی اے بادشاہِ عالم، (میرا نام) خرّوب ہے۔

6

گفت اندر تو چہ خاصیت بود

گفت من رستم مکاں ویراں شود

ترجمہ: فرمایا تیرے اندر کیا خاصیت ہے؟ وہ بولی میں اگ پڑوں تو مکان ویران ہو جاوے۔

7

من کہ خرُّوبم خرابِ منزلم

ہادمِ بنیادِ ایں آب و گِلم

ترجمہ: میں جو خروب ہوں، تو گھر کی خرابی (کی باعث) ہوں۔ اس پانی اور مٹی کی (بنی ہوئی) عمارت کو ڈھا دینے والی ہوں۔

8

پس سلیمانؑ آں زمانے دانست زُود

کہ اجل آمد سفر خواہد نمود

ترجمہ: تو حضرت سلیمان علیہ السّلام نے اس وقت فورًا سمجھ لیا۔ کہ موت (قریب) آ گئی، (اب وہ) سفرِ (آخرت) کرنے والے ہیں۔

9

گفت تا من ہستم ایں مسجد یقیں

در خلل ناید ز آفات زمیں

ترجمہ: انہوں نے (اپنے دل میں) کہا جبتک میں ہوں، یقینًا یہ مسجد آفاتِ ارضی سے خلل پذیر نہ ہوگی۔

10

تا کہ من باشم وجودِ من بود

مسجدِ اقصٰی مخلّل کَے شود

ترجمہ: جب تک میں زندہ ہوں (اور) میرا وجود (دنیا میں) رہے گا۔ مسجدِ اقصٰی کب خلل پذیر ہوسکتی ہے؟

11

پس خراب مسجد ما بے گماں

نبود اِلّا بعد مرگِ ما بداں

ترجمہ: پس یاد رکھو کہ بلاشبہ ہماری مسجد کی ویرانی۔ ہمارے مرنے کے بعد ہی ہوگی۔ (اب اس قصّے سے مولانا ایک مفید سبق دیتے ہیں:)

12

مسجدست ایں دل کہ جسمش ساجدست

یارِ بد خرّوب ہر جا مسجدست

ترجمہ: یہ قلب (گویا) مسجد ہے جسکا نمازی قالب ہے۔ جہاں مسجد (یعنی قلب) ہے، وہاں برا دوست خروب ہے (جو قلب کو تباہ کر دیتا ہے۔)

13

یارِ بد چوں رست در تو مہرِ او

ہیں ازو بگریز و کم کن گفتگو

ترجمہ: برے دوستوں کی محبت جب تمہارے دل میں پیدا ہو جائے تو (پھر تمہارے لیے سخت خطرناک معاملہ ہے۔) خبردار! اس سے بھاگو، اور (اس سے) بات تک نہ کرو۔

14

برکن از بیخش کہ گر سر بر زند

مرترا و مسجدت را برکند

ترجمہ: اس (کی محبت کی بوٹی) کو جڑ سے اکھاڑ ڈالو۔ کیونکہ اگر وہ ابھر آئی تو تم کو اور تمہاری مسجد (قلب) کو تباہ کر دے گی۔

15

عاشقا خرّوبِ تو آمد کژی

ہمچو طفلاں سوئے کژ چوں مے غژی

ترجمہ: اے عاشق! تیری خرّوب (راہِ استقامت سے) کجی ہے۔ تو بچوں کی طرح کجی کی طرف کیوں گھٹنوں کے بل چلتا ہے؟

مطلب: ”عاشق“ سے سالک مراد ہے، جو عشقِ الٰہی میں راہِ سلوک طے کر رہا ہے، اور ”کجی“ سے اتباعِ مرشد سے روگردانی مراد ہے، یعنی اپنے آپ کو باکمال سمجھنا، اور مرشد کے اتباع کی چنداں پروا نہ کرنا۔ اس لیے اس سالک کو بچوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے جنکو اچھی طرح چلنا نہیں آتا، اور وہ گھٹنوں کے بل یا زمین پر سرین کو رگڑتے ہوئے چلتے ہیں، اور ”عژیدن“ کے معنٰی یہی ہیں، یعنی سالکِ غیر کامل راہِ سلوک سے نا بلد ہونے کے باعث گویا گھٹنوں کے بل چلنے والا ہے۔ آگے فرماتے ہیں کہ اپنے آپکو ناقابل اور محتاجِ تعلیم سمجھ کر مرشد کے حوالہ کر دو۔ خود پسندی نہ کرو کہ یہ مانعِ ترقّی ہے:

16

خویش را نادان و مجرم گو بترس

تا نہ دزدد از تو ایں استاد درس

ترجمہ: اپنے آپ کو (از راہِ تواضع) بے علم اور قصور وار کہو اور (غرور کے نتائج سے) ڈرو۔ تاکہ یہ شیخِ (طریقت) تعلیم دینے میں تم سے دریغ نہ کرے۔

17

چوں بگوئی جاہلم تعلیم دِہ

ایں چنیں انصاف از ناموس بہ

ترجمہ: جب تم کہو گے کہ میں بے علم ہوں (مجھے) تعلیم دیجئے۔ (تو وہ ضرور مہربان ہو کر تم کو تعلیم دے گا، اور) ایسا انصاف (خواہ اس میں اپنے نفس کی ذلّت ہوتی ہو) بزرگ باشی سے اچھا ہے۔

18

از پدر آموز اے روشن جبیں

رَبَّنَا گفت وَ ظَلَمْنَا پیش ازیں

ترجمہ: اے روشن پیشانی (سالک! تواضع اور اعترافِ قصور) اپنے باوا (آدم علیہ السلام) سے سیکھو۔ جنہوں نے اس سے پیشتر ہی ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا﴾ (اعراف: 23) کہا۔ (یہ قصّہ کئی بار پیچھے درج ہو چکا۔)

19

نے بہانہ کرد و نے تزویر ساخت

نے لوائے مکر و حیلت بر فراخت

ترجمہ: نہ انہوں نے (کوئی) بہانہ کیا، نہ فریب کیا۔ نہ مکر و حیلہ کا جھنڈا بلند کیا۔

20

باز آں ابلیس بحث آغاز کرد

کہ بُدم من سرخرو کردیم زرد

ترجمہ: پھر اس ابلیس نے بحث شروع کر دی۔ کہ میں سرخرو تھا (الٰہی) تو نے مجھے خجل کیا۔

مطلب: ادھر تو حضرت آدم علیہ السّلام کا وہ عجز و انکسار، اور ادھر ابلیسِ لعین کا یہ غرور و استکبار کہ حقِ تعالٰی سے بحث شروع کر دی، اور کہنے لگا میں ایسا اہلِ طاعت تھا اور معلم الملکوت تھا تو ہی نے مجھے اس سجدہ کے امتحان میں ڈال کر مطعون و ملعون کیا۔

21

رنگ رنگِ تست صبّا غم توئی

اصلِ جرم و آفت و داغم توئی

ترجمہ: (یہ میرا بدبختی کا) رنگ تیرا ہی (چڑھایا ہوا) رنگ ہے (کیونکہ) رنگنے والا تو ہی ہے۔ میرے جرم اور آفت اور داغ کا اصل (باعث) تو ہے۔

22

ہیں بخواں رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ

تا نگردی جبری و کژ کم تنی

ترجمہ: ہاں ہاں (شیطان کا قول) ﴿رَبِّ بِمَا اَغْوَیْتَنِیْ﴾ (حجر: 39) پڑھ لو۔ تم (ابلیس کی طرح) جبر کے قائل نہ ہونا، اور (روباہ کی طرح مکر و فریب سے) ٹیڑھے چکر نہ لگانا۔

مطلب: اوپر مرشد سے فیض حاصل کرنے کے لیے تواضع و انکسار اختیار کرنے کا ذکر تھا۔ تواضع کے بیان میں سب سے بڑی مثال حضرت آدم علیہ السّلام کی دی جنہوں نے اپنے قصور کا اعتراف ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا﴾ (اعراف: 23)کہہ کر کیا۔ بخلاف اسکے ابلیس نے بجائے اعترافِ تقصیر کے الٹا مباحثانہ تقریر شروع کر دی۔ حضرت آدم علیہ السّلام نے ظلم کو اپنے آپ سے منسوب کیا تھا کہ ارتکاب ہم سے ہوا اور شیطان نے اغوا کو خدا سے منسوب کیا۔ چنانچہ اس نے کہا: ﴿قَالَ فَبِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاَقۡعُدَنَّ لَہُمۡ صِرَاطَکَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ﴾ (الاعراف: 16) ”کہنے لگا: اب چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے اس لیے میں (بھی) قسم کھاتا ہوں کہ ان (انسانوں) کی گھات لگا کر تیرے سیدھے راستے پر بیٹھ رہوں گا۔“ یہاں تک تو صرف تواضع اور تکبر کا تقابل دکھانا مقصود تھا، جس میں اعترافِ تقصیر اور ادّعائے بے تقصیری کی دو متقابل نظیریں پیشِ نظر ہیں۔ اب اس سے جبر و اختیار کا مسئلہ چھڑگیا یعنی حضرت آدم علیہ السّلام نے تو کہا کہ اے ہمارے پروردگار خود ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا، جس میں انہوں نے ظلم کا ارتکاب بااختیارِ خود کرنے کا اقرار کیا۔ بخلاف اسکے ابلیس نے کہا: ”اَغْوَیْتَنِیْ“ یعنی اے پروردگار تو نے ہی مجھے گمراہ گیا، پس اس نے اغوا و ضلال کے فعل کو خدا سے منسوب کیا، اور خود مسلوب الاختیار اور مجبورِ محض بن گیا۔ اس لیے مولانا دوسرے مصرعہ میں ہدایت فرماتے ہیں کہ خبردار! تم شیطان کی طرح جبر کے گمراہانہ خیال کے قائل نہ ہو جانا، کہ کہیں خود ارتکابِ معاصی کے بعد کہنے لگو خدا ہی ہم سے گناہ کراتا ہے۔ نَعُوْذُ بِاللہِ۔ آگے مولانا جبر کی تردید فرماتے چلے گئے ہیں:

23

بر درختِ جبر تا کہ بر جہی

اختیارِ خویش را یک سُو نہی

ترجمہ: (اے عقیدۂ جبر کے مدّعی) تو جبر کے درخت پر کب تک اچھلتا پھرے گا؟ اور اپنے (خدا داد) اختیار کو ایک طرف رکھے گا۔

24

ہمچو آں ابلیس و ذُرّیَّاتِ او

با خدا در جنگ و اندر گفتگو

ترجمہ: تو شیطان اور اسکی اولاد کی طرح۔ خداوند تعالٰی کے ساتھ جھگڑا اور بحث کرنے میں (مصروف) ہے۔

مطلب: جس طرح شیطان نے کہا، اے پروردگار! تو نے مجھے گمراہ کیا۔ اسی طرح تیرا یہ عقیدہ کہ جو برے کام تو کرتا ہے، وہ تجھ سے خدا کراتا ہے۔ شیطان کے قول کا ہم معنٰی ہے۔ پس گویا تو بھی خدا کے ساتھ خصومت و نزاع کر رہا ہے۔

25

چوں بود اکراہ با چندیں خوشی

کہ تو در عصیاں ہمے دامن کشی

ترجمہ: (تو جو اپنے آپ کو مجبور سمجھتا ہے، بھلا اتنا تو بتا کہ) اتنی خوشی کے ساتھ مجبوری کیونکر ہو سکتی ہے؟ کہ تو گناہوں میں (بخوشی) دامن کشاں ہوتا ہے۔ (کیا کوئی کام مجبور ہو کر بھی خوشی سے کیا جاتا ہے۔)

26

آنچناں خوش کس رود در مکرہی

کہ چناں رقصاں رود در گمرہی

ترجمہ: (کیا بھلا) کوئی شخص مجبوری (کے مقام) میں اس طرح خوشی کے ساتھ جاتا ہے؟ جس طرح وہ گمراہی میں (بخوشی کودتا) ناچتا جاتا ہے؟

27

بیست مَردہ جنگ مے کردی دراں

کت ہمی دادند پندِ آں دیگراں

ترجمہ: دوسرے لوگ جو تجھے نصیحت کرتے تھے (کہ یہ گناہ نہ کر) تو اس (بارے) میں (اکیلا) بیس مردوں کے برابر جنگ کرتا تھا۔

28

کہ صوابِ ایں ست و راہ اینست و بس

کہ زند طعنہ مرا جز ہیچ کس

ترجمہ: کہ بہتر (کام) یہی ہے (جو میں کر رہا ہوں) اور (صحیح) راستہ یہی ہے۔ (جس پر میں چل رہا ہوں) اور پس سوائے کسی ناچیز آدمی کے کون ہے جو مجھے طعنہ دے؟ (یعنی تجھ کو اپنی اس غلط کاری و غلط روی پر اس قدر وثوق و اطمینان ہے کہ گویا کوئی عاقل آدمی تیری مخالفت نہیں کرے گا۔ اگر مخالف ہوگا تو کوئی ناچیز و ناقابلِ التفات ہی مخالف ہو گا۔)

29

کے چنیں گوید کسے کو مکرہست

چوں چنیں جنگد کسے کو بے رہست

ترجمہ: (بھلا) جو شخص مجبور ہے وہ یوں مدعیانہ بات کب کہہ سکتا ہے؟ جو شخص (جبرًا) الٹے راستے پر (ڈالا گیا) وہ اس طرح اپنی راست روی کے دعوے پر کیونکر بحث کر سکتا ہے؟

30

ہرچہ نفست خواست داری اختیار

ہرچہ عقلت خواست آری اضطرار

ترجمہ: جو کچھ تیرا نفس چاہے (اس کے کرنے کا) تو اختیار رکھتا ہے۔ (اور) جو کچھ تیری عقل چاہے تو (اس پر اپنی مجبوری کا عذر) پیش کرتا ہے۔

مطلب: یہ عقیدہ جبر کی بیہودگی کی دلیل ہے، یعنی اس عقیدہ والا اپنے نفس کے اتباع میں ہر قسم کے جرائم و معاصی تو پورے اختیار کے ساتھ اور بڑی خوشی و دلچسی سے کرتا ہے، مگر جب عقل معاد، طاعت و عبادت کا مشورہ دیتی ہے، تو کہنے لگتا ہے میں مجبور ہوں، خدا نے مجھ کو طاعات کی توفیق ہی نہیں دی۔ اگر وہ مجھ سے طاعت کرانا چاہتا تو میرے دل میں شوق ڈال دیتا۔ پس یہ سب شیطانی و نفسانی فریب ہیں۔

31

داند آں کو نیک بخت و محرم است

زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است

ترجمہ: جو شخص نیک بخت اور محرم ہے۔ وہ جانتا ہے کہ چالاکی ابلیس کا کام ہے، اور عشق حضرت آدم علیہ السّلام کا۔

مطلب: ”زیرکی“ سے مراد وہ چالاکی ہے جس کو اپنے ارادہ و مقصد کے پورے کرنے کے لیے عمل میں لایا جائے، اور خیال یہ ہو کہ میرا مقصد بالکل درست ہے۔ اگرچہ وہ فی نفسہٖ قبیح ہو، جیسے کہ شیطان نے حضرت آدم علیہ السّلام کے آگے سجدہ نہ کرنا درست سمجھا، اور اس پر اصرار و تکرار کرتا رہا۔ ”عشق“ سے مراد فرطِ محبت ہے۔ ایسی محبت والا وہی کام کرنا پسند کرتا ہے جس میں محبوب خوش ہو۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السّلام کو معلوم تھا کہ حضرتِ حق کی خوشنودی اسی میں ہے کہ اپنے قصور کا اعتراف کیا جائے۔ اس لیے انہوں نے مدتوں توبہ و استغفار کی اور اپنے گناہ کا اعتراف کیا۔ ابلیس اپنی زیرکی و چالاکی سے شقی ہوگیا، اور حضرت آدم علیہ السّلام اپنے عشق کی بدولت وہی سعید کے سعید رہے، اور مراتبِ عالیہ کو پہنچے۔

32

زیرکی آمد سباحت در بحار

کم رہد غرق ست او پایانِ کار

ترجمہ: چالاکی (گویا) دریاؤں میں تیرنا ہے۔ وہ تیرنے والا آخر ڈوب کر رہتا ہے (ڈوبنے سے) نجات نہیں پاتا۔ (بحث و جدل، اور حجت و تکرار کی عادت، سنگ دل و سیاہ باطن بنا دیتی ہے، جس کا انجام عمومًا خراب ہوتا ہے۔)

33

ہِل سباحت را رہا کن کبر و کیں

نیست جیحوں نیست جُو دریاست ایں

ترجمہ: تو تیراکی (یعنی چالاکی) کو چھوڑ دے، تکبر اور عداوت کو ترک کر دے۔ (جو تجھے اہلِ حق کے ساتھ ہے۔) یہ (کوئی) دریا نہیں، نہر نہیں، بلکہ سمندر ہے۔

34

وانگہاں دریائے ژرف بے پناہ

در رُباید ہفت دریا را چو کاہ

ترجمہ: اور پھر سمندر بھی گہرا اور بے پناہ۔ جو ساتوں سمندروں کو تنکے کی طرح (بہا) لے جائے۔

35

عشق چوں کشتی بود بہرِ خواص

کم بود آفت بود اغلب خلاص

ترجمہ: عشق (اللہ کے) خاص بندوں کے لیے بمنزلۂ کشتی ہے۔ جس میں آفت کم ہے، اور سو بسو نجات (متوقّع ہے۔)

مطلب: جس بندے پر خداوند تعالٰی کا عشق غالب ہو، اس پر کوئی اعتقادی شک و شبہ وارد نہیں ہوسکتا۔ اسکی کشتیِ ایمان تمام آفات سے محفوظ رہتی ہے۔

36

زیرکی بفروش و حیرانی بخر

زیرکی ظن است و حیرانی نظر

ترجمہ: (لہٰذا ہوشیاری و چالاکی کسی کو) دے ڈالو اور (عاشقانہ) حیرانی خرید لو۔ چالاکی (محض) ظن ہے، اور حیرانی مشاہدہ ہے۔ (استدلال محض مفیدِ ظن ہے، اور عشق مفیدِ یقین بلکہ شہود۔)

37

عقل قربان کن بہ پیشِ مصطفٰیؐ

حَسْبِیَ اللہُ گو کہ اللہ ام کَفٰی

ترجمہ: عقل کو حضرت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم پر قربان کر دو۔ (پھر) کہو ”حَسْبِیَ اللہُ“ کہ (اسکے معنٰی ہیں) ”اللہ میرے لیے کافی ہے۔“ (استدلال بالعقل کے بجائے تعلیماتِ پیغمبری سے استفادہ کرو۔ انکی مقتضیات پر چلو، اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔)

38

ہمچو کنعان سر ز کشتی وا مکش

کہ غرورش داد نفسِ زیر کش

ترجمہ: کنعان (بن نوح علیہ السّلام) کی طرح کشتی (پر چڑھنے) سے سرتابی نہ کرو۔ جسکو اس کے چالاک نفس نے دھوکا دیا۔

39

کہ بر آیم بر سرِکوہِ مشید

منتِ نوحم چرا باید کشید

ترجمہ: کہ میں (طوفان کے وقت) کسی مضبوط پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا۔ نوح کا احسان مند مجھے کیوں ہونا چاہیے؟

40

چوں رہی از منّتش اے بے رشد

کہ خدا ہم منّتِ او مے کشد

ترجمہ: اے بے ہدایت (کنعان!) تو انکی احسان مندی کیوں نہیں اٹھاتا؟ جب کہ خدا بھی انکی ناز برادری کرتا ہے۔

مطلب: مولانا بحر العلوم کہتے ہیں کہ بظاہر ”او“ کی ضمیر نوح علیہ السّلام کی طرف راجع ہے، لیکن زیادہ صواب یہ ہے کہ یہ بیت مربوط ہے۔ اس بیت سے کہ ”عقل قربان کن بہ پیشِ مصطفٰی“ پس یہ ضمیر مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلّم کی طرف راجع ہے، اور ”منت کشیدن“ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی شفاعت قبول کرنا، اور مخلوق کے گناہوں سے درگزر فرمانا مراد ہے۔(انتہٰی) یہ توجیہ بھی معقول ہے کیونکہ سیاق کلامِ جبری کے لیے ہے جسکو کہا ہے کہ اپنے عقلی استدلال پر بھروسہ نہ کرنا، جس نے حضرت نوح علیہ السّلام کا احسان مند ہونا گوارا نہ کیا۔ پھر اسی جبری کو خطاب کرتے ہیں کہ ارے تو کیا منہ رکھتا ہے جو کنعان کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا احسان مند ہونا گوارا نہ کرے، جب کہ وہ خدا کے محبوب ہیں اور خدا کو انکی ہر طرح خاطر منظور ہے۔ نیچے کے شعر سے بھی صاف اسی بات کی تائید ہوتی ہے، کہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم ہی مراد ہیں۔ حضرت نوح علیہ السّلام مراد نہیں۔ چنانچہ ارشاد ہے:

41

چوں نباشد منتش بر جانِ ما

چونکہ شکرِ منتش گوید خدا

ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کا احسان ہماری جان پر کیوں نہ ہو۔ جبکہ خدا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی قدر کرتا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی نیکی مانتا ہے۔ (تقریرِ ثانی کی تائید اس شعر کے ان الفاظ سے ہوتی ہے ”چوں نباشد منتش“ کیونکہ امت محمدیہ پر یہ احسان خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کا ہے نہ کہ کسی دوسرے پیغمبر کا۔)

42

تو چہ دانی اے غرارہ پُر حسد

کہ نہادن منتِ او را مے رسد

ترجمہ: اے پُرحسد! مغرور تو کیا جانے؟ کہ انکو ہم پر احسان رکھنے کا حق (حاصل) ہے۔ (آگے پھر کنعان کا غائبانہ ذکر ہے جس سے ظاہر ہے کہ یہ خطاب جبری سے تھا نہ کہ کنعان سے۔)

43

کاشکے او آشنا ناموختے

تا طمع در نوحؑ و کشتی دوختے

ترجمہ: کاش وہ (کنعان) تیرنا نہ سیکھتا۔ تاکہ حضرت نوح علیہ السّلام اور (انکی) کشتی سے اپنی غرض وابستہ رکھتا۔

مطلب: اسکو تیرنا آتا تھا۔ اس لیے وہ غلطی سے اپنے آپ کو کشتی سے بے نیاز تصور کرنے لگا، اور زیادہ تر تیراک ہی ڈوبتے ہیں۔ اگر تیراک نہ ہوتا تو طوفان میں ڈوبنے سے ڈرتا، اور پھر خواہ مخواہ کشتی میں پناہ گیر ہونے پر آمادہ ہوتا، اور حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لے آتا۔ اسی طرح خدا کرے کسی کو زیرکی، چالاکی، حجت بازی، استدلالِ عقلی اور فلسفیانہ موشگافی کی لَتّ نہ لگے، تاکہ بزرگانِ دین کے ارشادات بلاچون و چرا تسلیم کر لے، اور اپنا ایمان دنیا سے سلامت لے جائے۔

44

کاش چوں طفل از حیل جاہل بُدے

تا چو طفلاں چنگ در مادر زدے

ترجمہ: کاش وہ بچے کی طرح حیلہ جوئی سے بے خبر ہوتا۔ تاکہ بچوں کی طرح ماں کا سہارا ڈھونڈتا۔ (یعنی ایسے علم سے بے علم ہونا اچھا ہے، اور اگر علم بھی ہو تو ایسا ہو جس کا ذکر آگے آتا ہے:)

45

یا بعلم نقل کم بودے ملی

علمِ وحی دل ربودے از ولی

ترجمہ: یا وہ سنے سنائے (رسمی) علم سے پُر نہ ہوتا۔ بلکہ کسی ولی اللہ سے ملہماتِ قلب کا علم حاصل کرتا۔

مطلب: یہ عام لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے، یعنی اچھا ہوتا کہ لوگ بجائے اسکے کہ منطق و فلسفہ کے رسمی علوم پڑھ کر ان کے طرزِ استدلال کے پابند ہوتے، کسی مرشدِ کامل کے زیرِ تعلیم تصفیۂ قلب میں مشغول ہو جاتے، تاکہ انکے قلب پر علومِ حق وارد ہونے لگتے۔

46

چوں تیمُّم با وجودِ آب داں

علمِ نقلی با دمِ قطبِ زماں

ترجمہ: (ایک) قطب زمانہ کے انفاس (پاک) کے آگے، نقلی علم کو پانی کی موجودگی میں، تیمّم کی طرح سمجھو۔

مطلب: مثل مشہور ہے کہ ”آب آمد و تیمم برخاست“ اسی طرح ولی اللہ قطبِ زمانہ کی ایک ایک بات اس قدر وزن رکھتی ہے کہ منطق و فلسفہ کا سارا دفتر اسکے آگے ہیچ ہے۔ آگے ان علوم سے قطعی دست بردار ہونے کی ہدایت فرماتے ہیں:

47

خویش ابلہ کن تبع مے رو سپش

رُستگی زیں ابلہی یابی و بس

ترجمہ: اپنے آپ کو ایسے علوم سے نادان بنا لو، اور (مرشد کے) تابع ہو کر پیچھے چلو۔ اسی (اضافی) نادانی کی بدولت نجات پاؤ گے اور بس۔

48

با چنیں نورے چو پیش آری کتاب

جانِ وحی آسائے تو آرد عتاب

ترجمہ: ایسے نور کی موجودگی میں (جو تمہیں اتباعِ مرشد سے حاصل ہوگا) جب تم کتاب سامنے لاؤ گے۔ تو تمہاری وحی کی سی روح ناراض ہوگی۔ (کہ اس فضول چیز کی کیا ضرورت ہے؟)

49

اَکْثَرُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ الْبُلْہ اے پدر

بہر ایں گفت ست سلطانِ بشرؐ

ترجمہ: اے بزرگوار! اسی لیے سلطانِ بشر صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: کہ اکثر جنتی سادہ لوح ہوں گے۔

مطلب: مولانا بحر العلوم فرماتے ہیں حدیث میں وارد ہے: ”عَن أَنَس أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ الْبُلْهُ“ (مسند البزار) ”حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر جنتی (دنیاوی معاملات میں)سادہ لوح ہونگے(اخروی معاملات میں اپنے رب کی طرف مشغول“) اہل ظاہر کے نزدیک انکے جنتی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں مکر و فریب نہیں ہوتا۔ مولانا کی مراد ”الْبُلْهُ“ سے وہ سالک ہیں جو دنیا سے غافل اور ذاتِ حق میں حیران ہیں۔(انتہٰی)

50

زیرکی چوں باد و کبر انگیز تست

ابلہے شو تا بماند دیں درست

ترجمہ: چالاکی جب تم میں غرور و تکبر پیدا کرتی ہے۔ تو نادان بن جاؤ تاکہ ایمان سلامت رہے۔ (چونکہ ”ابلہی“ کا لفظ ذرا کھٹکتا ہے۔ اس لیے آگے اسکے معنٰی مراد کی طرف تعین فرماتے ہیں۔)

51

ابلہے نے کو بمسخرگی دو توست

ابلہے نے کز شقاوت مال جوست

ترجمہ: ایسا نادان نہیں (بننا چاہیے) جو مسخرہ پن کے ساتھ شامل ہے۔ ایسا نادان (بھی) نہیں (بننا چاہیے) جو بدبختی سے طالبِ مال ہے۔

مطلب: ”بمسخرگی دو توست“ سے مراد یا تو یہ ہے کہ وہ مسخرہ پن سے اپنے آپکو نادان ظاہر کرتا ہے، یعنی درحقیقت نادان نہیں بلکہ بنا ہوا ہے۔ اس صورت میں دوسرا مصرعہ بیانِ علّت کا فائدہ دیتا ہے، یعنی وہ محض لوگوں سے پیسے ٹکے وصول کرنے کے لیے نادان بنا ہے۔ جیسا کہ نقّالوں کا پیشہ ہے، یا یہ مراد ہے کہ وہ غریب نادان ہر وقت لوگوں کے استہزاء و تمسخر کا تختۂ مشق بنا رہتا ہے جہاں وہ جاتا ہے کوئی نہ کوئی مسخری باز ساتھ رہتا ہے۔ اس تقدیر پر پہلے مصرعہ میں واقعی نادان کا اور دوسرے میں بناوٹی نادان کا ذکر ہے۔

52

ابلہے کو والہ و حیرانِ ہوست

باشد اندر گردنِ او طوقِ دوست

ترجمہ: (بلکہ) وہ نادان جو ہویت (حق) کا عاشق و حیران ہے۔ اسکی گردن میں محبوب (حقیقی کے عشق) کا طوق پڑا ہے۔ (یعنی یہاں بے وقوف و احمق مراد نہیں، بلکہ عاشقِ حق مراد ہے جو ”ابلہ“ نما ہوتا ہے۔ دنیا کی اسے کچھ خبر نہیں ہوتی۔)

53

ابلہانند آں زنانِ دست بر

از کفِ ابلہ وز رخِ یوسف نذر

ترجمہ: (مذکورہ قسم کی) نادان ہیں (مصر کی) عورتیں (جو حضرت یوسف علیہ السّلام کے دیدار سے بے خود ہو کر اپنے) ہاتھ کاٹ ڈالنے والی تھیں۔ وہ اپنے ہاتھ سے (نادان) و بے خبر تھیں، اور حضرت یوسف علیہ السلام کے چہرے کی خبر دینے والی (تھیں۔)

54

عقل را قربان کن اندر عشق دوست

عقلہا بارے ازاں سویست کوست

ترجمہ: عقل (معاش جو زیرکی و چالاکی سکھاتی ہے، اس) کو محبوبِ (حقیقی) کے عشق میں قربان کرو۔ عقلیں آخر اسی طرف سے ہیں جہاں وہ (محبوب) ہے۔ (تمام عقول و افہام عطیاتِ الٰہی ہیں، لہٰذا اسی کی رضا میں ان سے کام لینا چاہیے۔)

55

عقلہا آں سو فرستاده عقول

ماندہ ایں سو کہ نہ معشوق ست گول

ترجمہ: بڑا دانا وہی ہے جو عقل و فہم کو اسی (ذاتِ واحد کی) طرف بھیج دے۔ یہاں تو وہی بے وقوف رہنے دیتا ہے (جو خدا کا) محبوب نہیں (اپنے عقل اور فہم، نظر و فکر کو رضائے الٰہی میں قربان کر دینا، دور اندیش و دانشمندی کا کام ہے، اور ان طاقتوں کو طلبِ دنیا میں لگانا احمق کا کام ہے۔)

56

زیں سر از حیرت گر ایں عقلت رود

ہر سرِ مویت سر و عقلے شود

ترجمہ: اگر تمہارے اس سر میں سے تمہاری عقل حیرت کے باعث جاتی رہے۔ (تو تمہیں علمِ الٰہی اور سِرّ ربانی حاصل ہو جائے پھر) تمہارے ہر سرِ مو سے ایک سر اور ایک عقل پیدا ہو جائے۔ (عقلِ معاش، اور عقلِ ناقص کو راہِ خدا میں قربان کر دینے سے، سینکڑوں علوم و معارف اور ہزارہا عقول و افہام حاصل ہو جاتے ہیں۔)

57

نیست آن سو رنجِ فکرت بر دماغ

کز دماغ و عقل روید دشت و باغ

ترجمہ: اس طرف دماغ کو کوئی تکلیف (اٹھانی) نہیں (پڑتی۔) بلکہ دماغ اور عقل سے وہاں جنگل اور باغ پیدا ہوتے ہیں۔

مطلب: دنیا کے علومِ نقلیہ، اور معارفِ رسمیہ دماغ سوزی سے حاصل ہوتے ہیں۔ انکے حصول میں دماغ کو بڑی تکان، بڑی تکلیف اور بڑا ضعف محسوس ہوتا ہے، اور صحرا و باغ کی سیر کرنا مفرّحِ دل و دماغ ہے، اور دماغ کی تکان کو دور کرتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ جب سالک کے قلب پر معارفِ غیب وارد ہوتے ہیں، تو ان معارف سے دماغ کو تکان محسوس ہونے کے بجائے نہایت فرحت اور سرور حاصل ہوتا ہے۔ اسکو تفریح کے لیے کسی صحرا اور باغ میں جانے کی ضرورت نہیں، بلکہ انکے اندر سے سامانِ تفریح پیدا ہو رہے ہیں۔

58

سوئے دشت از دشت نکتہ بشنوی

سوئے باغ آئی شود نخلت روی

ترجمہ: (تم اس قلب و دماغ کے ساتھ) صحرا کی طرف آؤ تو صحرا سے (بھی کوئی علمی) نکتہ سن لو۔ باغ کی جانب آؤ تو تمہاری نخلِ (علم) شاداب ہو جائے۔ (یہ روحانی صحرا و باغ موجبِ تفریح ہی نہیں، بلکہ مفیدِ علم بھی ہیں۔)

59

اندریں راہ ترک کن طاق و طرب

تا قلاؤزت بجنبد تو مجنب

ترجمہ: اس راستے میں کروفر (اور کبر و خود نمائی) چھوڑ دو۔ جبتک تمہارا پیش رو حرکت نہ کرے، تم حرکت نہ کرو (سلوک و طریقت میں مرشد کا کامل اتباع لازم ہے۔ خود رائی و خود پسندی اچھی نہیں۔)

60

ہر کہ او بے سر بجنبد دُم بود

جنبشش چوں جنبشِ کژدم بود

ترجمہ: جو شخص سر کے بغیر حرکت کرے وہ دم ہے۔ اسکی حرکت بچھو کی حرکت کی سی ہے۔

مطلب: ”بے سر جنبیدن“ سے مراد ہے اپنے سردار یعنی مرشد کے طرزِ عمل کو سامنے رکھے بدوں عمل کرنے لگنا، یعنی مرشد کے فعل کو نمونۂ عمل نہ بنانے والا ذلیلُ النفس ہے۔ اسکی مثال بچھو کی سی ہے جس کا آلۂ حرب سر میں نہیں بلکہ دم میں ہے۔ چنانچہ بچھو کا کانٹا دم میں ہوتا ہے۔

61

کژ رو شب کور و زشت و زہر ناک

پیشۂ او خستن جانہائے پاک

ترجمہ: جو ٹیڑھا چلنے والا، رات کا اندھا، بدصورت اور زہریلا ہے۔ اسکا پیشہ پاک روحوں کو ڈنگ مارنا ہے۔

مطلب: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے زمین پر ہاتھ رکھے تو بچھو نے ڈنگ مارا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اسکو جوتی کے ساتھ مار ڈالا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”لَعَنَ اللہُ الْعَقْرَبَ مَا تَدَعُ مُصَلِّیًا وَّ لَا غَیْرَہٗ“ (مصنف ابن أبي شيبة: 23553) ”یعنی اللہ تعالٰی لعنت کرے بچھو پر جو نہ نمازی کو چھوڑے نہ بے نمازی کو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے نمک اور پانی منگایا، اور اسکو ایک برتن میں ڈال کر انگلی پر بہانے لگے جہاں کاٹا تھا اور اسکو ملتے اور معوذتین پڑھتے جاتے تھے۔

62

سر بکوب او را کہ سِرَّش ایں بود

خلق و خوے مستمرّش ایں بود

ترجمہ: (بچھو کی طرح) اس شخص کا (بھی) سر کچل ڈالو، جسکی سیرت یہ ہو (کہ صلحا کو دکھ دے۔) اور اسکی ہمیشہ خصلت و عادت یہی ہو۔

63

خود صلاحِ اوست ایں سرکوفتن

تا رہد جاں ریزہ اش زیں شوم تن

ترجمہ: یہ سر کچلنا خود اسکے لیے بہتری ہے۔ تاکہ اسکی حقیر جان اس منحوس بدن سے چھوٹ جائے۔ (اپنے اخلاقِ ذمیمہ سے رستگاری اور اپنی ایذائے خلق کے وبال سے نجات پا جائے۔)

64

واستاں از دستِ دیوانہ سلاح

تا ز تو راضی شود عدل و صلاح

ترجمہ: دیوانہ کے ہاتھ سے ہتھیار لے لو۔ (ورنہ وہ بے گناہ لوگوں کو مجروح کر دے گا) تاکہ انصاف اور نیکو کاری تم سے خوش ہو جائیں (کہ تم نے انکا حق ادا کیا۔)

65

چوں سلاحش ہست و عقلش نے ببند

دستِ او را ورنہ آرد صد گزند

ترجمہ: جب اسکے پاس ہتھیار ہے، اور اسکے سر میں عقل نہیں، تو اس کے ہاتھ کو روک دو۔ ورنہ بہت نقصان پہنچائے گا۔