دفترِ چہارم: حکایت: 55
قصۂ صوفی کہ درمیانِ گلستان سر بزانوے مراقبہ نہادہ بود یارانش گفتند سر بر آر و تفرّج کن گلستان و ریاحین و مرغان را کہ ﴿فَانۡظُرۡ اِلٰۤی اٰثٰرِ رَحۡمَتِ اللّٰہِ﴾ (الروم: 50)
اس صوفی کا قصّہ جس نے باغ میں بیٹھ کر مراقبہ کے لیے گھٹنوں پر سر رکھا تھا۔ دوستوں نے اسکو کہا، سر اٹھاؤ اور باغ اور پھولوں اور پرندوں سے لطف اٹھاؤ کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿فَانۡظُرۡ اِلٰۤی اٰثٰرِ رَحۡمَتِ اللّٰہِ﴾ ((الروم: 50) ”اب ذرا اللہ کی رحمت کے اثرات دیکھو“)
1
صوفیے در باغ از بہرِ کشاد
صوفیانہ روے بر زانو نہاد
ترجمہ: ایک صوفی نے باغ کے اندر کشف و (مشاہدہ) کے لیے۔ صوفیوں کی طرح زانو پر سر رکھا۔
2
پس فرو رفت او بخود اندر نغول
شد ملول از صورتِ خوابش فضول
ترجمہ: پس وہ اپنی ہستی کے ساتھ (استغراق) کی گہرائی میں اتر گیا۔ تو ایک فضول (آدمی) اسکی نیند کی (سی) صورت سے پریشان ہو گیا۔
3
کہ چہ خُسپی آخر اندر رز نگر
ایں درختاں بین و آثارِ خضر
ترجمہ: (اور کہنے لگا اجی صوفی صاحب!) کیا سوتے ہو؟ آخر انگوروں کو دیکھو۔ ان درختوں کو دیکھو اور سبزہ کی (قدرتی) نشانیوں کو۔
4
امرِ حق بشنو کہ گفت است اُنْظُرُوْا
سوئے ایں آثارِ رحمت آر رُو
ترجمہ: حق تعالٰی کا حکم سنو جس نے فرمایا ہے کہ ”اُنْظُرُوْا“ اور رحمت کی نشانیوں کی طرف رخ کرو۔
مطلب: یہ اس آیت کی طرف اشارہ ہے: ﴿فَانۡظُرۡ اِلٰۤی اٰثٰرِ رَحۡمَتِ اللّٰہِ کَیۡفَ یُحۡیِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ اِنَّ ذٰلِکَ لَمُحۡیِ الۡمَوۡتٰی ۚ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴾ (الروم: 50) ”اب ذرا اللہ کی رحمت کے اثرات دیکھو کہ وہ زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد کس طرح زندگی بخشتا ہے! حقیقت یہ ہے کہ وہ مردوں کو زندہ کرنے والا ہے، اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔“
5
گفت آثارِ دلست اے بوالہوس
آں بروں آثار آثارست و بس
ترجمہ: (صوفی نے کہا) اے بُوالہوس! (اللہ تعالٰی کی رحمت کی نشانیاں دراصل) دل کی نشانیاں ہیں۔ (جنکا مشاہدہ مراقبہ میں ہوتا ہے اور) یہ (باغ و بہار) باہر کی (عجائبات ان) نشانیوں کی نشانیاں ہیں، اور بس۔
6
باغہا و سبزہا در عینِ جاں
بر بروں عکسش چو در آبِ رواں
ترجمہ: (اصلی) باغات و سبزہ زار تو خاص روح کے اندر (موجود ہیں۔) باہر (کے باغات) انکا عکس (ہیں) جیسے چلتے پانی میں (کنارے کے درختوں کا عکس پڑتا ہے۔)
مطلب: ”آب“ کے ساتھ ”رواں“کی قید اتفاقی ہے، ورنہ ایستادہ پانی میں بھی عکس پڑتا ہے، بلکہ وہ عکس جاری پانی کے عکس سے زیادہ صاف ہوتا ہے۔
7
آں خیالِ باغ باشد اندر آب
کہ کند از لطفِ آب آں اضطراب
ترجمہ: وہ پانی کے اندر باغ کا خیال ہی ہوتا ہے۔ جو پانی کی لطافت سے حرکت کرتا (نظر آتا) ہے۔ (اصلی باغ نہیں ہوتا۔)
8
باغہا و میوہا اندر دلست
عکسِ لطفِ آں بریں آب و گلست
ترجمہ: (اصلی) باغات، اور میوہ جات، دل کے اندر ہیں۔ انکی لطافت کا عکس اس آب و گل پر (نمودار) ہے (جو ظاہری باغات، اور میوہ جات کی شکل میں نظر آتا ہے۔)
مطلب: اس تقریر کا مقصد یہ ہے کہ دل حقیقتًا جامع ہے۔ پس سب سے پہلے دل کے اندر آثارِ حق کا مشاہدہ کرنا چاہیے، نہ کہ دل سے خارج میں اور جو کچھ خارج میں نظر آتا ہے، اس سے اگر آثارِ حق کا مشاہدہ کر سکتے ہیں، تو وہ بھی دلِ کامل کی مدد کر سکتے ہیں۔ آگے اس بات کی دلیل دیتے ہیں کہ باغات ظاہری باغاتِ قلب کے عکس ہیں:
9
گر نبودے عکسِ آں سر و سرور
پس نخواندے ایزدش دارالغُرور
ترجمہ: اگر (ظاہری باغات) اس (باطنی) سرور و مسرّت کا عکس نہ ہوتا۔ تو اللہ تعالٰی انکو غرور (اور غفلت) کا گھر نہ کہتا۔
مطلب: اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ﴾ (الحدید: 20) ”اور دنیا والی زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔“ چونکہ دنیاوی ساز و سامان اصلی نہیں، بلکہ نقل و عکس ہے۔ اسی لیے دنیا کو دارُالغرور کہا ہے، ورنہ جہاں اصلی اور حقیقی سامان ہو وہ دار الغرور نہیں کہلاسکتا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
10
ایں غرور آنست یعنی ایں خیال
ہست از عکسِ دل و جانِ رجال
ترجمہ: یہی وہ دھوکا ہے، یعنی یہ (اللہ تعالٰی کے خاص مقبول) مردوں کے قلب و روح کے عکس (کی قبیل) سے ہے۔
11
جملہ مغروراں بریں عکس آمدہ
بر گمانے کایں بود جنّت کدہ
ترجمہ: تمام دھوکہ کھانے والے (دنیادار) اس عکس پر مائل ہیں۔ اس گمان سے کہ یہی بہشت کا مقام ہوگا۔ (دنیادار دنیا ہی کو منتہائے مقاصد سمجھتے ہیں: ﴿کَسَرَابٍۭ بِقِیۡعَۃٍ یَّحۡسَبُہُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً﴾ (النور: 39) جیسے ایک چٹیل صحرا میں ایک سراب ہو جسے پیاسا آدمی پانی سمجھ بیٹھتا ہے۔)
12
مے گریزند از اصولِ باغہا
بر خیالے مے کنند آں لاغہا
ترجمہ: (ان ظاہری و ناپائیدار باغات پر فریفتہ ہو کر) اصلی باغات سے گریز کرتے ہیں۔ اور (طلبِ دنیا کے) بیہودہ کام صرف خیال کی بنا پر کر رہے ہیں۔
13
چونکہ خوابِ غفلت آید شاں بسر
راست بینند و چه سودست آں نظر
ترجمہ: (پھر) جب ان کا خوابِ غفلت ختم ہو جائے گا۔ (اور موت آجائے گی) تو (اب) انکو اصلیت نظر آ جائے گی، اور اس نظر سے کیا فائدہ۔
14
پس بگورستان غریو افتاد و آہ
تا قیامت زیں غلط وَاحَسْرَتَاهٗ
ترجمہ: پس اسی غلطی کی بنا پر، قبرستان میں قیامت تک کے لیے، ہائے وائے کا شور برپا ہے۔
مطلب:غافل لوگ دنیاوی زندگی میں دنیا طلبی کے نشے سے مست ہوتے ہیں۔ جب موت آتی ہے تو آنکھیں کھلتی ہے، اور روتے چلّاتے قبرستان کو سدھارتے ہیں۔ قبرستان میں انہی دنیا سے رخصت ہونے والوں کا شورِ فغاں بلند ہے جسکو اہلِ باطن سنتے ہیں: ﴿اَنۡ تَقُوۡلَ نَفۡسٌ یّٰحَسۡرَتٰی عَلٰی مَا فَرَّطۡتُّ فِیۡ جَنۡۢبِ اللّٰہِ وَ اِنۡ کُنۡتُ لَمِنَ السّٰخِرِیۡنَ﴾ (الزمر: 56) ”کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی شخص کو یہ کہنا پڑے کہ: ہائے افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں نے اللہ کے معاملے میں برتی! اور بات یہ کہ میں تو (اللہ تعالٰی کے احکام کا) مذاق اڑانے والوں میں شامل ہوگیا تھا۔“ دوسری جگہ فرمایا: ﴿قَدۡ خَسِرَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ اللّٰہِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَتۡہُمُ السَّاعَۃُ بَغۡتَۃً قَالُوۡا یٰحَسۡرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطۡنَا فِیۡہَا ۙ وَ ہُمۡ یَحۡمِلُوۡنَ اَوۡزَارَہُمۡ عَلٰی ظُہُوۡرِہِمۡ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوۡنَ﴾ (الانعام: 31) ”حقیقت یہ ہے کہ بڑے خسارے میں ہیں وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے جا ملنے کو جھٹلایا ہے، یہاں تک کہ جب قیامت اچانک ان کے سامنے آکھڑی ہوگی تو وہ کہیں گے: ہائے افسوس! کہ ہم نے اس (قیامت) کے بارے میں بڑی کوتاہی کی۔ اور وہ (اس وقت) اپنی پیٹھوں پر اپنے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں گے۔ (لہذا) خبردار رہو کہ بہت برا بوجھ ہے جو یہ لوگ اٹھا رہے ہیں۔“
15
اے خنک آں را کہ پیش از مرگ مُرد
یعنی او از اصل ایں رز بوئے بُرد
ترجمہ: بشارت ہے اس شخص کو جو موت سے پہلے مرگیا۔ (اور موتِ اختیاری سے مرتبۂ فنا کو پہنچ گیا) یعنی اسکو اس باغ کی اصل کا سراغ مل گیا۔ (آگے پھر حضرت سلیمان علیہ السّلام کے مسجدِ اقصٰی میں بوٹیوں سے گفتگو کرنے کا ذکر چلتا ہے:)