دفتر 4 حکایت 54: دنیا میں (کفن دوزی و گورکنی وغیرہ کے) پیشے وجود میں آنے سے پہلے قابیل کا ایک کوّے سے گورکنی کا پیشہ سیکھنا۔

دفترِ چہارم: حکایت: 54

آموختن پیشۂ گورکنی قابیل از زاغ، قبل ازانکہ ایں حِرفہا باشد

دنیا میں (کفن دوزی و گورکنی وغیرہ کے) پیشے وجود میں آنے سے پہلے قابیل کا ایک کوّے سے گورکنی کا پیشہ سیکھنا۔

1

کندنِ گورے کہ کمتر پیشہ بود

کے ز فکر و حیلہ و اندیشہ بود

ترجمہ: قبر کھودنا، جو ایک ادنٰی (سے ادنٰی) پیشہ تھا۔ یہ بھی فکر اور حیلہ اور سوچ سے کب (ایجاد) ہوا ہے؟

2

گر بدے ایں فہم مر قابیل را

کے نہادے بر سر او ہابیل را

ترجمہ: اگر اتنی سمجھ قابیل کو ہوتی (کہ قبر کھود کر لاش دفن کر دینی چاہیے۔) تو وہ (اپنے بھائی) ہابیل (کی لاش) کو سر پر کیوں اٹھائے پھرتا؟

مطلب: یہ قصّہ قرآن مجید میں یوں مذکور ہے: ﴿وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ ابۡنَیۡ اٰدَمَ بِالۡحَقِّ ۘ اِذۡ قَرَّبَا قُرۡبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنۡ اَحَدِہِمَا وَ لَمۡ یُتَقَبَّلۡ مِنَ الۡاٰخَرِ ؕ قَالَ لَاَقۡتُلَنَّکَ ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ - لَئِنۡۢ بَسَطۡتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقۡتُلَنِیۡ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیۡکَ لِاَقۡتُلَکَ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الۡعٰلَمِیۡنَ - اِنِّیۡۤ اُرِیۡدُ اَنۡ تَبُوۡٓاَ بِاِثۡمِیۡ وَ اِثۡمِکَ فَتَکُوۡنَ مِنۡ اَصۡحٰبِ النَّارِ ۚ وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیۡنَ - فَطَوَّعَتۡ لَہٗ نَفۡسُہٗ قَتۡلَ اَخِیۡہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصۡبَحَ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ - فَبَعَثَ اللّٰہُ غُرَابًا یَّبۡحَثُ فِی الۡاَرۡضِ لِیُرِیَہٗ کَیۡفَ یُوَارِیۡ سَوۡءَۃَ اَخِیۡہِ ؕ قَالَ یٰوَیۡلَتٰۤی اَعَجَزۡتُ اَنۡ اَکُوۡنَ مِثۡلَ ہٰذَا الۡغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوۡءَۃَ اَخِیۡ ۚ فَاَصۡبَحَ مِنَ النّٰدِمِیۡنَ﴾ (مائدہ: 27) ”اور (اے پیغمبر) ان کے سامنے آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناؤ۔ جب دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تھی، اور ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگئی، اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ اس (دوسرے نے پہلے سے) کہا کہ: میں تجھے قتل کر ڈالوں گا۔ پہلے نے کہا کہ اللہ تو ان لوگوں سے (قربانی) قبول کرتا ہے جو متّقی ہوں۔ اگر تم نے مجھے قتل کرنے کو اپنا ہاتھ بڑھایا تب بھی میں تمہیں قتل کرنے کو اپنا ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ انجام کار تم اپنے اور میرے دونوں کے گناہ میں پکڑے جاؤ، اور دوزخیوں میں شامل ہو۔ اور یہی ظالموں کی سزا ہے۔ آخر کار اس کے نفس نے اسکو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کرلیا، چنانچہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کر ڈالا، اور نامرادوں میں شامل ہوگیا۔ پھر اللہ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے (یہ دیکھ کر) وہ بولا۔ ہائے افسوس! کیا میں اس کوے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا۔ اس طرح بعد میں وہ بڑا شرمندہ ہوا۔“ تفسیر خازن میں علمائے اخبار و سیر سے منقول ہے، کہ حضرت آدم و حوّا علیھما السّلام کے ایک لڑکا قابیل اور ایک لڑکی اقلیما اکھٹے پیدا ہوئے، (پھر کچھ عرصہ کے بعد ایک لڑکا ہابیل اور ایک لڑکی لہبودا اکٹھے متولّد ہوئے) اس وقت اللہ تعالٰی کی جناب سے یہ حکم تھا کہ ایک بطن کی لڑکی کا نکاح دوسرے بطن کے لڑکے کے ساتھ ہو جائے۔ اگرچہ وہ آپس میں بھائی بہن ہوتے تھے، کیونکہ اسکے بغیر چارہ نہ تھا۔ اسی بنا پر قابیل کا نکاح لہبود کے ساتھ، اور ہابیل کا اقلیما کے ساتھ تجویز ہوا، چونکہ اقلیما خوبصورت اور لہبودا بدصورت تھی، اس لیے قابیل کو یہ تجویز پسند نہ تھی، وہ کہتا تھا میرا نکاح اقلیما کے ساتھ ہو۔ حضرت آدم علیہ السّلام نے فرمایا: اللہ تعالٰی کا حکم ایسا ہی ہے تم کو اسکی تعمیل کرنی چاہیے۔ وہ بولا نہیں، یہ اللہ تعالٰی کا حکم نہیں، آپ نے از خود یہ تجویز نکال لی ہے۔ حضرت آدم علیہ السّلام نے فرمایا، تم اور ہابیل دونوں اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں اپنی اپنی قربانیاں پیش کرو، جسکی قربانی منظور ہو جائے گی وہ اس لڑکی کے ساتھ نکاح کرنے کا حقدار متصوّر ہوگا۔ اس قربانی کا طریقہ یہ تھا کہ قربانی کی چیز پہاڑ پر رکھ دی جاتی، اگر وہ قربانی مقبول ہوتی تو آسمان سے ایک سفید آگ آتی اور اسے پھونک ڈالتی۔ قابیل کاشتکار تھا، اس نے کچھ ردی اور خراب اناج بطور قربانی پہاڑ پر رکھ دیا۔ اسکی نیّت یہ تھی کہ میری قربانی خواہ قبول ہو یا نہ ہو، میں اپنی توام بہن کو کسی دوسرے کے نکاح میں جانے نہیں دوں گا۔ ہابیل بکریاں چراتا تھا۔ اس نے ایک نہایت اچھا اور موٹا مینڈھا بطور قربانی پیش کیا۔ آسمان سے آگ آئی اور وہ ہابیل کی قربانی کو چاٹ گئی، قابیل کی قربانی کو نہیں چھیڑا۔ یہ حال دیکھ کر قابیل غضبناک ہوگیا اور ہابیل کو از راہِ حسد قتل کر ڈالنے پر آمادہ ہوا۔ چنانچہ قتل کے وقت ان میں وہ گفتگو ہوئی جو آیات میں مذکور ہے۔ قتل کے بعد اسکو سمجھ نہیں آتی تھی کہ لاش کو کیا کرے اور چالیس روز تک اس کو اٹھائے پھرتا رہا، حتّٰی کہ وہ سڑ کر پھول گئی۔ پھر ایک کوّے نے اپنے طرزِ عمل سے اس کو گورکنی اور دفن کا طریقہ سکھایا۔ غرض جب وہ اس لاش کو سر پر اٹھائے پھرتا تھا تو حیران تھا کہ:

3

کہ کجا غائب کنم ایں کشتہ را

ایں بخون و خاک در آغشتہ را

ترجمہ: کہ میں اس مردہ کو، اس خاک و خون میں لتھڑے ہوئے کو، کہاں چھپاؤں؟

4

دید زاغے زاغ مردہ در دہاں

بر گرفتہ در ہوا گشتہ پراں

ترجمہ: (آخر) اس نے ایک کوّا دیکھا، جو ایک مردہ کوے کو کونچ میں اٹھائے ہوئے ہوا میں اڑ رہا تھا۔

5

از ہوا زیر آمد و شد او بفن

از پئے تعلیمِ او را گورکن

ترجمہ: وہ ہوا سے نیچے اترا اور (قابیل) کو سکھانے کے لیے باقاعدہ گورکن بن گیا۔

6

پس بچنگال از زمیں انگیخت گرد

زود زاغِ مردہ را در گور کرد

ترجمہ: پھر پنجوں کے ساتھ زمین سے مٹی کریدی۔ اور فورًا (اس) مردہ کوّے کو قبر میں (دفن) کردیا۔

7

دفن کردش پس بپوشیدش بخاک

زاغ از الہامِ حق بد عِلمناک

ترجمہ: اسکو دفن کرنے کے بعد مٹی سے ڈھک دیا۔ کوّا حق تعالٰی کے الہام کے ذریعہ سے با علم تھا۔

8

گفت قابیل آہ شُہ بر عقلِ من

کہ بود زاغے ز من افزوں بفن

ترجمہ: قابیل نے کہا: ہائے میری عقل پر تف ہے۔ کہ ایک (حقیر) کوا کاری گری میں مجھ سے بڑھ گیا۔

انتباہ: پیچھے عقلِ انسانی کا ذکر چلا آتا تھا کہ وہ موجدِ علم نہیں ہوسکتی۔ وہ علوم کی صرف قابل و طالب ہے، اور اسی کو عقلِ جزوی یعنی عقلِ ناقص کہا ہے۔ اب لفظ ”زاغ“ کے لفظی تناسب کو پیش نظر رکھ کر پھر عقلِ جزوی اور عقلِ کلّی کا مقابلہ دکھاتے ہیں:

9

عقلِ کل را گفت مَا زَاغَ الْبَصَرْ

عقلِ جزوی مے کند ہر سو نظر

ترجمہ: عقلِ کُل کے بارے میں (حق تعالٰی نے) فرمایا ﴿مَا زَاغَ الۡبَصَرُ﴾ ((نجم: 17) کہ ”اس نے نگاہ کو نہیں پھیرا“ یعنی خاص اپنے مطلوب کی طرف نظر جمائے ہوئے ہے۔ اور) عقل جزوی ہر طرف دیکھ رہی ہے۔

10

عقلِ مَا زَاغَ ست نورِ خاصگاں

عقلِ زاغ استادِ گورِ مردگاں

ترجمہ: نظر نہ پھیرنے والی عقل تو خاصانِ خدا کا نور ہے۔ (اور) کوّے کی عقل، مردوں کی قبر کھودنے کی استاد ہے (یعنی عقلِ کلّی کا درجہ اعلٰی، اور عقلِ جزوی کا منصب ادنٰی اور ارذل ہے۔)

11

جاں کہ او دنبالۂ زاغاں پرد

زاغ او را سوئے گورستان برد

ترجمہ: جو روح کوؤں کے پیچھے اڑے۔ کوا اسکو قبرستان کی طرف لے جائے گا۔

مطلب: نفس و شیطان کے پیچھے جانے اور انکا مشورہ ماننے والا روحانی موت کا شکار ہوتا ہے۔ کسی شاعر نے عربی میں خوب کہا ہے:؎

اِذَا کَانَ الْغُرَابُ اِمَامَ قَوْمٍ

سَیَھْدِیْہِمْ اِلٰی دَارِ الْبَوَارِ

”یعنی جب کوّا کسی قوم کا پیشوا ہو، تو وہ عنقریب اسکو ہلاکت کے مقام پر پہنچا دے گا۔“

12

ہیں مرو اندر پئے نفس چو زاغ

کو بگورستان برد نے سوئے باغ

ترجمہ: خبردار! نفس کے پیچھے نہ جا، جو کوّے کی مانند ہے۔ کیونکہ وہ قبرستان کی طرف لے جاتا ہے، نہ کہ باغ کی طرف۔

13

گر روی رو درپئے عنقائے دل

سوئے قاف و مسجدِ اقصائے دل

ترجمہ: اگر تم جاتے ہو تو عنقائے قلب کے پیچھے جاؤ۔ قلب کے کوہ قاف اور مسجدِ اقصٰی کی طرف (جاؤ۔ نفس جو منبعِ مفاسد و شرور ہے اسکے پیچھے نہ جاؤ، بلکہ قلب جو مہبطِ انوار و برکات ہے اسکی پیروی کرو۔)

14

نو گیاہے ہر دم از سودائے تو

مے دمد در مسجدِ اقصائے تو

ترجمہ: تمہارے خیالات کی نئی گھاس ہر وقت تمہارے قلب کی مسجد اقصٰی میں اگتی ہے۔

15

تو سلیمانؑ وار دادِ او بدہ

پے بر از وے پائے رد بر وے منہ

ترجمہ: تم حضرت سلیمان علیہ السّلام کی طرح، اسکی قدر کرو۔ اسکے ذریعہ (قلب کی حالت کا) سراغ لگاؤ۔ اس پر ناپسندیدگی کا پیر نہ رکھو۔ (جس طرح حضرت سلیمان علیہ السّلام نے مسجد اقصٰی کی بوٹیوں سے انکے فائدہ و ضرر کا سراغ لگا لیا۔ تم اپنے خیالاتِ قلب سے قلب کی اچھی یا بری حالت کا سراغ لگا لو۔)

16

زانکہ حالِ ایں زمینِ با ثبات

باز گوید با تو انواعِ نبات

ترجمہ: کیونکہ (قلب کی) اس پائدار زمین کا حال۔ طرح طرح کی بوٹیاں تم سے بیاں کریں گی۔

مطلب: ان گوناگوں خیالات و خطرات سے قلب کی اچھی یا بری حالت کا پتہ لگ جاتا ہے، اور اسکا اصول یہ ہے کہ ان خیالات کو شریعت کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھا جائے۔ اگر وہ خیالات کسی بدعت یا معصیّت سے تعلق رکھتے ہیں، تو سمجھنا چاہیے کہ وہ شیطانی خیالات ہیں۔ اور جو قلب شیطانی و نفسانی خیالات کا گہوارہ ہے، اسکی حالت ردی ہے۔ اور اگر وہ خیالات توحید و سنت اور تقوٰی و طاعت کی طرف لے جاتے ہوں تو وہ رحمانی ہیں۔ اور جو قلب ایسے مبارک خیالات کا سر چشمہ ہو، وہ ایک پاک و پُرنور قلب ہے۔ یہ بیت متنِ منہج کے مطابق لکھا گیا ہے۔ ہمارے نسخہ میں یہ بیت یوں لکھا ہے ”زانکہ خاکِ ایں زمینِ با ثبات۔ باز گوید باز تو ز انواع نبات“ یعنی اس پائدار زمین کی خاک تم کو ہر طرح کی بوٹیوں کا حال بتا دے گی۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ قلب سے خیالات کے بھلے برے ہونے کا پتہ لگ سکتا ہے، اور یہ بات اس تقریر کے برعکس ہے جو یہاں مقصود ہے، یعنی خیالات سے قلب کا حال معلوم کرنا چاہیے نہ کہ قلب سے خیالات کا حال۔ اس لیے ہمارے نزدیک یہ نسخہ صحیح نہیں:

17

در زمیں گر نے شکر ور خود نیست

ترجمانِ ہر زمیں نبتِ ویست

ترجمہ: کسی زمین میں خواہ گنّا پیدا ہو یا نرکل۔ ہر زمین کا حال بیان کرنے والی اسکی پیداوار ہے۔ (پیداوار سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ زمین اچھی ہے یا بری۔ ع۔ در باغ لالہ روید در شور بوم و خس)

18

پس زمینِ دل کہ نبتش فکر بود

فکرہا اسرارِ دل وا مے نمود

ترجمہ: پس چونکہ دل کی زمین کی بوٹی، فکر ہے۔ (اس لیے) افکارِ دل کا راز ظاہر کر دیتے ہیں۔

19

گر سخن کش بینم اندر انجمن

صد ہزاراں گل برویم زیں چمن

ترجمہ: اگر میں مجلس میں کسی جاذبِ تقریر کو دیکھوں۔ تو اس (بحث کے) چمن سے لاکھوں پھول اگا دوں۔

مطلب: یہ بیان یا تو سابقہ تقریر سے جداگانہ ایک نئی بات کا افادہ کر رہا ہے، یعنی مولانا عجائباتِ قلب کے مذکورہ بیان کی اہمیت کے خیال سے اپنی عادتِ نفسیہ کے مطابق اثنائے تقریر میں سامعین کی بے توجّہی کی شکایت فرمانے لگے، جسکا مطلب یہ کہ یہ تقریر جو ہو رہی ہے، سامعین کے قلبی التفات کی وجہ سے بہت مختصر کرنی پڑی۔ اگر ان میں ایک بھی بکمالِ توجہ سننے والا ہوتا جسکی توجہ صاحبِ سخن کو آمادۂ تکلّم کر دیتی، تو میں اس موضوع پر بہت سی عجیب باتیں کہتا۔ یا یہ اسی متصلہ تقریر کے سلسلے کی ایک کڑی ہے، یعنی چونکہ خیالات دل کی حالت کے ترجمان ہوتے ہیں، اس لیے ہم سامعین کے قلوب میں مختلف خطرات و خیالات کا ہجوم دیکھ کر سمجھ گئے، کہ انکے قلوب قبولِ معارف کی صلاحیّت نہیں رکھتے۔ اس لیے ہم ویسی تقریر نہیں کرسکتے جیسی کہ چاہیے تھی۔ چنانچہ آگے فرماتے ہیں کہ سامعین کی بے توجّہی حسنِ بیان کو فنا کر دیتی ہے، اور بیان کرنے والے کے علمی خیالات کو بھگا دیتی ہے:

20

ور سخن کش بے نمت اے زن بمُزد

مے گریزد نکتہ از پیشم چو دُزد

ترجمہ: اور اے بے غیرت! اگر میں تجھے (تیری بے توجّہی کی وجہ سے) تقریر کو فنا کرنے والا دیکھتا ہوں۔ تو نکتہ میرے سامنے سے چور کی طرح بھاگتا ہے۔

21

مستمع چوں نیست خاموشی بہ است

نکتہ از نا اہل گر پوشی بہ است

ترجمہ: جب سننے والا نہیں، تو خاموشی اچھی ہے۔ نکتہ کی بات کو اگر نا اہل سے مخفی رکھو تو اچھا ہے۔

22

جنبشِ ہر کس بسوئے جاذبست

جذبِ صادق نے چو جذبِ کاذبست

ترجمہ: ہر شخص (کے میلان) کی حرکت، اسکے کشش کرنے والے کی طرف ہے۔ اور سچی کشش جھوٹی کشش سے مشابہ نہیں ہوتی۔

مطلب: نا اہل اور غیر مستمع چونکہ جاذبِ سخن نہیں ہوتے۔ اس لیے تقریر کرنے والے کا دل اسکے سامنے تقریر کرنے کو نہیں چاہتا، اور جاذبِ سخن وہ ہونا چاہیے جو سچے دل سے تقریر سننے پر مائل ہو، ورنہ بناوٹی تقریر سے ”مَرْحَباً وَ اَحْسَنْتَ“ کے نعرے لگانے والے سامعین جو مطلب و معنٰی کچھ نہ سمجھیں، نہ وہ علمی مذاق رکھتے ہوں، درحقیقت جاذبِ سخن نہیں ہوتے، نہ مقرر کی طبیعت انکے سامنے کھلتی ہے۔ جیسے کہ عمومًا مشاعرہ کے بازاری تماشائیوں کا حال ہوتا ہے، یہاں سامعین کے ”جذبِ سخن“ کا لفظ جو آ گیا تو اس سے مولانا کا ذہن ”جذبِ غیب“ کی طرف منتقل ہوگیا۔ اب آگے اس مضمون کی طرف انتقال فرماتے ہیں:

23

مے روی گہ گمراہ و گہ در رشد

رشتہ پیدا نے و آں کت مے کشد

ترجمہ: (اے انسان!) تو کبھی گمراہ (ہو کر) چلتا ہے، اور کبھی ہدایت پر (چلتا ہے۔) ڈور ظاہر نہیں ہے (جو تجھے کھینچتی ہے) اور (نہ) وہ جو تجھے کھینچتا ہے۔

24

اشترے کوری مہارِ تو رہیں

تو کشش می بیں مہارت را مبیں

ترجمہ: تو ایک اندھا اونٹ ہے، (جو خود اپنا راستہ نہیں دیکھ سکتا) اور تیری مہار (ایک غیبی ہاتھ کی گرفت) میں ہے۔ تو کشش کو دیکھ، اپنی مہار کا خیال نہ کر۔

مطلب: ہر انسان ایک اچھے یا برے راستے پر چل رہا ہے۔ انبیاء علیہم السلام، اولیاء عظّام، اور صلحا اچھے راستے پر گامزن ہیں۔ کفّار و فجار برے راستے پر چل رہے ہیں، اور سب کی باگ ڈور ایک دستِ غیب نے تمام رکھی ہے جو انکو کھینچ رہا ہے۔ اس کشش کی باگ کو محسوس کرنا کوئی کمال نہیں، کمال تو یہ ہے کہ کھینچنے والے قادرِ مطلق کا خیال دل نشین رہے، یہی توحید اور خدا شناسی ہے۔

25

گر شُدے محسوس جذّابِ مہار

پس نماندے ایں جہاں دار الغرار

ترجمہ: اگر مہار کو کھینچنے والا محسوس ہوتا۔ تو پھر یہ جہاں غفلت (و غرور) کا گھر نہ رہتا۔ (ہر شخص جب دیکھتا کہ وہ قادر مطلق مجھے کھینچ رہا ہے، تو اس سے ڈرتا اور غفلت میں نہ پڑتا۔ آگے اسکی چند مثالیں دیتے ہیں:)

26

گبر دیدے کو پئے سگ مے رود

سخرہ دیوِ سیہ رو مے شود

ترجمہ: کافر (جو نفس و شیطان کا تابع ہے) دیکھتا ہے، کہ میں کتّے کے پیچھے چل رہا ہوں۔ اور بد صورت شیطان کا مسخّر ہوں۔

27

در پئے او کے شدے مانندِ حیز

پائے خود وا کشیدے گبر نیز

ترجمہ: تو وہ اس (کتّے اور شیطان کے) پیچھے نامردوں کی طرح کیوں جاتا؟ کافر بھی (ایسی پیروی سے) پاؤں روک لیتا (چہ جائیکہ مسلمان شیطان کی پیروی کرتا۔)

28

گاؤ اگر واقف ز قصاباں بدے

کے پئے ایشاں بداں دکّاں شدے

ترجمہ: گائے اگر قصائیوں سے واقف ہوتی۔ تو کب انکے پیچھے اس دکان کی طرف جاتی (جہاں گائیوں کو ذبح کر کے انکا گوشت فروخت کیا جاتا ہے۔)

29

یا بخوردے از کفِ ایشاں سبوس

یا بدادے شیرشاں از چاپلوس

ترجمہ: یا (کب) انکے ہاتھ سے بھوسہ کھاتی؟ یا ان کو چمکارنے پر دودھ دیتی۔

30

ور بخوردے کے علف ہضمش شدے

گر ز مقصودِ علف واقف بدے

ترجمہ: اور اگر وہ بھوسہ کھا (بھی) لیتی تو اسے وہ کب ہضم ہوتا؟ اگر (اس) بھوسے کے مقصد سے واقف ہوتی؟

مطلب: بکری، بھیڑ، گائے کو کچھ خبر نہیں کہ قصائی انہیں اچھی غذائیں اس لیے کھلا رہا ہے، کہ انکو موٹی کر کے ذبح کرے۔ منہج میں ایک حدیث منقول ہے: ”لَوْ عَلِمَتِ الْبَهَائِمُ مِنَ الْمَوْتِ مَا تَعْلَمُونَ مَا أَكَلْتُمْ مِنْهَا سَمِيْنًا أَبَدًا“ (أخرجه البيهقي في الدلائل 6 / 34) یعنی ”اگر چوپائے موت کا حال جانتے جیسے کہ تم جانتے ہو تو تم کو چربی دار عمدہ گوشت کھانا نصیب نہ ہوتا۔“ (انتہٰی) کیونکہ جانور موت کے غم سے لاغر رہتے اور ان میں کوئی موٹا نہ ہوتا۔ یہ انسان کے لیے ایک سخت تنبیہ ہے، یعنی موت کا مرحلہ اس قدر شدید ہے کہ بہائم بھی اگر اس سے واقف ہوتے تو غمگین رہتے، مگر انسانِ غافل کو کچھ پروا نہیں۔ غرض اسی طرح اگر انسان کو معلوم ہوتا کہ دنیا میں جو مجھ کو جاہ و جلال بکثرت ملا ہے، یہ استدراج ہے جو مجھ کو جہنم کی طرف لے جا رہا ہے، تو کبھی اس پر خوش و خرم نہ ہوتا۔ آگے بتاتے ہیں کہ دنیا پر جو یہ غفلت کا پردہ پڑا ہوا ہے، اس میں یہ خاص مصلحت ہے کہ اس سے دنیا کا نظام قائم ہے، ورنہ اگر غفلت کا حجاب اٹھ جاتا تو نظامِ عالم درہم برہم ہو جاتا۔ بقولے کہ: ”لَوْلَا الْحَمْقٰی لَخَرِبَتِ الدُّنْیَا“ ”اگر (اہلِ دنیا) احمق نہ ہوتے تو دنیا تباہ ہو جاتی۔“

31

پس ستونِ ایں جہاں خود غفلت ست

چیست دولت کایں دَوا دَو بالت ست

ترجمہ: پس اس جہاں (کے قیام و دوام) کا ستون غفلت ہی ہے۔ دولت کیا ہے؟ یہ بھاگ دوڑ ہے (جو) مار پیٹ کے ساتھ (ہے۔)

مطلب: دنیا دولت کا گھر ہے، دولت کے ٹھاٹ کے ساتھ ہی دنیا قائم ہے، اور دولت کی حقیقت کیا ہے؟ پس یہی کہ طالبانِ دولت پر حرص و طمع کے تازیانے سراسر پڑ رہے، ہیں اور وہ تانگے کے ٹٹو کی طرح سر پٹ دوڑے جا رہے ہیں۔ اسکی صحیح مثال دیکھنی ہو تو مار واڑ کے بنیوں کی زیارت کر لو۔ حرصِ دولت کی دھن میں انکو دن رات کی تمیز نہیِں، کھانے سونے کی ہوش نہیں۔ ہر وقت اجناس کے بھاؤ تاؤ اور سیم و زری کی فراہمی کا سودا سر میں سما رہا ہے۔ یہی حال کم و بیش ہر طالبِ دولت کا ہے، خواہ وہ ادنٰی دستکار ہوں یا اعلٰی امرائے دربار۔ انہی دولت طلب پتلیوں کے ناچ سے تماشائے عالم کا سلسلہ قائم ہے۔ اب دولت کے لفظ کی تشریح فرماتے ہیں:

32

اوّلش دَو دَو بآخرلت بخور

جز دریں ویرانہ نبود مرگِ خر

ترجمہ: اسکا اول بھاگو دوڑو ہے، اور آخر میں مار کھاؤ ہے۔ گدھے کی موت اسی ویرانہ میں ہے۔ (دولت طلبی کا یہ سودائے باطل دنیا ہی میں ہے۔)

33

تو بجد کارے کہ بگرفتی بدست

عیبش ایں دم بر تو پوشیدہ شدست

ترجمہ: تم نے جو کام (خاص) کوشش سے (اپنے) ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ اس وقت اسکا غیب تم پر مخفی ہے (اسی طرح دولت کے طالب، دولت طلبی کے انجامِ بد سے غافل ہیں۔)

34

زاں ہمی تانی بدادن تن بکار

کہ بپوشید از تو عیبش کردگار

ترجمہ: اسی لیے تم کسی کام میں مشغول ہو سکتے ہو۔ کہ حق تعالٰی نے اسکا غیب تم سے چھپا رکھا ہے۔

35

ہمچنیں ہر فکر کہ گرمی دراں

عیب آں فکرت شدست از تو نہاں

ترجمہ: اسی طرح جس فکر میں تم سرگرم ہو۔ اس سوچ بچار کا عیب تم سے مخفی ہے۔

36

بر تو گر پیدا شدے زاں عیب و شین

زاں امیدے جانبِ بُعد المشرقین

ترجمہ: اگر اسکا عیب و نقص تم پر ظاہر ہو جاتا۔ تو تمہاری روح اس سے (اس قدر دور) بھاگتی جس قدر مشرق سے مغرب دور ہے۔

37

حال کاخرِ زاں پشماں مے شوی

گر شود ایں حالت اوّل کے دَوی

ترجمہ: جس حالت سے تم آخر میں پچھتاتے ہو۔ اگر وہ حالت پہلے ہی سے (پیشِ نظر) ہو تو تم (اسکے حصول کے لیے) کب دوڑو؟

38

پس بپوشید اوّل آں بر جانِ ما

تا کنیم آں کار بر وفقِ قضا

ترجمہ: پس (قدرتِ حق نے) پہلے وہ (انجام) ہماری روح پر مخفی رکھا ہے۔ تاکہ ہم اس کام کو قضا کے موافق عمل میں لائیں۔ (انسان جو برا بھلا کام کرتا ہے، تقدیرِ الٰہی میں اسی طرح کرنا لکھا ہوتا ہے۔)

39

چوں قضا آورد حکمِ خود بدید

چشم وا گشت و پشیمانی رسید

ترجمہ: جب تقدیرِ الٰہی نے اپنا حکم آنکھوں کے سامنے پیش کردیا۔ تو (اب) آنکھ کھلی اور پشیمانی لاحق ہوئی۔

40

آں پشیمانی قضائے دیگرست

پس پشیمانی بہل حق را پرست

ترجمہ: وہ پشیمانی ایک دوسری تقدیر ہے۔ پس تم پشیمانی کو چھوڑو، (اور) خدا کی عبادت کرو۔

مطلب: اس سے شبہ ہوتا ہے کہ گناہ پر پشیمانی نہیں کرنی چاہیے۔ حالانکہ حدیث میں وارد ہے کہ ”اَلنَّدَمُ تَوْبَۃٌ“ (ابن حبان۔الرقم: 612) یعنی ”توبہ پشیمانی ہے۔“ شیخ اکبر نے فرمایا ہے کہ حدیث میں ”ندم“ کا جو ذکر ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی پر اقتصا ہوا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ”ندم“ توبہ کا رکنِ اعظم ہے، اور جب توبہ فرضِ عین ہے تو ندامت بھی فرض ہوگی۔ شاید مولانا کا مقصود یہ ہو کہ صرف پشیمانی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ساتھ ہی نیک اعمال بھی بجا لاتے رہے، اور برے اعمال سے باز رہے۔ اگرچہ اکیلی پشیمانی سے بھی گناہ کے مرفوع ہونے کی امید ہے، لیکن عملِ خیرات کے بغیر یہ رفع کمال کو نہیں پہنچتا۔ بعض کہتے ہیں کہ پشیمانی سے کیا فائدہ جو ہونا تھا وہ ہو چکا؟ اسکا جواب یہ ہے کہ پشیمانی سے سیّئہ، حسنہ بن جاتی ہے۔ نیز پشیمانی گناہ کی ظلمت کو اٹھا دیتی ہے۔ جب پشیمانی کے ساتھ استغفار شامل ہو تو یہ رفعِ ظلمت بوجۂ اکمل متوقّع ہے۔ مصرعہ ثانیہ کا حاصل یہ ہے کہ اس خالی پشیمانی سے باز آؤ اور عبادتِ حق میں مشغول ہو جاؤ۔ (بحر العلوم)

41

ور کنی عادت پشیماں خور شوی

زاں پشیمانی پشیماں تر شوی

ترجمہ: اور اگر تم (پچھتانے کے) عادی ہو گئے، تو پھر پشیمانی کھاتے رہو گے۔ اس پشیمانی سے اور زیادہ پشیمان ہو گے۔

42

نیم عمرت در پریشانی رود

نیم دیگر در پشیمانی رود

ترجمہ: تمہاری آدھی عمر تو (مختلف بھلے برے اعمال کی) پریشانی میں گزر گئی، باقی آدھی پشیمانی میں گزرے گی۔

43

ترکِ ایں فکر و پشیمانی بگو

حال و کاروبار نیکو تر بجو

ترجمہ: اس فکر اور پشیمانی کو چھوڑو اور (آئندہ اصلاح کی فکر کر کے اچھا) حال (اچھا) کام، اور اچھا رفیق تلاش کرو۔ (اپنی اصلاح کرو۔ طاعت کے پابند ہو جاؤ، مرشد کامل کی صحبت اختیار کرو۔)

44

ور نداری کارِ نیکو تر بدست

پس پشیمانیت بر فوتِ چہ است

ترجمہ: اور اگر تم (اب بھی) اچھا کام اختیار نہیں کر سکتے۔ تو پشیمانی کس چیز کے کھو جانے پر ہے؟

45

گر همی دانی رہِ نیکو پرست

ور ندانی چوں بدانی کایں بدست

ترجمہ: اگر تم (عبادت کو) نیک راستہ سمجھتے ہو تو (خدا کی) عبادت کرو۔ اور اگر نہیں سمجھتے تو (پھر کسی برے کام کو) کیونکر سمجھو گے کہ یہ برا ہے؟

46

بد ندانی تا ندانی نیک را

ضد را از ضد تواں دید اے فتٰی

ترجمہ: جب تک تم نیکی کو نہیں پہچانتے، تو بدی کو نہیں پہچان سکتے۔ اے جوان! ضد سے ضد کی شناخت کر سکتے ہیں۔

47

چوں ز ترکِ فکرِ ایں عاجز شدی

از گنہ آنگاہ ہم عاجز بُدی

ترجمہ: جب تم اس (بات) کے فکر کو ترک کرنے سے عاجز ہو۔ (کہ میں نے پہلی عمر میں جو کام کیا، برا کیا) تو اس وقت برے کام (کو ترک کرنے) سے بھی عاجز تھے؟

48

چوں بدی عاجز پشیمانی ز چیست

عاجزی را باز گو کز جذبِ کیست

ترجمہ: جب تم (اس وقت ترکِ گناہ سے بھی) عاجز تھے (تو پھر) کس بات پر پچھتاتے ہو؟ (کیونکہ پچھتانا اختیاری فعل پر چاہیے، نہ کہ اضطراری پر ہاں) عاجزی کو پوچھو کہ وہ کس (ذاتِ قادرِ مطلق) کی تحریک سے (پیدا ہوئی) ہے۔

49

عاجزی بے قادرے اندر جہاں

کس ندیدست و نباشد ایں بداں

ترجمہ: عاجزی اور (اضطرار) قادرِ مطلق کے (وجود کے) بغیر۔ دنیا میں کسی نے نہیں دیکھی اور نہ کبھی ہوگی۔ اسکو (خوب) یاد رکھو۔

انتباہ: پہلے یہ بات یہاں سے چھڑی تھی کہ غفلت اس جہان کا ستون ہے، اور غفلت کی ایک جزئی یہ بیان کی کہ مثلًا تم کوئی کام بڑی رغبت سے کرو تو اسکا عیب تم سے مخفی رہے گا۔ اس سے یہ بات چل پڑی کہ اسی خفائے انجام کی وجہ سے گنہگار مرتکبِ گناہ ہوتے رہتے ہیں، اور آخر میں پچھتاتے ہیں۔ پھر چند ابیات میں پچھتانے سے منع فرمایا کہ یہ ایک حوصلہ شکن حالت ہے، اور ساتھ ہی عمل کی ترغیب دی۔ اس کے بعد حق تعالٰی کی طرف متوجہ ہونے کی تاکید کی۔ سلسلۂ کلام کہیں سے کہیں نکل گیا۔ اب پھر پہلی بات پر آتے ہیں، یعنی ہر شوقیہ ارادہ کا عیب و نقص مخفی رہتا ہے:

50

ہمچنیں ہر آرزو کہ مے بری

تو ز عیبِ آں حجابے اندری

ترجمہ: اس طرح تم جو آرزو کرتے ہو۔ اسکے عیب سے تم حجاب میں ہو۔ (جیسے فرمایا: ﴿وَ عَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡ﴾ (البقرۃ: 216) ”اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو“)

51

ور نمودے علّتِ آں آرزو

خود رمیدے جانِ تو زیں جستجو

ترجمہ: اور اگر (حق تعالٰی) اس آرزو کی خرابی کو (تم پر) نمایاں کر دیتا۔ تو تمہاری جان اس جستجو سے گریز کرتی۔

52

گر نمودے عیبِ آں کارِ او ترا

کس نبردے کش کشاں آنسو ترا

ترجمہ: اگر وہ اسکام کا عیب تم کو دکھا دیتا۔ تو (اس کام سے تم کو اس قدر نفرت ہو جاتی، کہ خود ادھر رخ کرنا تو رہا درکنار) کوئی (دوسرا) بھی تم کو ادھر کھینچ گھسیٹ نہ لے جا سکتا۔

53

واں دگر کارے کزاں کاری نفور

زاں بود کہ عیبش آمد در ظہور

ترجمہ: اور وہ دوسرا کام کہ جس سے تم متنفّر ہو۔ (اس سے نفرت) اس لیے ہے کہ اسکا عیب (تم پر) ظاہر ہو گیا؟

انتباہ: چونکہ انسان کا کسی مضر کام میں رغبت کے ساتھ مشغول ہو جانا، اور اسکی مضرت سے آگاہ نہ ہونا نہایت ہولناک معاملہ ہے، جس میں دنیا کی دنیا غرقابِ عذاب ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس لیے اس بیان سے مولانا پر ایک رقّت طاری ہو جاتی ہے، اور وہ مائل بمناجات ہوتے ہیں:

54

اے خدائے راز دانِ خوش سخن

عیبِ کارِ بد ز ما پنہاں مکن

ترجمہ: اے خدا بھید کے جانے والے، اچھے ارشادات والے! برے کام کا عیب ہم سے مخفی نہ رکھیو۔

55

عیبِ کارِ نیک را منما بما

تا نگردیم از روش سرد و ہبا

ترجمہ: اچھے کام کا عیب ہم کو نہ دکھا۔ تاکہ ہم اپنی رفتارِ عمل سے پست ہمت، اور ناچیز نہ بن جائیں۔

مطلب: اچھے کام کے عیب کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ باغوائے شیطان طاعات و عبادات کو مطلقًا معیوب سمجھے ”مَعَاذَ اللہِ مِنْہٗ“ جیسے کہ بعض بھنگڑ فقیر نماز و روزہ کو فضول بتایا کرتے ہیں۔ (خَذَلَھُمُ اللہُ تَعَالٰی) اس لیے دعا ہے کہ الٰہی! ان مبتدع و گمراہ فقیروں کی طرح ہم بھی کہیں عبادات کو بنظرِ کراہت نہ دیکھنے لگیں۔ دوسرے یہ کہ بعض نیک کام ایسے ہوتے ہیں کہ انکا ایک آدھ پہلو بظاہر عیب نما ہوتا ہے، باقی تمام پہلو سراپائے خیر ہوتے ہیں۔ مثلًا کسی مبتلائے معصیّت کو امر بالمعروف کرنا، کہ اس میں اس عاصی کو مخالفانہ گفتگو سے دل شکنی کرنا ایک عیب نما پہلو ہے، مگر اسکی اصلاحِ حال، اسکی گناہ سے نجات، اسکا بدنامی سے بچ جانا اسکے وقت اور روپیہ کا اضاعت سے محفوظ رہنا، اور ناصح کے لیے اجر کی توقع وغیرہ بہت سی خوبیاں بھی اس میں مضمر ہیں۔ ممکن ہے کہ کوئی غیر دور اندیش اس ایک فرضی و موہوم عیب کے خیال سے امربالمعروف کی اس عظیمُ الشّان نیکی کی بجا آوری میں کوتاہی کرے۔ اس لیے دعا ہے کہ الٰہی اس قسم کے موہوم و متخیّل عیب کا خیال ہمارے نیک کام کا مانع نہ ہو۔ تیسرے یہ کہ بعض نیک کاموں میں خود کام کرنے والے کی کمزوری سے کچھ عیوب پیدا ہو جاتے ہیں، جیسے نماز میں خطرات و وساوس کا ورود، روزے میں زبان کے بیجا استعمال کی عادت، زکوٰۃ دینے میں عُجب و افتخار کا بلا ارادہ خیال، حج میں نزاع و جدال کے اضطراری مواقع۔ ایسی صورتوں میں ممکن ہے کہ صاحبِ عمل ان عیوب سے گھبرا کر عمل بطاعت ہی چھوڑ بیٹھے۔ چنانچہ کئی تارکُ الصلوٰۃ اشخاص سے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے صرف اس خیال سے نماز چھوڑ دی کہ وہ دل کی حضوری کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتے۔ بعض کہا کرتے ہیں کہ جب نماز پڑھ کر گناہوں سے نفرت نہ ہوئی، تو نماز کا پڑھنا ہی فضول ہے۔ یہ سب نفسانی وسوسے ہیں۔ درحقیقت بندے کا کام کوشش و سعی ہے جہاں تک بن پڑے طاعت و عبادت میں لگا رہے، اور اسکے عیوب کے ازالہ کی کوشش کرتا رہے جو بات اپنے امکان میں ہے، اس میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے، اور جو اللہ تعالٰی کے اختیار میں ہے، اسکو وہ خود سر انجام دے گا یا معاف کر دے گا۔ اللہ تعالٰی کو بندے کی سعی و کوشش اور ارادہ و نیّت ہی محبوب ہے۔ کَمَا کَتَبَ اِلیَّ سَیّدِیْ وَ مُرْشَدِیْ سَلَّمَہُ اللہُ تَعَالٰی فِیْ مَکْتُوْبِہٖ الشَّرِیْفِ وَ تَمَثَّلَ بِھٰذَا الْبَیْتِ ؎

دوست دارد یار ایں آشفتگی

کوششِ بے ہودہ بہ از خفتگی

اس لیے دعا کرتے ہیں کہ الٰہی ہماری طاعات کے اضطراری نقائص ہم کو بددل کر کے طاعات سے برگشتہ نہ کر دیں۔ آگے پھر حضرت سلیمان علیہ السّلام کے مسجد میں جڑی بوٹیوں سے بات چیت کرنے کا ذکر چلتا ہے:

56

ہم براں عادت سلیمانِؑ سنی

رفت در مسجد میانِ روشنی

ترجمہ: اسی عادت پر حضرت سلیمان علیہ السّلام بزرگ۔ نور کے تڑکے مسجد میں گئے۔

57

قاعدہ ہر روز را مے جُست شاہ

کہ بہ بیند مسجد اندر نو گیاہ

ترجمہ: (جن و انسان کے) بادشاہ (یعنی حضرت سلیمان علیہ السّلام) روزانہ معمول کے مطابق تلاش کرتے۔ کہ مسجد کے اندر کسی نئی اگنے والی گھاس کو دیکھیں۔ (اسی سے مولانا ایک ارشادی مضمون کی طرف انتقال فرماتے ہیں:)

58

دل بہ بیند سرِّ بداں چشمِ صفی

آں حشائش کہ شد از عامہ خفی

ترجمہ: (جسطرح حضرت سلیمان علیہ السّلام جڑی بوٹیوں کے خواص انہی کی زبان سے سن لیتے تھے، اسی طرح عارف کا) قلب (اپنی) اس پُر صفا آنکھ سے (ان معارف و حقائق کی) بوٹیوں کا راز دیکھ لیتا ہے۔ جو عوام کی آنکھ سے مخفی ہیں (آگے اسکے ثبوت میں ایک حکایت ارشاد فرماتے ہیں:)