دفتر 4 حکایت 53: مسجد اقصٰی کے تکمیل پانے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہر روز عبادت کے لیے اور اہل عبادت و اعتکاف کی ہدایت کے لیے اس میں آنا، اور مسجد کے اندر مختلف بوٹیوں کا اگنا اور آنحضرت سے گفتگو کرنا

دفتر چہارم: حکایت: 53

در آمدنِ ہر روز سلیمان علیہ السّلام در مسجدِ اقصٰی بعد از تمام شدنِ جہتِ عبادت و ارشاد عابداں و معتکفاں، و رستنِ عقاقیر در مسجد و بآں حضرت علیہ السّلام بسخن در آمدن

مسجد اقصٰی کے تکمیل پانے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہر روز عبادت کے لیے اور اہل عبادت و اعتکاف کی ہدایت کے لیے اس میں آنا، اور مسجد کے اندر مختلف بوٹیوں کا اگنا اور آنحضرت سے گفتگو کرنا

1

چوں سلیمانؑ نبی شاہِ انام

ساخت مسجد را و فارغ شد تمام

ترجمہ: جب بادشاہِ عالم حضرت سلیمان علیہ السّلام نے مسجد تعمیر کی اور بالکل فارغ ہو گئے۔

2

ہر صباح او را وظیفہ ایں بُدے

کامدے در مسجدِ اقصٰی شُدے

ترجمہ: تو ہر صبح انکا یہ معمول تھا کہ (ایوانِ شاہی سے) آتے (اور) مسجدِ اقصٰی میں داخل ہوتے۔

3

نو گیاہے رستہ بودے اندرو

پس بگفتے نام و نفعِ خود بگو

ترجمہ: اس (مسجد) میں نئی گھاس اگی ہوتی۔ تو آپ (اس سے) فرماتے (اے گھاس! تو) اپنا نام اور فائدہ بیان کر۔

4

تو چہ داروئی و نامت بر چہ است

تو زیاں بر کہ و نفعت بر کہ است

ترجمہ: تو کونسی دوا ہے، اور تیرا نام کس (لفظ) پر ہے۔ تو کس کے لیے مضر ہے اور تیرا فائدہ کس کے لیے ہے۔

5

پس بگفتے ہر گیاہے فعل و نام

کہ من آنرا جانم و ایں را حمام

ترجمہ: تو ہر (جڑی) بوٹی اپنا اثر، اور نام بتا دیتی۔ کہ میں فلاں کے لیے (بمنزلۂ) جان (یعنی مقوّی) ہوں، اور فلاں کے لیے (بمنزلۂ) موت (یعنی زہر ہوں۔)

6

من مر آن را زہرم و ایں را شکّر

نامِ من ایں ست بر لوحِ قدر

ترجمہ: میں اس شخص کے لیے زہر ہوں، اور اسکے لیے شکّر ہوں۔ میرا نام دفترِ تقدیر میں یہ ہے۔

7

پس سلیماں با حکیماں زاں گیا

شرح کردے ضرر و نفعش اے کیا

ترجمہ: پس اے دانا آدمی! حضرت سلیمان علیہ السّلام اس (جڑی) بوٹی کے نفع و ضرر کو حکیموں سے بیان فرما دیتے۔

8

آں طبیباں از سلیمان زاں گیا

عالم و دانا شدند و مقتدا

ترجمہ:وہ طبیب ان (جڑی) بوٹیوں کے متعلق حضرت سلیمان علیہ السّلام (کی تعلیم) سے ماہر و دانا اور پیشوائے (اطباء) بن گئے۔

9

تاکتبہائے طبیبی ساختند

جسم را از رنج مے پر داختند

ترجمہ: یہاں تک کہ انہوں نے کتبِ طب تصنیف کیں۔ جسمِ انسان کو مرض سے نجات دلائی۔

10

ایں نجوم و طبّ وحیِ انبیاست

عقل و حسّ را سوئے بے سو رہ کجاست

ترجمہ: (پس) یہ (علمِ) نجوم اور (علمِ) طب انبیاء علیہم السلام کی وحی (سے نکلے) ہیں۔ (ورنہ) عقل اور حسّ کو اس (علم کی) طرف راستہ کیونکر مل سکتا ہے؟ جسکی طرف (قیاس راہ) نہیں (پا سکتا۔)

مطلب: فرماتے ہیں کہ طب اور نجوم کے اصول وحی کے ذریعہ سے قائم ہوئے ہیں، طبی اصول کا از روئے وحی قائم ہونا تو ظاہر ہے۔ چنانچہ انبیاء علیہم السّلام نے بچہ کا رحم کے اندر وجود پانا اسی تدریج و تربیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، جیسا کہ فی الواقع ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض اعضاء کی تشریح اور بعض نباتات و جمادات کے خواص بھی بیان فرمائے ہیں۔ حکماء نے انہی باتوں کو اخذ کر کے اپنی جودتِ طبع سے اور باتیں استخراج کر لیں، اور مختلف مسائل ترتیب دے کر ان سے ایک مستقل علم کی بنیاد ڈال لی، اور نجوم کے وحیِ انبیاء علیہم السّلام سے مستخرج ہونے کی بنا یہ ہے، کہ انبیاء علیہم السّلام نے بعض اوضاعِ کواکب کے حدوث کے وقت بعض واقعات کی خبر دی۔ فلاسفہ نے اس سے رصد کا طریقہ ایجاد کر کے اپنی جودتِ عقل سے اور بہت سی اوضاع دریافت کر لیں، جس میں وہ صحیح قیاس پر پہنچے، مگر پھر اپنی عقل کے کلّی دخل سے حرکاتِ افلاک کا طریقہ مقرر کیا، اس میں غلطی کر گئے کیونکہ اس میں وحی سے مدد نہیں لی۔ اس لیے وہ عطارد، اور قمر کے اختلافات میں سخت پریشان ہیں۔ رہا واقعات کا وقوع، پس جو حساب انبیاء علیہم السّلام کے طریقِ مختار کے مطابق واقع ہوتا ہے وہ درست ہوتا ہے اور جو اسکے مطابق نہ ہو وہ اکثر غلط نکلتا ہے۔ اسی لیے شیخِ فلاسفہ ابنِ سینا نے کہا ہے کہ نجوم، علوم میں داخل نہیں، بلکہ محض ظن و تخمین (اٹکل پچو) ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے: ”قَالَ:كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ“ (مسلم:2227.03) یعنی ”آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا انبیاء علیہم السّلام میں سے ایک نبی تھے جو لکیریں کھینچتے تھے ،جو انکی لکیروں سے موافقت کر گیا تو وہ ٹھیک ہے۔“ (بحر) آگے اس بات کی دلیل دیتے ہیں کہ یہ علوم عام لوگوں کی ایجاد نہیں بلکہ وحی کے ذریعہ پیدا ہوئے ہیں:

11

عقلِ جزوی عقلِ استخراج نیست

جز پذیرائے فن و محتاج نیست

ترجمہ: (لوگوں کی) ناقص عقل (علوم کو) ایجاد (کرنے) کی (قابلیت رکھنے والی) عقل نہیں۔ وہ تو سوائے اسکے (اور کچھ) نہیں کہ (علم و فن) کو حاصل کرلیتی ہے اور اسکی (طرف) محتاج ہے۔

12

قابلِ تعلیم و فہم ست ایں خرد

لیک صاحبِ وحی تعلیمش دہد

ترجمہ: یہ عقل تعلیم (پانے) اور (سمجھانے سے) سمجھ جانے کے قابل ہے۔ لیکن اسکو تعلیمِ (نبی) صاحبِ وحی (ہی) دیتا ہے (از خود اسکو علم نہیں ہوتا۔)

13

جملہ حرفتہا یقین از وحی بود

اولِ او لیک عقل او را فزود

ترجمہ: (اسی طرح) ہر قسم کی صنعت و حرفت کا آغاز وحی (کی تعلیم) سے ہوا ہے۔ لیکن عقل نے اسکو ترقی دے دی (آگے اسکی دلیل دیتے ہیں:)

14

ہیچ حرفت را ببیں کایں عقلِ ما

تاند او آموخت بے ہیچ اوستا

ترجمہ: یہ تو دیکھو! کہ کیا ہماری یہ عقل کوئی پیشہ کسی استاد کے بغیر سیکھ سکتی ہے؟ (ہرگز نہیں۔)

15

گرچہ اندر مکر موے اشگاف بد

ہیچ پیشہ رام بے استا نشد

ترجمہ: اگرچہ (عقل) حیلہ گری میں موشگاف تھی۔ (مگر) کوئی پیشہ استاد کے (سکھائے) بغیر اسکے قابو میں نہیں آیا۔

16

دانشِ پیشہ ازیں عقل ار بدے

پیشہ بے اوستاد حاصل شدے

ترجمہ: اگر پیشہ کی واقفیت (وحی سے نہیں بلکہ) اس عقل سے ہوتی۔ تو (لازمی طور پر) کوئی پیشہ استاد کے بغیر بھی حاصل ہو جاتا (کیونکہ عقل ہر شخص کے ساتھ موجود ہے، یا کم از کم جس کے ساتھ عقل موجود ہے وہی استاد کی مدد کے بغیر پیشہ سے واقف ہو جاتا۔)