دفتر چہارم: حکایت: 52
نشستنِ دیو بر مقامِ سلیمان علیہ السّلام، و تشبیہ کردنِ او بکارہائے سلیمان علیہ السّلام، و فرق ظاہر میانِ ہر دو سلیمان، و یافتنِ مردماں دیو را کہ تشبّہ بہ سلیمان نمودہ
دیو کا حضرت سلیمان علیہ السّلام کے تخت پر بیٹھ جانا، اور اسکا حضرت سلیمان علیہ السّلام کے کاموں کی نقل کرنا، اور دونوں سلیمانوں میں فرق ظاہر ہونا، اور لوگوں کا دیو کو دریافت کر لینا جس نے سلیمان علیہ السّلام کی نقالی کی تھی
1
دیو گر خود را سلیمان نام کرد
ملک برد و مملکت را رام کرد
ترجمہ: دیو نے اگرچہ اپنا نام سلیمان رکھ لیا۔ وہ حکومت پر قابض ہو گیا اور اس نے ملک مسخّر کر لیا۔
2
صورتِ کارِ سلیمان دیدہ بود
صورت اندر سِرِّ دیوی مے نمود
ترجمہ: (لیکن وہ معنٰی میں سلیمان نہ بن سکا کیونکہ) اس نے سلیمان علیہ السّلام کے کاموں کی (صرف ظاہری) صورت دیکھی تھی (اور انہی کی نقل اڑائی تھی۔ اس لیے اسکے کام معنوی خوبی سے خالی تھے، چنانچہ اسکے کاموں کی) صورت کے اندر شیطانی راز نمایاں تھا۔
3
خلق گفتند ایں سلیماں بے صفاست
از سلیماں تا سلیماں فرقہاست
ترجمہ: لوگوں نے کہا، یہ سلیمان ناپاک ہے۔ سلیمان سے سلیمان تک بہت فرق ہے۔
4
او چو بیداریست ایں ہمچوں وسن
ہمچنانکہ آں حسن تا ایں حسن
ترجمہ: وہ (اصلی سلیمان) گویا بیداری کی طرح (اور) یہ (نقلی سلیمان) نیند سے مشابہ ہے۔ جیسے کہ اِس حسن (وزیر سابق) اور اُس حسن (وزیر ثانی) میں (فرق مذکور ہوا۔)
مطلب: قصہ میں مذکور ہے کہ امرائے دربار کو اس سلیمان نما شیطان کے قول و فعل سے سخت شبہ ہوا کہ یہ سلیمان نہیں ہے۔ سب سے زیادہ آصف بن برخیا کو حیرت تھی کہ وہ سلیمانی عدل و داد اور عقل و تدبیر کیا ہوئی؟ آخر انہوں نے حرم شاہی کے پاس جا کر پوچھا! کیا آپ بھی اس سلیمان کے حالات میں کچھ فرق پاتے ہیں؟ انہوں نے کہا، بہت ہی فرق ہے۔ حتّٰی کہ یہ غسلِ جنابت نہیں کرتا، نہ حائضہ و طاہرہ میں تمیز کرتا ہے۔ حضرت حسن فرماتے ہیں، یہ بات بالکل غلط ہے۔ اللہ تعالٰی پیغمبر کے حرم پر شیطان کو مسلّط نہیں کرتا۔(کذا فی الخازن) غرض لوگوں کو اس شیطان پر شبہ ہوا تو اسے بھی خیال ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ لوگ مجھ سے متنفّر ہو کر اصلی سلیمان کو تلاش کرنے لگیں، اور سلیمان حالتِ گمنامی سے پھر نمایاں ہو کر بادشاہی پر قابض ہو جائیں، اس لیے وہ بھی پیش بندی کرنے لگا۔ چنانچہ:
5
دیو میگفتے کہ حق بر شکلِ من
صورتے کردہ است خوش بر اہرمن
ترجمہ: دیو کہتا تھا کہ حق تعالٰی نے شیطان کو بھی۔ میری شکل کی سی ایک اچھی صورت دی ہے۔
6
دیو را حق صورتِ من دادہ است
تا بیندازد شما را او بشست
ترجمہ: شیطان کو حق تعالٰی نے میری شکل دے دی ہے۔ تاکہ وہ تم کو (اپنے مکر کی) کمند میں ڈال لے۔
7
گر پدید آید بے دعوائے زینہار
صورت او را مدارید اعتبار
ترجمہ: اگر وہ مدعی (سلطنت) بن کر نمودار ہو، تو اسکی (سلیمانی) صورت کا ہر گز اعتبار نہ کرنا۔
8
دیو شاں از مکرِ ایں میگفت لیک
مے نمود ایں عکس بر دلہائے نیک
ترجمہ: دیو از راہِ فریب ان (لوگوں) سے یہ بات کہتا تھا۔ لیکن یہ (بات) نیک (لوگوں کے) دلوں پر (اصلیت کا) عکس ڈال رہی تھی (یعنی ان پر اصلیت آشکارا ہو رہی تھی۔)
9
نیست بازی با ممیّز خاصہ او
کہ بود تمییز و عقلش غیب گو
ترجمہ: (بے شک کسی) صاحبِ تمیز کے ساتھ فریب (و دغا ممکن) نہیں۔ خصوصًا وہ کہ جسکی تمیز و عقل غیب (کی باتیں) بتائے۔
10
ہیچ سحر و ہیچ تلبیس و دغل
مے نہ بندد پردہ بر اہل دول
ترجمہ: کوئی جادو، اور کوئی فریب، و مکر۔ (معرفت کی) دولت والوں پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔
11
پس ہمی گفتند با خود در جواب
باژ گونہ مے روی اے کج خطاب
ترجمہ: پس (اسکے) جواب میں وہ اپنے دل میں کہتے تھے۔ کہ اے الّٹی بات کہنے والے تو الٹا ہی چل رہا ہے۔ (دل میں کہنے کی وجہ ظاہر ہے کہ ایک حکمران کے خلاف ایسے الفاظ اعلانیہ نہیں کہے جاسکتے۔)
12
باژ گونہ رفت خواہی ہمچنیں
سوئے دوزخ اسفل اندر سافلین
ترجمہ: اسی طرح تو دوزخ کی طرف اسفلُ السافلین (یعنی دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں) الٹا ہو کر جائے گا۔
13
او اگر معزول گشتہ است و فقیر
ہست در پیشانیش بدرِ منیر
ترجمہ: وہ (حقیقی سلیمان نبی) اگر (سلطنت سے) علیحدہ اور محتاج ہو گئے ہیں۔ (تاہم) انکی پیشانی میں (نبوّت اور سلطنت کا) روشن چاند (درخشاں) ہے۔
14
تو اگر انگشتری را بردۂ
دوزخی چوں زمہریر افسردۂ
ترجمہ: تو اگرچہ (انکی) انگشتری کو اڑا لے گیا۔ (اور انکی بجائے بادشاہ بن گیا ہے، مگر تو سلیمان نہیں ہوسکتا بلکہ) اے دوزخی! تو (قابلیت کی سرگرمی سے خالی، اور) زمہریر کی طرح افسردہ ہے۔
15
ما ببوش و عارض و طاق و طرب
سرکجا کہ خود ہمے نہ نہیم سنب
ترجمہ: ہم (لوگ) تیری کروفر اور صورت، اور شان و شوکت کے سبب سے۔ (تیرے آگے) سر تو کیا، پیر (بھی) نہ رکھیں گے۔ (یعنی تو ہمارے نزدیک قابلِ عزّت ہونے کے بجائے سخت قابلِ نفرت ہے۔ اب وہ خطاب کے بجائے اسکا غائبانہ ذکر کرتے ہیں:)
16
ور بغفلت ما نہیم او را جبیں
پنجۂ مانع بر آید از زمیں
ترجمہ: اور اگر ہم غلطی سے اسکے آگے (تعظیماً) ماتھا ٹیک دیں۔ تو زمین کے اندر سے (ہم کو اس حرکت سے) روکنے والا پنجہ نمودار ہو جائے۔
17
کہ مَنِہ ایں سر مر ایں سر زیر را
ہیں مکن سجدہ مر ایں ادبیر را
ترجمہ: کہ اس نگوں بخت کے آگے یہ سر نہ جھکاؤ۔ خبردار! اس بد نصیب کو سجدہ نہ کرو۔
18
کردمے من شرح ایں بس جانفزا
گر نبودے غیرت و رشکِ خدا
ترجمہ: میں اس بات کی بڑی پُرلطف تشریح کرتا۔ اگر خدا کی طرف سے غیرت و رشک (اسکا مانع) نہ ہوتا۔
مطلب: یہاں قابلِ شرح بات غالبًا یہ تھی کہ ”در سر و سرت سلیمان کنے ست“ اور ”دیوم ہم وقتے سلیمانی کند“ یعنی تجھ میں سلیمانِ وقت بننے کی صلاحیت موجود ہے، مگر بعض اوقات شیطان تجھ پر اپنا رعب ڈال کر تجھے مطیع و مسخّر کر لیتا ہے۔ اور اسکی شرح سے غیرتِ خدا مانع اس لیے ہے کہ شیطان کو بارگاہ رب العزت سے بندوں کو بہکانے کی اجازت مل چکی ہے: ﴿قَالَ رَبِّ فَاَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ - قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الۡمُنۡظَرِیۡنَ - اِلٰی یَوۡمِ الۡوَقۡتِ الۡمَعۡلُوۡمِ - قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغۡوِیَنَّہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ - اِلَّا عِبَادَکَ مِنۡہُمُ الۡمُخۡلَصِیۡنَ﴾ (ص: 79 تا 83) ”اس نے کہا: میرے پروردگار! پھر تو مجھے اس دن تک کے لیے (جینے کی) مہلت دیدے جس دن لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ اللہ نے فرمایا: چل تجھے ان لوگوں میں شامل کرلیا گیا ہے جنہیں مہلت دی جائے گی۔ (لیکن) ایک متعین وقت کے دن تک۔ کہنے لگا: بس تو میں تیری عزت کی قسم کھاتا ہوں کہ میں ان سب کو بہکاؤں گا۔ سوائے تیرے برگزیدہ بندوں کے۔“ اس اجازت کے بعد مناسب ہے کہ شیطان کو اپنے مکر و فریب کے تمام حربے آزمانے کا موقع دیا جائے، اور ساتھ ہی اللہ تعالٰی کے نیک بندوں کی آزمائش بھی ہو جائے کہ وہ کہاں تک اپنے حُسنِ ایمانی، اور وجدانِ روحانی سے خیر و شر میں تمیز کر سکتے ہیں۔ اگر شیطان کے مکر و فریب کو چن چن کر واشگاف کردیا جائے تو ایک طرف شیطان کو اپنے کام میں وہ آزادی میسر نہ ہوتی جو اسے ملی تھی، اور دوسری طرف بندوں کی آزمائش پورے درجہ پر نہ ہوسکتی۔ اس لیے ایسی بحث جس سے شیطان کے خدائی اجازت سے پورا فائدہ اٹھانے کا موقع فوت ہو، اور ردی الفطرت لوگ بلا امتحان بآسانی پاک سرشت لوگوں میں جا شامل ہوں۔ غیرتِ الٰہیہ کے خلاف ہے۔ تاہم آگے فرماتے ہیں:
19
ہم قناعت کن تو بپذیر ایں قدر
تا بگویم شرحِ ایں وقتِ دگر
ترجمہ: اب تم (اس پر) قناعت کرو اور اسی قدر قبول کر لو۔ تاکہ میں کسی دوسرے وقت اسکی شرح بیان کروں گا۔ آگے بطور تتمۂ کلام فرماتے ہیں:
20
نامِ خود کردہ سلیمانِ نبی
روے پوشی مے کند بر ہر غبی
ترجمہ: (شیطان ملعون، اسی طرح) اپنا نام سلیمان نبی رکھ کر۔ ہر بے وقوف آدمی کے سامنے (اپنی شیطانی) شکل پر نقاب ڈال لیتا ہے۔
مطلب: جس طرح شیطان حضرت سلیمان علیہ السّلام کی صورت میں ظاہر ہو کر لوگوں کے جان و مال کا مالک بن گیا تھا۔ اسی طرح وہ ملعون کبھی لوگوں کا دین و ایمان غارت کرنے کے لیے، مصنوعی پیروں اور جھوٹے عاملوں کی شکل میں نمودار ہوتا ہے، اور کبھی خلقِ خدا کے مال و زر پر ڈاکا ڈالنے کے لیے، جعلی سوداگروں، اور جھوٹے اشتہاری حکیموں کے روپ میں نمایاں ہوتا ہے۔ ”فَھٰؤُلٓاءِ الْکَذَّابُوْنَ مِنْ اِخْوَانِ ذَالِکَ الْمَلْعُوْنِ“۔
21
در گذر از صورت و از نام خیز
از لقب وز نام در معنٰی گریز
ترجمہ: (اس لیے ظاہری) صورت کو چھوڑو، اور (پُر شوکت) نام کا خیال نہ کرو۔ اور لقب و نام سے باطن (کے اوصاف) کی طرف جاؤ۔
مطلب: صرف ظاہری تسبیح و مرقع کی آرائش اور قدوۃُ السّالکین و زبدۃُ العارفین وغیرہ القاب کے گرویدہ نہ ہو، بلکہ یہ دیکھو کہ صلحاء و عرفاء کے سے اوصاف بھی ہیں یا نہیں۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
روندگانِ طریقت بہ نیم جو نخرند
قبائے اطلس آنکہ کہ از هنر عاریست
22
پس بپرس از خلقِ او وز فعلِ او
درمیانِ خلق و فعل او را بجو
ترجمہ: پس اسکے اخلاق اور اسکے افعال دریافت کرو۔ اور اخلاق و افعال میں اس (کے نیک و بد ہونے) کا سراغ لگاؤ۔
مطلب: اگر وہ قانع، صابر، متحمّل، عبادت گزار، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بدعات سے مجتنب اور سنت کا پابند ہے، تو بے شک وہ صالح آدمی ہے، لیکن اگر طامع، بے صبر، درشت مزاج، عبادت میں سست، مبتدع اور تارکِ سنت ہے، تو اسکی صحبت سے بچو، وہ ایک خطرناک ہستی ہے۔
23
کارِ ہر کس نیست ہیں در کش زمام
مسجدِ اقصٰی بسازد کن تمام
ترجمہ: (مگر اس طرح کی مردم شناسی) ہر شخص کا کام نہیں۔ اس لیے (اس بحث سے) باگ روک لو، اور مسجد اقصٰی کی تعمیر (کا قصہ بیان) کرو اور اسے ختم کرو۔
24
شد تمامُ القصہ مسجد بے فتور
بد سلیمانؑ زائر و مسجد مزور
ترجمہ: القصہ مسجد (اقصٰی) بلا توقّف تکمیل کو پہنچ گئی۔ حضرت سلیمان علیہ السّلام زیارت کرنے والے تھے، اور مسجد زیارت گاہ۔