دفتر 4 حکایت 51: اس کمینے وزیر کی رائے کا بادشاہ کی مروّت کو خراب کرنے میں، فرعون کے وزیر یعنی ہامان (کی بری رائے) سے مشابہ ہونا، جو فرعون کو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی نصیحت قبول کرنے کے متعلق (اس کے ذہن کو) فساد میں ڈالتا رہا

دفتر چہارم: حکایت: 51

مانستن بد رائے اِیں وزیر دون در افسادِ مروّتِ شاہ، بوزیرِ فرعون یعنی ہامان در افسادِ قبولِ او پندِ موسٰی علیہ السّلام را

اس کمینے وزیر کی رائے کا بادشاہ کی مروّت کو خراب کرنے میں، فرعون کے وزیر یعنی ہامان (کی بری رائے) سے مشابہ ہونا، جو فرعون کو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی نصیحت قبول کرنے کے متعلق (اس کے ذہن کو) فساد میں ڈالتا رہا

1

چند آں فرعون مے شد نرم و رام

چوں شنیدے او ز موسٰیؑ آں کلام

ترجمہ: کئی مرتبہ فرعون جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے وہ کلام (جو ان پر منجانبِ اللہ نازل ہوتا تھا) سنتا، تو نرم اور مطیع ہونے لگتا۔

2

آں کلامے کہ بدادے سنگ شیر

از خوشی آں کلامِ بے نظیر

ترجمہ: وہ بے نظیر کلام، جسکی خوبی (تاثیر) سے، پتھر بھی دودھ دینے لگتا۔

3

چوں بہاماں کہ وزیرش بود او

مشورت کردے کہ کینش بُود خُو

ترجمہ: (مگر) جب وہ ہامان سے مشورہ کرتا جو اسکا وزیر تھا، کہ جسکی خصلت کمینہ پن تھی۔

4

پس بگفتے تا کنوں بودی خدیو

بندہ گردی ژندہ پوشے را بریو

ترجمہ: تو وہ کہتا اب تک تو (خود مختار) بادشاہ رہا۔ (اب) ایک گدڑی پہننے والے (فقیر) کا (اسکے) مکر کے سبب سے غلام بن جائے گا۔

5

ہمچو سنگِ منجنیقے آمدے

آں سخن بر شیشہ خانہ او زدے

ترجمہ: یہ بات منجنیق (شکن مشین) کے پتھروں کی طرح پڑتی۔ اور فرعون (کی ثابت قدمی) کے شیش محل پر لگتی (جس سے وہ چکنا چور ہو جاتا۔)

6

ہرچہ صد روز آں کلیمِ خوش خطاب

ساختے در یکدم او کردے خراب

ترجمہ: وہ خوش تقریر کلیم اللہ، جو کام سو دن تک سر انجام دیتے رہتے، وہ (کمبخت وزیر اسکو) ایک لمحہ میں خراب کر دیتا۔ (اس واقعہ سے مولانا ایک ارشادی سبق دیتے ہیں کہ:)

7

عقلِ تو دستور و مغلوبِ ہواست

در وجودت رہزنِ راہِ خداست

ترجمہ: (اسی طرح) تمہاری (مملکت وجود کے اندر بھی) عقل (معاش روح کی) وزیر ہے۔ اور (وہ) خواہشِ (نفسانی) سے مغلوب ہے، وہ (عقل) راہ خدا کی رہزن ہے۔

اختلاف: پہلا مصرعہ قلمی نسخے اور منہاج القوٰی کے متن کے مطابق ہے۔ ہمارے نسخہ میں یہ مصرعہ یوں درج ہے۔ ”عقلِ تو مغلوب و دستور ہواست۔“ اگر اس میں واؤ عاطفہ نہ ہوتی تو پھر ہم اس نسخہ کو اختیار کرتے، کیونکہ اس صورت میں ترجمہ نہایت واضح بلا تکلّف ہوتا، یعنی تیری عقل خواہشِ نفسانی کے وزیر سے مغلوب ہے جسکا مطلب یہ کہ عقل بادشاہ ہے، اور خواہشِ نفسانی اسکی وزیر۔ اس وزیر نے شاہِ عقل کو مغلوب و مسخّر کر رکھا ہے، جسطرح ہامان نے فرعون کو مغلوب کر رکھا تھا۔

8

ناصحے ربّانیے پندت دہد

ایں سخن را او بفن طرحے نہد

ترجمہ: (چنانچہ) کوئی ناصح مقبولِ خدا تم کو نصیحت کرتا ہے۔ تو وہ (وزیر) اس بات کو فریب کے ساتھ ٹال دیتا ہے۔

9

کایں نہ بر جایست ہیں از جا مشو

نیست چنداں با خود آ شیدا مشو

ترجمہ: کہ یہ بات بجا نہیں خبردار! تم ڈگمگا نہ جانا (یہ بات) چنداں (قابلِ توجہ) نہیں۔ ہوش میں آؤ (اس پر) فریفتہ نہ ہو۔ (آگے فرعون و ہامان جیسے ہر برے بادشاہ اور برے وزیر کے متعلق فرماتے ہیں:)

10

وائے آں شہ کہ وزیرش ایں بود

جائے ہر دو دوزخِ پُر کیں بود

ترجمہ: افسوس ہے اس بادشاہ پر جسکا وزیر یہ ہو، دونوں کی جگہ غضبناک دوزخ میں ہو گی۔

11

شاد آں شاہے کہ او را دستگیر

باشد اندر کار چوں آصف وزیر

ترجمہ: خوشحال ہے وہ بادشاہ، جسکے (ملکی) معاملہ میں آصف جیسا وزیر معاون ہو۔

12

شاہِ عادل چوں قرینِ او شود

معنٰیِ نُوْرٌ عَلٰی نُوْر ایں شود

ترجمہ: (پھر) جب عادل بادشاہ اس کا رفیق ہو جائے۔ تو یہی ”نُوْرٌ عَلٰی نُوْر“ کے معنٰی ہیں۔

13

چوں سلیمان شاہ و چوں آصف وزیر

نور بر نورست عنبر بر عبیر

ترجمہ: حضرت سلیمان علیہ السّلام جیسا بادشاہ، اور آصف جیسا وزیر۔ ”نُوْرٌ عَلٰی نُوْر“ ہے اور عبیر کے اوپر عنبر۔

14

شاہ فرعون و چو ہامانش وزیر

ہر دو را نبود ز بدبختی گزیر

ترجمہ: (بخلاف اسکے) بادشاہ، فرعون (ہو) اور ہامان کا جیسا اسکا وزیر۔ تو دونوں کو بدبختی سے چارہ نہیں۔

15

پس بود ظُلُمَاتٌ بَعْضٌ فَوْقَ بَعْضٍ

نے خرد یار و نہ دولت روزِ عرض

ترجمہ: پھر تو تاریکی پر تاریکی چھاگئی۔ قیامت کے دن نہ عقل ساتھ دے گی نہ دولت۔

مطلب: جب ”وزیرے چنیں شہر یارے چناں“ کا معاملہ ہو تو بس دنیا میں اندھیر ہے۔ پہلے مصرعہ میں قرآن مجید کی اس آیت کی طرف تلمیح ہے: ﴿وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُہُمۡ کَسَرَابٍۭ بِقِیۡعَۃٍ یَّحۡسَبُہُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَہٗ لَمۡ یَجِدۡہُ شَیۡئًا وَّ وَجَدَ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ فَوَفّٰىہُ حِسَابَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ﴾ (النور: 39) ”اور (دوسری طرف) جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے انکے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹیل صحرا میں ایک سراب ہو جسے پیاسا آدمی پانی سمجھ بیٹھتا ہے، یہاں تک کہ جب اسکے پاس پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں تھا اور اسکے پاس اللہ کو پاتا ہے، چنانچہ اللہ اس کا پورا پورا حساب چکا دیتا ہے، اور اللہ بہت جلدی حساب لے لیتا ہے۔“

16

من ندیدم جز شقاوت در لئام

گر تو دیدستی رساں از من سلام

ترجمہ: میں نے کمینے لوگوں میں سوائے بدبختی کے کچھ نہیں دیکھا۔ اگر تم نے دیکھا ہے تو میری طرف سے (انکو) سلام پہنچاؤ (کیونکہ سعادتِ اُخرویہ قابلِ سلام ہے۔)

17

ہمچو جاں باشد شہ و صاحب چو عقل

عقلِ فاسد روح را آرد بنقل

ترجمہ: بادشاہ گویا روح ہوتا ہے، اور وزیر مثل عقل۔ خراب عقل روح کو متغیرّ کردیتی ہے (اسی طرح برا وزیر بادشاہ کو گمراہ بلکہ تباہ کر دیتا ہے۔)

18

آں فرشتہ عقل چوں ہاروت شد

سحر آموزِ دو صد طاغوت شد

ترجمہ: وہ عقل (جو) بمنزلہ فرشتہ (ہے) جب ہاروت بن جائے۔ تو دو سو شیطانوں کو جادو سکھانے لگتی ہے۔

مطلب: فرشتہ ہر چند گناہ و معصیت سے پاک ہوتا ہے، مگر مشہور قصّہ کی بنا پر جب ہاروت و ماروت دو فرشتے امتحان میں پڑ گئے، تو نہ صرف خود برائی کے مرتکب ہوئے بلکہ برے لوگوں کے استاد بن گئے۔ اسی طرح عقل اگرچہ ایک نور ہے، مگر جب وہ ہوا و ہوس سے متاثر ہو جائے تو روح کو بھی ناپاک کر دیتی ہے۔ ہاروت و ماروت کے مشہور قصے کی تنقید و تردید پہلی جلد میں بالتّفصیل کی جا چکی ہے۔ مولانا کا اسکو تمثیلًا ذکر فرما دینا مضر نہیں جیسے (دیگر فرضی قصّے اس کتاب میں مذکور ہیں۔)

19

عقل جزوی را وزیرِ خود مگیر

عقلِ کل را ساز اے سلطاں وزیر

ترجمہ: ناقص عقل کو اپنا وزیر نہ بناؤ۔ (جو ہوا و ہوس سے متاثر اور ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہے۔) اے بادشاہ! عقل کو (اپنا) وزیر بناؤ (جو قیدِ نفس سے آزاد اور ضلالت سے محفوظ ہے۔)

20

مر ہَوَا را تو وزیرِ خود مساز

کہ بر آید جانِ پاکت از نماز

ترجمہ: ہوا (و ہوس) کو (بھی) تم اپنا وزیر نہ بناؤ۔ کیونکہ (اسکے اثر سے) تمہاری پاک روح (طاعت و عبادت) سے متنفّر ہو جائے گی۔

21

کایں ہوا پُر حرص و حالی بیں بود

عقل را اندیشۂ یوم الدّین بود

ترجمہ: کیونکہ یہ خواہش (نفسانی) حرص سے پُر اور موجودہ (عالم) کو نصب العین بنانے والی ہے۔ (بخلاف اسکے) عقلِ (کامل) کو آخرت کے دن کا خیال ہوتا ہے۔

مطلب: خواہشِ نفسانی صرف دنیاوی جاہ و جلال کی طالب ہوتی ہے۔ آخرت کا اسکو خیال تک نہیں آتا۔ انہی بندگانِ خواہش کے بارے میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔ ﴿کَلَّا بَلۡ تُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَۃَ - وَ تَذَرُوۡنَ الۡاٰخِرَۃَ (القیامۃ: 20،21)خبردار (اے کافرو) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کئیے ہوئے ہو۔“ بخلاف اسکے نفسانی و شیطانی ترغیبات سے بچنے والے وہ لوگ ہیں، جنکے بارے میں ارشاد ہے: ﴿وَ الَّذِیۡنَ اجۡتَنَبُوا الطَّاغُوۡتَ اَنۡ یَّعۡبُدُوۡہَا وَ اَنَابُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ لَہُمُ الۡبُشۡرٰی ۚ فَبَشِّرۡ عِبَادِ﴾ (الزمر: 17) ”اور جن لوگوں نے اس بات سے پرہیز کیا ہے کہ وہ طاغوت کی عبادت کرنے لگیں اور انہوں نے اللہ سے لوگ لگائی ہے خوشی کی خبر انہی کے لیے، لہذا میرے ان بندوں کو خوشی کی خبر سنا دو ۔“

22

عقل را دو دیدہ در پایانِ کار

بہرِ آں گل میکشد او رنجِ خار

ترجمہ: عقل کو انجامِ کار کے (دیکھنے) کے لیے دو آنکھیں (حاصل ہیں۔) اس پھول کے لیے وہ کانٹے کی تکلیف برداشت کرتی ہے۔ (راحتِ عقبٰی کے لیے دنیا میں تکالیفِ طاعات سہتی ہے۔)

23

کہ نفرساید نریزد ہر خزاں

بادِ ہر خرطوم اخشم دور ازاں

ترجمہ: (یہ مقاصد عقبٰی کا پھول، وہ ہے) جسکو کوئی بادِ خزاں خراب نہ کر سکے نہ گرا سکے۔ خدا کرے اس مبارک پھول سے ہر ناک جو (اسکی خوشبو) سونگھنے کی طاقت نہیں رکھتی، دور رہے۔

24

ورچہ عقلت ہست با عقلِ دگر

یار باش و مشورت کن اے پسر

ترجمہ: اور اگرچہ (خود) تم میں (بھی) عقل ہے (تاہم) اے عزیز! (کسی) دوسرے (بزرگ) کی عقل کے رفیق بن جاؤ، اور اس سے مشورہ کرو۔ (تو ان شاء اللہ ہدایت پانے اور شرورِ نفس سے محفوظ رہنے کی زیادہ امید ہے۔

25

با دو عقل از بس بلاہا وا رہی

پائے خود بر اوجِ گردونہا نہی

ترجمہ: دو عقلوں (کے اجتماع) سے تم بہت سی آفتوں سے بچ جاؤ گے (اور یہاں تک ترقّی کرو گے کہ) اپنا پاؤں آسمان کی بلندی پر جا رکھو گے۔

کَمَا قَالَ الْعَارِفُ الْجَامِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ ؎

چو آید مشکلے پیشِ خردمند

کزاں مشکل فتد در کارِ او بند

کند عقلِ دِگر با عقلِ خود یار

کہ تا درحلِ آں گردد مددگار

ز یک شمعش نگیرد نورِ خانہ

فروزد شمعِ دیگر درمیانہ

وزیروں کا یہ قصہ اس تقریب سے شروع ہوا تھا کہ انسان کو اپنے خاتمِ قلب کی حفاظت کرنی چاہیے، تاکہ کوئی شیطان اسکو چرا نہ لے جائے۔ جس طرح ایک دیو صخر نام حضرت سلیمان علیہ السّلام کی انگشتری چرا لے گیا اور خود سلیمان بن گیا، لیکن اصلی سلیمان اور بناوٹی سلیمان میں ہزاروں کوس کا فرق ہے جس طرح ان دو وزیروں میں فرق تھا۔ حالانکہ دونوں حسن کہلاتے تھے۔

خاتمِ تو ایں دل ست و ہوش دار

تا نگردد دیو را خاتم شکار

دیو ہم وقتے سلیمانی کند

لیک ہر جولاہہ اطلس کے تند

دست جنباند چو دستِ او ولیک

درمیانِ ہر دو شاں فرقیست نیک

اب وہ افسانہ نما قصّہ بیان فرماتے ہیں جس میں دیو مذکور کے خاتمِ سلیمان اڑا لے جانے کا ذکر ہے۔ اس قصے کی تغلیط پر اہلِ تحقیق کا اتفاق ہے۔ مولانا محض تمثیلًا ایسے قصے درج فرمایا کرتے ہیں: