دفتر 4 حکایت 50: شاعر کا اپنا قصیدہ بادشاہ کی طرف لے جانا اور وزیر کا نقصان (پہنچانا)

دفتر چہارم: حکایت: 50

بردنِ شاعر شعر را سوئے شاہ و خسارتِ وزیر

شاعر کا اپنا قصیدہ بادشاہ کی طرف لے جانا اور وزیر کا نقصان (پہنچانا)

1

بُرد شاعر شعر سوئے شہریار

بر امیدِ بخشش و احسانِ پار

ترجمہ: شاعر (اپنا) قصیدہ گذشتہ سال کے احسان و بخشش کی امید پر، بادشاہ کی طرف لے گیا۔

2

نازنیں شعرے پُر از دُر درست

بر امید و بوئے اکرامِ نخست

ترجمہ: ایک عمدہ قصیدہ جو (معانی کے) عمدہ موتیوں سے پر تھا۔ سابقہ انعام کی امید و توقع پر (لے گیا۔)

3

باز شہ بر خوئے خود گفتش ہزار

چوں چنیں بد عادتِ آں شہریار

ترجمہ: بادشاہ نے پھر اپنی عادت کے موافق اسکے لیے ہزار کا حکم دیا۔ جب کہ اس بادشاہ کی یہی عادت تھی۔

4

لیک ایں بار آں وزیرِ پُر ز جود

بر براقِ عزّ ز دنیا رفتہ بود

ترجمہ: لیکن اس مرتبہ وہ سخی وزیر (جس نے پہلے دس ہزار دلایا تھا۔) عزت کے براق پر (سوار ہو کر) دنیا سے کوچ کر گیا تھا۔

5

بر مقامِ او وزیرِ نو رئیس

گشتہ لیکن سخت بے رحم و خسیس

ترجمہ: اسکی جگہ پر ایک نیا وزیر سرفراز ہوا۔ لیکن (وہ) سخت بے رحم اور کمینہ (تھا)۔

6

گفت اے شہ خرجہا داریم ما

شاعرے را نبود ایں بخشش سزا

ترجمہ: اس نے کہا، حضور ہمیں (مہمّاتِ ملکی کے لیے) بہت سے اخراجات در پیش ہیں۔ ایک (خدائی خوار) شاعر اس قدر (بھاری) بخشش کے لائق نہیں۔

7

من برُبعِ عشرِ آں اے مغتنم

مردِ شاعر را خوش و راضی کنم

ترجمہ: اے (بادشاہ!) جو (ہمارے لیے) غنیمت ہے۔ میں (اس) شاعر آدمی کو اسکے چالیسویں حصے پر خوش اور راضی کر لوں گا۔

8

خلق گفتندش کہ او از پیش دست

دہ ہزارے زیں دلاور بردہ است

ترجمہ: اس (وزیر) کو لوگوں نے (پرائیویٹ طور پر) کہا وہ شاعر (اس سے) پہلے اس حوصلہ مند (بادشاہ) سے دس ہزار اشرفی لے گیا ہے۔

9

بعد شکّر کلک خائی چوں کند

بعد سلطانی گدائی چوں کند

ترجمہ: (پھر) وہ شکر (کھانے) کے بعد نرکل چبانا کب (گوارا) کرے گا۔ بادشاہی کے بعد فقیری کب (پسند) کرے گا۔ (”شکر“ اور ”نرکل“ ہم شکل ہوتے ہیں۔ صرف اتنا فرق ہے کہ اس میں شکر ہوتی ہے۔ اس میں نہیں۔)

10

گفت بفشارم ورا اندر فشار

تا شود زار و نزار از انتظار

ترجمہ: (وزیر نے) کہا میں اسکو تنگی میں (رکھ کر) تنگ کروں گا۔ حتّٰی کہ وہ انتظار سے نالاں و ناتواں ہوجائے گا۔

11

آنکہ از خاکش دہم از راہِ من

در رباید ہمچو گلبرگ از چمن

ترجمہ: (پھر) اس وقت اگر میں اس کو راستے کی مٹی بھی دوں گا۔ تو اس طرح (غنیمت سمجھ کر) قبول کرے گا جیسے باغ سے پھول کی پنکھڑی۔

12

ایں بمن بگذار کاستادم دریں

گر تقاضا گر بود ہم آتشیں

ترجمہ: (پھر وزیر نے بادشاہ سے کہا) حضور! اس (معاملہ) کو مجھ پر چھوڑیے کیونکہ میں اس کام میں ماہر ہوں۔ اگرچہ وہ آگ کی طرح (سر گرم) تقاضائی (بھی کیوں نہ) ہو (میں ضرور اس کو ٹھنڈا کر دوں گا۔)

13

از ثریّا گر بپرّد ثریٰ

نرم گردد چوں بَہ بیند اُو مرا

ترجمہ: اگر وہ (آسمان کے) پروین سے لے کر (جو خاص ستارے ہیں) زمین تک بھی اڑتا چلا آئے۔ تو مجھے دیکھتے ہی نرم پڑ جائے گا۔

14

گفت سلطانش برو فرماں تراست

لیک شادش کن کہ نیکو گوئے ماست

ترجمہ: بادشاہ نے اسکو کہا، جاؤ تم کو اختیار ہے۔ لیکن اس کو خوش کرو کیونکہ وہ ہمارا مدح گو ہے۔

انتباہ: بادشاہ کے قول ”برو فرمان تراست“ سے ظاہر ہے کہ وزیر نے جو پہلے کہا تھا کہ ”بفشارم ورا اندر فشار“ وہ بادشاہ سے نہیں کہا بلکہ ان لوگوں سے کہا تھا جنہوں نے وزیرسے اسکے گھر پر بادشاہی ایوان کے اندر تخلیہ میں کہا تھا، کہ تم یہ کیا غضب کرتے ہو کہ ایک ہزار اشرفی بھی اسکو نہیں لینے دیتے۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ دس ہزار وصول کر چکا ہے کیونکہ اگر اس نے بادشاہ سے ایسا کہا ہوتا تو بادشاہ کا اس سے توقع رکھنا فضول تھا، کہ وہ اس شاہی مدّاح سرا کو خوش کرے گا۔ اسی لحاظ سے ہم نے ان گزشتہ اشعار کے ترجمہ میں مقدرات نکالے تھے۔ چنانچہ اگلے اشعار سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اس وزیر پُر تزویر نے اپنی نیّت بادشاہ پر ظاہر نہیں ہونے دی۔

15

گفت او را و دو صد امید لیس

تو بمن بگذار و آں بر من نویس

ترجمہ: (وزیر نے) عرض کیا (حضور یہ کیا خیال فرماتے ہیں) اس (شاعر) کو اور (اس جیسے) دو سو امیدواروں کو (بھی) میرے سپرد فرما دیجئے، اور اس (بات) کو میرے ذمہ لکھ دیجئے (کہ میں سب کو خوش کر کے بھیجوں گا۔)

16

جنسِ او و ہمچو او سہ صد ہزار

تو رہا کن با من و با من گذار

ترجمہ: (حضور!) اس (شاعر) جیسے اور ایسے تین لاکھ (امیدوار) میرے سپرد فرما دیجئے، اور (ان کا معاملہ) مجھ پر چھوڑیئے (پھر دیکھئے کس طرح انکو خوش کر کے بھیجتا ہوں۔)

17

پس فگندش صاحب اندر انتظار

شد ز مستان و دے و آمد بہار

ترجمہ: پھر اس (غریب شاعر) کو وزیر نے انتظار میں ڈالے رکھا۔ حتّٰی کہ سردی کا موسم اور خزاں کے ایّام بھی گزر گئے اور فصل بہار آگئی۔ (بیچارہ شاعر آغاز سرما میں اس امید پر آیا ہوگا کہ بادشاہ کے انعام میں سنجاب و سمور کی عمدہ پوستین اور پشمینے کی قیمتی چادریں وصول کر کے امیرانہ شان کے ساتھ سردی گزاریں گے، مگر وزیر کی عنایت سے اسکے یہ ایام پھٹے پرانے کمبل میں ہی کٹ گئے۔)

18

شاعرش چندانکہ حاجت مے نمود

صاحبش در وعدہ حیلہ مے فرود

ترجمہ: شاعر ہر چند اس پر (اپنی) محتاجی ظاہر (کر کے بادشاہ کے حکم کی تعمیل کے لیے التجا) کرتا تھا۔ (مگر) وزیر (جھوٹے) وعدے میں (کوئی اور) حیلہ نکال لیتا تھا۔

19

تاکہ اندر انتظارش پیر شد

پس زبون ایں غم و تدبیر شد

ترجمہ: حتّٰی کہ وہ اس (انعام) کے انتظار میں بڈھا ہو گیا۔ پس وہ اس (نا کامی کے) غم اور (کامیابی کی) تدبیر سے تھک گیا۔ (مقولہ بھی ہے: ”اَلْاِنْتِظَارُ اَشَدُّ مِنَ الْمَوْتِ“)

20

گفت اگر زر نہ کہ دشنامم دہی

تا رہد جانم ترا باشم رہی

ترجمہ: (آخر منت کے ساتھ) کہنے لگا (اجی وزیر صاحب) اگر روپیہ نہیں (دیتے) تو گالی ہی دیجئے۔ تاکہ (میں نا امید ہو کر چلا جاؤں اور اس انتظار سے تو) میری جان چھوٹ جائے اور میں آپ کا غلام ہو جاؤں۔ (بقول کسی کے: ”اَلْیَأسُ اِحْدَی الرَّاحَتَیْنِ“ یعنی ”نا امیدی بھی دو راحتوں میں سے ایک راحت ہے۔“)

21

انتظارم کشت بارے گو برو

تا رہد ایں جانِ مسکین از گرو

ترجمہ: انتظار نے مجھے مار ڈالا، آخر (اتنا ہی) کہہ دو کہ چلا جا۔ تاکہ یہ غریب جان قید سے چھوٹ جائے۔

22

بعد ازانش داد ربع عشرِ آں

ماند شاعر اندر اندیشہ گراں

ترجمہ: اس (تقاضائے شدید) کے بعد اسکو وزیر نے اس (انعام منظور شدہ) کا چالیسواں حصہ (یعنی 250 دینار انعام) دے دیا۔ شاعر (یہ قلیل عطیہ دیکھ کر) ایک بھاری سوچ میں پڑ گیا۔

23

کانچناں نقد و چناں بسیار بود

ویں کہ دیر اشگفت دستہ خار بود

ترجمہ: (کہ وہ پہلا انعام تو) اتنی جلدی (وصول ہونے والا) اور اس قدر زیادہ تھا۔ اور یہ انعام کہ (جسکا پھول) دیر میں کھلا (آخر) کانٹوں کا گچھا نکلا۔

24

پس بگفتندش کہ آں دستور راد

رفت از دنیا خدا مزدش دہاد

ترجمہ: تو (ملازمانِ محکمہ نے) اس کو بتایا کہ وہ دانا وزیر دنیا سے رخصت ہوچکا ہے، خداوند تعالٰی اسکو اجر دے۔

25

کہ مضاعف زو ہمے گشتے عطا

کم ہمے افتاد در بخشش خطا

ترجمہ: جسکی بدولت انعام کئی گنا ہو جاتے تھے۔ (اور اس سے) بخشش کے معاملے میں غلطی نہ ہوتی تھی۔

26

ایں زماں او رفت و احساں را ببرد

او بمرد الحق ولے احساں نمرد

ترجمہ: اب وہ چلا گیا، اور احسان کو (اپنے ساتھ) لے گیا۔ سچ تو یہ ہے (کہ گو) وہ مرگیا مگر (اسکا) احسان نہیں مرا۔

27

رفت از ما صاحبِ رادِ رشید

صاحبِ سلّاخِ درویشاں رسید

ترجمہ: (افسوس کہ) دانا و راست رو وزیر ہم سے رخصت ہو گیا۔ (اور) غریبوں کی کھال کھینچنے والا وزیر آگیا۔

28

رو بگیر ایں را و زیں جا شب گریز

تا نگیرد با تو ایں صاحب ستیز

ترجمہ: (بھائی یہ بھی غنیمت سمجھو) جاؤ یہی (رقم) لے لو اور راتوں رات یہاں سے بھاگ جاؤ۔ تاکہ یہ وزیر تمہارے ساتھ (کوئی تازہ) جھگڑا نہ ڈال دے۔ (پھر لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔)

29

ما بصد حیلہ ازو ایں ہدیہ را

بستدیم اے بے خبر با جہدہا

ترجمہ: اے بے خبر! ہم نے سینکڑوں حیلوں (اور) کوششوں سے یہ انعام اس سے لیا ہے، تاکہ تم خالی نہ جاؤ۔

30

رو بایشاں کرد و گفت اے مشفقاں

از کجا آمد بگوئید ایں عَواں

ترجمہ:۔ (تو شاعر) ان (ملازمانِ محکمہ وزارت) کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا۔ اے دوستو! یہ تو بتاؤ کہ یہ ظالم کہاں سے آ مرا۔

31

چیست نامِ ایں وزیرِ جامہ کَن

قوم گفتندش کہ نامش ہم حسن

ترجمہ: اس کپڑے اتارنے والے وزیر کا کیا نام ہے؟ ان لوگوں نے اسے بتایا کہ اسکا نام بھی حسن ہے۔

32

گفت یا رب نامِ آن و نامِ ایں

چوں یکے آمد دریغ اے ربِ دیں

ترجمہ: (تو شاعر نے) کہا اے پروردگار! اُس (عالی صفات وزیر) کا نام اور اِس (بد ذات وزیر) کا نام ایک کیوں ہو گیا؟ اے پروردگار دین (اس سوئے اتفاق پر) بڑا افسوس ہے۔

33

آں حسن نامے کہ از یک کلکِ او

صد وزیر و صاحب آمد جود جو

ترجمہ: ایک وہ حسن نام والا تھا، کہ اسکے ایک قلم (کی جنبش) سے۔ سو وزیر اور مصاحب، طالبِ بخشش تھے۔

34

ایں حسن کز ریش زشت ایں حسن

مے تواں بافید ایجاں صد رسن

ترجمہ: (اور ایک) یہ حسن ہے کہ اسکی (منحوس) ڈاڑھی سے، سو رسیاں (ہی) بٹ سکتے ہیں۔ (وہ اور کسی مصروف کی نہیں۔)

35

بر چنیں صاحب چو شہ اِصغا کند

شاہ و ملکش را ابد رسوا کند

ترجمہ: جب ایسے وزیر کی بات بادشاہ سنتا ہے۔ تو وہ بادشاہ اور اسکی حکومت کو ہمیشہ خوار کرے گا۔