دفترِ چہارم: حکایت: 49
باز آمدنِ شاعر بعد چند سال با امیدِ ہماں صلہ و ہزار دینار فرمودنِ شاہ بر قاعدۂ خویش و گفتنِ وزیرِ نو ہم حسن نام شاہ را کہ ایں سخت بسیارست و ما را خرجہاست و خزینہ خالیست و من او را بدہ یکے راضی کنم
چند سال کے بعد شاعر کا پھر (بادشاہ کے حضور میں) اس صلہ کی امید پر آنا، اور بادشاہ کا اپنے قاعدے کے موافق ہزار دینار کا حکم دینا، اور وزیر کا کہ اس کا نام بھی حسن تھا۔ بادشاہ کو کہنا کہ یہ (انعام) بہت زیادہ ہے، اور ہم کو (بہت سے) اخراجات (پیش) ہیں، اور خزانہ خالی (پڑا ہے) اور میں اس کو دسویں حصہ پر راضی کر لوں گا
نکتہ: پیچھے جو بیان ہوا کہ دس ہزار کا انعام بادشاہ کے خزانۂ کثیرہ سے مشتے از خروارے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس سے اس وزیرِ ثانی کی خست و دناءت پر روشنی ڈالنا مقصود تھا جو اب جھوٹ موٹ کہہ رہا ہے کہ خزانہ خالی ہے۔
1
بعد سالے چند بہرِ رزق و گشت
شاعر از فقر و عوز محتاج گشت
ترجمہ: کئی سال کے بعد وہ شاعر فقر و تنگ دستی کی وجہ سے، رزق و روزی کا محتاج ہو گیا۔
2
گفت وقتِ فقر و تنگیِ دو دست
جستجوئے آزمودہ بہترست
ترجمہ: تو اس نے (دل میں) کہا، محتاجی اور تنگ دستی کے وقت اسکی تلاش مناسب ہے، جسکو آزمایا جا چکا ہے (کہ وہ سخی و کریمُ النّفس ہے۔)
3
درگہے را کازمودم از کرم
حاجتِ نو را بداں جانب برم
ترجمہ: میں جس درگاہ کو (اسکے) کرم (کے لحاظ) سے (پہلے) آزما چکا ہوں۔ (اس) تازہ حاجت کو اسی طرف لے جاؤں (آگے مولانا بیان فرماتے ہیں کہ لوگ اپنی حاجات کریم و سخی کے پاس ہی لے جایا کرتے ہیں نہ کہ لئیم و بخیل کے پاس:)
4
معنٰی اللہ گفت آں سیبویہ
یُوْلِھُوْنَ فِیْ حَوَائِجِھِمْ لَدَیْہِ
ترجمہ: سیبویہ نے اللہ کے معنٰی یہ بتائے ہیں۔ کہ لوگ اسکی طرف اپنی حاجتوں میں التجا کرتے ہیں۔
5
گفت اَلَھْنَا فِیْ حَوَائِجِنَآ اِلَیْکَ
وَالْتَمَسْنَاھَا وَجَدْنَاھَا لَدَیْکَ
ترجمہ: (چنانچہ) عرب کہتے ہیں (الٰہی) ہم اپنی حاجتوں میں تیری طرف التجا کرتے ہیں۔ اور انکو طلب کرتے ہیں تو تیرے پاس ہوتے ہیں۔
مطلب: یہاں اسم الٰہ اور اللہ کی تحقیق سے مدّعا یہ ہے کہ حق تعالٰی جو فضل و کرم اور جود و انعام کا مبدءِ اعظم ہے، اسکے نام میں ہی یہ مفہوم داخل ہے کہ لوگ طلبِ نعمت کے لیے اسکی طرف رجوع کرتے ہیں، جس سے یہ ثابت ہوا کہ رجوع کریم و جوّاد ہی کی طرف کیا جاتا ہے۔ چنانچہ پھر فرماتے ہیں:
6
صد ہزاراں عاقل اندر وقتِ درد
جملہ نالاں پیش آں دیّانِ فرد
ترجمہ: لاکھوں عاقل مصیبت کے وقت۔ سب کے سب اس بدلہ دینے والے واحد کے آگے زاری کرتے ہیں۔
7
ہیچ دیوانہ فلیوے آں کند
بر بخیلے عاجزے گدیہ تند
ترجمہ: بھلا کوئی دیوانہ و بیہودہ آدمی ہے جو یہ کام کرے۔ کہ کسی بخیل و بے ہمت سے بھیک مانگنے کے درپے ہو۔
8
گر ندیدندے ہزاراں باربیش
عاقلاں کے جاں کشیدندش بہ پیش
ترجمہ: اگر ہزاروں بار سے بھی زیادہ ذی العقول نے (اسکے فضل و کرم اور جود و احسان) کو نہیں دیکھا۔ تو وہ (اپنا مال و) جان تک کیوں اسکی راہ میں پیش کرتے ہیں۔
9
بلکہ جملہ ماہیاں در موجہا
جملہ پرندگاں بر اوجہا
ترجمہ: (یہ بات ذوی العقول پر ہی موقوف نہیں) بلکہ تمام مچھلیاں پانی کی موجوں میں۔ (اور) تمام پرندے بلندیوں میں۔
10
بلکہ جملہ موجہا بازی کناں
ذوق و شوقش را عناں اندر عناں
(اور جانداروں پر بھی منحصر نہیں) بلکہ تمام موجیں کھیلتی ہوئیں۔ اسکے ذوق و شوق کے لیے دوش بدوش (چل رہی ہیں۔)
11
پیل و گرگ و حیدر و اشکار نیز
اژدہائے زفت و مور و مار نیز
ترجمہ: ہاتھی، بھیڑیا، شیر اور (ہرن، خرگوش وغیرہ) شکار (کے جانور اور) موٹا اژدہا، اور چیونٹی اور سانپ بھی۔
12
بلکہ خاک و آب و باد و ہم شرار
مایہ زو یابند ہم دے ہم بہار
ترجمہ: بلکہ مٹی، پانی، ہوا اور آگ بھی۔ اس سے سامان پاتے ہیں، اور موسم خزاں اور بہار بھی۔
13
ہر دمش لابہ کناں ایں آسماں
کہ فرد مگذارم اے حق یک زماں
ترجمہ: یہ آسمان بھی ہر وقت اسکی منت کرتا ہے کہ الٰہی! مجھے ایک لمحہ کے لیے (بھی) گرنے نہ دے۔
14
استنِ من عصمت و حفظِ تو است
جملہ مَطْوِیْ یمینِ آں دو دست
ترجمہ: (الٰہی) میرا ستون تیری نگہبانی و حفاظت ہے۔ (میں) سب کا سب ان دونوں دائیں ہاتھوں سے قائم ہوں۔
مطلب: یہ اس آیت کی طرف اشارہ ہے: ﴿وَ السَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ﴾ (الزمر: 67) ”اور سارے کے سارے آسمان اسکے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔“ حدیث شریف میں آیا ہے: ”وَکِلْتَا یَدَیْ رَبِّیْ یَمِیْنٌ مُبَارَکَةٌ۔“ (ترمذی: 3368) یعنی ”میرے پروردگار کے دونوں ہاتھ داہنے اور مبارک ہیں۔“ دونوں ہاتھوں سے یہاں مراد حق تعالٰی کے اسمائے جمالیہ و جلالیہ ہیں، جن سے آسمانوں کی حفاظت وابستہ ہے کیونکہ آسمان ان اسماء کے مظاہر ہیں، اور وہ اسماء ان آسمانوں کے ارباب ہیں، پس آسمان اسکے ہاتھوں میں ہوئے۔(بحر)
15
ویں زمیں گوید کہ دارم برقرار
اے کہ بر آبم تو کردی استوار
ترجمہ: اور یہ زمین کہتی ہے کہ اے (خدا!) جس نے مجھ کو پانی پر قائم کیا ہے (اب) مجھے برقرار رکھ۔
16
جملگاں کیسہ ازو بر دوختند
دادنِ حاجت ازو آموختند
ترجمہ: سب لوگوں نے (دولت کی) تھیلی اس سے سی (کر بھری) ہے۔ (اور دوسرے محتاجوں کی) حاجت پوری کرنا (بھی) اس سے سیکھا ہے۔
17
ہر نبی از وے بیاوردہ برات
اِسْتَعِیْنُوْا مِنْہُ صَبْرًا وَّ الصَّلٰوۃ
ترجمہ: ہر پیغمبر اس سے یہ دستاویز لایا ہے۔ کہ اس سے صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو۔
مطلب: اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ﴾ (البقرۃ: 153) ”اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ نماز ہر مشکل کو حل کرنے اور ہر مصیبت کے دفع کرنے کا ذریعہ ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو جب کوئی تشویشناک امر پیش آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نماز میں مشغول ہو جاتے۔ مدّعا یہ ہے کہ ہمیشہ مددِ خاص خدا سے طلب کی جاتی ہے جسکا ذریعہ نماز ہے۔
18
ہیں ازو خواہید نے از غیرِ او
آب در یم جُو مجو از خشک جُو
ترجمہ: خبردار (اپنی ہر مراد) اسی سے چاہو، نہ کہ اسکے غیر سے۔ پانی (تلاش کرتے ہو تو بھری ہوئی) نہر میں تلاش کرو، خشک نہر میں تلاش نہ کرو۔
19
ور بخواہی از دگر ہم او دہد
بر کفِ میلش سخا ہم او نہد
ترجمہ: اور اگر تم دوسرے سے مانگو گے، تو بھی وہ (فیاضِ مطلق تعالٰی شانہٗ) ہی دے گا۔ (یعنی اگرچہ بظاہر یہ شخص دے رہا ہے مگر) اسکی توجہ کے ہاتھ پر سخاوت (کی نقدی) وہی رکھتا (یعنی وہی اسکو مائل بہ سخاوت کرتا ہے۔)
مطلب: جب تم دوسرے لوگوں سے کچھ مانگتے ہو اور وہ دے دیتے ہیں، تو وہ بھی خدا ہی دیتا ہے کہ دینے والا وہی ہے جو اس متعین کے پردے میں دے رہا ہے۔ پس یہ عطا ظاہر کی ہے نہ کہ مظہر سے، لہٰذا اسی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
بر درِ شاہے گدائے نکتۂ تقریر کرد
گفت بر هر در کہ بنشتم خدا رازق بود
اس سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص غیر حق کے پاس اپنی حاجت لے جائے، اس لحاظ سے کہ میں یہ حاجت ظاہر کی طرف لے جا رہا ہوں، اور جب غیر سے حاجت براری ہو جائے تو سمجھے یہ حق ظاہر سے ہے، پس یہ توکّل کے منافی نہیں۔ (بحر)
انتباہ: غیر مقلدین جو اپنے آپ کو اہلِ حدیث کہتے ہیں، ان کا شیوہ عمومًا یہ ہے کہ اکابر اسلاف کی کتابوں کی ورق گردانی کر کے ان سے ایسے اقوال چن لیتے ہیں، جنکے ظاہری مفہوم سے انکے اپنے غیر مقلدانہ عقائد کی تائید ہوتی ہو۔ اگرچہ وہ ظاہری مفہوم صاحب کتاب کے مذہب و مسلک سے کتنا ہی منافی اور بعید واقع ہو۔ اسی بنا پر وہ اس شعر ؎ ”ازو خواہید نے از غیرِ او الخ“ کو استمداد باولیاء اللہ کی تردید میں پیش کیا کرتے ہیں، اور کہا کرتے ہیں کہ دیکھو مولانا روم بھی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کے سوا کسی نبی، ولی، قطب، غوث، ابدال سے استمداد و استعانت نہ کرو، اور یہ غیر مقلدین کا محض ایک فریب ہے جس سے یہ لوگ بھولے بھالے مسلمانوں کو اپنا ہم خیال بناتے ہیں یا ان کو مولانا روم سے بدگمان کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اوّل تو اس شعر میں استمداد کا زیر بحث مسئلہ ہی مراد نہیں، بلکہ یہاں مولانا کا مدّعا یہ ہے کہ تم کو جب کوئی ضرورت پیش آئے تو کسی دوست یا قریبی کے آگے دستِ سوال دراز نہ کرو، نہ کسی منعم و متموّل اور بادشاہ کی آستان بوسی کی عار اختیار کرو، بلکہ جو کچھ مانگو اللہ تعالٰی سے مانگو کہ متوکّلین کی شان یہی ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے: ”مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَهُمْ تَكَثُّرًا فَإِنَّمَا يَسْأَلُ جَمْرًا فَلْيَسْتَقِلَّ أَوْ لِيَسْتَكْثِرْ۔“ (مسلم: 1041) یعنی ”جو شخص مال جمع کرنے کے لیے لوگوں سے سوال کرے وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے۔“ خواہ تھوڑے مانگے یا زیادہ۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: ”مَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَسْئَلُ النَّاسَ حَتّٰی یَاْتِیَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ لَیْسَ فِیْ وَجْھِہٖ مُزْعَۃُ لَحْمٍ“ (بخاری: 1474) یعنی ’’جو شخص مسلسل لوگوں سے سوال کرتا رہتا ہے وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اسکے منہ پر گوشت کی بوٹی تک نہیں ہوگی۔‘‘ اور فرمایا: ”عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِيَسْأَلْ أَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ كُلَّهَا حَتّٰى يَسْأَلَ شِسْعَ نَعْلِہٖ إِذَا انْقَطَعَ“ (ترمذی: 3604.08) یعنی ”حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک اپنی ساری حاجتیں اور ضرورتیں اپنے رب سے مانگے، یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ اگر ٹوٹ جائے تو اسے بھی اللہ ہی سے مانگے“ دوسرے یہ کہ مخاصم معاند پر یہ بات اظہر من الشمس ہے، کہ مولانا روم صوفیہ میں سے بلکہ صوفیہ کے سرتاج ہیں، اور ساتھ ہی اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ استمداد باہل القبور صوفیہ کا ایک خاص مسئلہ ہے، اور اسلافِ اہلِ باطن کی قبور سے بطریقِ مراقبہ فیض حاصل کرنا انکے اشغال خاص میں سے ہے۔ چنانچہ حضرت شاہ اسحاق صاحب محدّث دہلوی نے شیخ عبد الحق محدّث دہلوی کی کتاب شرح مشکوٰۃ عربی سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے: ”وَ اِنَّ الْاِسْتَمْدَادَ بِاَھْلِ الْقُبُوْرِ فِیْ غَیْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَوِ الْاَنْبِیَآءِ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ فَقَدْ اَنْکَرَہٗ کَثِیْرٌ مِّنَ الْفُقَھَاءِ وَ اَثْبَتَہُ الْمَشَآئِخُ الصُّوْفِیَۃُ قَدَّسَ اللہُ اَسْرَارَھُمْ وَ بَعْضُ الْفُقَھَاءِ رَحِمَهُمُ اللہُ عَلَیْھِمْ“ یعنی ”استمداد باہل القبور سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے یا دیگر انبیائے علیھم السّلام کے اکثر فقہاء کے نزدیک ناجائز ہے اور صوفیہ کرام اور بعض فقہاء کے نزدیک جائز ہے۔“ (ماتہ مسائل، ص: 25) پس مولانا کے کلام سے استمداد کے مسئلہ میں کوئی ایسی بات نکالنا جو صوفیہ کے مسلک کے خلاف ہو، ایک ایسی حرکت ہے جس کا کوئی معقول آدمی مرتکب نہیں ہوسکتا۔ آگے مولانا حق تعالٰی کی وسعت رحمت کا ذکر فرماتے ہیں:
20
آنکہ معرض را ز زر قارون کند
رُو بدو آری بطاعت چوں کند
ترجمہ: وہ (جوّادِ مطلق) جو (اپنے) منکر کو بھی (مال و زر) سے قارون بنا دے۔ اگر تم طاعت کے ساتھ اسکی طرف متوجہ ہو جاؤ تو کیا کچھ (عطا نہ) کرے گا۔
مطلب: جس خداوند تعالٰی نے قارون جیسے کافر و منکر کو بھی خزائنِ عظیمہ عطا فرما دیے، وہ اپنے مومن صالح بندے کو کیوں ایسی نعمتیں عطا نہ کرے گا جو مال و زر سے کہیں زیادہ گرانقدر ہوں گی؟ آگے پھر قصہ چلتا ہے:
21
بارِ دیگر شاعر از سوداے داد
رو بسوئے آں شہِ محسن ہاد
ترجمہ: دوسری مرتبہ (پھر وہ) شاعر انعام کے خیال سے، اس محسن بادشاہ کی طرف روانہ ہوا۔
22
ہدیۂ شاعر چہ باشد شعرِ نو
پیشِ محسن آرد و بنہد گرو
ترجمہ: (اور) شاعر کا نذرانہ کیا تھا؟ (جسکو وہ بادشاہ کے حضور میں پیش کرے) نیا قصیدہ۔ (جسے) وہ محسن کے سامنے لاتا ہے اور گروی رکھ دیتا ہے۔
23
محسناں با صد عطا و جود و بر
زر نہادہ شاعراں را منتظر
ترجمہ: اہلِ احسان سینکڑوں عطا و بخشش اور نیکی (کی نیت) کے ساتھ۔ نقد مال مخصوص کر کے رکھے ہوئے شاعروں کے انتظار میں (ہوتے ہیں۔)
24
پیش شاں شعرے بہ از صد تنگ شعر
خاصہ شاعر کہ گہر آرد ز قعر
ترجمہ: (وہ اپنی مداح کے اس قدر شائق ہوتے ہیں کہ) ان کے نزدیک ایک قصیدہ پشمینے کی سو گٹھڑیوں سے اچھا ہے۔ (جو قصیدے کے عوض میں شاعر کو دی جائیں) خصوصًا وہ شاعر جو (دریائے تخیّل کی) گہرائی سے (نازک خیالی کے) موتی نکالے۔ (آگے مولانا بتاتے ہیں کہ اپنی تعریف سے خوش ہونا انسان کی فطرت میں داخل ہے، اس لیے اپنی مدح کے قصائد سب کو بھاتے ہیں:)
25
آدمی اوّل حریصِ ناں بود
زانکہ قوتِ ناں ستونِ جاں بود
ترجمہ: آدمی پہلے تو روٹی کا طلبگار ہوتا ہے۔ کیونکہ روٹی کی روزی جان کا ستون ہے۔
26
سوئے کسب و سوئے غضب و صد حیل
جاں نہادہ بر کف از حرص و امل
ترجمہ: (چنانچہ) وہ (روٹی کی) حرص، اور آرزو سے کمانے، و چھیننے اور سینکڑوں (قسم کے) حیلوں کی طرف جان ہتھیلی پر رکھے (پھرتا ہے۔)
27
چوں نادر گشت مستغنی ز ناں
عاشق نام ست و مدح شاعراں
ترجمہ: جب (شاذ و) نادر وہ روٹی سے مستغنی ہو جائے۔ تو پھر وہ (اپنی) ناموری (و شہرت) اور شاعروں کی مدح سرائی کا عاشق ہے۔
نکاتِ عجیبہ: غور کیا جائے تو اس شعر میں تین عجیب نکتے مرکوز ہیں۔ اول۔ ”نادر“ کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ رزق اور روٹی سے اطمینان حاصل ہونا کسی کو شاذ و نادر ہی میسّر ہوتا ہے۔ یہ رونا قدیم سے چلا آتا ہے اور اس زمانے میں تو انتہا ہی ہوگئی، خصوصًا ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے۔ دوم۔ روٹی سے مستغنی ہونے کے بعد اپنی ناموری و شہرت کا شوق دامن گیر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اکثر اخلاقی و روحانی مصائب تمول سے پیدا ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر احادیث میں تمول کی مذمت وارد ہوئی ہے۔ سوم۔ جب تمول عام طبائع کے لیے ضرر رساں مانا گیا ہے تو اسکے مقابلے میں فقر و محتاجی مفید ہوگی۔ چنانچہ فقر و درویشی کی تعریف بکثرت آئی ہے جس کی روایات پیچھے کئی جگہ درج ہو چکی ہیں۔ فقر کے ممدوح ہونے کی بحث ذرا تفصیل طلب ہے جسمیں بہت سی قیود و شرائط قابلِ لحاظ ہیں، ہم مطلقًا اسکو ممدوح نہیں رکھتے، نہ یہ بالکلیہ مذموم ہے۔ نئی روشنی کے نونہال جو فرنگستان کے مادی ٹھاٹ سے مرغوب ہیں اور مال و دولت کو علی الاطلاق محمود و ممدوح سمجھتے ہیں۔ ہمارے اس قول پر چراغ پا ہونے میں عجلت سے کام نہ لیں۔ غرض روٹی سے مطمئن ہونے والا اپنی تعریف کا بھوکا اس لیے ہے کہ:
28
تاکہ اصل و نسلِ او را بر دہند
در بیانِ فضلِ او منبر نہند
ترجمہ: تاکہ وہ (شعراء) اس (ممدوح) کے آباؤ اجداد اور نسل کو (اپنی مدح سے نیک شہرت کا) پھل دیں۔ اور اسکی فضیلت کے بیان کرنے میں منبر قائم کر دیں۔
مطلب: منبر قائم ہونے سے خطابت کی بنیاد پڑتی ہے، پھر ہرخطیب اس منبر پر چڑھ کر خطبہ دینے لگتا ہے۔ اسی طرح شاعر جب اپنے محسن و مربّی کے حق میں مدحیہ قصیدہ کہہ ڈالتا ہے تو اس قصیدہ کے زبانِ زدِ عام ہو جانے سے اس ممدوح کی نیک شہرت شرق و غرب تک پہنچ جاتی ہے۔ اس سے گویا اسکی مدح کا منبر قائم ہو جاتا ہے یعنی ایک بنیاد پڑجاتی ہے۔
29
تاکہ کرّ و فرِّ زربخشئِ او
ہمچو عنبر بُو دہد در گفتگو
ترجمہ: (اور) تاکہ اسکے (اپنی مدح و مال و زر) بخشنے کی شان و شوکت افواہِ عام میں عنبر کی طرح مہک اٹھے۔
مطلب: اگر کسی کو چپکے سے انعام دیا جائے تو کانوں کان لوگوں کو خبر بھی نہ ہوگی، مگر شاعر کو قصیدہ کا صلہ دینے سے قصیدہ کی شہرت کے ساتھ ممدوح کی داد و دہش کے چرچے بھی ہر طرف پھیل جاتے ہیں۔ آگے مولانا بتاتے ہیں کہ انسان کی فطرت میں شوقِ مدح کیوں داخل ہے:
30
خلقِ ما بر صورتِ خود کرد حق
وصفِ ما از وصفِ او گیرد سبق
ترجمہ: حق تعالٰی نے ہماری آفریشن اپنی صورت کے مطابق کی ہے۔ اس لیے ہمارا وصف اسکے وصف سے سبق حاصل کرتا ہے۔
مطلب: بعض روایات میں درج ہے: ”اِنَّ اللہَ خَلَقَ اٰدَمَ عَلٰی صُوْرَۃِ الرَّحْمٰنِ“ (رواہ احمد) یعنی ”اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السّلام کو رحمٰن کی (یعنی خود اپنی) صورت پر بنایا ہے۔“ مولانا فرماتے ہیں چونکہ انسان کی پیدائش اللہ تعالٰی کی صورت پر ہوئی ہے، اس لیے انسان میں بعض صفات بھی خدائی صفات سے ملتی جلتی پیدا ہوجاتی ہیں، اور منجملہ ان صفات کے ایک صفت مدح پسندی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
31
چونکہ آں خلاق شکر و حمد جوست
آدمی را مدح جوئی نیز خوست
ترجمہ: چونکہ وہ خالقِ اکبر شکر اور حمد کا طالب ہے، اس لیے آدمی کو بھی مدح جوئی کی عادت ہے۔
مطلب: یہ انسان کے تقاضائے طبع کا بیان ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو اسکا مقتضائے طبع ہو، وہ مستحسن بھی ہو یا صفاتِ حق میں سے جس صفت کے لیے اس کی طبیعت متقاضی ہو، وہ اس کے لیے روا بھی ہو۔ مثلًا تکبّر اللہ تعالٰی کی صفت ہے مگر یہ بندے کے لیے حرام ہے۔ حدیث قدسی ہے: عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُولُ اللّٰهُ سُبْحَانَهُ اَلْكِبْرِيَآءُ رِدَائِيْ وَالْعَظَمَةُ إِزَارِيْ مَنْ نَازَعَنِيْ وَاحِدًا مِّنْهُمَا أَلْقَيْتُهُ فِيْ جَهَنَّمَ (سنن ابن ماجہ: 4174) ’’حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: اللہ عزّوجل فرماتا ہے کہ بڑائی میری چادر ہے، اور عظمت میرا پہناوا ہے۔ جو شخص ان میں سے کوئی چیز بھی مجھ سے کھینچے گا میں اسے جہنم میں پھینک دوں گا۔“ اسی طرح مدح پسندی کا وصف بھی عام بندوں کے لیے نا جائز ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا ہے: ”قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِذَا رَأَيْتُمُ الْمَدَّاحِيْنَ فَاحْثُوْا فِيْ وُجُوْهِهِمُ التُّرَابَ“ (صحيح ابن حبان: 5770) یعنی ”جب تم لوگوں کو دیکھو کہ تمہاری مدح کرتے ہیں تو انکے منہ میں خاک ڈالو۔“ دوسری حدیث میں ہے: ”عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِيْ بَكْرَةَ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: أَثْنٰی رَجُلٌ عَلَى رَجُلٍ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: وَيْلَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ أَخِيْكَ ثَلَاثًا، مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَادِحًا لَا مَحَالَةَ فَلْيَقُلْ أَحْسِبُ فُلَانًا وَاللّٰهُ حَسِيْبُهُ وَلَا أُزَكِّيْ عَلَى اللّٰهِ أَحَدًا إِنْ كَانَ يَعْلَمُ“ (صحیح بخاری: 6162) ”حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے سامنے ایک آدمی نے کسی دوسرے آدمی کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا: افسوس تجھ پر! تم نے اپنی بھائی کی گردن کاٹ دی، آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے۔ پھر فرمایا اگر تمہیں کسی کی تعریف کرنا ہو اور وہ اسکے متعلق جانتا بھی ہو تو اس طرح کہو کہ فلاں کے متعلق میرا خیال یہ ہے، یقینی طور پر اللہ ہی اسکا حساب جانتا ہے۔ میں تو اللہ کے مقابلے میں کسی کو نیک نہیں کہہ سکتا۔“ تو اس حدیث میں تین مرتبہ یوں فرمایا: ”وَيْلَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ أَخِيْكَ“ اس کا مطلب یہ ہے کہ تو نے ایک ایسا کام کیا جس سے وہ کبر و غرور میں مبتلا ہو کر تباہ ہو جائے گا۔ اس لیے تو ہی اسکی تباہی کا ذمہ دار ہے۔ پس یہ اچھی طرح ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ یہاں مولانا کا مقصود مدح پسندی کا استحسان ہرگز نہیں، بلکہ وہ محض انسان کے ایک تقاضائے طبع کا ذکر فرما رہے ہیں، اگرچہ وہ تقاضا قبیح و مکروہ ہی ہو۔ چنانچہ خود مولانا دفترِ اوّل میں فرما چکے ہیں کہ انسان اپنی مدح سن سن کر فرعون سیرت بن جاتا ہے:
نفس از بس مدحہا فرعون شد
کُنْ ذَلِیْلَ النَّفْسِ ھَوْنًا لَا تَسُدْ
پھر مدح کا نتیجہ ہے شہرت، اور چند صفحات پیشتر شہرت کے متعلق فرمایا ہے کہ شہرت راہِ سلوک میں ایک محکم بندش ہے جو سالک کو ترقّی کرنے نہیں دیتی۔
کاشتہارِ خلق بندِ محکم است
در رہ ایں از بندِ آہن کے کم است
چونکہ مدح سے کبر و غرور پیدا ہونے کا اندیشہ انہی لوگوں کو ہے، جن کا باطن غیر مصفّٰی اور نفسِ امّارہ ان پر غالب ہوتا ہے، مگر یہ حضرت صافی القلب اور مزکّی الباطن ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ اس سے متضرر نہیں ہوتے، بلکہ بجائے ضرر کے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انکی مدح کی اشاعت سے خلقِ کثیر کا انکی طرف رجوع ہوجاتا ہے، جو انکے وسعتِ فیضان کا سبب بن جاتا ہے۔ پس نہ انکا نفس اپنی مدح سننے سے فرعون بنتا ہے، کیونکہ ان کا تصفیۂ باطن بدرجۂ کمال پہنچ چکا ہوتا ہے، اور نہ شہرتِ مدح انکی ترقّی میں مانع ہوتی ہے، کیونکہ وہ اس وقت سالک نہیں بلکہ عارفِ کامل ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اپنے دربارِ رسالت کے شاعر حضرت حسّان رضی اللہ عنہ سے خود اپنی مدح سماعت فرماتے تھے جسکی بھرپور بحث مفتاح العلوم جلد دوم کے اواخر میں سپردِ قلم ہوچکی ہے اور اسی لیے مولانا آگے حضرت انبیاء علیہم السّلام و اولیاء عظّام کی مدح جوئی کو استحسان کے پیرایہ میں بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
32
خاصۂ مردِ حق کہ در فضل ست چست
پر شود زاں باد چوں مشک درست
ترجمہ: خاص کر حق تعالٰی کا (وہ مقبول مقرب) بندہ جو بزرگی میں پیش قدم ہے۔ اس (مدح کی ہوا سے خوشی کے ساتھ) سالم مشک کی طرح پر ہو جاتا ہے۔
مطلب: کہ ”در فضل است چست“ کی قید سے صاف ظاہر ہے کہ یہ درجہ خاصانِ خدا کا ہے، عوام کا نہیں۔ عوام کے لیے مدح جوئی ممنوع و معیوب ہے، اور ان حضرات کو خوشی اس بات پر ہوتی ہے کہ لوگ انکے معتقد ہو کر راہِ ہدایت پر چلنے لگیں جسکی بنا محض خیر خواہیِ خلق پر ہوتی ہے، نہ کہ اپنی شہرت اور نیک نامی پسند کرنے پر۔ نیز جب زبانِ خلق سے اپنے متعلق اچھی رائے معلوم ہوتی ہے تو اطمینان ہو جاتا ہے، اور یہ اطمینان انکے لیے مفید ہوتا ہے۔ منہج القوی میں ایک حدیث منقول ہے جو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: ”إِذَا مُدِحَ الْمُؤْمِنُ فِيْ وَجْهِہٖ رَبَا الْإِيْمَانُ فِيْ قَلْبِہٖ“ (مستدرک حاکم: 6612) یعنی ”جب مومن کی مدح اس کے منہ پر کی جائے تو اس کے دل میں ایمان ترقی کرتا ہے۔“ مومن سے یہاں وہ صالحین مراد ہیں جنکے دل میں اپنی تعریف سے کبر و غرور پیدا ہونے کا احتمال نہیں، اور جن لوگوں کے متعلق اس کا احتمال ہے جیسے کہ عوام کا حال ہے ان کے حق میں ان کی نہی وارد ہے۔ چنانچہ مولانا فرماتے ہیں:
33
ور نباشد اہل زاں بادِ دروغ
خیک بدریدست کے گیرد فروغ
ترجمہ: اور اگر وہ (مدح) کا اہل نہ ہو (تو گویا وہ) پھٹی ہوئی مشک ہے۔ وہ اس جھوٹی تعریف سے کب فروغ پا سکتا ہے؟
مطلب: مدح کا اہل نہ ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اوصاف ہی اس میں موجود نہیں جو مدح میں اس سے منسوب کیے جاتے ہیں، یہ مدح تو بلا شبہ جھوٹ ہے جو بجائے مدح ہونے کے اسکی ہجو ملیح ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اوصاف اس میں موجود تو ہیں، مگر ان کو بطور مدح ذکر کرنے سے اس میں کبر و غرور پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جیسے کہ عوام کا حال ہے، اور انہی لوگوں کے حق میں مدح کرنے کی نہی وارد ہوئی ہے۔ پس وہ بھی مدح کے مستحق نہیں اور غیرِ مستحقِ مدح کی مدح کرنا بھی جھوٹی مدح ہے۔ اس شخص کا بھی اس مدح سے بجائے فروغ پانے کے نقصان اٹھانے کا اندیشہ ہے۔
34
ایں مثل از خود نگفتم اے رفیق
سرسری مشنو چو اہلی و مُفیق
ترجمہ: اے دوست! (یہ سالم مشک، اور پھٹی ہوئی مشک کی) مثال میں نے از خود نہیں کہی۔ تم اس کو (سرسری طور سے) نہ سنو جب کہ تم قابل اور ہوش مند ہو۔
35
ایں پیغمبرؐ گفت چوں بشنید قدح
کہ چرا فربہ شود احمدؐ بمدح
ترجمہ: (بلکہ) اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے بیان فرمایا ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے (مشرکین مکہ کا یہ) اعتراض سنا۔ کہ احمد صلی اللہ علیہ وسلّم (اپنی) مدح سے موٹا کیوں ہو گیا؟
مطلب: مولانا فرماتے ہیں کہ یہ مثل میں نے از خود نہیں کہی بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ہے۔ جب کفّار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم پر یہ اعتراض کیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلّم اپنی مدح سننے کا شائق ہے۔ حالانکہ مدح سننا اور اس پر خوش ہونا پیغمبروں کا کام نہیں بلکہ دنیا داروں کا کام ہے۔ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے اقوالِ مبارک میں سے جو کتبِ حدیث میں مروی ہے، اس مثال سے ملتا جلتا قول تلاش کرنے میں شارحین کو بڑی دقت پیش آتی ہے۔ مولانا بحر العلوم کے نزدیک تو اس کا مشار الیہ وہی حدیث ہے: ”اِنَّ اللہَ خَلَقَ اٰدَمَ۔۔۔الخ“ اور اس سے مولانا بحر العلوم کا یہ مدّعا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا روم فرماتے ہیں کہ میں نے جو انسان کے لیے اپنی مدح پر مشک کی طرح پھول جانے کی مثال پیش کی ہے، تو اس بنا پر پیش کی ہے کہ وہ بھی خداوند تعالٰی کی طرح طالبِ مدح ہے، اور یہ بات جس حدیث سے ماخوذ ہے، وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمائی ہے کہ: ”اِنَّ اللہَ خَلَقَ اٰدَمَ۔۔۔الخ“ صاحبِ منہج القوٰی نے ”ایں پیغمبر گفت“ کا ترجمہ عربی میں یوں کیا ہے کہ اسکی مثال سے ملتی جلتی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمائی ہے۔ پھر یہ حدیث نقل کی ہے: ”إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ مَعَ حَسَّانَ مَا دَامَ يُنَافِحُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ“ (ص41 - كتاب جزء لوين) یعنی ”حسان رضی اللہ عنہ جب تک اپنے اشعار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی طرف سے کفار کی مدافعت کرتے ہیں، تو جبرائیل علیہ السّلام انکے ساتھ ہیں۔“ (انتہٰی) مگر ہمارے نزدیک ان دو شارحانِ ذی شان کی توجیہیں غیر شافی ہیں۔ ہمارا مزاج یہ کہتا ہے کہ مولانا کا مقصد یہ ہے کہ یہ مثل خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی زبان مبارک سے نکلی ہے اگرچہ کتبِ احادیث میں مندرج نہیں، اور موجودہ کتبِ احادیث کے متعلق کوئی شخص یہ دعوٰی نہیں کر سکتا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے تمام اقوالِ طیّبہ پر حاوی ہیں، ممکن بلکہ تیقّن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کے بہت سے اقوالِ مبارکہ ان کتابوں میں درج ہونے سے رہ گئے ہوں گے۔ پس جو صاحب اس مثل کو کتبِ احادیث میں نہ پائیں، وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم نے اسکو از خود کہہ دیا ہے، بلکہ یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کا ہے جو ہم کو بلا واسطہ الہامًا معلوم ہوا ہے۔ اب آگے قصّہ کا سلسلہ چلتا ہے:
36
رفت شاعر سوئے آں شاں و ببُرد
شعر اندر شکرِ احساں کاں نمُرد
ترجمہ: (غرض وہ) شاعر اس بادشاہ کی طرف گیا۔ اور (اسکے اس) احسان کے شکریہ میں قصیدہ (لکھ کر) لے گیا جو نابود نہیں ہوا تھا۔ (آگے احسان و کرم کے زندہ جاوید رہنے کا ذکر فرماتے ہیں:)
37
محسناں مردند و احسانہا بماند
اے خنک آں را کہ ایں مرکب براند
ترجمہ: احسان کرنے والے مر گئے، اور (ان کے) احسانات (قائم) رہ گئے۔ مبارک ہے وہ جس نے (احسان و جوانمردی کا) یہ گھوڑا دوڑایا (یعنی اس راہ میں پیش قدمی کی۔)
38
ظالماں مردند و ماند آں ظلمہا
وائے جانے کو کند مکر و دغا
ترجمہ: اسی طرح ظالم مر گئے، اور (انکے) وہ ظلم رہ گئے۔ افسوس ہے اس جان پر جو مکر و دغا (وغیرہ ظلم کے کام) کرے۔
39
گفت پیغمبرؐ خنک آں را کہ او
شد ز دنیا ماند ازو فعلِ نکو
ترجمہ: پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا ہے، بشارت ہے اس شخص کو، جو دنیا سے رخصت ہو تو اس کا نیک عمل (پیچھے) رہ جائے۔
مطلب: ممکن ہے یہ حدیث بھی مولانا کو کشف و الہام کے ذریعے معلوم ہوئی ہو، پورے انہی الفاظ میں کوئی روایت باوجود تلاش نہیں ملتی۔ البتہ یہ حدیث جو مشکوٰۃ میں منقول ہے، اس سے ملتی جلتی ہے: ”اِذَا مَاتَ الْإنِْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهٖ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْ لَہٗ“ (مسلم: 6131) یعنی ”جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے عمل منقطع ہو جاتے ہیں مگر تین عمل منقطع نہیں یعنی ایک صدقہ جاریہ، دوسرا علم جس سے فائدۂ عام پہنچے، تیسرا نیک فرزند جو اس کے لیے دعا کرے۔“
40
نامِ نیکِ او ز فعلِ نیک داں
پس نمُردست او یقین بنگر عیاں
ترجمہ: اس کی نیک نامی کو (بھی) اچھے عمل (کی قبیل) سے سمجھو۔ پس (جب نیک نامی قائم ہے تو گویا وہ عمل بھی) نہیں مرا۔ (اسکو بنظرِ) یقین نمایاں دیکھ لو۔
41
مرد محسن لیک احسانش نمرد
نزد یزداں دین و احسان نیست خرد
ترجمہ: محسن مرگیا، لیکن اس کا احسان نہیں مرا۔ خداوند تعالٰی کے نزدیک دین اور احسان کوئی ادنٰی چیز نہیں (جو نابود ہو جائے)۔
42
وائے آں کو مرد و عصیانش نمرد
تا نہ پنداری بمرگِ او جاں ببرد
ترجمہ: حیف ہے اس (بد اعمال) پر جو مرگیا اور اسکے گناہ نہیں مرے۔ خبردار یہ نہ سمجھ لینا کہ وہ مر کر (اپنے اعمال کی پاداش سے) بچ گیا (بلکہ انکی سزا برابر پاتا رہے گا۔)
43
ایں رہا کن زانکہ شاعر بر گذر
وام دارست و قوی محتاجِ زر
ترجمہ: اس (بحث) کو چھوڑو کیونکہ (بیچارہ) شاعر سر راہِ (کھڑا) ہے۔ (وہ بڑا) مقروض ہے، اور روپے کا سخت محتاج ہے۔ (اسکی خبر گیری لازم ہے۔)