دفتر چہارم: حکایت: 7
در بیان آ نکہ حق تعالٰی بنده را بگناه اوّل رسوا نمی کند
اس بات کا بیان کہ حق تعالٰی بندہ کو پہلی بار کے گناہ پر رسوا نہیں کرتا
1
عہدِ عمر آں امیرِ مومناں
داد دز دے را بجلاد و عواں
ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں (یہ واقعہ پیش آیا، کہ امیرُ المؤمنین نے) ایک چور کو جلّاد اور سپاہی کے حوالے کردیا (کہ اسے پکڑ کر لے جائیں اور اسکا ہاتھ کاٹ دیں۔)
2
بانگ زد آں دزد کاے میرِ دیار
اوّلین بارست جرمم زینہار
ترجمہ: چور چِلّانے لگا کہ اے سردار ممالک! میرا گناہ پہلی بارکا ہے، پناہ (دیجئے۔)
3
گفت امیرش حَاشَا لِلّٰہ کہ خدا
بارِ اوّل قہرِ راند در جزا
ترجمہ: امیرُ المؤمنین نے اسکو فرمایا: کہ یہ بات بعید ہے کہ الله تعالٰی پہلی بار ہی سزا دینے میں قہر نافذ کرے۔ (یعنی تم غلط کہتے ہو کہ یہ پہلا گناہ ہے۔ اس سے پہلے بارہا تم ارتکابِ سرقہ کر چکے ہو گے۔ اسی لئے اللّٰہ تعالٰی نے تم کو رسوا کیا ہے۔ وہ پہلے گناہ پر رسوا نہیں کرتا۔)
4
بارہا پوشدپئے اظہارِ فضل
باز گیرد از پئے اظہارِ عدل
ترجمہ: وہ بارہا (اپنے) فضل (و کرم) کے اظہار کے لئے پردہ پوشی کرتا ہے۔ پھر انصاف کے اظہار کے لئے (مجرم کو) ماخوذ کرتا (اور سزا دیتا) ہے۔
5
تاکہ ایں ہر دو صفت ظاہر شود
آں مُبشِّر گردد ایں مُنذِر شود
ترجمہ: تاکہ (حق تعالٰی کی) یہ دونوں صفتیں (یعنی فضل اور عدل) ظاہر ہو جائیں۔ (اور) وہ (یعنی فضل کا مظہر) بشارت دینے والا (اور) یہ (یعنی عدل کا مظہر) ڈرانے والا بن جائے۔
(حضرت عمر رضی الله عنہ کا قول ختم ہوا۔ اب مولانا فرماتے ہیں:)
6
بارہا زن نیز آں بد کرده بود
سہل بگذشت آں و سہلش مے نمود
ترجمہ: عورت نے بھی بارہا گناہ کیا تھا، جو سرسری طور سے گزر گیا، اور اسے سرسری نظر آتا تھا (اور وہ اس سے ترساں و پشیماں نہ ہوتی تھی۔)
7
آں نمی دانست عقلِ پاۓ سست
کہ سبُو دائم ز جُو ناید درست
ترجمہ: (اس عورت کی) سست قدم عقل یہ نہیں جانتی تھی کہ گھڑا ہمیشہ نہر سے سلامت نہیں آتا۔ (بلکہ کبھی قضائے الٰہی سے ٹوٹ پھوٹ بھی جاتا ہے۔ حتٰی کہ اسکی پیٹھ پر تیرنے والا ڈوب جاتا ہے۔)
8
آنچنانش تنگ آورد آں قضا
کہ منافق را کند مرگِ فجا
ترجمہ: (چنانچہ اب جو اس عورت کی رسوائی کا وقت آ گیا، تو) قضائے الٰہی نے اسکو اس طرح تنگ کیا، جیسے منافق کو ناگہانی موت (تنگ) کرتی ہے۔ (جب کہ اسکو نہ توبہ کرنے کی مہلت ملتی ہے، نہ مشکلاتِ آخرت کے تدارک کی۔)
9
نے طریق و نے رفیق و نے اماں
زانکہ عزرائیل شد در قصدِ جاں
ترجمہ: (منافق کو اس وقت) نہ (نجات کا) راستہ (ملتا ہے) اور نہ (کوئی) ساتھی، اور نہ امن۔ کیونکہ عزرائیل (اسکی) جان نکالنے کے ارادے پر (تُلا ہوا) ہوتا ہے۔
10
آنچناں کاں زن دراں حجرہ خفا
خشک شد او و حریفش ز ابتلا
ترجمہ: (ٹھیک) اسی طرح جیسے وہ عورت اور اسکا آشنا، خلوت کی کوٹھڑی میں (اس ناگہانی مصیبت سے گھبرا کر) خشک ہوگئے تھے۔
11
گفت صوفی با دلِ خود کاے دو گبر
از شما کینہ کشم لیکن بصبر
ترجمہ: صوفی نے اپنے دل میں کہا، اے دو کافرو! میں تم سے کینہ کشی کروں گا، لیکن صبر کے ساتھ۔
12
لیک نا دانستہ آرم ایں زماں
تاکہ ہر گوشے ننوشد ایں نہاں
ترجمہ: لیکن میں اس (کینہ کشی کے) وقت کو (تجاہل عارفانہ کے ساتھ) انجان بن کر لا رہا ہوں۔ تاکہ ہر شخص کے کانوں میں یہ راز نہ پہنچے۔
13
از شما پنہاں کشد کینہ مُحق
اندک اندک ہمچو بیماریِ دق
ترجمہ: حق دار تم سے مخفی طور پر، آہستہ آہستہ کینہ کشی کرے گا، جیسے دق کا مرض (اندر ہی اندر بیمار کو فنا کر دیتا ہے۔)
14
مرد دق باشد چو یخ ہر لحظہ کم
لیک پندارد بہر دم بہترم
ترجمہ: دق کا مریض برف کی طرح ہر دم گھٹتا جاتا ہے۔ لیکن ہر وقت سمجھتا ہے کہ میں اچھا ہوں۔
15
ہمچو کفتارے کہ مے گیرندش او
غرّہ آں گفت کایں کفتار کو
ترجمہ: جیسے بجّو (کا حال ہوتا ہے) جسکو شکاری پکڑنے لگتے ہیں۔ اور وہ اس بات کے دھوکے میں ہوتا ہے کہ یہ بجّو کہاں ہے؟
مطلب: بجّو کا یہ ذکر گزشتہ جلد میں درج ہو چکا ہے کہ جب شکاری اسے پکڑنے کے لئے اس کے بھٹ پر جاتے ہیں، تو وه دانستہ چلانے لگتے ہیں کہ بجّو کہاں ہے؟ ارے یہاں تو کوئی بجّو معلوم نہیں ہوتا۔ نہیں نہیں، یہاں بجّو کہاں ہے؟ وہ تو پانی پینے گیا ہوگا، یا کہیں سیر سپاٹے میں مشغول ہو گا۔ بجّو بھٹ کے اندر، یہ ساری باتیں سنتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ شکاری میرے متعلق غلط فہمی میں مبتلا ہیں، اور ابھی مایوس ہو کر لوٹ جائیں گے۔ اس لئے وہ بھاگنے کی کوشش نہیں کرتا۔ حتّٰی کہ شکاری اسکو پکڑ لیتے ہیں۔ غرض وہ شکاری چلاتے ہیں۔
16
نیست در سوراخ کفتار اے عمو
گشتہ او مغرور تر زیں گفتگو
ترجمہ: بڑے میاں! بھٹ میں بجّو نہیں ہے۔ بجّو ان باتوں سے اور بھی دھوکے میں آ جاتا ہے۔
17
ایں ہمی گویند و بندش می نہند
او خوش و آسوده کہ از من غافل اند
ترجمہ: اتنا کہتے ہیں اور اسکو مقیّد کر لیتے ہیں۔ وہ اب تک خوب مطمئن ہوتا ہے کہ (یہ لوگ) مجھ سے غافل ہیں۔ (صوفی کے قلبی خیالات ختم ہوئے۔ اب پھر ان دونوں بدکاروں کا ذکر چلتا ہے:)
18
ہیچ پنہاں خانہ آں زن را نبود
سمج و دہلیز و رہِ بالا نبود
ترجمہ: اس عورت کی کوئی مخفی کوٹھڑی نہ تھی، (جس میں وہ آشنا چھپ جاتا۔) نہ کوئی تہہ خانہ (جس میں اتر جاتا) نہ ڈیوڑھی (جس میں سرک کر نکل جاتا) نہ اوپر کا راستہ (جسکے ذریعے اوپر چڑھ کر باہر کود جاتا۔ غرض ہر طرف سے پھنس گیا، اور بری طرح پھنسا۔)
19
نے تنورے کہ دراں پنہاں شود
نے جوالے کہ حجابِ آں شود
ترجمہ: نہ کوئی تنور تھا جس میں وہ چھپ جاتا۔ نہ کوئی تھیلا جو اسکے لئے پردہ بن جاتا۔
20
ہمچو عرصۂ پہن روزِ رستخیز
نے گو و نے پشتہ نے جائے گریز
ترجمہ: (وہ گهر) روز قیامت کے چوڑے (اور صاف) میدان کی طرح (تھا۔ جسمیں) نہ گڑھا (ہوگا) اور نہ ٹیلا، نہ بھاگنے کی جگہ۔
21
گفت یزداں وصفِ آں جائے حرج
بہرِ محشر لَا تَرَیٰ فِیْھَا عِوَجْ
ترجمہ: حق تعالٰی نے اس تکلیف کے مقام کی تعریف میں (یعنی) محشر کے بارے میں فرمایا ہے کہ ”تم اس میں کجی نہ دیکھو گے“۔
مطلب: یہ ان آیات کے مضمون کی طرف اشارہ ہے: ﴿ وَيَسْاَلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّىْ نَسْفًا فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا لَّا تَـرٰى فِيْـهَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا﴾ (طٰہ: 105-107) ”اور اے پیغمر تم سے پہاڑوں کی نسبت دریافت کرتے ہیں؟ تو کہو میرا پروردگار انکو اڑا دے گا۔ اور زمین کو ہموار کردے گا کہ جسمیں (اے مخاطب) تو، نہ کہیں موڑ دیکھے گا، اور نہ اونچ نیچ۔“
22
چادرِ خود را برو افگند زود
مرد را زن کرد و در را برکشود
ترجمہ: (نا چار اس عورت نے) اپنی چادر فوراً اس پر ڈال دی۔ مرد کو (چادر پوش) عورت بنا دیا، اور دروازہ کھول دیا۔ (تاکہ باہر نکل جائے۔)