دفتر 4 حکایت 5: عاشق کے بدنیّتی کرنے، اور معشوق کے اسکو ڈانٹنے کا واقعہ

دفتر چہارم: حکایت: 5

قصہ خیانت کردنِ عاشق، و بانگ زدنِ معشوق

عاشق کے بدنیّتی کرنے، اور معشوق کے اسکو ڈانٹنے کا واقعہ

1

باز گو احوالِ آں خستہ جگر

درمیانِ باغ با رشکِ قمر

ترجمہ: اس خستہ جگر (عاشق) کا احوال بیان کر، (جو) باغ کے اندر اس (معشوقہ) رشکِ قمر کے ساتھ (پیش آیا)۔

2

چونکہ تنہایش بدید آں سادہ مرد

زود او قصدِ کنار و بوسہ کرد

ترجمہ: جب اس سادہ لوح آدمی نے اس (معشوقہ) کو تنہا دیکھا۔ تو فوراً اس سے بوس و کنار کا قصد کیا۔

3

بانگ بر وے زد بہیبت آں نگار

کہ مرو گستاخ ادب را گوش دار

ترجمہ: اس معشوقہ نے کڑک کر اسکو ڈانٹا، کہ (خبردار!) گستاخی کے ساتھ پیش قدمی نہ کر، ادب (سے بات) کو سن۔

4

گفت آخر خلوت ست و خلق نے

آب حاضر تشنہ ہمچوں منے

ترجمہ: وہ بولا آخر تنہائی (میسر) ہے، اور لوگ (موجود) نہیں ہیں۔ (ٹھنڈا) پانی حاضر ہے، (اور) مجھ جیسا پیاسا (تڑپ رہا ہے، پھر صبر کی تاب کہاں؟)

سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎

ملحد گرسنہ در خانہ خالی بر خواں

عقل باور نکند کز رمضاں اندیشد

5

کس نمی جنبد دریں حاجز کہ باد

کیست حاضر؟ کیست مانع؟ زیں کشاد

ترجمہ: یہاں ہوا کے سوا کوئی حرکت نہیں کرتا، (پھر) کون موجود؟ (اور) کون اس آزادی سے مانع ہے؟

6

گفت اے شیدا تو ابلہ بودۂ

ابلہی وز عاقلاں نشنودۂ

ترجمہ: وہ بولی اے عاشق! تو کوئی بے وقوف ہے، احمق ہے، اور تو نے عقلمندوں سے (کچھ) نہیں سنا؟

7

باد را دیدی کہ می جنبد بداں

باد جنبانیست ایں جا باد راں

ترجمہ: کیا تو ہوا کو (خود بخود) حرکت کرتے دیکھتا ہے؟ یاد رکھ کہ یہاں ہوا کو وہ حرکت دے رہا ہے، جو ہوا کو چلانے والا ہے۔ (جیسے فرمایا: ﴿وَ ھُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْراًً بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ(الاعراف: 57) (اور وہی قادر مطلق ہے جو بارانِ رحمت سے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچا دیں۔“)

8

مروحہ تصريفِ صنعِ ایزدش

زد براں باد و ہمی جنباندش

ترجمہ: ہوا کے خالق کی کاری گری کی تاثیر کا پنکھا۔ اس ہوا سے ٹکراتا ہے، اور اسے ہلاتا ہے۔ (اب اس دعویٰ کو چند محسوسات کے دلائل سے ثابت کرتے ہیں:)

9

جزو بادے کہ بحکم ما درست!

باد بیزن تا نجنبانی نجست

ترجمہ: یہ تھوڑی سی ہوا جو ہمارے ماتحت ہے۔ جب تک تم پنکھا نہ ہلاؤ، جنبش نہیں کرتی۔

10

جنبشِ ایں جزوِ باد اے ساده مرد

بے تو و بے باد بیزن سر نکرد

ترجمہ: اے بیوقوف آدمی! اس تھوڑی سی ہوا کی حرکت (بھی) تمہارے (ارادہ کرنے) اور پنکھے (کو ہلانے) کے بغیر وقوع نہیں پاتی۔ (تو یہ ہواۓ کثیر کسی ہلانے والے کے بغیر کب ہلتی ہے۔)

11

جنبشِ بادِ نفس کاندر لب است

تابعِ تصریفِ جان و قالب است

ترجمہ: (دوسری مثال) سانس کی ہوا کا ہلنا جو لبوں کے اندر ہے۔ جان اور بدن کے فعل کا تابع ہے (کہ جان قصد کرتی ہے اور لب جو جسم کا ایک حصہ ہیں، حرکت کرتے ہیں۔ پھر یہ ہوا حرکت میں آتی ہے۔)

12

گاہ دم را مدح و پیغامے کند

گاه دم را ہجو و دشنامے کند

ترجمہ: (چنانچہ روح و جسم اس) سانس کو کبھی مدح اور پیغام بنا لیتے ہیں۔ (اور) کبھی سانس کو گالی کی مانند (ناگوار) بنا لیتےہیں۔ (کہ یہ انکے تصرّفات ہیں۔ جب سانس کی ذرا سی ہوا، اتنے تصرّفات پا رہی ہے تو کیا فضائے عالم کی بے پایاں ہوا کسی کے تصرف میں نہ ہو گی؟)

13

بس بداں احوال دیگر بادہا

کہ ز جزوے کل ہمی بیند نہا

ترجمہ: پس (انہی دو مثالوں سے دنیا جہاں کی تمام) دوسری ہواؤں کا حال سمجھ لو (کہ وہ بھی کسی متصرّف کے زیرِ تصرّف ہیں، اور وہ متصرّف خداوند تعالٰی ہے۔) کیونکہ عقلیں جُز سے، کُل کو معلوم کر لیتی ہیں۔ (آگے ہوا پر حق تعالٰی کے تصرّفات کا ذکر فرماتے ہیں:)

14

باد را حق گہ بہاری مے کند

در دیش زیں لطف عار مے کند

ترجمہ: ہوا کو حق تعالٰی کبھی پُر بہار بنا دیتا ہے۔ (اور کبھی) موسم خزاں میں اس خوبی سے خالی کر دیتا ہے۔

15

بر گروهِ عاد صرصر مے کند

باز بر ہُودش معطر مے کند

ترجمہ: قوم عاد پر اسکو تیز آندھی بنا دیتا ہے۔ (جیسے قرآن میں فرمایا: ﴿وَ اَمَّا عَادٌ فَاُہۡلِکُوۡا بِرِیۡحٍ صَرۡصَرٍ عَاتِیَۃٍ (الحاقہ: 6) اور جو عاد کے لوگ تھے، انہیں ایک ایسی بےقابو طوفانی ہوا سے ہلاک کیا گیا۔ پھر ہود علیہ السّلام کی قوم کے لیے اسکو خوش گوار بنادیتاہے۔

16

می کند یک باد را زہرِ سموم

مر صبا را مے کند خرم قدوم

ترجمہ: ایک ہوا کو زہریلی لُو بنا دیتا ہے۔ (اور) باد صبا کا آنا مبارک کر دیتا ہے۔ (اب ان دلائل پر مزید روشنی ڈالتے ہیں:)

17

باد دم را بر تو بنہاد او اساس

تا کنی ہر باد را بر وے قیاس

ترجمہ: پھر اس نے سانس (کی ہوا) کو تم میں (بطور) بنیاد رکھ دیا۔ تاکہ تم ہوا کو اس پر قیاس کرو۔

18

دم نمی گردد سخن بے لطف و قہر

بر گروہے شہد و بر قومے ست زہر

ترجمہ: (دیکھو) سانس جو کلام بنتا ہے، تو لطف و قہر سے خالی نہیں ہوتا۔ (چنانچہ وہ) ایک جماعت کے لئے شہد (کی طرح شیریں) اور ایک گروہ کے لئے زہر (کی طرح ناگوار ہوتا) ہے۔ (جب سانس کی تحریک ہمیشہ افادہ یا ایذا کے لئے ہوتی ہے۔ تو عام ہوا کی تحریک کسی مصلحت پر مبنی کیوں نہ ہو؟ اور اس مصلحت کو قائم کرنے والا حق تعالٰی ہے۔)

19

مِرْوحہ جنباں پئے انعام کس

وز برائے قہر ہر پشہ و مگس

ترجمہ: (اسی طرح) پنکھا کسی کو (ٹھنڈی ہوا دینے کے لئے) آرام پہنچانے کے لئے ہلتا ہے۔ اور مچھر اور مکھی کو مغلوب کرنے کے لئے۔

20

مرْوحۂ تقدیر ربّانی چرا

پُر نباشد از امتحان و ابتلا

ترجمہ: (تو پھر) تقدیرِ خداوندی کا پنکھا، (جو دنیا کی ساری ہوا کو حرکت دے رہا ہے۔) کیوں (نیک لوگوں کے) امتحان اور (بُرے لوگوں کے) ابتلا سے پر نہ ہو؟

21

چونکہ جزو باد دم یا مروحہ

نیست اِلَّا مُفْسِدَهْ یا مُصْلِحَہْ

ترجمہ: جب سانس یا پنکھے کی تھوڑی سی ہوا، ہمیشہ کی خرابی یا مصلحت کے لئے ہوتی ہے۔

22

ایں شمال و ایں صبا و ایں دبور

کے بود از لطف و از انعام دُور

ترجمہ: تو یہ شمالی ہوا، اور یہ بادِ صبا، اور یہ مغربی ہوا، کیوں لطف و انعام سے دور ہو؟

23

یک کفِ گندم ز انبارے ببیں

فہم کن کاں جملہ باشد ہمچنیں

ترجمہ: (اب زیادہ مثالوں کی ضرورت نہیں) انبار میں سے مٹھی بھر گیہوں دیکھ لو، (اور) قیاس کر لو کہ وہ سارا انبار اسی قسم کا ہو گا۔

24

کلِّ باد از برج بادِ آسماں

کے جہد بے مِروحہ آں باد راں

ترجمہ: (پس جب تھوڑی سی ہوا کسی محرّک کی تحریک ہی سے جنبش کرتی ہے، تو) کُل ہوا (جو) آسمان کے برج ہوا سے (منسوب ہے۔) اس ہوا چلانے والے (تعالٰی شانہ) کے قدرتی پنکھے کے بغیر کب جنبش کر سکتی ہے؟ (آگے چند مثالوں میں بتائیں گے کہ ہوا کے طالب خداوند تعالٰی ہی سے ہوا مانگا کرتے ہیں۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہوا کا خالق، مالك، محرّک اور متصرف وہی ہے:)

25

بر سرِ خرمن بوقتِ انتقاد

نے کہ فلّاحاں ہمی جویند باد؟

ترجمہ: کیا کھلیان پر کاشتکار گھانے کے وقت، (خدا تعالٰی) سے ہوا کے طالب نہیں ہوتے؟

26

تا جدا گردد ز گندم کاہہا

تا بانبارے رود یا چاہہا

ترجمہ: تاکہ گیہوں سے بھوسہ الگ ہو جائے۔ (اور) تاکہ (پھر گیہوں کھلے) ڈھیر میں یا (بند) کھتّے میں داخل ہوں۔

27

چوں بماند دیر آں بادِ وزاں

جملہ را بینی سرِ انگشتاں گزاں

ترجمہ: جب وہ ہوا چلتی چلتی دیر تک کے لئے رک جائے۔ تو تم سب کو (حسرت سے) انگلیاں کاٹتے دیکھو گے۔

28

ہمچنیں در طلق آں بادِ ولاد

گر نیاید بانگِ درد آید کہ داد

ترجمہ: اسی طرح (عورت کے) دردِ زہ میں اگر وہ پیدائش کی ہوا نہ آئے، (جس سے رحم پھول کر بچے کے بآسانی پیدا ہونے کا سبب ہو جاتا ہے) تو (عورت کے) درد کی آواز بلند ہو جائے گی کہ فریاد ہے (میں مر چکی۔)

29

گر نمی دانند کش راننده اوست

باد را پس کردنِ زاری چہ خوست

ترجمہ: (اس سے ظاہر ہے کہ سب لوگ خدا ہی کو ہوا چلانے والے جانتے ہیں۔) اگر وہ نہیں جانتے کہ اس کو چلانے والا وہ ہے، تو پھر ہوا کے آگے زاری کرنے کا کون سا دستور ہے؟ (نہیں یہ زاری خدا کی بارگاہ میں ہی کی جاتی ہے۔)

30

رقعۂ تعویذ مے خواہند نیز

در شکنجہ طلقِ زن از ہر عزیر

ترجمہ: عورت کے دردِزہ کی مشکل میں، ہر بزرگ سے تعویذ کا پرزہ بھی مانگتے ہیں۔ (اور تعویذدر حقیقت خدا ہی کی بارگاه میں دعا ہوتی ہے، جس سے ظاہر ہے کہ ولادت کے تمام اسباب و ذرائع کا خدا کے قبضہ قدرت میں ہونا سب مانتے ہیں، جن میں سے ایک ہوا بھی ہے۔)

31

اہلِ کشتی ہمچناں جو یاے باد

جملہ خواہانش ازاں رَبُّ الْعِبَادْ

ترجمہ: اسی طرح کشتی والے بھی ہوا کے طالب ہیں۔ سب اسکو اسی پروردگار بندگان سے چاہتے ہیں۔

32

ہمچنیں در دردِ دندانہا ز باد

دفع می خواہی بسوز و اعتقاد

ترجمہ: اسی طرح تم دانتوں کے درد میں (دم کرنے والے کے) دم کے ساتھ، سوز و اعتقاد سے علاج چاہتے ہو (اور وہ بھی ہوا ہوتی ہے۔)

33

از خدا لابہ کناں آں جُندیاں

کہ بده بادِ ظفر اے حکمراں!

ترجمہ: (اسی طرح) وہ فوجی (بھی جو جنگ کے لئے تیار ہیں) خدا سے دعا کرتے ہیں، کہ اے حاکم (حقیقی!) فتح (دلانے) والی ہوا عطا فرما۔

مطلب: شرح بحر العلوم میں لکھا ہے کہ فتح دلانے والی ہوا وہ ہوتی ہے جو فوج کی پُشت پر ہو اور حریف مقابل کے سامنے پڑے۔ اس سے یہ فوج جس کی پشت سے ہوا چل رہی ہو، فتح یاب ہوا کرتی ہے۔ (انتہٰی) یہ ہوا اس فوج کو پیش قدمی میں مدد دیتی ہے، اور مقابل فوج کو آنکھ اور منہ اور ناک میں مٹی پڑنے سے دق اور پریشان کرتی ہے، جس سے اسکے استقلال کے پاؤں متزلزل ہو جاتے ہیں۔ اس قسم کی ہوا منجملہ ان اسباب کے ہوتی ہے، جو حاکمِ حقیقی کی طرف سے ایک جماعت کو فتح، اور دوسری کو شکست دلانے کے لئے مرتب ہوتی ہے۔ سلطان عالمگیر اورنگزیب کے بعد، جب اسکے دو بڑے شہزادوں یعنی معظّم شاہ، اور اعظم شاہ میں خونریز جنگ ہوئی۔ تو مقدّمُ الذّکر کی فتح، اور مؤخّرُ الذّکر کی شکست، قتل اور تباہی کا بڑا باعث یہی تھا، کہ اِسکے مخالف سخت تیز آندھی چل پڑی، جس سے سوار اور گھوڑے سخت پریشان ہوئے، ورنہ اعظم شاہ کا جنگی نظم و نسق، اور فوجی تدبّر کہیں بڑھ کر تھا، جس پر خود اسکے باپ عالمگیر کو بھی ناز تھا۔ آگے ان تمام نظائر سے یہ نتیجہ اخذ فرماتے ہیں کہ:

34

پس ہمہ دانستہ اند ایں را یقین

کہ فرستد باد رَبُّ الْعَالَمِیْن

ترجمہ: پس یہ بات سب لوگ جان چکے ہیں، کہ ربُّ العالمین (ہی) ہوا کو بھیجتا ہے۔

35

پس یقین در عقل ہر دانندہ ہست

اینکہ با جنبندہ جنباننده ہست

ترجمہ: پس ہر ذی فہم کی عقل کے نزدیک، یہ یقینی بات ہے کہ (ہر) حرکت کرنے والی چیز کے ساتھ حرکت دینے والا (موجود) ہے۔ (اسی طرح اے عاشق بُو الہوس! یہاں باغ میں اگر اور کوئی نہیں، تو اس ہوا کو حرکت دینے والا حق تعالٰی شانہٗ تو حاضر و ناظر ہے۔ اسی سے شرم کر۔)

36

گر تو او را مے نہ بینی در نظر

فہم کن آں را باظہارِ اثر

ترجمہ: اگر تو اسکو (اپنی) نظر سے نہیں دیکھتا، تو اسکے ظہورِ اثر سے (موجود) سمجھ لے۔

37

تن بجاں جنبد نمی بینی تو جاں

لیک از جنبیدنِ تن جان بداں

ترجمہ: (مثلاً دیکھو) بدن، روح کے ساتھ حرکت کرتا ہے۔ (اور) تم روح کو نہیں دیکھ سکتے، لیکن بدن کی حرکت سے روح (کی موجودگی) کو معلوم کر سکتے ہو۔ (معشوقہ کی اس زبردست متکلفانہ منطق سے عاشق مرعوب ہو جاتا ہے، اور اس حرکت کو جو خداوندِ حاضر و ناظر پر ایمان رکھتے ہوئے اس سے سرزد ہوئی، اپنی ایک گستاخی و بے ادبی تسلیم کر لیتا ہے۔ مگر ابھی اپنی ہوس سے باز نہیں آتا، اور ایک دوسرے پیرایہ میں محبوبہ کے دل میں گھر بنانے کی کوشش کرتا ہے:)

38

گفت او گر ابلہم من در ادب

زِیرکم اندر وفا و در طلب

ترجمہ: وہ (عاشق) بولا۔ اگر میں ادب میں بے وقوف ہوں تو، وفا اور طلب میں دانا ہوں۔ (میرے یہ دونوں اعلٰی وصف سفارش کرتے ہیں کہ آپ مجھ کو اپنا مقرّب بنا لیں۔ معشوقہ اسکا بھی معقول و برجستہ جواب دیتی ہے:)

39

گفت ادب ایں بود کہ خود دیدہ شد

آں دگر را خود ہمیدانی تو لد

ترجمہ: معشوقہ نے کہا تیرا ادب تو یہ تھا جو دیکھا گیا، اب وہ دوسرا (دعویٰ جو وفا و طلب کے بارے میں ہے،) تو جھگڑالو آدمی خود جانتا ہے (کہ یہ بھی کہاں تک درست ہے۔)

مطلب: معشوقہ نے عاشق کو جھگڑالو اس لحاظ سے کہا ہے کہ اس نے اپنے زیرک ہونے کا دعویٰ کیا ہے، حالانکہ عشق اور زیرکی کا کوئی تعلق نہیں، یہاں مجنون ہونا لازم ہے۔ پس یہ دعویٰ باطل محض ایک جھگڑے اور بحث کی شان رکھتا ہے۔ مولانا کی بلاغت کے قربان جائیے کہ عاشق کے دعوائے وفا و طلب کو ”آں دگر“ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ جو اس لحاظ سے نہایت پُر لطف ہے کہ گویا معشوقہ ایسے مہمل و بے ہودہ دعویٰ کو زبان سے نقل کرنا بھی گوارا نہیں کرتی۔

40

خود ادب ایں بود آں دیگر دفیں

زیں بتر باشد کہ دیدیمش یقین

ترجمہ: تیرا ادب تو یہ تھا (جو جلوہ گر ہو چکا ہے۔ اور) وہ دوسری (صفات جو) ابھی مخفی (ہیں) اس سے بھی بدتر ہوں گی۔ انکو (بھی) ہم نے (چشم) یقین سے دکھ لیا۔

41

ہر چہ زیں کوزه تراود بعد ازیں

یک نمط خواہد بُدن جملہ چنیں

ترجمہ: اسکے بعد اس کوزہ سے جو کچھ ٹپکے گا، وہ سب کا سب اسی طرح ایک ہی انداز کا ہو گا۔

مطلب: عاشق کی ایک تو گستاخی، اور بے ادبی و بے حیائی، اور اس پر بحث کا دم خم اور اپنی وفا و طلب کا اِدّعا، یہ پرلے درجہ کی ہٹ دھرمی ہے۔ اسکے ثبوت میں معشوقہ ایک صوفی کی عورت کا قصہ سناتی ہے، جس نے ایک مجرمانہ فعل کے ارتکاب کے بعد اپنی صفائی و بے گناہی پیش کرنے میں شوخی، و بے حیائی کمال کو پہنچا دی تھی۔ نہ خدا سے شرم کی کہ وہ حاضر و ناظر ہے، نہ صوفی سے حیا آئی جو قرائن سے، اور عورت کے بے بنیاد عذروں سے اسکے فعل بد کو بخوبی بھانپ چکا ہے۔