دفتر چہارم: حکایت: 4
سوال کردنِ شخصے از عیسیٰ علیہ السّلام کہ در وجود از ہمہ اصعب چیست؟
ایک شخص کا حضرت عیسی علیہ السلام سے سوال کرنا کہ موجودات میں سب سے زیادہ سخت کیا ہے؟
1
گفت عیسیٰ را یکے ہشیار سر
چیست در ہستی ز جملہ صعب تر
ترجمہ: ایک بیدار مغز آدمی نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے سوال کیا، کہ جہاں میں سب سے زیادہ سخت کونسی چیز ہے؟
2
گفتش اے جاں صعب تر خشمِ خدا
کہ ازاں دوزخ ہمی لرزد چو ما
ترجمہ: فرمایا اے عزیز! زیادہ سخت خداوند تعالٰی کا غضب ہے، جس سے دوزخ (بھی) ہماری طرح کانپتی ہے۔
3
گفت زیں خشمِ خدا چہ بود اماں؟
گفت ترکِ خشمِ خویش اندر زماں
ترجمہ: پھر پوچھا خدا کے غضب سے امن (پانے کی تدبیر) کیا ہے؟ فرمایا فوراً اپنے غصے کو روک لینا۔ (آگے مولانا فرماتے ہیں:)
4
کظمِ غَیظ ست اے پسر خطِّ اماں
خشمِ حق یاد آور و درکش عنان
ترجمہ: اے عزیز! غصے کو پی جانا امن کی دستاویز ہے۔ خدا کے غضب کو یاد کر، اور (اپنے) غصے کی باگ تھام لو۔ (آیت: ﴿وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ﴾ (آل عمران: 132) ”اور جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں سے در گزر کرتے ہیں۔“
5
پس عواں کہ معدنِ ایں خشم گشت
خشم زشتش از سبع ہم در گذشت
ترجمہ: پس سپاہی جو اس غصے کی کان بنا ہوا ہے۔ (اور) اسکا بُرا غصہ درندے سے بھی گزر گیا۔
6
چہ امیدستش برحمت جز مگر
باز گردد زاں صفت آں بے ہنر
ترجمہ: اسکو رحمت (حق) کی کیا امید ہو سکتی ہے؟ سوائے اسکے کہ وہ بے ہنر اس خصلت سے تائب ہو جائے۔ (کیونکہ توبہ کفارۂ ذنوب ہو جاتی ہے۔)
7
گرچہ عالم را ازیشاں چاره نیست
ایں سخن اندر ضلال افگند نیست
ترجمہ: اگرچہ جہان کو ان کی بڑی ضرورت ہے۔ (کہ ان سے ظاہری امن قائم رہتا ہے، مگر) یہ بات انکو گمراہ کرنے والی ہے (کہ وہ اپنا وجود اہم سمجھ کر اور مست غرور ہو جاتے ہیں۔)
مطلب: برقندازوں اور سپاہیوں کے وجود سے بے شک امنِ عالم قائم رہتا ہے۔ اگر یہ محکمہ نہ ہو، تو مفسدین سر اٹھا کر ملک میں ایک طوفانِ فساد برپا کر دیں، لیکن جب اس محکمے کے چھوٹے بڑے ملازموں کے جزوی کارناموں پر نظر کی جائے، اور امنِ عام کے پردے میں اشخاصِ خاص کے ساتھ انکا سلوک دیکھا جائے تو ایک رحم دل آدمی کا کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے، اور اسکے آگے اس محکمہ کی ساری برکات ہیچ معلوم ہوتی ہیں۔ پھر بھی اکثر لوگ کہا کرتے ہیں کہ اہلِ محکمہ کو ایسا طرزِ عمل مجبوراً اختیار کرنا پڑتا ہے ورنہ وہ اپنے فرض کی ادائیگی سے قاصر رہیں گے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ ان باتوں سے یہ لوگ اور بھی سختی پر دلیر ہو جاتے ہیں۔ آگے فرماتے ہیں اگر ان لوگوں کا وجود از حد ضروری ہے، تو یہ لازم نہیں کہ ہر ضروری چیز قابلِ ستائش بھی ہو:
8
چاره نبود ہم جہاں را از چمیں
لیک نبود آں چمیں ماءِ معین
ترجمہ: جہان کو پیشاب سے بھی تو چارہ نہیں۔ لیکن وہ پیشاب صاف (خالص) پانی (کا مقابل) نہیں ہو سکتا۔