دفتر 4 حکایت 3: اس واعظ کی کہانی جو وعظ کے آغاز میں ظالموں کے لئے دعائے خیر کیا کرتا تھا

دفتر چہارم : حکایت: 3

حکایتِ آں واعظ کہ در آغازِ تذکیر دعائے ظالماں کر دے

اس واعظ کی کہانی جو وعظ کے آغاز میں ظالموں کے لئے دعائے خیر کیا کرتا تھا

1

آں یکے واعظ چو بر تخت آمدے

قاطعانِ راه را داعی شدے

ترجمہ: ایک واعظ (کی عادت تھی کہ) جب منبر پر چڑھتا، تو پہلے ڈاکوؤں کو دعا دیتا۔

2

دست بر میداشت یا رب رحم راں

بر بداں و مفسداں و طاغیاں

ترجمہ: (دعا کے لئے) ہاتھ اٹھاتا (اور کہتا کہ) اے پروردگار! بُروں، مفسدوں اور سرکشوں پر رحم کر۔

3

بر ہمہ تسخر كنانِ اہلِ خیر

بر ہمہ کافر دلانِ اہلِ دیر

ترجمہ: تمام نیک لوگوں کا مزاق اڑانے والوں پر (اور) سارے کافروں، بت خانے والوں پر (بھی رحم کر۔)

4

مے نکردے او دعا بر اصفیا

مے نکردے جز خبیثاں را دُعا

ترجمہ: وہ برگزیدہ لوگوں کے حق میں دعا نہ کرتا۔ برے لوگوں کے سوا کسی کو دعا نہ دیتا۔

5

مرو را گفتند کایں معہود نیست

دعوتِ اہلِ ضلالت جُود نیست

ترجمہ: ایک مرتبہ (حاضرین نے) اس سے کہا کہ یہ (طرزِ عمل جو تم نے اختیار کر رکھا ہے) کبھی دیکھنے سننے میں نہیں آیا۔ گمراہوں کے حق میں دعا کرنا کوئی سخاوت نہیں۔ (چنانچہ کفّار کے حق میں دعائے خیر کرنا شرعاً ممنوع ہے۔)

6

گفت نیکوئی ازینہا دیدہ ام

من دعا شاں زیں سبب بگزیده ام

ترجمہ: اس نے کہا میں نے ان (فاسقوں، کافروں) سے نیک سلوک دیکھا ہے۔ اس لئے انکو دعائے خیر سے یاد کرنا اختیار کر رکھا ہے۔ (ان لوگوں کی نیکی کیا تھی؟ اب اسکا ذکر آتا ہے:)

7

خبث و ظلم و جور چنداں ساختند

کہ مرا از شربخیر انداختند

ترجمہ: ان لوگوں نے (میرے ساتھ) اس قدر بدی اور ظلم و ستم کیا۔ کہ مجھ کو بدی سے نیکی میں ڈال دیا۔

8

ہر دمے کہ رو بدنیا کردمے

من ز ایشاں زخم و ضربت خوردمے

ترجمہ: جب بھی میں دنیا کی طرف رخ کرتا، تو ان سے زخم اور چوٹ کھاتا (کیونکہ وہ مجھے اپنا حریف اور رقیب سمجھتے تھے۔)

9

کردمے از زخم آں جانب پناہ

باز آوردندمے گرگاں براہ

ترجمہ: زخم (کھانے) سے میں (حضرت حق کی) طرف پناہ لے جاتا۔ (اگر پہلے اس بارگاہ سے غافل ہوتا تو یہ) بھیڑئیے مجھے راہ (ہدایت) پر ڈال دیتے (جسطرح بھیڑیا بکری کو بھگا کر ریوڑ میں پہنچا دیتا ہے۔)

10

چوں سبب سازِ صلاحِ من شدند

پس دعا شاں بر من ست اے ہوشمند

ترجمہ: چونکہ وہ میری اصلاح کا سبب پیدا کرنے والے ہیں۔ اس لئے اے عقلمند! ان کے لئے دعا کرنا میرے ذمہ ہے۔

مطلب: جیسے کہ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے بوستان میں ایک حکایت لکھی ہے کہ کسی رئیس کا ایک غلام نہایت سرکش، بد خو اور بد اطوار تھا۔ رئیس کے ایک دوست نے کہا، اس غلام کو فروخت کر کے کوئی اچھا غلام کیوں نہیں خرید لیتے؟ آقا نے کہا یہ غلام مجھے بہت پسند ہے۔ اسکی بدولت میری تمام عادات درست ہو گئیں۔ (انتہٰی) اس واعظ کا اصل قصہ منہج القویٰ میں یوں لکھا ہے کہ وہ ایک سوداگر تھا۔ ڈاکو اسکا تمام مال لوٹ کر لے گئے۔ وہ رونے اور افسوس کرنے لگا تو ہاتفِ غیب نے آواز دی عَجِبْتُ لِمَنْ یَّحْزَنُ عَلٰی مَالِهٖ وَ لَا یَحْزَنُ عَلٰی ذَھَابِ عُمْرِہٖ یعنی مجھے اس شخص پر تعجب آتا ہے، جو مال کے ضائع ہونے پر افسوس کرتا ہے، اور اپنی عمر کے ضائع ہونے پر افسوس نہیں کرتا“۔ اتنا سننا تھا کہ اسکو عبرت ہو گئی اور وہ حق تعالٰی کی طرف متوجہ ہو گیا۔ (انتہٰی) آگے مولانا کا مقولہ شروع ہوتا ہے، جس کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ درد و رنج کو اس لئے کفارۂ ذنوب مانا گیا کہ وہ یادِ حق کا موجب ہے، اور اس سے لازم آتا ہے کہ اس میں غیرِ حق کے پاس شکوہ نہ لے جانا چاہیے، جو شکایتِ حق کا موجب ہے۔ جب غیرِ حق کے پاس شکوہ لے گیا، صبر نہ کیا اور خدا کی یاد میں مشغول نہ ہوا تو ایسا رنج وبال ہے۔ اور اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا ہے: لَا تَسُبُّوا الحُمّٰی۔۔۔الخ یعنی بخار کو گالی نہ دو۔ (صحيح ابن حبان, الرقم: 2938)

11

بنده مے نالد بحق از درد و نیش

صد شکایت می کند از رنجِ نیش

ترجمہ: بندہ حق تعالٰی کی درگاہ میں اپنے درد و زخم کی فریاد کرتا ہے۔ (اور) زخم کے دکھ کی سینکڑوں شکایات کرتا ہے۔

12

حق ہمی گوید کہ آخر رنج و درد

مر ترا لابہ کنار و راست کرد

ترجمہ: حق تعالٰی فرماتا ہے کہ آخر (اس) رنج و درد نے، تجھ کو تضرّع کرنے والا اور راست رو بنا دیا۔ (اس لئے اسکو اچھا سمجھنا چاہیے جیسا کہ حدیث میں ہے: مَا يُصِيْبُ المُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ، وَلَا وَصَبٍ، وَلَا هَمٍّ، وَلَا حُزْنٍ، وَلَا أَذًى، وَلَا غَمٍّ، حَتَّى الشَّوْكَةَ يُشَاكُهَا، إلَّا كَفَّرَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ (صحيح البخاری: 5641) یعنی مسلمان کو جب کوئی دکھ، تکان، ہم، پریشانی، مرض، اور غم عارض ہوتا ہے تو اس سے اللہ اسکے گناہ معاف کر دیتا ہے۔“)

13

ایں گلہ زاں نعمتے کن کت زند

از درِ ما دور و مطرودت کند

ترجمہ: یہ شکایت اس نعمت کی کر جو تجھ کو ہماری بارگاہ سے دور لے جائے۔ اور تجھے مردود کر دے (جیسے کہ اممِ سابقہ، وفورِ اموال سے مغرور و سرکش ہو کر ہلاک ہوئیں۔)

14

در حقیقت ہر عدو داروے تست

کیمیائے نافع و دل جوئے تست

ترجمہ: در حقیقت ہر دشمن تمہارے (تمام اخلاقی و روحانی امراض کے علاج کے) لئے دوا ہے۔ بلکہ وہ (تمہارے لئے) مفید کیمیا اور تمہاری دلجوئی کرنے والا ہے۔

15

کہ ازو اندر گریزی در خلا

اِستعانت جوئی از فضلِ خدا

ترجمہ: کیونکہ تو اسکی وجہ سے خلوت میں جاتا۔ اور خدا (تعالٰی) کے فضل سے مدد مانگتا ہے۔ (پس دشمن تمہارے رجوع بحق ہونے کا محرّک ہوا۔ اس لئے وہ تمہارے لئے مفید ہے۔)

16

در حقیقت دوستانت دشمنند

کہ ز حضرت دور و مشغولت کنند

ترجمہ: در حقیقت تیرے دوست دشمن ہیں، جو بارگاہِ حق میں تجھے دور اور غیر متوجہ کر دیتے ہیں۔ (آگے بلیات و مصائب کے فوائد بیان کرتے ہیں:)

17

ہست حیوانیکہ نامش اسفرست

کو بزخمِ چوب زفت و لمترست

ترجمہ: ایک ایسا جانور ہوتا ہے جس کو ساہی کہتے ہیں۔ کہ وہ لکڑی کی چوٹ سے اور بھی موٹا اور قوی (ہو جاتا) ہے۔

مطلب: اسفر بسین مہملہ ایک جانور ہے، جس کے بدن پر بڑے بڑے خار ہوتے ہیں۔ عربی میں اسکو قنفذ، اور ہندی میں ساہی یا سیہ کہتے ہیں۔ لطائف میں اسکو مطلق خار پشت لکھا ہے یہ ٹھیک نہیں۔ کیونکہ خار پشت اس خار دار جانور کے لئے بھی بولا جاتا ہے، جو چوہے کے برابر ہوتا ہے، اور خطرہ کے وقت گیند کی طرح گول مول ہو جاتا ہے، وہ یہاں مراد نہیں۔ اور نہ وہ لاٹھی کی چوٹ سے جانبر ہو سکتا ہے، بلکہ یہاں ساہی مراد ہے، جسکی نسبت فی الواقع مشہور و مشاہدہ ہے کہ وہ لاٹھی کی چوٹ سے مرتا نہیں بلکہ اور بھی کانٹے پھیلا کر چوڑا ہو جاتا ہے۔

18

تاکہ چوبش مے زنی بہ می شود

او ز زخمِ چوب فربہ می شود

ترجمہ: تم اسکے جتنی لکڑیاں مارو اچھی حالت میں رہتا ہے۔ (بلکہ) وہ لاٹھی کی چوٹ سے موٹا ہو جاتا ہے۔

19

نفسِ مومن اسفرے آمد یقین

کو بزخمِ چوب زفت ست و سیمیں

ترجمہ: مومن کا نفس، یقیناً ساہی (کی مثل) ہے۔ جو چوٹ (ظلم) کی ضرب سے موٹا ہو جاتا ہے۔

مطلب: وہ ہمت نہیں ہارتا بلکہ اسکی ہمت بلند ہوتی ہے۔ اسکی روحانیت ترقّی کرتی ہے۔ اسکے اندر رجوع الی اللہ کے انوار درخشاں ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ایک محترمِ خاص جو ایک رئیسِ اعظم اور رکنِ ریاست ہیں، ایک مرتبہ نا کردہ گناہ میں پا بہ زنجیر ہو گئے، اور غیر محدود مدت کے لئے زندان میں ڈال دیئے گئے۔ بامِ رفعت کے بالا نشین کے لئے ذلّت کی کال کوٹھڑی کا سامنا ایک غضب تھا۔ علاقہ بھر میں سنسنی پھیل رہی تھی۔خیر یہ تو ابتلائے غیب کی ایک ناگہانی آندھی تھی، جو آخر جلدی گزر گئی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اثنائے قید میں، جب ہم جیلر کی زبان سے باہر کی سیاسی قیل و قال میں اپنی رستگاری کے اشارات پاتے تو دل میں امید کی روشنی نمودار ہو جا تی، مگر اگلے ہی روز جب سنتے کہ وہ باتیں محض غلط افواہ تھیں تو دل پھر نا امیدی کے گرداب میں ڈوب جاتا، مگر اس وقت رجوع الی اللہ کی وہ پُر لطف کیفیّات دل پر طاری ہوتیں، جس پر لاکھوں مسرّتیں نثار ہیں، اور جس کو ہم لفظوں میں ادا نہیں کر سکتے۔ (انتہٰی)

20

زیں سبب بر انبیاءؑ رنج و شکست

از ہمہ خلقِ جہاں افزوں تر است

ترجمہ: اسی لئے تو انبیاء علیہ السّلام پر دکھ اور شکستہ حالی۔ تمام مخلوقِ عالم سے زیادہ (نازل ہوتی) ہے۔

مطلب: چنانچہ وارد ہوا ہے: عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ: اَلْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ (الترمذي: 2398) حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم! لوگوں میں سب سے سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: انبیاءِ کرام علیہم الصّلاۃ والسّلام کی، پھر درجہ بدرجہ جو اُن سے زیادہ قریب ہوتاہے۔“

21

تا ز جانہا جانِ شاں شد زفت تر

کہ ندیدند آں بلا قومے دگر

ترجمہ: حتّٰی کہ انکی روح تمام ارواح سے زیادہ قوی ہو گئی، کہ وہ بلا اور کسی قوم نے نہیں دیکھی۔ (اس لئے اسکے نتائج و ثمرات بھی انبیاء علیہم السّلام کے سوا اور کسی کا حصہ نہیں۔ آگے اسکی مثال پیش فرماتے ہیں:)

22

پوست از دار و بلا کش مے شود

چوں ادیم طائفی خوش مے شود

ترجمہ : چمڑا (دباغت کے) مسالوں سے (رگڑ اور مالش) کی تکلیفیں سہتا ہے۔ تو طائف کے رنگے ہوئے چمڑے کی طرح خوشبودار بھی تو ہو جاتا ہے۔ (یہی مثالی تکالیف ریاضت سہنے والے کی ہے۔)

23

ور نہ تلخ و تیز مالیدی درو

گنده گشتے ناخوش او ناپاک بُو

ترجمہ: اور اگر تم اس میں کڑوے اور تیز (مسالے) نہ ملتے۔ تو وہ گندا، اور بد نما، اور بد بودار ہو جاتا ہے۔

24

آدمی را نیز چوں آں پوست داں

از رطوبتہا شده زشت و گراں

ترجمہ: آدمی کو بھی اس (بے رنگے) چمڑے کی مثل سمجھو۔ جو (اخلاقِ ذمیمہ کی) رطوبت سے بد صورت اور ثقیل ہو جاتا ہے۔ (جس طرح چمڑا جسمانی رطوبت سے سڑ جاتا ہے۔)

25

تلخ و تیز و مالشِ بسیار دہ

تا شود پاک و لطیف و با مزه

ترجمہ: (اپنے وجود کے ساتھ) بہت سے تلخ و تیز (برتاؤ) اور ریاضت کا سلوک کرو۔ تاکہ وہ پاک و صاف اور خوش حال ہو جائے۔

26

ور نمی تانی رضا دہ اے عیّار

کہ خدا رنجت دہد بے اختیار

ترجمہ: اور اگر تم (ان اختیاری ریاضات کی) طاقت نہیں رکھتے تو اے با تمیز! تم (اضطراری ریاضات کے لئے مستعد رہو یعنی اس بات پر راضی رہو کہ) خدا تم کو بلا اختیار تکلیف پہنچائے۔ (چنانچہ وارد ہوا: ”اَذَا اَحَبَّ اللهُ عَبْداً اِبْتَلَاهُ“ (البيهقی فی شعب الإيمان) جب اللہ تعالٰی کسی بندے کو دوست رکھتا ہے، تو اسے مبتلائے مصائب کر دیتا ہے۔“)

27

کہ بلائے دوست تطہیرِ شماست

علمِ او بالائے تدبیرِ شماست

ترجمه: کیونکہ محبوب (حقیقی) کی (بھیجی ہوئی) بَلا تمہاری (روحانی) پاکیزگی (کا سامان) ہے۔ اسکا علم تمہاری تدبیر سے بالا تر ہے۔ (ایک بزرگ اپنی بد زبان بیوی کی اذیّت کو برداشت کیا کرتے۔ لوگوں نے پوچھا، آپ اسے طلاق کیوں نہیں دیتے؟ فرمایا میں نے مدتوں ریاضت کی مگر نفس قابو میں نہ آیا۔ اس عورت کی بد سلوکی نے نفس کو درست کر دیا۔)

28

چوں صفا بیند بلا شیریں بود

خوش شود دارُو چو صحت بیں شود

ترجمہ: جب (نزولِ مصائب سے بندہ) صفائی (قلب) دیکھتا ہے، تو (وہ) مصیبت خوشگوار ہو جاتی ہے۔ (چنانچہ) جب (مریض) شفا دیکھتا ہے، تو (اسکو) علاج اچھا لگتا ہے۔

29

بُرد بیند خویش را در عینِ مات

پس بگوید اُقْتُلُوْنِیْ یَا ثِقَاتْ

ترجمہ: وہ عین شکست میں اپنی فتح دیکھتا ہے۔ پس کہتا ہے کہ اے معتبر لوگو! مجھے قتل کر ڈالو۔ (کہ یہ میرے لئے ابدی زندگی کا پیش خیمہ ہے۔)

نوٹ: یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ظلم و ستم، اور جور و تعدّی اچھی چیز ہے، جس سے مظلوم کو ترقی ملتی ہے تو گویا ظالم و ستمگر، نے اچھا کام کیا۔ پھر ان ظالموں کو برا کیوں کہا جاتا ہے؟ اب اس عقدے کو حل فرماتے ہیں:

30

ایں عواں در حقِ غیر سود شد

لیک اندر حقِ خود مردود شد

ترجمہ: یہ پولیس مین دوسرے کے حق میں تو مفید ہوا۔ (کہ اسکو مبتلائے مظلومی کر کے گناہوں سے پاک کر دیا) مگر خود اپنے حق میں مردود ٹھہرا (کہ ارتکابِ ظلم کا ہار اپنے اوپر ڈال لیا۔)

مطلب: حكمت الٰہیہ یہ ہے کہ وہ ظالموں کو انکی سرکشی کی پاداش میں، مبتلائے ارتکابِ ظلم کر کے زیادہ مجرم اور مستوجب عذاب بناتی ہے، اور وہ اپنے مقبول و محبوب بندوں کو انکے جور و تعدّی کا نشانہ بنا کر کفّارۂ سیئات، اور ترقّی درجات سے مستفید کرتی ہے۔ اس نکتہ کو ہم نے مفتاح العلوم کی دسویں جلد میں بڑی شرح و بسط سے حوالۂ قلم کیا ہے جو قابلِ دید ہے۔

31

رحمِ ربّانی ازو ببریدہ شد

کینِ شیطانی برو پیچیده شد

ترجمہ: خدا کا رحم اس (پولیس مین) سے منقطع ہو چکا ہے۔ شیطانی کینہ اس پر مسلّط ہے۔

32

کارگاہِ خشم گشت و کیں وری

کینہ داں اصلِ ضلال و کافری

ترجمہ: (کیونکہ یہ سپاہی) غضب و کینہ وری کا (مجسم) کارخانہ ہے۔ کینے کو گمراہی اور کفر کی جڑ سمجھو۔