دفتر 4 حکایت 2: اس عاشق کی حکایت کا تتمہ جو کوتوال سے (ڈر کر) باغ میں بھاگ گیا، اور (اپنی) معشوق کو اس باغ میں پایا، اور کوتوال کے حق میں دعائے خیر کرتا تھا خوشی سے (جیسا کہ ارشاد ہے) اور یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو

دفتر چہارم : حکایت: 2

تمامیِ حکایتِ آں عاشق کہ از عَسس بگریخت در باغ، و معشوق را در آں باغ یافت، و بر عَسس دُعائے خیر می کرد از شادی کہ: ﴿عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئًا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ(البقرۃ: 216)

اس عاشق کی حکایت کا تتمہ جو کوتوال سے (ڈر کر) باغ میں بھاگ گیا، اور (اپنی) معشوق کو اس باغ میں پایا، اور کوتوال کے حق میں دعائے خیر کرتا تھا خوشی سے (جیسا کہ ارشاد ہے:) اور یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو۔

1

ایں حکایت گر نشد آنجا تمام

چارمیں جلدست آرش در نظام

ترجمہ: یہ کہانی اگر وہاں (دفتر سوم میں) پوری نہ ہو سکی، تو چوتھا دفتر (شروع) ہے۔ اب اسکو ترتیب وار بیان کر دو۔

2

اندراں بودیم کاں شخص از عسس

راند اندر باغ از خوفے فرس

ترجمہ: ہم اس ذکر میں تھے کہ اس شخص نے کوتوال کے خوف سے، باغ کے اندر اپنا گھوڑا داخل کر لیا۔

3

بود اندر باغ آں صاحبِ جمال

کز غمش ایں در عنا بُد ہشت سال

ترجمہ: وہ حسینہ اسی باغ میں (موجود) تھی، جس کے غم کے باعث یہ (شخص) آٹھ سال تک تکلیف میں رہا۔

4

سایۂ او را نبود امکانِ دید

ہمچو عنقا وصفِ او را می شنید

ترجمہ: اسکے سایہ کا دیدار بھی ممکن نہ تھا۔ (یہ شخص) عنقا کی طرح اسکا وصف ہی سنا کرتا تھا۔ (یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسکو دیکھا نہیں تو پھر اس پر عاشق کیونکر ہوا؟ اور اگر صرف حسن کا حال سن کر غائبانہ عاشق ہوا تو یہاں اسکو کیونکر پہچان سکا کہ یہ وہی عورت ہے؟ اس سوال کے دفع کے لئے فرماتے ہیں:)

5

جز یکے لُقیہ کہ اوّل از قضا

بر وے افتاد و شد او را دلرُبا

ترجمہ: سوائے (اس) ایک نظر کے جو اتفاق سے اس (عورت پر پڑ گئی تھی۔) اور وہ (اس پر ایک ہی نظر سے) اسکی دلرُبا بن گئی۔

6

بعد ازاں چندانکہ میکوشید او

خود مجالش مے نداد آں تُند خو

ترجمہ: اسکے بعد وہ شخص ہر چند کوشش کرتا تھا، (کہ دوبارہ نظارہ میسر ہو) مگر وہ تند خو (عورت) اسکو موقع نہ دیتی تھی۔

7

نے بہ لابہ چاره بودش نے بمال

سیر چشم و بے طمع بود آں نہال

ترجمہ: نہ خوشامد سے ان کا کام نکلتا تھا، نہ مال سے۔ کیونکہ وہ (حسینہ جو) بوٹا (سی تھی) سیر چشم اور بے طمع (واقع ہوئی) تھی۔ (غرض اسکا یہ حال تھا کہ: ع۔ نہ بزاری، نہ بزور و نہ بزر مے آید“۔ آگے مولانا یہ بیان فرماتے ہیں کہ قدرت کس طرح انسان کو ایک چیٹک لگا کر اسے اس میں مدّت تک ناکام و حسرت زدہ رکھتی ہے:)

8

عاشق ہر پیشہ و ہر مطلبے

حق بیالود اول کارش لبے

ترجمہ: (ياد رکھو کہ) ہر فن اور ہر مراد کا عاشق (اسی طرح ابتلاء کی منزلوں سے گزرا کرتا ہے۔ چنانچہ) حق تعالٰی شروع معاملہ میں اس کے لَب کو مراد (کی لذت) سے آلودہ کر دیتا ہے۔ (اور اسے اس کی چیٹک لگا دیتا ہے۔)

9

چوں در افتادند اندر جستجو

بعد ازاں در بست و کابیں جُست اُو

ترجمہ: (پھر) جب عاشق لوگ (اس مغلوب کی) تلاش میں پڑ جاتے ہیں، تو اسکے بعد دروازہ بند کر لیتا ہے اور وہ مہر کا مطالبہ کرتا ہے۔

مطلب: کبھی بتقاضائے تقدیر، حسین کے ایک دیدار یا ایک گفتار سے انکا دل دامِ عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ پھر معشوق کے وصل و اختلاط سے وہ محروم کر دیا جاتا ہے۔ اس سے الٹا یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ اس لمحہ بھر کے نظارہ کا مہر، ترکِ صبر و آرام اور تحمّلِ شدائد و آلام کی صورت میں ادا کرے۔ منہج القوی میں لکھا ہے کہ یہ تمثیل ہے اس معاملہ کی کہ الله تعالٰی نے روزِ اَلَسْت میں بندوں کو دیدار دکھا کر اپنا شیدا بنالیا۔ پھر ان پر اپنے دیدار کا دروازہ بند کردیا، اور اپنے دربار کی باریابی کے لئے تَرْکِ مَا سِوَی اللّٰہ کی شرط لگا دی، جو بندوں کے لئے ایک سخت امتحان و ابتلاء ہے۔ اسی کو یہاں مہر سے تعبیر کیا ہے۔ اللّٰہ تعالٰی فرماتا ہے: ﴿وَ جَاہِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ(التوبہ: 41) ”اور خدا کی راہ میں اپنی جان و مال سے جہاد کرو۔“ دوسری جگہ فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ(التوبہ: 111) ”اللّٰہ تعالٰی نے مسلمانوں سے انکی جانیں اور انکے مال (اس وعدے پر) خرید لئے ہیں کہ انکے بدلے انکو جنت دے گا۔“

10

چوں در آں آسیب در جست آمدند

پیشِ پاشاں می نہد ہر روز بند

ترجمہ: جب عاشق لوگ اس (طلب و تجسّس کی) کشمکش میں تڑپنے لگتے ہیں، تو ہر روز ان کے پاؤں میں زنجیر ڈال دیتا ہے۔ (جیسے کہ عمومًا مجنون صفت عاشقوں کا حال ہوتا ہے۔)

11

ہم براں بو می تنند و میروند

ہر دمے راجی و آئس می شوند

ترجمہ: (پھر) بھی اس سراغ کے پیچھے لگے رہتے اور چلے جاتے ہیں۔ اور ہر لمحہ امیدوار اور نا امید ہوتے رہتے ہیں۔

12

ہر کسے را ہست امید برے

کہ کشادندش دراں روزے درے

ترجمہ: ہر شخص کو (اپنی محنت و مشقت کا) کچھ نہ کچھ پھل (ملنے) کی امید ہے۔ حتّٰی کہ اسکے لئے اس (مقصود) کے متعلق دروازه کھول دیا جاتا ہے۔

13

باز در بستندش و آں در پرست

بر ہماں امید آتش پا شدست

ترجمہ: پھر اس پر دروازہ بند کر لیتے ہیں۔ اور وہ دروازہ کھلنے کا منتظر اسی امید میں بے قرار (ہوتا) ہے (آگے پھر وہی قصہ چلتا ہے:)

14

چوں در آمد خوش در آں باغ آں جواں

خود فرو شد پا بگنجش ناگہاں

ترجمہ: جب وہ جوان (اس) خوشی میں (کہ کوتوال کی گرفت سے بچ گیا) اس باغ میں آیا۔ تو (گویا) خوش قسمتی سے اچانک اسکا پاؤں خزانے میں اتر گیا۔

مطلب: اِدھر لوگ تو خزانے کی تلاش میں، ویرانے کا چپہ چپہ کرید ڈالتے ہیں، پھر بھی ناکام رہتے ہیں۔ اُدھر ایک راہرو کا پاؤں کسی نرم زمین میں دھنس جاتا ہے، جو بظاہر اسکے لئے ایک مصیبت ہوتی ہے، مگر جب اسکا پاؤں اشرفیوں کی دیگ پر پہنچتا ہے تو پھر اس پُر لطف مصیبت کی قیمت معلوم ہوتی ہے۔ یہی مثال اس باغ میں پناہ لینے والے جوان کی تھی کہ:

15

مر عسس را ساختہ یزداں سبب

تا ز بیمِ او رود در باغ شب

ترجمہ: الله تعالٰی نے کوتوال کو (وصالِ محبوب کا) سبب بنا دیا۔ تاکہ اسکے خوف سے رات کے وقت وہ (عاشق) باغ میں بھاگ جائے۔ (قصّہ کی ابتدا صرف اتنی ہے کہ یہ عاشق آٹھ سال سے اپنی معشوقہ کی طلب میں مارا مارا پھرتا تھا۔ ایک شب وہ آوارہ مزاج عاشقوں کی طرح غزل خوانی و اشک افشانی کرتا جا رہا ہو گا کہ اتفاقًا سامنے سے کوتوال آ گیا، جسکا یہ کام ہے کہ ایسے آواره و بیکار لوگوں کو پکڑے، اور اپنے درّۂ تادیب سے درست کرے۔ وہ اس کوتوال کے خوف سے بھاگ کر باغ میں پناہ گیر ہوا، تو فائز بمقصود ہو گیا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:)

16

بیند آں معشوقہ را او با چراغ

طالبِ انگشتری در جوئے باغ

ترجمہ: (وہاں) وہ اس معشوقہ کو دیکھتا ہے، جو باغ کی نہر میں چراغ لیے ہوئے اپنی (گمشده) انگوٹھی کو تلاش کر رہی ہے۔

مطلب: معشوقہ نے باغ کی نہر میں ہاتھ دھوتے وقت غلطی سے انگشتری گرا دی ہو گی، جو تاریکی کی وجہ سے مل نہ سکی ہو گی۔ اس لئے چراغ سے اسکو تلاش کر رہی ہے۔ اس سے یہ اشارہ ممکن ہے کہ اس طرح سالکِ صادق اپنے محبوب حقیقی کو تلاش کرتا کرتا ناگہاں ہجر کی تاریکی میں اسکو پا لیتا ہے۔

17

پس قریں میکرد از ذوق آں نفس

با ثنائے حق دعاۓ آں عسس

ترجمہ: پس اس وقت (شوق و) ذوق سے حق تعالٰی کی حمد کے ساتھ، اس کوتوال کو دعا میں شامل کرتا ہے۔

18

کہ زیاں کردم عسس را از گریز

بیست چنداں سیم و زر بر وے بریز

ترجمہ: کہ (الہی!) میں نے بھاگ کر کوتوال کا نقصان کر دیا۔ (کہ وہ مجھ سے تاوان یا رشوت وصول کرنے سے محروم رہا۔) اب تو (اس سے) بیس گنا سونا چاندی اس (کے ہاتھ) پر ڈال دے۔

19

از عوانی مرد را آزاد کن

آنچنانکہ شادم او را شاد کن

ترجمہ: اسکو پولیس کی ملازمت سے آزاد کر دے۔ جس طرح (اب) میں خوش ہوں اسکو بھی خوشی نصیب کر۔

20

سعد دارش ایں جہان و آں جہاں

از عوانی و سگی اش وا رہاں

ترجمہ: اسکو اِس جہان میں اور اُس جہان میں خوش نصیب رکھ۔ اسکو سپاہی پن اور کتّے کی سی زندگی سے چھڑا دے۔

21

گرچہ خوے آں عوان ہست اے خدا

کہ ہمارہ خلق را خواہد بلا

ترجمہ: الہٰی اگرچہ اس ہیڈ کانسٹیبل کی یہ خصلت ہے۔ کہ ہمیشہ مخلوق کے لئے (رہزنی، سرقہ، زنا بالجبر وغیرہ جرائم کے وقوع، یا رعایا پر شاہی عتاب کے نزول کی) بَلا چاہتا ہے (تاکہ دفعِ فساد یا تعمیلِ حکم کے بہانے سے اسکو ہاتھ رنگنے کا موقع ملے۔ تاہم میں اسکے لئے دعا کرتا ہوں۔)

22

گر خبر آید کہ شہ جُرمے نہاد

بر مسلماناں شود او زفت و شاد

ترجمہ: (چنانچہ ہر ملازم پولیس کا یہ حال ہے کہ) اگر خبر آۓ کہ بادشاہ نے مسلمانوں کے لئے فلاں فعل کو جرم قرار دیا ہے۔ تو وہ پھولتا ہے اور بڑا خوش ہوتا ہے۔ (اب مسلمانوں کو ماخوذ کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔)

23

ور خبر آید کہ شہ رحمت نمود

از مسلماناں فگند آں را بجود

ترجمہ: اور اگر (یہ) خبر آئے کہ بادشاہ نے رحم کیا۔ (اور) اس (عتاب وعذاب) کو (اپنے) کرم کی بدولت مسلمانوں سے رفع کر دیاہے۔

24

ماتمے در جانِ او افتد ازاں

گیردش قولنج ازیں غم در زمان

ترجمہ: تو اس سے اسکی جان میں سوگ برپا ہو جاتا ہے، اور اسی وقت اس غم سے اسکی آنتوں میں گرہ پڑ جاتی ہے۔ (کہ اب کمانے کھانے کا یہ نیا موقع فوت ہو گیا۔)

25

صد چنیں ادبارہا دارد عواں

زیں بلا فریاد رس اے مُسْتَعَانْ

ترجمہ :(غرض) پولیس میں اس قسم کی سینکڑوں خرابیاں ہیں۔ اے مُسْتَعَانْ! (اے خدا! جس سے مدد مانگی جاتی ہے) اس بلا سے (ہماری) فریاد سن لے۔

26

او عواں را در دعا در میکشید

کز عواں او را چناں راحت رسید

ترجمہ:(القصہ) وه (عاشق) کوتوال کو اپنی دعا میں شامل کر رہا تھا۔ کیونکہ کوتوال سے اسکو ایسی (گراں مایہ) خوشی حاصل ہوئی۔

27

بر ہمہ زہر و بر او تریاق بود

آں عواں پیوندِ آں مشتاق بود

ترجمہ: وہ کوتوال (اپنے تشدّد کی وجہ سے) سب کے لئے زہر تھا اور (اس وقت) اس کے حق میں تریاق تھا۔ (بلکہ معشوق کے ساتھ) اس عاشق کا وصل اسی کے ذریعے سے ہوا تھا۔ (آگے مولانا عوان کی اس متضاد کیفیت سے ایک حکیمانہ نکتہ اخذ کرتے ہیں:)

28

بس بدِ مطلق نباشد در جہاں

بد بہ نسبت باشد ایں را ہم بداں

ترجمہ: پس کوئی (شخص) دنیا میں ہر پہلو سے برا نہیں ہوتا۔ (بلکہ کسی خاص) نسبت سے برا ہو سکتا ہے۔ اس (نکتہ) کو بھی (اچھی طرح) سمجھ لو۔

29

در زمانہ ہیچ زہر و قند نیست

کاں یکے را پا دگر را بند نیست

ترجمہ: زمانہ میں کوئی زہر اور شکّر نہیں ہے۔ جو ایک کے لئے پاؤں (یعنی ذریعہ رفتار) دوسرے کے لئے قید (مانع رفتار ثابت) نہیں ہوتا۔

مطلب: یعنی زہر کسی کے لئے مفید، اور کسی کے لئے مضر ہے۔ اسی طرح شکّر کسی کے لئے مفید اور کسی کے لئے مضر ہے۔

30

مر یکے را پا دگر را پائے بند

مر یکے را زہر دیگر را چُو قند

ترجمہ: (وہ قند یا زہر) ایک کو (طاقت دے کر قابل رفتار بنانے میں بمنزلہ) یار ہے۔ اور دوسرے کو (طاقت سلب کر کے قید کرنے میں بمنزلہ) قید (ہے۔ ان دونوں میں سے ہر ایک) کسی کے لئے زہر (کا کام کرنے والا ہے) دوسرے کے لئے مثل قند (پُر مزہ ہے۔)

مطلب: مثلاً سمّ الفار، کچلہ وغیره بمقدارِ قلیل کھانے والے کے لئے مقوّی، اور بمقدارِ کثیر کھانے والے کے لئے مہلک ہیں۔ اسی طرح قند بمقدارِ معتدل مفید، اور بمقدارِ غیر معتدل مُضر ہے۔

31

زہرِ ماراں مار را باشد حیات

نسبتش با آدمی آمد ممات

ترجمہ: سانپوں کا زہر سانپ کے لئے (مایۂ) زندگی ہے۔ اور آدمی کے ساتھ اسکی نسبت موت (کی سی) ہے۔

32

خلقِ آبی را بود دریا چہ باغ

خلقِ خاکی را بود آں درد و داغ

ترجمہ: پانی کی مخلوق کے لئے دریا، باغ جیسا ہے۔ خشکی کی مخلوق کے لئے، وہ (غريقانہ موت کا) درد و داغ ہے۔

33

ہمچنیں بر مے شمر اے مرد کار

نسبتِ ایں از یکے تا صد ہزار

ترجمہ: اے کام کے آدمی! اسی طرح اس کی نسبت ایک سے لے کر لاکھ تک گن جاؤ۔

مطلب: ہر مفید و مضر چیز کو اپنے فائدہ و ضرر کے لحاظ سے جو نسبت دوسری اشیاء کے ساتھ ہوتی ہے، وہ بھی سب کے ساتھ یکساں نہیں ہوتی، بلکہ وہ شدّت و ضُعف کے لحاظ سے متفاوت ہوتی ہے، جس سے ظاہر ہے کہ کسی چیز میں مفید و مضر ہونے کی صرف دو ہی کیفیتیں نہیں ہیں، بلکہ ان میں سے ہر کیفیت کے ہزاروں لاکھوں مختلف مدارج ہیں۔ مثلاً ایک حار و یابس چیز اگر مضر ہے تو اسکے ضرر کے بہت سے مدارج ہیں۔ چنانچہ ایک کو وہ غیر محسوس ضرر دیتی ہے۔ دوسرے کی صرف پیاس بڑھاتی ہے۔ تیسرے کے خون میں حرارت پیدا کرتی ہے۔ چوتھے کے لئے یہ دموی حرارت باعثِ حمیٰ ہو جاتی ہے۔ پانچویں کے جگر میں ازدیادِ حرارت سے کبدی امراض پیدا ہو جاتے ہیں۔ آٹھواں شدّتِ حرارت سے مرنے کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ وہٰکذا۔

34

زید اندر حق آں شیطاں بود

در حقِ آں دیگرے انساں بود

ترجمہ: زید اس (ایک شخص) کے حق میں شیطان (کی طرح دشمن ایذا رساں) ہوتا ہے۔ (اور) اس دوسرے کے حق میں (مفید) انسان ہوتا ہے۔

35

ایں بگوید زید صدیق و سنی است

و آں بگوید زید گبر و کشتنی ست

ترجمہ: یہ کہتا ہے کہ زید دوست اور نیک آدمی ہے۔ اور وہ کہتا ہے یہ کافر اور واجبُ القتل ہے۔

36

زید یک ذات ست بر آں یک جناں

و او بریں دیگر ہمہ رنج و زیاں

ترجمہ: (دیکھو) زید ایک ہی ذات ہے، (مگر) اس ایک کے لئے وہ بہشت ہے، اور وہ اس دوسرے کے لئے سراسر رنج و نقصان ہے۔

مطلب: مولانا نے ان اشعار میں فطرتِ انسانی کا ایک عجیب لطیفہ بیان فرمایا ہے۔ عمومًا ہر شخص کا یہ حال ہے کہ وہ کسی کے نزدیک ممدوح، اور کسی کے نزدیک مذموم ہے۔ کوئی اس کا جانثار ہے، اور کوئی اسکے خون کا پیاسا ہے۔ کوئی اسکو بہتر انسان ٹھہراتا ہے، اور کوئی اسکو بدترینِ خلق قرار دیتا ہے۔ اور اسکی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص کا برتاؤ طبعاً فطرتاً مخلتف اشخاص کے ساتھ مختلف طریق پر واقع ہوتا ہے، جو اسکے اختیار سے باہر ہے۔ اور اس تفاوتِ سلوک میں قدرتِ ربّانی و حکمتِ یزدانی کے بعض خاص اسرار مضمر ہیں۔ پس اسی تفاوتِ سلوک کی بنا پر، لوگوں کی رائیں اسکے بارے میں مختلف ہوتی ہیں، ورنہ معتقدین کی مدح سے بالکلّیہ قابلِ مدح، اور مخالفین کی مذمت سے مطلقًا مستوجب مذمت نہیں ہوتا۔ آگے مولانا رحمۃ اللہ علیہ یہ بیان فرماتے ہیں کسی کو نیک و بد دیکھنے والے کے ذاتی خيالات و جذبات کا بھی خاص دخل ہوتا ہے۔ اگر اپنے دل میں اسکی طلب ہو تو بفحوائے: حُبُّکَ الشَّیْئَ یُعْمِیْ وَ یُصِمُّ(سنن ابی داؤد: الرقم: 5130) اسکے عیوب پر نظر نہیں پڑتی۔ دیکھنے والے کی عاشقانہ نظر میں ہر چیز محمود و مستحسن دکھائی دینے لگتی ہے۔

37

گر تو خواہی کو ترا باشد شکر

پس ورا از چشمِ عشاقش نگر

ترجمہ: اگر تم چاہو کہ وہ تم کو شکر کی طرح (شیریں و خوشگوار معلوم) ہو۔ تو اسکو اس کے عاشقوں کی آنکھ سے دیکھو۔ (ایسی نظر حاصل ہو جائے، تو پھر دنیا میں کسی سے گلہ نہ رہے۔)

38

منگر از چشمِ خودت آں خوب را

بیں بچشمِ طالبان مطلوب را

ترجمہ: اس محبوب کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ۔ (بلکہ) مطلوب کو طالبوں کی آنکھ سے دیکھ۔

39

چشمِ خود بر بند زاں خوش چشم تو

عاریت کن چشم از عشّاقِ او

ترجمہ: اس خوبصورت آنکھ والے (محبوب) کی طرف اپنی آنکھ بند کر لو۔ اور اسکے عاشقوں سے آنکھ مستعار لے لو۔

مطلب: ہر مُضر و موذی چیز بھی کسی نہ کسی اسم باری کی مظہر ہے، اور اسکے ضرر و ایذا کی صفت بھی صفاتِ باری میں سے کسی صفت کا پَرتو ہے۔ اس لئے اہل الله جو حق تعالٰی کے عاشقِ جانباز ہیں، ہر چیز کے ضرر و ایذا پر بھی خوش ہوتے ہے، اور اسکو حق تعالٰی کے ذکر میں معاون سمجھتے ہیں۔ پس ان اہل اللّٰہ کی نظر سے دنیا کی کائنات کو دیکھو تو تم کو سب سے محبت ہو جائے گی، کسی سے بغض نہ رہے گا۔

40

بلکہ زو کن عاریت چشم و نظر

پس ز چشمِ او بروے او نگر

ترجمہ: بلکہ (خود) اسی (محبوب) سے آنکھ اور نظر مستعار لے لو۔ (اور تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ کے مصداق بن جاؤ۔ پھر ) اسی کی آنکھ سے اسکے چہرے پر نظر کرو۔

کما قیل ؎

نورِ چشمِ ماه غیر از پرتوِ خورشید نیست

ما بچشمِ دوست مے بینم روئے دوست را

41

تا شوی ایمن ز سیری و ملال

گفت کَانَ اللّٰہُ لَہٗ زاں ذُوالْجَلَالْ

ترجمہ: تاکہ تم (مخلوق کی طرف سے) نفرت، اور انقباض (عارض ہونے سے) بے خطر ہو جاؤ۔ اسی لئے حق تعالٰی نے فرمایا ہے: مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ(یعنی جو اللّٰہ کا ہو جائے، اللّٰہ اسکا ہو جاتا ہے۔)

42

چشمِ او من باشم و دست و دلش

تا رهد از مد بریہا مقبلش

ترجمہ: (حق تعالٰی نے فرمایا ہے کہ) میں اسکی آنکھ بن جاتا ہوں اور اسکا ہاتھ اور اسکا دل۔ تاکہ اسکا با اقبال (نصیب) بدبختوں سے چھوٹ جائے۔

مطلب: یہ ایک حدیثِ قدسی کا مضمون ہے، جس میں یہ الفاظ واقع ہوئے ہیں: فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ، وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ۔۔۔ الخ(بخاری ومسلم) یعنی الله تعالٰی فرماتا ہے کہ جب میں اپنے بندے سے محبت کرتا ہوں، تو اسکی شنوائی بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اسکی بینائی بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اِلٰی آخِرِہٖ۔ اس حدیث سے قربِ فرائض اور قربِ نوافل کا مضمون اخذ کیا گیا ہے۔ جسکی تفصیل و تشریح بتمامہٖ (مفتاح العلوم کی جلد اول میں درج ہو چکی ہے۔)

43

ہر چہ مکروه است چوں او شد دلیل

پیشِ محبوبت حبیب است و خلیل

ترجمہ: پس جو چیز ناپسند ہے، جب وہ تمہارے محبوب کی طرف رہنما ہو جائے تو وہ (بھی) محبوب اور دوست ہے۔ (اسی طرح کوتوال گو اس عاشق کا دشمن تھا، مگر وہ وصلِ محبوب کا باعث ہونے کے سب سے عاشق کی نظر میں محبوب بن گیا۔ آگے اس کی تائید میں ایک حکایت ارشاد ہے:)