دفتر 4 حکایت 1:  اے (حضرت) ضیاءُ الحق حسّامُ الدّین! تم ہی ہو۔ جن (کے نورِ فیضان) سے مثنوی چاند پر سبقت لے گئی

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم

دفتر چہارم : حکایت: 1

1

اے ضیاء الحق حُسّام الدّین توئی

کہ گزشت از مہ بنورت مثنوی

ترجمہ: اے (حضرت) ضیاءُ الحق حسّامُ الدّین! تم ہی ہو۔ جن (کے نورِ فیضان) سے مثنوی چاند پر سبقت لے گئی۔

مطلب: پچھلے دفتروں میں کئی جگہ بیان ہو چکا ہے کہ مولانا حُسّام الدّین چلپی مولانا روم قُدِّسَ سِرُّہٗ کے ایک خلیفۂ اعظم ہیں۔ وہی مثنوی شریف کی تحریر کے محرّک و متقاضی تھے، اور اسکی تکمیل میں سب سے زیاده انہی کا ہاتھ رہا۔ چنانچہ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ برجستہ و فی البدیہہ اشعار کہتے جاتے تھے اور مولانا حسّام الدّین رحمۃ اللہ علیہ لکھتے جاتے تھے، چونکہ مولانا روم قُدِّسَ سِرُّہٗ کے انوارِ معارف کا آئینۂ خاص مولانا حسّام الدّین رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جن پر وہ معارف منعکس ہو کر دوسرے شائقین تک پہنچے ہیں۔ اس لئے تقریباً ہر دفتر کا آغاز انہی کے نام سے فرمایا ہے۔ مثنوی کی فوقیت چاند پر اس لحاظ سے ہے کہ چاند کی روشنی اجسام پر پڑتی ہے، اور مثنوی کے پَرتو سے ارواح مستفید ہوتی ہیں۔

2

ہمت عالیِ تو اے مُرتجیٰ

می کشد ایں را خدا داند کجا

ترجمہ: (اے امیدواروں کی) امید گاه! خدا ہی کو معلوم ہے کہ تیری بلند ہمت، اس (مثنوی کے سلسلے) کو کہاں تک (طول دیتی ہوئی) لے جائے گی۔

3

گردنِ ایں مثنوی را بستۂ

میکشی آں سو کہ تو دانستۂ

ترجمہ: اس مثنوی کی گردن کو تو نے باندھ لیا ہے۔ (اور) اس کو جدھر تجھے معلوم ہے، کھینچے لئے جاتا ہے۔

4

مثنوی پویاں کشنده ناپدید

ناپدید از جاہلے کش نیست دید

ترجمہ: مثنوی دوڑی جاتی ہے (اور) اس کو کھینچنے والا غیر ظاہر ہے۔ (مگر) اُس نادان (کی نظر) کے لئے غیر ظاہر ہے، جس میں بصیرت نہیں۔

مطلب: اوپر مثنوی کے سلسلے کو طوالت دینے اور اس تحریک کو جاری رکھنے والے مولانا حسّام الدّین رحمۃ اللہ علیہ کو قرار دیا تھا، جن کا محرّک ہونا ظاہر ہے۔ مگر یہاں کہا ہے کہ وہ محرّک غیر ظاہر ہے۔ پس اس سے مراد غالباً حق تعالٰی ہے، کیونکہ مولانا حسّام الدّین رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک اور خود مولانا کی تصنیف بھی، بالقائے حق ہے۔ اور فی الواقع اس سلسلے کا حقیقی محرّک و مؤیّد وہی حق تعالٰی ہے جو نظرِ ظاہر سے مخفی ہے۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ظاہر بین مثنوی کو مولانا روم قُدِّسَ سِرُّہٗ کا نتیجۂ فکر سمجھے گا، حالانکہ اس کے باعث اور محرّک در اصل مولانا حسّام الدّین رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جن کا لوگوں کو خیال بھی نہ ہو گا۔ اور یہ بات اسی شخص کی نظر سے مخفی رہے گی جو بے بصیرت ہے۔

5

مثنوی را چوں تو مبدا بودۂ

گر فزوں گردد تواش افزودۂ

ترجمہ: جبکہ مثنوی کی ابتدا تم سے ہوئی ہے۔ (پس) اگر وہ زیادہ ہو جائے تو تم نے اس کو زیادتی بخشی ہے۔

6

تو چنیں خواہی خدا خواہد چنیں

می دہد حق آرزوئے متّقیں

ترجمہ: تم جیسا چاہتے ہو، تو خدا بھی وہی چاہتا ہے۔ حق تعالٰی پرہیز گاروں کی آرزو پوری کرتا ہے۔

7

کَانَ لِلہِ بودۂ در مَا مَضٰی

تا کہ کَانَ اللّٰهُ لَہٗ آمد جزا

ترجمہ: چنانچہ تم عہدِ ماضی میں اللہ کے ہو چکے، تو اس کی یہ جزا ٹھہری کہ اللہ تمہارا ہو گیا۔ (”مَنْ كَانَ لِلهِ كَانَ اللهُ لَہٗ“ یعنی ”جو شخص اللہ کا ہو جائے، اللہ اسکا ہو جاتا ہے۔ (احياء العلوم) آگے مثنوی کی کثرت وسعت کی ایک توجیہ فرماتے ہیں:)

8

مثنوی از تو ہزاراں شکر داشت

در دعا و شكر کفہا بر فراشت

ترجمہ: مثنوی تمہارا ہزارہا بار شکریہ ادا کرتی تھی۔ (اور) دعا و شکر کے لئے ہاتھ اٹھاتی تھی۔

9

در لب و گفتش خدا شکرِ تو ديد

فضل کرد و لطف فرمود و مزید

ترجمہ: اس کے لب اور گفتار میں، اللہ تعالٰی نے تمہارا شکریہ دیکھا۔ تو اس نے فضل کیا، مہربانی فرمائی اور زیادتی (بخشی۔ بفحوائے: ﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ(ابراہیم:7))

10

زانکہ شاکر را زیادت وعده است

آں چنانکہ قرب مُزدِ سجدها است

ترجمہ: کیونکہ شاکر کے لئے (بفحوائے آیتِ بالا) زیادتی کا وعده آیا ہے۔ جیسے کہ سجدوں کی جزا قُرب ہے۔

11

گفت وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ یزدانِ ما

قربِ جان شد سجدۂ ابدانِ ما

ترجمہ: (چنانچہ) ہمارے خداوند تعالٰی نے (سورۂ علق میں) فرمایا ہے: ﴿وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ(سجده کرو اور قرب حاصل کرو) پس ہمارے جسموں کا سجده روح کے قُرب کا باعث بن گیا۔ (اسی طرح تحریرِ مثنوی میں تمہاری جسمانی محنت کا پھل، روحانی نورانیت ہے۔ جس سے یہ سلسلۂ تحریر ”نُوْرٌ عَلٰی نُوْر“ ہوتا چلا جا رہا ہے۔)

12

گر زیادت می شود زیں رو بود

نز برائے بوش و ہائے و ہُو بود

ترجمہ: (پس) اگر مثنوی کے اشعار میں کثرت (و وسعت ہو رہی) ہے۔ تو یہ اس وجہ سے ہے کہ (تم اس کے خواہاں ہو، نہ کہ (اسکے شعری) کرّ و فرّ اور (سخن دانوں کے حلقوں میں اسکے چرچے کی وجہ سے۔)

13

با تو ما چوں رَزبتابستاں خوشیم

حکم براری ہیں بکش ما می کشیم

ترجمہ: ہم تمہارے ساتھ اس طرح خوش ہیں، جیسے انگوروں کی بیل موسم ربیع میں (خوش ہوتی ہے۔ جس طرح اس وقت وہ بیل نشو و نما پاتی ہے، اسی طرح) تم حکم دیتے ہو کہ ہاں! (مثنوی کے بیان کو) کھینچو، تو ہم (اسکو) کھینچتے چلے جاتے ہیں۔

24

خوش بکش ایں کارواں را تا بحج

اے امیرِ صبر مِفْتَاحَ الْفَرَجْ

ترجمہ: (اب) اس (تصنیف کے) قافلہ کو (حصولِ معارف کے) حج تک (صبر و استقلال کے ساتھ) بخوبی لے جاؤ۔ اے امیرِ صبر، کشائش کی کنجی۔ (آگے ظاہری حج اور اسکے معنوی حج کا فرق بتاتے ہیں:)

15

حج زیارت کردنِ خانہ بود

حجّ رَبُّ الْبَيْتِ مردانہ بود

ترجمہ: (ظاہری) حج (تو) خانہ کعبہ کی زیارت ہے۔ (اسکے مقابلے میں) پروردگار خانہ (كعبہ) کا حج (جس سے وصول الٰی اللہ مراد ہے بڑا) مردانہ (کام) ہے۔

16

زاں ضیاء گفتم حسّام الدّین ترا

کہ تو خورشیدی و ایں دو وصفہا

ترجمہ: اے حسّام الدّین! میں نے تم کو اس لحاظ سے ضیاء الحق کہا ہے، کہ تم سورج ہو اور یہ (ضیاء و سیف) دونوں (تمہارے) وصف ہیں۔ ( حسّامیعنی تلوار سے تاریکی کٹ جاتی ہے اور ضیاءسے روشنی پھیلتی ہے۔)

17

کایں حسّام و ایں ضیا یک است ہیں

تیغِ خورشید از ضياء باشد یقیں

ترجمہ: کیوں یہ حسّام اور ضیاء ایک ہی چیز ہیں۔ یاد رکھو! (چنانچہ) سورج کی تلوار (جو تاریکی کو کاٹ ڈالتی ہے) یقیناً ضیاء سے ہوتی ہے۔

18

نور از آنِ ماہ باشد و ایں ضياء

آنِ خورشید ایں فر و خواں از نبا

ترجمہ: نور چاند کا حصہ ہے، اور یہ ضیا سورج کے ساتھ خاص ہے۔ اسکو قرآن مجید میں پڑھ لو۔ (چنانچہ فرمایا: ﴿هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا(یونس: 5) (اور اللہ وہی ہے جس نے سورج کو سراپا روشنی بنایا، اور چاند کو سراپا نور۔)

19

شمس را قرآن ضیا خواند اے پدر!

واں قمر را نور خواند ایں را نگر

ترجمہ: اے بزرگوار! قرآن مجید نے سورج کو ضیاء قرار دیا هے۔ اور ادھر چاند کو نور کہا ہے۔ (ذرا) اس پر تو غور کرو۔

20

شمس چوں عالی تر آمد خود ز ماہ

پس ضيا از نورِ عالی داشت جاہ

ترجمہ: آفتاب چونکہ چاند سے عالی رتبہ ہے۔ پس ضیاء کا درجہ نور سے بلند ہوا (اور تم ضیاء ہو۔ اس لئے نور سے افضل ہو۔ آگے ضیاءِ شمسکے نورِ قمرسے افضل ہونے کی دلیل اور طرح سے دیتے ہیں:)

21

بس کس اندر نورِ مہ منہج ندید

چوں برآمد آفتاب آں شد پدید

ترجمہ: بہت سے لوگ چاند کی روشنی میں راستہ نہیں دیکھ سکتے۔ جب سورج چڑھتا ہے، وہ (راستہ) نمایاں ہو جاتا ہے۔ (اور لیجئے:)

22

آفتاب اعراض را کامل نمود

لَاجَرَمَ بازارہا در روز بود

ترجمہ: سورج اشیائے تجارت (کے رنگ و بو اور قطع و وضع وغیرہ) کو بخوبی دکھاتا ہے۔ اس لئے بازار دن میں لگتے ہیں۔ (یہ کیوں؟)

23

تاکہ قُلب و نقد نیک آید پدید

تا بود از غبن و از حیلہ بعيد

ترجمہ: تاکہ (مالِ تجارت میں سے ہر) کوئی کھوٹی کھری چیز صاف ظاہر ہوجائے۔ تاکہ (خریدار) دھوکا کھانے سے، اور (دکاندار) دھوکا دینے سے دور رہے۔

24

تاکہ نورش کامل آید بر زمین

تاجراں را رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ

ترجمہ: حتٰی کہ سورج کا نور بحالتِ کمال، تاجروں کے لئے جہاں میں رحمت بن کر زمین پر آتا ہے۔

مطلب: چونکہ تاجر نورِ آفتاب میں دھوکا کھانے اور دھوکا دینے سے بچ جاتے ہیں، اس لئے وہ نور ان کے لئے بمنزلۂ رحمت ہے۔ اسی طرح اے حسّام الدّین! تم بھی وہ آفتابِ معنوی ہو، جسکے انوار سے راہِ سلوک کا کھوٹا کھرا ظاہر ہوتا ہے، اور سالک لوگ اس راستے کے خطرات سے بچ سکتے ہیں۔ اس لئے تمہارا وجود بھی رحمت ہے۔ آگے ان لوگوں کا ذکر آتا ہے جو نورِ آفتاب سے مستفید ہونے کے بجائے الٹا اسکو اپنے لئے مضر سمجھتے ہیں:

25

لیک بر قُلّاب مبغوض ست سخت

زانکہ زو شد کاسِد او را نقد و رخت

ترجمہ: لیکن (سورج کی روشنی) دھوکہ باز کو سخت ناگوار ہے، کیونکہ اس سے اسکی نقدی اور اسبابِ تجارت کھوٹا ثابت ہو جاتا ہے۔ (آگے اس سے ایک اور نکتہ اخذ فرماتے ہیں:)

26

پس عدوِّ جانِ صرّاف ست قُلب

دشمنِ درویش کہ بود غیرِ کلب؟

ترجمہ: پھر (اس بات میں یہ نکتہ بھی ملحوظ ہے کہ) کھوٹا سکہ صرّاف (یعنی کھرے کھوٹے کو پرکھنے والے) کا جانی دشمن ہے۔ (کیونکہ وہ اسکے عیب کو نمایاں کر کے اسے رد کر دیتا ہے۔) اور درویش کا دشمن سوائے کتے کے اور کون ہو سکتا ہے؟

مطلب: کھوٹا سکہ اپنے کھوٹ کے لحاظ سے بمنزلۂ سگ ہے، جو اَخْبَثُ السِّبَاعْ سمجھا گیا ہے، اور جس طرح کھوٹے سکے کو صرّاف سے ناخوش ہونا چاہیے، جو اس کا عیب گیر ہے۔ اسی طرح کتّا فقراء، اور غرباء کو کاٹنے کے لئے دوڑتا ہے۔ یہ مثال اہلِ دنیا کی ہے، جو اہل اللہ کو ستانے اور دکھ دینے میں، بمنزلۂ سگِ درندہ ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

27

انبياءؑ با دشمناں بر مے تنند

پس ملائک رَبِّ سَلِّمْ می زنند

ترجمہ: انبیاء علیہم السّلام (جو لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوتے ہیں، تو گویا وہ اپنے) دشمنوں کے مقابلے میں آ رہے ہیں۔ اس لئے فرشتے رَبِّ سَلِّمْ (الٰہی ان کو سلامت رکھ کا نقّارہ) بجاتے ہیں۔

28

کایں چراغے را کہ ہست او نور دار

از پف و دمہائے دُزداں دور دار

ترجمہ: (فرشتے دعا کرتے ہیں) کہ (الٰہی) اس چراغ کو جو نورِ (ہدایت) رکھتا ہے۔ (دینِ اسلام کے) چوروں کی پھونک اور دم سے محفوظ رکھ (یعنی پیغمبروں کو کافروں کی اذیّت سے بچا۔)

29

دزد و قلّاب ست خصمِ نور و بس

زیں دو اے فریاد رس فریاد رس

ترجمہ: چور اور قلب ساز (دونوں) روشنی کے دشمن ہیں۔ اور کوئی نہیں (کہ اس سے ان کی چوری و جعلسازی کا راز ظاہر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کافر نورِ اسلام کے دشمن ہیں) اے فریاد سننے والے خدا! ان دونوں کے خلاف ہماری فریاد کو پہنچ۔ (آگے اس بیان سے مثنوی کے لئے دعا کی طرف انتقال فرماتے ہیں:)

30

روشنی بر دفترِ چارم بریز!

کافتاب از چرخِ چارم کرد خیز

ترجمہ: (الٰہی مثنوی) کے دفترِ چہارم پر انوار (معارف) ڈال دے۔ کیونکہ (جوشِ بیان کا) آفتاب چوتھے آسمان سے طلوع ہو رہا ہے۔ (سورج کا مقام چوتھے آسمان پر سمجھا گیا ہے۔)

31

ہیں ز چارم نور ده خورشید وار

تا بتابد بر بلاد و بر دیار

ترجمہ: ہاں ہاں! چوتھے (دفتر) سے آفتاب کی طرح نور عطا فرما۔ تاکہ وہ ملک اور علاقے درخشاں ہو۔

32

ہر کش افسانہ بخواند افسانہ ایست

وانکہ دیدش نقدِ خود مردانہ ایست

ترجمہ: جس شخص نے اس (دفتر کو، بلکہ ساری کتاب) کو کہانی (کی حیثیت سے) پڑھا (وہ خود) مہمل (آدمی) ہے۔ اور جس نے اسکو اپنی حالت کا فوٹو (مرقعِ عبرت) پایا، وہ جوانمرد ہے۔

33

آبِ نیل ست و بقبطی خوں نمود

قومِ موسٰیؑ را نہ خوں بود آب بود

ترجمہ: (دیکھو دریائے) نیل کا پانی (ایک ہی چیز) ہے، اور (اختلافِ اثر کا یہ عالم ہے کہ) قبطی (یعنی قومِ فرعون) کو وہ خون دکھائی دیا (جسکو وہ پی نہ سکتے تھے۔ مگر) موسٰی علیہ السّلام کی قوم کے لئے خون نہ تھا بلکہ معمولی پانی تھا (جس کو وہ لوگ پیتے، برتتے تھے۔)

34

دشمنِ ایں حرف ایں دم در نظر

شد ممثّل سرنگوں اندر سقر

ترجمہ: اس تحریر (مثنوی) کا دشمن (بھی) اس وقت ہماری نظر میں، اسی (فرعون کی) طرح سرنگوں ہو کر دوزخ میں گیا (یعنی اس کا یہی انجام ہم کو نظر آ رہا ہے۔)

35

اے ضیاء الحق تو دیدی حالِ او

حق نمودت پاسخِ افعالِ او

ترجمہ: اے ضیاء الحق! تم نے (بنظرِ کشف) اس (کے انجام) کا حال دیکھ لیا۔ حق تعالٰی نے اسکے اعمال کی جزا تمہیں دکھا دی۔

مطلب: نفحات الانس میں لکھا ہے کہ حضرت حسّام الدّین چلپیؒ نے کہا: جب مثنوی شریف مجلس میں پڑھی جاتی ہے، اور اہلِ حضور انوار میں مستغرق ہو جاتے ہیں، تو میں دیکھتا ہوں کہ ملائکہ شمشیر بکف حاضر ہوتے ہیں، اور جو لوگ مثنوی کو اخلاص و اعتقاد سے نہیں سنتے، انکے ایمان کی جڑوں کو کاٹ کر ان لوگوں کو دوزخ میں کشاں کشاں لے جاتے ہیں۔ (بحر) اس بنا پر مولانا اسکے بارے میں فرماتے ہیں:

36

دیدۂ غیبت چوں غیب ست اوستاد

كم مبادا زیں جہاں ایں دید و داد

ترجمہ: (اے حسام الدین!) تمہاری غیب کی آنکھ عالمِ غیب کی طرح ماهر (واقع ہوئی) ہے۔ (کہ وہ احوالِ عالم کو چھپانے میں یگانہ ہے، اور یہ ان کا مشاہدہ کرنے میں) یہ مشاہدہ و تصرف (خدا کرے) دنیا سے ناپید نہ ہو۔

37

آں حکایت را کہ نقدِ وقتِ ماست

گر تمامش میکنی اینجا رواست

ترجمہ: اس حکایت کو جو ہمارے وقت کا موجودہ شغل ہے، اگر یہاں پوری کر دو تو اچھا ہے۔

38

نا کساں را ترک کن بہرِ کساں

قصہ را پایاں بر و مخلص رساں

ترجمہ: نالائق لوگوں (کے حال) کو (دوسرے) لوگوں کے لئے رہنے دو۔ (وہ اس کی تخلیق کر لیں گے) تم (اس) قصہ کو خاتمہ پر پہنچاؤ اور خلاصہ پیش کرو۔